Advertisement

Adbox

PARIVISH Episode 18 ( پری وش)

                 Parivish

                 (پری وش)

# Novel by Parivish

# Writer; Aima Ashfaq

# Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel

# Please Don't Copypaste My Novel

# Episode 18:

            کچھ ہی دیر میں وہ کراچی کے سب سے بڑے شاپنگ مال میں تھے۔
ضوفیرہ ڈریسیزز دیکھ رہی تھی۔ کہ اچانک اس کی نظر ایک ڈریس پر ٹھہر سی گئی تھی۔ پرپل کلر کا لانگ فراک، جس کے کالر سے لے کر گلے تک اور دوپٹے پر وائیٹ موتیوں سے کام ہوا تھا،اور اس کے ساتھ ہی پرپل کلر کا چوڑی دار پاجامہ تھا۔ اسے یہ ڈریس بہت پسند آیا تھا۔
اگر ڈریس پسند ہے تو لے لو۔ قسم سے میں تمہیں پینٹ شرٹ میں دیکھ کر اَکتا گیا ہوں۔ یہ ڈریس بھی پہن کر دیکھو بہت پیاری لگو گی۔ عمیر اس کا مکمل جائزہ لیتے ہوئے بولا۔ وائیٹ جینز، سادہ سا بلیو کلر کا ٹاپ، اس پر چھوٹی سی بلیک لیدر کی جیکٹ اور گلے میں بلیو سکارف لپیٹے، بالوں کی ٹیل پونی بنائے۔ آنکھوں میں غصہ لیے اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔

