Advertisement

Adbox

PARIVISH Episode 28 ( پری وش )

                Pativish

                 (پری وش)

# Novel by Parivish

# Writer; Aima Ashfaq

# Family, Funny Innocent herion, Rude hero based novel

# Please Don't Copy Paste My Novel

# Episode 28:

رامیہ ایک بات پوچھوں تم سے, وہ اس کے پاس آ کر بولا۔
ہاں پوچھو, اب کی بار وہ بھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
اس دن جب اس لڑکی نے میرا ہاتھ پکڑا تھا تمہیں کیوں غصہ آیا تھا۔ وہ سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
کیونکہ مجھے بُرا لگا تھا وہ اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتے ہوئے بولی۔ اس دن کا سوچتے اس کا غصہ دوبارہ عود آیا تھا۔ وہ دانت چباتے غصے سے بولی۔
ہاں وہی پوچھ رہا ہوں, کیوں بُرا لگا تھا ؟ وہ دوبارہ گویا ہوا۔
کک۔۔۔۔کک۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔۔۔کیونکہ
ہاں کیونکہ۔۔۔۔۔اس نے بمشکل اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے زیر لب دہرایا۔
کیونکہ میں تمہاری دوست ہوں, اسے کوئی بہانہ نہ بن پایا تو نظریں جھکاتے ہوئے فوراً بولی۔
اچھا تو تم میری دوست ہو, وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے اس کے اور قریب ہوتے ہوئے بولا۔
دوست تو میں بھی ہوں تو پھر تمہیں بھی تو میری بات ماننی چاہیے "نا"۔ وہ تھوڑا جھک کر اس کے کان کے قریب سرگوشی کرتے ہوئے بولا ۔
کک۔۔۔۔۔۔کون سی بات ؟ اس کی نزدیکی پر اس کے دل کی دھڑکنوں کی رفتار تو تیز ہوئی تھیں۔ لیکن وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولی۔
تم اچھی طرح جانتی ہوں, میں کس بارے میں بات کر رہا ہوں۔ وہ اب پیچھے ہوتے اپنے ابرو اچکاتے ہوئے بولا۔
لیکن خارب میں تمہاری یہ بات نہیں مان سکتی۔ آج میرا کہیں بھی جانے کا دل نہیں کر رہا۔ پلیز مجھے فورس مت کرو۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر التجایا لہجے میں بولی۔
میں بھی تمہاری یہ بات نہیں مانوں گا۔ تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ آج کے دن میں جو بھی کہونگا تم میری ہر بات مانو گی۔ ورنہ میں تمہیں معاف نہیں کرونگا۔ وہ اٹل لہجے میں اسے باور کراتے ہوئے بولا۔
ٹھیک ہے مت کرو معاف۔۔۔۔۔۔۔لیکن آج میں تمہارے ساتھ کہیں باہر نہیں جاؤنگی۔ اسے نہ مانتے دیکھ کر رامیہ فوراً اپنا رُخ موڑتے صاف گوئی سے بولی۔
اچھا تو تم نہیں جاؤ گی ؟ اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
"نہیں"  وہ اپنی بات پر قائم تھی۔
ایک بار پھر سوچ لو یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے۔ اس نے استفسار کیا۔