مجھے یہ ڈریس نہیں پسند۔ ضوفیرہ بول کر وہاں سے جانے لگی تھی۔ کہ وہ فوراً اس کے راستے میں خائل ہوا۔
مجھے پتہ ہے تمہیں یہ ڈریس پسند ہے۔
مجھے یہ ڈریس نہیں پسند اور ویسے بھی تم اتنے یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہو۔ مجھے یہ ڈریس پسند ہے۔ کیونکہ میں نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ ضوفیرہ نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
ضروری بولنے سے نہیں پتہ چلتا۔ آنکھیں سب کچھ بتا دیتی ہے، اور اس وقت تمہاری آنکھیں بتا رہی ہے۔ تمہیں یہ ڈریس بہت پسند ہے۔ وہ ہونٹوں پر  مسکراہٹ لیے بولا۔
اوه تو تم اب سب کی آنکھیں بھی پڑھتے ہو۔ وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں بولی تھی۔
ہاں پڑھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔لیکن سب کی نہیں۔
تو پھر ؟
صرف تمہاری۔۔۔۔۔۔۔
میری۔۔۔۔۔۔۔۔میری کیوں۔۔۔۔۔؟ وہ خیرت سے بولی۔
اگر بتا دیا تو پھر خود ہی غصہ کرو گی۔ وہ شریر مسکراہٹ سے بولا۔
عمیر پلیز میرا راستہ چھوڑو۔ ضوفیرہ نے فوراً بات کا رخ بدلہ تھا۔ پتہ نہیں کیوں اسے عمیر کے جواب سے ڈر لگ رہا تھا۔ اسے وہ کچھ دنوں سے بدلہ ہوا بھی لگ رہا تھا۔
ضوفی میری ماما کہتی تھی۔ جو چیز پسند آ جائے اسے فوراً لے لینا چاہیںے۔ ورنہ کوئی اور لے جائے تو پھر پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا۔ اس لیے کبھی مجھے کوئی چیز پسند آ گئ۔ تو میں اسے کسی کو لے جاے نہیں دوں گا۔ عمیر اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے سپارٹ لہجے میں بولا تھا۔
اس کی آنکھوں میں بہت سے جذبے اور امنگیں دیکھ کر ضوفیرہ نے فوراً نظریں چرائی تھی۔
ضروری نہیں جو چیز پسند آ جائے۔ وہ مل بھی جائے۔ اس نے دوبارہ اپنی نظریں اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا، اور سخت لہجے میں بول کر سائید سے ہو کر فوراً وہاں سے چلی گئی۔
لیکن میں اپنی چیزیں حاصل کر کے رہںتا ہوں۔ اس کے جاتے ہی عمیر نے مسکراتے ہوئے پیچھے سے ہانک لگائی تھی۔ جیسے وہ اسے اس ایک جملے میں بہت کچھ باور کرا گیا تھا۔
لیکن ضوفیرہ اسے نظراندز کرتی ہوئی رامیہ کی طرف چلی گئی۔
ضوفی یہ ڈریس کتنا پیارا ہے۔ اپنے پیچھے ضوفیرہ کو کھڑے دیکھ کر وہ فوراً بولی۔
ہاں بہت پیارا ہے۔ وائیٹ پٹیالہ شلوار، گارین کلر کی چھوٹی سی قمیض، جس کے گلے پر کڈائی سے کام ہوا تھا۔
ضوفی میں یہ دو ڈریس لے رہی ہوں۔ ایک تمہارے لیے ایک اپنے لیے۔
مگر رامی یہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضوفی پلیز تم کچھ نہیں بولو گی۔ اسے کچھ بولتے دیکھ کر رامیہ نے اسے فوراً ٹوکا تھا۔ جس کی وجہ سے ضوفیرہ اَگے سے کچھ بول ہی نہ سکی۔
ایکسکیوزمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ والے دو ڈریس اور وہ سامنے والے دو ڈریس پیک کر دیجئیے۔ رامیہ سیلز مین کو بلا کر اسے ڈریسیزز پکڑاتے ہوئے بولی۔
اوکے میم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضوفی میں پیمنٹ کر کے آئی۔
میم یہ آپ کا بِل مینیجر اسے لِسٹ پکڑتے ہوئے بولا تھا۔
اسے پہلے وہ لسٹ پکڑتی۔ پیچھے سے آتے اذان نے فوراً لِسٹ پکڑ کر فوراً بِل پے کر دیا۔
اذان بھائی یہ کَیا کِیا آپ نے، بِل کیوں پے کیا ؟
بھائی بھی کہتی ہو اور یہ بھی کہتی ہو بِل کیوں دیا۔ بھائی کے ہوتے ہوئے بہن بِل دیتے ہوئے اچھی لگے گی۔
لیکن اذان بھائی جان یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا مطلب تم مجھے صرف زبان سے بھائی بولتی ہو، سمجھتی نہیں۔ وہ ناراض ہوا۔
نہیں اذان بھائی جان، میں سچ میں آپ کو اپنا بھائی سمجھتی ہوں۔ اذان کو ناراض دیکھ کر اس نے فوراً غلط فہمی دور کرنی چاہی۔
اگر سچ میں سمجھتی ہو۔ تو پھر یہ بحث کیوں ؟
اوکے سوری اب نہیں کروں گی۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
اٹس اوکے اب چلیں گھر کہ اب بھی نہیں جانا۔ وہ بھی اگے سے مسکرا کر بولا۔
جی چلیں، ان کی ناراضگی دور ہوتے دیکھ کر وہ خوشی سے بولی۔
اذان بھائی جان، خالہ جانی کی کال ہے۔ افشال بھاگتے ہوئے ان کے پاس آ کر بولی۔
گڑیا یہ گاڑی کی چابی پکڑو اور سب سے کہو گاڑی میں جا کر بیٹھیں۔ میں فون سن کر آیا۔
ہیلو ! اسلام علیکم ماما کیسی ہے آپ ؟ ان کے جاتے ہی اذان موبائل کان سے لگا کر بولا۔
وعلیکم اسلام ! اذان پہلے یہ بتاؤ۔ رامیہ کیسی ہے ؟ وہ ٹھیک ہے اسے کچھ ہوا تو نہیں ؟ آپ لوگوں نے مجھے بتایا کیوں نہیں اور تمہیں اس کا دھیان رکھنا چاہیںے تھا "نا"۔
ماما۔۔۔۔۔۔۔ماما ریلیکس، وہ اب ٹھیک ہے۔ آپ پریشان نہ ہو اسے کچھ نہیں ہوا۔ مجھے پہلے ہی پتہ تھا۔
افشال نے ضرور آپ کو بتا دیا ہوگا۔ دوسری طرف ان کی پریشانی بھری آواز سن کر اس نے تسلی دی تھی۔
اچھا کیا جو اس نے مجھے بتا دیا، اور تم ایسا کرو ابھی میری رامیہ سے بات کرواؤ۔ وہ اسے ڈانٹتے ہوئے بولی۔
اچھا ٹھیک ہے ابھی آپ کی اس سے بات کراتا ہوں۔
گڑیا یہ لو ماما کی کال ہے تم سے بات کرنا چاہںتی ہے۔ اذان ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر پیچھے اسے فون پکراتے ہوئے بولا۔
ہیلو ! اسلام علیکم آنٹی۔
وعلیکم اسلام ! رامیہ تم ٹھیک ہو "نا" تمہیں کچھ ہوا تو نہیں ؟ بیٹا تمہیں اپنا خیال رکھنا چاہیںے تھا "نا"۔ صائمہ فکر مند لہجے میں بولی۔
سوری آنٹی اب ایسا نہیں ہو گا۔ وہ شرمندگی سے بولی۔ میں نے سب کو پریشان کر دیا "نا"۔
کوئی بات نہیں بیٹا۔ لیکن آئندہ تم اپنا خیال رکھو گی۔ صائمہ اسے تنبہیہ کرتے ہوئے بولی۔
جی ضرور، آنٹی آپ لوگ مری پہنچ گئے۔