ہاں یہ میرا آخری فیصلہ ہے وہ اس کی طرف دیکھ کر کندھے اچکاتے ہوئے بولی۔ لیکن پتہ نہیں کیوں اس بار رامیہ کو اس کی نظروں سے خوف محسوس ہوا تھا۔
تو ٹھیک ہے میں بھی دیکھتا ہوں تم کیسے نہیں جاتی۔ جانا تو تمہیں میرے ساتھ ہی پڑے گا۔ اب یہ تم پر ڈپینڈ کرتا ہے تم آرام سے مانتی ہو یا پھر زبردستی۔ وہ بھی اٹل لہجے میں بولا۔
کیا مطلب ؟
مطلب یہ کہ اگر تم آدھے گھنٹے میں تیار ہو کر نیچے نہ آئی تو میں پھر تمہیں زبردستی اُٹھا کر لے جاؤنگا۔ وہ ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ لیے اطمینان سے بولا۔
خارب تم ایسا نہیں کر سکتے, وہ بےبسی سے بولی۔
میں کچھ بھی کر سکتا ہوں, یہ تم سے بہتر کون جانتا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا پھر فوراً وہاں سے چلا گیا۔
خارب تم میری زندگی کو کیوں مشکل بنا رہے ہو, ایسا نہ ہو کہ جب میں یہاں سے جاؤں تو تمہارے بغیر ایک دن بھی گزارنا میرے لیے مشکل ہو جائے۔ وہ گِرنے کے انداز میں بیڈ پر بیٹھتے روتے ہوئے بولی۔
                                                  *******************
ٹرن۔۔۔۔۔۔ٹرن۔۔۔۔۔۔۔۔
ضوفی پلیز باہر دیکھو کون ہے۔
نمی تم دیکھ لو "نا" میں کپڑے پریس کر رہی ہوں۔ اس نے کمرے میں سے ہانک لگائی۔
نریم جو ابھی ابھی اپنی چائے لے کر صوفے پر بیٹھی تھی۔ کہ اس کی ہانک پر کوفت سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا, کہ اس کی نظر دروازے کے بیچ و بیچ پڑے سُرخ پھولوں کے بُکے پر پڑی۔ جسے دیکھتے ہی اس کے ہونٹوں نے مسکراہٹ کا احاطہ کیا تھا۔ اب کی بار اس کے چہرے پر شکن,غصہ اور پریشانی نہیں تھی۔
وہ پھولوں کا بُکے ہاتھ میں پکڑے اندر آئی اور اپنی پہلے والی ہی جگہ پر جا کر بیٹھ کر اس میں سے کارڈ نکال کر پڑھنے لگی۔
جسے پڑتے ہی اس کے ہونٹ خود بہ خود مسکراہٹ میں ڈھلتے جا رہے تھے۔
کیا بات ہے بڑا مسکرایا جا رہا ہے ذرہ ہم بھی تو دیکھیں اس میں کیا لکھا ہے۔ ضوفیرہ جو ابھی ابھی کمرے سے باہر آئی تھی۔ کہ اسے ہاتھوں میں کارڈ لیے مسکراتے دیکھ کر پیچھے سے آ کر فوراً اس کے ہاتھ سے جھپٹتے ہوئے بولی۔
ضوفی تم۔۔۔۔۔۔۔ضوفی پلیز میرا کارڈ مجھے واپس دو۔ وہ فوراً صوفے سے اُٹھ کر اس کے پاس جا کر بولی۔
ارے ایسے کیسے دے دوں, میں بھی تو پڑھوں اس میں لکھا کیا ہے۔ کہ میری دوست اتنا مسکرا رہی تھی ویسے یہ پھول اور کارڈ اسی نے بھیجے ہیں "نا"۔ وہ اپنے قدم پیچھے کی طرف لیتے اسے شرارت سے ایک آنکھ ونک کرتے ہوئے بولی۔
ضوفی میرا کارڈ واپس دو ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اس کے ہاتھ سے کارڈ چھینتی کے ضوفیرہ نے فوراً اپنے قدم پیچھے کی طرف لیے۔
ورنہ ؟ ورنہ کیا ؟ کیا کرو گی تم ؟ کہا "نا" نہیں دونگی تو نہیں دونگی۔ وہ بھی سپاٹ لہجے میں بولی۔