جی ہم مری پہنچ گے ہیں۔
داد جی بھی آئے ہیں "نا" وہ خوشی سے بولی۔
جی ہاں دادجی بھی آئے ہیں۔ اچھا بیٹا اب اپنا خیال رکھنا۔ صبح آپ سے مل کر ملاقات ہو گی۔ صائمہ مسکراتے ہوئے بولی۔
اوکے خداخافظ۔ اس نے فون بند کرتے ہی موبائل دوبارہ اذان کو پکڑا دیا تھا۔
            ♤         ♤         ♤
ماما یہ کون ہے۔ چھوٹے سے اذان نے پالکی میں سوئی ہوئی پری وش کی طرف اشارہ کر کے صائمہ سے پوچھا تھا۔
بیٹا یہ آپ کی گڑیا ہے آپ کی چھوٹی بہن۔ صائمہ اس کے سوال پر تھوڑا جھک کر پیار سے اس کے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مسکرا کر بولی تھی۔
سچ ماما یہ میری گڑیا ہے ۔ میں اسے کھیل بھی سکتا ہوں۔ وہ خوشی سے چہکا۔
جی آپ اسے کھیل بھی سکتے ہو۔ لیکن آپ کو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا۔ کہ آپ اپنی گڑیا کا ہمیشہ خیال رکھو گے۔ اس کو کوئی تکلیف نہیں پہنچاؤ گے۔ اسکی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آنے دو گے۔ صائمہ اپنا ہاتھ اَگے کرتے ہوئے بولی۔
اوکے ماما میں اپنی گڑیا کا ہمیشہ خیال رکھوں گا۔ وہ اپنا چھوٹا سا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے بولا تھا۔
ارے کیا باتیں ہو رہی ہیں۔ میرے پرنس اور ماما کے بیچ۔ ذُفیان کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے۔
پاپا۔۔۔۔۔۔پاپا۔۔۔۔۔۔۔۔اذان بھاگتے ہوئے ان کی طرف لپکا، اور ان کا ہاتھ پکڑ کر پالکی کے پاس لے آیا۔ پاپا یہ دیکھے ماما کہہ رہی ہے یہ میری گڑیا ہے اور میں اسے کھیل بھی سکتا ہوں۔
اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔تو کیا آپ مجھے اپنی گڑیا سے کھیلنے دو گے۔ ذُفیان اس کی بات پر مسکراتے ہوئے بولے۔
نہیں میں اپنی گڑیا کسی کو نہیں دوں گا، اور نہ ہی کھیلنے دوں گا۔ ماما نے میرے سے پرامس لیا ہے۔ کہ میں اپنی گڑیا کا ہمیشہ خیال رکھوں گا۔ اگر آپ نے میری گڑیا کو گرا دیا تو۔ چھوٹا سا اذان پالکی کے اگے کھڑے ہوتے ہوئے بولا تھا۔ کہ جیسے وہ واقع ہی اسے اس کی گڑیا چھین لے گے۔
ذُفیان اس کی بات پر کھلکھلا کر ہنسے تھے، اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس کر کے جھک کر اس کے سر پر بوسہ دیا تھا۔
اذان۔۔۔۔۔۔۔؟ مشعال جو اذان کے لیے چائے بنا کر لائی تھی۔ کہ اسے کسی سوچ میں گم دیکھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بلایا تھا۔ وہ ایک دم چونکہ اور فوراً ماضی کی یادوں سے باہر آیا تھا۔
ہاں۔۔۔۔۔ہاں مشعال تم نے کچھ کہا ؟ وہ فوراً اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔
اذان آپ ٹھیک ہے۔ وہ پریشان ہوئی۔
ہاں مشعال تم فکر نہ کرو۔ میں ٹھیک ہوں۔ وہ جو بیڈ سے ٹیک لگا کر لیٹا ہوا تھا۔ فوراً سیدھا ہو کر بیٹھا۔
اذان مجھے پتہ ہے۔ آپ پری وش کو یاد کر رہے تھے "نا"۔ مشعال اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی تھی۔ اذان نے اَگے سے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
اذان آج جب رامیہ کے ساتھ وہ خادثہ ہونے والا تھا "نا"۔ تو تب میں نے آپ کی آنکھوں میں ڈر دیکھا تھا۔ اپنی گڑیا کے کھو جانے کا ڈر۔ جیسے بچپن کی طرح اس بار بھی آپ کی گڑیا آپ سے دور ہو جائے گی، اور آپ کچھ نہیں کر پائے گے۔ اذان میں جانتی ہوں۔ آپ رامیہ کو پری وش کی نظر سے دیکھتے ہے۔ اس لیے تو آپ نے اسے گڑیا بھی بولنا شروع کر دیا ہے، اور آج کے واقع کو لے کر آپ بہت پریشان ہے۔ مشعال اس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تھی۔ اس کے چہرے پر پریشانی صاف جھلک رہی تھى۔
مشعال میں اس وقت اتنا چھوٹا کیوں تھا۔ کاش میں بڑا ہوتا تو میری گڑیا کو ایسے ہی کوئی نہ لے جاتا۔ میں کتنا بے بس تھا۔ میں کچھ نہیں کر سکا۔ ماما سے میں نے وعدہ کیا تھا۔ کہ میں اپنی گڑیا کا خیال رکھوں گا۔ لیکن میں اپنا وعدہ بھی نباہ نہیں سکا۔ میں کیسا بھائی ہوں کہ اپنی بہن کی خفاظت بھی نہیں کر سکا تھا۔ اذان نے نظریں اٹھا اس کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔ جبکہ آنسو متواتر بہہ رہے تھے۔ اس کو اس طرح دیکھ کر مشعال کا دل پسیج کر رہ گیا تھا۔
مشعال کسی دن اگر مجھے بلال ماموں ملے۔ میں ان کو چھوڑوں گا نہیں۔ ان کی وجہ سے میرے سر سے میرے باپ کا سایہ اُٹھ گیا تھا، اور میری گڑیا کو بھی مجھ سے چھین لیا تھا۔ وہ اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے سخت لہجے میں بولا تھا۔
اذان پلیز آپ پریشان نہ ہو۔ آپ خود کو کیوں قصوروار سمجھ رہے ہے۔اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اس وقت تو آپ خود چھوٹے تھے۔ اذان آپ یہ بھی تو سوچیے اگر بچپن میں آپ کی گڑیا آپ سے دور ہوئی تھی۔ تو بڑے ہو کر آپ کو رامیہ کی شکل میں، آپ کو آپ کی گڑیا واپس بھی تو ملی۔ جب سے وہ خویلی میں آئی ہے۔ سب لوگ کتنے خوش رہںنے لگے ہیں۔ "ماما، دادجی، آپ"، اور دادجی جو پری وش کے جانے کے بعد اپنے کمرے تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ آج پہلی بار وہ خویلی سے باهر نکلے بھی تو صرف رامیہ کی وجہ سے۔ مشعال اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولی تھی۔
تم ٹھیک کہہ رہی ہو مشعال۔ وہ فوراً اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔
اچھا اب سو جائیے، صبح جلدی بھی اٹھنا ہے، اور ویسے بھی چائے تو اب ٹھنڈی ہو گئی ہے۔ جو پینے سے تو رہی۔ مشعال کھڑے ہوتے ہوئے مسکرا کر بولی تھی۔ لیکن اذان نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ بیڈ پر بیٹھایا تھا۔ مشعال کی آنکھوں میں خیرانی اُتر آئی تھی۔
مشعال تم بہت اچھی ہو۔ میں بہت خوش قسمت ہوں۔ کہ تم جیسی لڑکی میری جیون ساتھی بنی۔ اذان اس کا ہاتھ چومتے ہوئے بولا تھا۔
نہیں میں بہت خوش قسمت ہوں۔ کہ آپ میری زندگی میں آئے۔ اس کے ایسا کرنے سے مشعال کا چہرہ شرم کے مارے سرخ ہو گیا تھا۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر مسکرا کر بولی تھی

          ♤           ♤         ♤

ٹرن ٹرن۔۔۔۔۔۔۔ٹرن ٹرن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں میں فون نہیں اٹھاؤں گی۔ بالکل بھی نہیں اٹھاؤں گی۔ لیکن اگر میں نے فون نہ اٹھایا۔ تو وہ میرے کالج فون کریں گا۔ لاسٹ ٹائم اس نے مجھے یہی دھمکی دی تھی۔ یا اللہ میں کیا کروں۔ ماما پاپا کو بھی نہیں بتا سکتی۔ وہ پریشان ہو جائیں گے۔ تو کیا میں ان سے بات کروں۔ نہیں نہیں میں ان سے بات کیسے کر سکتی ہوں۔ اس دن تو میں نے زرمینے کو کال کی تھی۔ تو انہوں نے اٹھا لیا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے تو میں نے کبھی ان سے بات ہی نہیں کی۔ بات تو دور کی بات میں نے انہیں کبھی دیکھا بھی نہیں ہے۔ تو پھر کیا کروں، رامی اور ضوفی بھی یہاں نہیں ہے۔ اپنے بجتے ہوئے موبائل کو دیکھ کر نریم مسلسل پریشانی سے خود سے بڑبڑا رہی تھی۔ لیکن سامنے والا بھی شاید ڈیٹھ تھا۔ جو مسلسل کال پر کال کیے جا رہا تھا۔
اس نے بے بسی سے فون اٹھایا۔ کیونکہ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
ہیلو ! کیا مسلہ ہے آپ کو۔۔۔۔۔۔؟ کیوں بار بار کال کر رہے ہیں۔ وہ فون اٹھاتے ہی غصے سے بولی تھی۔
اگر میں تمہیں اپنا مسلہ بتاؤ تو تم حل کرو گی۔ دوسری طرف وہ اس کے غصے کو نظرانداز کرتے ہوئے بولا تھا۔
بالکل بھی نہیں، وہ سرد لہجے میں بولی۔
تو پھر پوچھ کیوں رہی ہو۔ دوسری طرف وہی اطمینان بھرا لہجہ تھا۔
آپ کو سمجھ کیوں نہیں آ رہا۔ مجھے آپ سے بات کرنے میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔ وہ بے بسی سے بولی۔
لیکن میں کرنا چاہںتا ہوں۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔؟
بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
لیکن کیوں۔۔۔۔۔۔،؟
کیونکہ جب تک میں تم سے بات نہ کر لوں۔ میرا دن نہیں گزرتا۔ وہ بے تاب لہجے میں بولا۔
آپ کو شرم آنی چاہیںے ایسی باتیں کرتے ہوئے۔ میں کسی کی منگیتر ہوں۔ نریم کا اس کی بات پر خون خول کر رہ گیا تھا۔ اس لیے سخت لہجے میں اسے باور کراتے ہوئے بولی تھی۔
لیکن میں نہیں مانتا اس رشتے کو۔
آپ کے ماننے سے یا نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے۔ سچ تو یہی ہے میں کسی کی منگیتر ہوں تو ہوں، اور آپ بھی یہ بات جلدی ہی سمجھ جائے تو اچھا ہوگا۔ وہ سرد اور سپاٹ لہجے میں بولی۔
میں کچھ بھی سمجھنا نہیں چاہںتا ۔میں بس اتنا جانتا ہوں۔ میں تمہیں پسند کرتا ہوں، اور تم صرف میری ہو۔ وہ اٹل لہجے میں بولا تھا۔

میں شوکیس میں رکھی ہوئی کوئی چیز نہیں ہوں۔کہ آپ کو پسند آ گئی اور آپ نے کہا، میری ہو۔ میں جیتی جاگتی انسان ہوں۔ پلیز خدا کے لیے میرا پیچھا چھوڑ دے۔
تمہارا پیچھا تو میں مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا۔ وہ شوخ ہوا تھا۔
لیکن نریم نے فوراً فون کٹ کر دیا۔ کہ دوبارہ اس کے موبائل پر رنگنگ ہوئی۔
کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟ کیوں فون کر رہے ہے؟ نریم فون اٹھاتے ہی غصے سے بھڑکی۔
ابھی میری بات ختم نہیں ہوئی تھی۔ پھر میرا فون کیوں بند کیا۔ اب کی بار اس کی بھی غصے بھری آواز نریم کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ ایک پل کے لیے وہ بھی ڈر گئی تھی۔ آج پہلی بار اس نے اسے غصے سے بات کی تھی۔ لیکن جلد ہی اس نے خود کو سنبھال لیا تھا۔
میں آپ کی کوئی فضول بکواس نہیں سننا چاہںتی۔
دیکھو نریم میں تمہیں بہت پسند کرتا ہوں۔ اس بار اس کے لہجے میں نرمی تھی۔
لیکن میری منگنی ہو چکی ہے۔ نریم اسے دوبارہ باور کراتے ہوئے بولی۔
منگنی تو ٹوٹ بھی سکتی ہے۔ دوسری طرف گزارش ہوئی۔
ہمارے ہاں ایک بات رشتہ جڑھ جائے تو پھر توڑا نہیں جاتا، اور اب میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہںتی۔ یہ کہتے ہی اس نے فون کا سلسلہ منتفقع کر دیا۔
کیا مصیبت ہے۔ وہ موبائل ٹیبل پر پھینکتے ہوئے غصے سے بولی۔
       ♤           ♤           ♤
اذان بھائی جان کتنا راستہ رہ گیا ہے، ہم کب پہنچے گے۔ رامیہ گاڑی چلاتے اذان سے بولی تھی۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا۔ کہ اُڑھ کر آنٹی اور دادجی کے پاس پہنچ جاتی۔بس گڑیا ہم پہنچ گئے ہیں۔ خارب نے تو یہی راستہ بتایا تھا۔ ارے وہ رہا خارب، رامیہ کے سوال کا جواب دیتے ہی وہ خود سے بڑبڑایا تھا۔ کہ اسے اسی وقت سامنے ایک گھر کے باہر خارب کھڑا نظر آیا تھا۔ وہ اپنی گاڑی اس طرف لے گیا۔
سامنے اذان کی گاڑی کو آتا دیکھ کر خارب نے فوراً گارڈ کو گیٹ کھولنے کے لیے کہا۔
گیٹ کھولتے ہی اذان اپنی گاڑی اندر لے آیا۔
کیسے ہو خارب ؟ گاڑی سے نکلتے ہی اذان اسے گلے ملتے ہوئے بولا۔
میں ٹھیک اذان بھائی۔ آپ کیسے ہیں ؟
میں بھی بالکل ٹھیک۔ اذان اس سے الگ ہوتے مسکراتے ہوئے بولا۔
آنٹی، رامیہ گاڑی سے نکلی تو سامنے صائمہ کو کھڑا دیکھ کر وہ فوراً بھاگتے ہوئے ان کے پاس گئی۔
آنٹی میں آپ کو بتا نہیں سکتی۔ آپ کو یہاں دیکھ کر میں کتنی خوش ہوں۔ وہ صائمہ کے گلے لگتے ہوئے بولی۔
جی مجھے پتہ ہے۔ میری بیٹی کے چہرے سے صاف پتہ چل رہا ہے، اور بتاؤ۔ پھر پاکستان کیسا لگا۔ صائمہ نے اسے اپنے سے الگ کر کے مسکرا کر پوچھا۔
آنٹی بہت بہت اچھا، اور میں نے بہت انجوائے کیا۔ وہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی۔
اچھا رامیہ اس سے ملو یہ فاطمہ احمد ہے۔ وہ میں نے تمہیں خارب کے دوست علی کے بارے میں بتایا تھا "نا"۔
جی آنٹی مجھے یاد ہے وہ فاطمہ کی طرف دیکھ کر بولی۔
یہ علی کی بہن ہے صائمہ اپنے ساتھ کھڑی فاطمہ کا تعارف کراتے ہوئے بولی۔
ہیلو ! اسلام علیکم ایم رامیہ۔
رامیہ نے مسکراتے ہوئے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑایا تھا۔
وعلیکم اسلام ! فاطمہ نے ہاتھ ملاتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا۔
آپ کے مام ڈیڈ کہا ہے۔ وہ نظر نہیں آ رہے۔ اسے اکیلا کھڑا دیکھ کر رامیہ نے فورا اِستفسار کیا۔
ارے واؤ آپ لوگ امریکہ ہوتے ہیں۔ ہم بھی وہی رہںتے ہیں۔ وہ خیرت اور خوشی کے تاثرات لیے بولی تھی۔
آنٹی نے مجھے بتایا تھا۔ فاطمہ بھی اس کی بات پر مسکرائی۔ اسے بھی یہ نٹ کھٹ سی لڑکی اچھی لگی تھی۔
آنٹی دادجی کہاں ہے ؟ اس نے اب صائمہ کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔
بیٹا وہ اندر ہے، جاؤ جا کر مل لو۔
رامیہ فوراً اندر کی طرف بھاگی۔ اس کی جلد بازی دیکھ کر صائمہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
ضوفیرہ تم یہاں پر خوش نہیں ہو کیا ؟ صائمہ اس کے چہرے پر اداسی دیکھ کر فوراً بولی تھی۔
نہیں آنٹی آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہے۔ میں یہاں پر بہت خوش ہوں۔ آپ لوگوں نے ہمارا اتنا خیال رکھا۔ کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہا میں آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں۔ وہ فوراً ان کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے بولی تھی۔
ضوفیرہ یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو۔ ہم نے تم دونوں کو گھر کا فرد ہی سمجھا ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے تم نے ابھی تک ہمیں اپنا نہیں سمجھا۔ صائمہ نے شکوہ کیا۔
نہیں آنٹی ایسی بات نہیں ہے۔ اگر آپ کو میری بات بری لگی تو ایم سوری۔ میرا مقصد آپ کو ہرٹ کرنے کا نہیں تھا۔ آپ لوگ واقع بہت اچھے ہیں۔ اگر ہم آپ کو اپنا نہ سجمھتے تو کبھی ہم خویلی میں نہ رکتے۔ وہ شرمندہ ہوئی۔
اچھا چلو یہ سب باتیں چھوڑو اندر چلتے ہیں۔ صائمہ مسکرا کر بولی۔
          ♤        ♤       ♤
دادجی ایم سو ہیپی میں بہت زیادہ خوش ہوں۔ رامیہ اندر آئی تو اسے سامنے صوفے پر دادجی بیٹھے نظر آئے۔ وہ فوراً بھاگتے ہوئے ان کے پاس گئ، اور ان کے گلے میں بانہیں ڈالتی ہوئی بولی۔
مگر دادجی میں نے آپ کو بہت زیادہ مس کیا تھا۔ اب کی بار اس نےالگ ہو کر منہ بنایا تھا۔
میں نے بھی اپنی پوتی کو بہت مس کیا تھا۔ وہ اس کی لمبی پتلی ناک دباتے ہوئے بولے تھے۔ ان کے ایسا کرنے سے رامیہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
دادجی پاکستان میں ہر جگہ اتنی پیاری اور خوبصورت ہے۔ کہ میرا دل کر رہا ہے میں یہاں سے کبھی بھی نہ جاؤں۔ اسکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
اگر تمہیں پاکستان اتنا پسند آیا ہے۔ تو آپ لوگ ہمیشہ کے لیے یہی کیوں نہیں سیٹل ہو جاتے۔ صائمہ نے جو اندر آتے ہوئے اس کی باتیں سن لی تھی تو فوراً بولی۔
آنٹی ڈیڈ نہیں مانتے۔ اب ہم مستقل امریکہ میں سیٹل ہو گئے ہیں۔ ڈید کہتے ہیں، اب وہی ہمارا گھر ہے۔ ہمیں ہمیشہ وہی رہںنا ہے۔
کیوں رامیہ بیٹا۔۔۔۔۔۔۔؟
پتہ نہیں آنٹی، وہ تو مجھے پاکستان بھی آنے نہیں دے رہے تھے۔ میں ضد کر کے آئی ہوں۔ وہ اداسی سے بولی۔
اس کی بات نے دادجی اور صائمہ کو ایک پل کے لیے بے سکون کر دیا تھا۔
اگر رامیہ یہاں سے چلی گئی۔ تو پھر کبھی شاید ہماری کبھی ملاقات نہ ہو۔ صائمہ نے اس کی طرف دیکھ کر دل ہی دل میں سوچا تھا۔ جبکہ دوسری طرف رامیہ نے دادجی کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ کیونکہ اس خویلی میں اب کوئی بھی نہیں چاہںتا تھا۔ وہ یہاں سے جائے۔
پتہ نہی وہ لوگ اور کتنی دیر اپنی اپنی سوچوں میں گم رہںتے۔ کہ رامیہ کے موبائل رنگنگ ہونے لگی۔
سوری آنٹی ڈیڈ کی کال ہے میں ابھی سن کر آئی۔ رامیہ فوراً ان سے ایکسکیوز کرتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
اسلام علیکم ! ڈیڈ 
اس کے فون اٹھاتے ہی بلال کی سماعتوں سے اس کی خوشی سے چہکتی ہوئی آواز گونجی تھی۔ ان کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔
وعلیکم اسلام ! ڈیڈ کی جان خوش ہو۔
جی ڈیڈ میں بہت خوش ہوں۔ لیکن آپ کو بہت زیادہ مس کر رہی ہوں۔ وہ اداسی سی بولی۔
رامیہ بیٹا اور کتنے دن وہاں رہںنے کا ارادہ ہے۔ آپ کے ڈیڈ بھی آپ کو بہت زیادہ مس کر رہے ہے۔
ڈیڈ صرف پندرہ دن اور اس کے بعد میں واپس آ جاوں گی۔ اچھا ڈیڈ یہ سب چھوڑے، مجھے یہ بتائے آپ صبح واک پر تو جاتے ہیں "نا" ؟ اور ٹائم پر ناشتہ کرتے ہیں۔
رامیہ اچھے سے جانتی تھی وہ روز صبح آفس کے چکر میں ناشتہ نہیں کرتے تھے۔ اس لیے رامیہ کالج جانے سے پہلے انہیں زبردستی ناشتہ کرواتی تھی۔
سب سے پہلے صبح اٹھتے ہی وہ انہیں واک پر لے کر جاتی تھی۔ اس کا کہنا تھا۔ واک کرنے سے انسان کی صحت ٹھیک رہںتی ہے، اور انسان چست رہںتا ہے۔ اس لیے روز صبح وہ واک پر جاتے، اور اکثر رامیہ واپسی پر ان سے ریس لگاتی تھی۔ کہ کون پہلے گھر پہنچے گا۔ لیکن وہ ہر بار خود کو ہرا کر اپنے ڈیڈ کو جتا دیتی تھی۔ کیونکہ وہ اپنے ڈیڈ کو ہارتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ یہ بات بھی بلال اچھے طریقے سے جانتے تھے۔

رامیہ بیٹا تمہارے بغیر واک کرنے کا دل نہیں کرتا، اور ناشتہ میں کرتا ہوں۔ وہ فوراً بولے لیکن آخری بات پر انہوں نے جھوٹ کا سہارا لیا تھا۔
ڈیڈ جب آپ کو پتہ ہے کہ آپ مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتے۔ پھر آپ کیوں جھوت بول رہے ہے۔
وہ میں بس کبھی کبھی نہیں کرتا۔
کیا ڈیڈ۔۔۔۔۔۔۔؟ ڈیڈ اب میں نے یہ سنا کہ آپ واک پر نہیں گئے یا پھر آپ نے ناشتہ نہیں کیا۔ تو پھر میں آپ سے کبھی بات نہیں کروں گی۔ وہ ناراضگی سے بولی۔
اوکے جو میری بیٹی کہے گی، میں وہی کروں گا۔ اب میں روز صبح واک پر بھی جاؤں گا، اور ناشتہ بھی کروں گا۔ اب خوش۔
نہیں خوش میں تب ہی ہوگی۔ جب آپ اس پر عمل بھی کرے گے۔
اچھا ٹھیک ہے اور کوئی خکم ؟
ہمم۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوچ کر بتاوں گی۔ وہ شرارت بھری مسکراہٹ سے بولی تھی۔ اس کی نوٹنکی پر بلال کھلکھلا کر ہنسے۔
اچھا رامیہ اب تمہیں پہلے سے زیادہ اپنا خیال رکھنا ہو گا۔ کیونکہ ضوفیرہ آج شام کی فلائیٹ سے واپس آ رہی ہے۔ وہ فکر مند لہجے میں اسے تنبہیہ کرتے ہوئے بولے تھے۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟ یہ کیا کہہ رہے ہے ڈیڈ آپ۔ ضوفیرہ آج شام کی فلائیٹ سے واپس جا رہی ہیں۔ اس کی خیرت اور شاکڈ سے آنکھیں پھیلی تھی۔
ہاں۔۔۔۔۔۔۔کیوں اس نے تمہیں بتایا نہیں۔ بلال نے فوراً پوچھا۔
نہیں نہیں ڈیڈ اس نے مجھے بتایا تھا۔ لیکن شاید میں ہی بھول گئی تھی۔ اس نے اپنے چہرے کے تاثرات چھپاتے ہوئے بڑی صفائی سے جھوٹ بولا۔
اچھا ڈیڈ میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں۔
اچھا بیٹا اپنا خیال رکھنا خدا خافظ۔ انہوں نے اسے ہدایت دیتے ہوئے فون بند کر دیا۔
فون بند ہوتے ہی رامیہ سوچوں میں گم پیچھے مڑی تو اپنے سامنے ضوفیرہ کو ہی کھڑے پایا تھا۔
رامیہ میری بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی۔ رامیہ نے ہاتھ اٹھا کر اسے کچھ  بھی کہنے سے منع کر دیا تھا۔


یہ رہی میری آج کی ایپیسوڈ😍 امید ہے آپ سب لوگوں کو پسند آئے گی🥰۔ پلیز مجھے کمینٹ میں ضرور بتائیے گا🤩۔ اور پلیز پلیز میرے بلاگ کو فالو اور نیچے دئیے👇🏻👇🏻 ہوئے  میرے چینل کو سبسکرئب، لائک اینڈ شئیر ضرور کیجئیے گا😁۔





    


Posta un commento

1 Commenti

  1. Nice episode fabeolus out standing🥰😘👌🏻❣❣❣❣episode 👌🏻👌🏻👌🏻I can't wait next episode

    RispondiElimina

Commento

Parvish novel

PARIVISH Episode 31 (پری وش)