ضوفی پلیز اب اس نے وہیں رکتے التجائیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
اب ضوفی تم مجھ سے بات نہ کرنا۔ آخر اب بھی اسے ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ کر وہ ناراضگی سے منہ موڑتے ہوئے بولی اور صوفے پر جا کر بیٹھ گئی۔
کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔بعد میں, میں تمہیں منا لونگی۔ اس نے مسکراہٹ دباتے اسے مزید چڑایا۔
اس  کی  یاد  کچھ  اس  طرح  میرے  دل  سے  لپٹی  ہے
کہ  جیسے  کسی  پھول  پر  کسی  تتلی  کو  نیند  آ  جائے
واہ۔۔۔۔۔۔واہ۔۔۔۔۔۔واہ۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ بھائی واہ نمی اسے تو شاعری بھی آتی ہے وہ شاعرانہ انداز میں کارڈ پر لکھی تحریر پڑھتے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔ لیکن یہاں وہ روکی نہیں بلکہ اب اس کے نیچے لکھے الفاظ پڑھنے لگی۔
کہیں ٹوٹ  نہ  جائیں  میرے  دل  سے  سانسوں  کا  رشتہ
پل  بھر  کے  لیے  بھی  تم  مجھ  سے  روٹھا  نہ  کرو
ہائے سو کیوٹ۔۔۔۔۔۔۔نمی یہ شخص تم سے کتنی محبت کرتا ہے کتنے پیار سے تمہیں منا رہا ہے۔ وہ بھی شاعرانہ انداز میں وہ مسلسل اسے تنگ کرتے ہوئے بولی۔
اچھا۔۔۔۔۔۔۔محبت تو عمیر بھی تم سے کرتا ہے کیا وہ بھی تمہیں ایسے ہی مناتا ہے اور جہاں تک مجھے پتہ ہے شاعری تو عمیر کو بھی بہت اچھی آتی ہے اب کی بار نریم بھی چہرے پر شرارت کے تصورات لیے معنی خیز مسکراہٹ سے اسے تنگ کرتے ہوئے بولی۔
نمی پلیز اس کا ذکر میرے سامنے مت کیا کرو۔ اس کے مسکراتے ہونٹ سکڑے تھے۔
کیوں۔۔۔۔۔۔؟ کیوں نہ کروں ؟ میں تو کرونگی اور اس کا نام بھی لونگی, عمیر عمیر عمیر وہ اس سے باتوں میں لگا کر اس کے پاس جاتے اس کے ہاتھ سے اپنا کارڈ جھپٹتے ہوئے بولی, اور ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر فوراً وہاں سے بھاگی۔
تھینک یو سو مچ ضوفی, مجھے یہی چاہیے تھا وہ تھوڑی آگے جا کر روکی اور اپنا چہرہ موڑ کر منہ چڑاتے ہوئے بولی۔
نمی تم نے چٹنگ کی ہے, میں تمہیں دیکھ لونگی۔ وہ غصے سے اپنے پیر پٹختے ہانک لگاتے ہوئے بولی۔ جبکہ وہ اس کی بات کو نظرانداز کرتے مسکراتے ہوئے کمرے میں چلی گئی۔
                                                          ****************
خارب رامیہ تم لوگ کہی جا رہے ہو۔ صائمہ دادجی کے کمرے سے نکلی تو انہیں باہر جاتے دیکھ کر فوراً بولی۔
جی چچی جان وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بولتے بولتے روکا اور ایک نظر رامیہ کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر شرارت صاف ناچ رہی تھی۔
وہ چچی جان آپ کی یہ جو بیٹی ہے "نا" اس نے کل سے مجھے تنگ کیا ہوا ہے۔ کہ مجھے باہر گھومانے لے کر جاؤ۔ اب آپ کو تو پتہ ہے "نا" اس کے آگے کسی کی بھی نہیں چلتی۔ وہ اپنی مسکراہٹ لبوں میں دباتے ہوئے بولا۔ جبکہ اس کی بات پر حیرت سے رامیہ کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔
اچھا ٹھیک ہے تم لوگ جاؤ, لیکن جلدی واپس آنا۔ وہ مسکرا کر بولی۔
جی ضرور, خارب سینے پر ہاتھ رکھ کر سر کو تھوڑا خم کرتے ہوئے بولا۔
ابھی رامیہ نے کچھ کہنے کے لیے لب واک کیے ہی تھے۔ کہ خارب اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے گیا۔
تم نے آنٹی سے جھوٹ کیوں بولا ؟ میں نے کب تمہیں بولا۔ مجھے باہر گھوُمانے لے جاؤ۔ وہ باہر آتے ہی غصے سے پھٹ پڑی۔
نہیں کہا تو اب کہہ دو, اور ویسے بھی تمہیں یاد ہے۔ ایک دفعہ تم نے بھی میری دادجی کے سامنے ایسی ہی سچوئیشن کریٹ کی تھی۔ وہ اسے باور کراتے ہوئے بولا۔
اُوں تو تم یہ سب مجھ سے بدلہ لینے کے لیے کر رہے ہو۔ اس نے استفسار کیا۔
جو بھی سمجھ لو, وہ ابرو اچکاتے ہوئے بولا۔
دیکھ لونگی میں تمہیں, اب کی بار وہ شہادت کی انگلی اُٹھا کر اسے وارن کرتے ہوئے بولی۔
چھوڑو میرا ہاتھ, وہ اب اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔
اگر نہ چھوڑوں تو, وہ اپنے ہاتھ کی گرفت اور سخت کرتے اس کے غصے سے تنے نقوش کو دیکھتے ہوئے بولا۔ اسے تنگ کرتے ہوئے اسے بہت مزہ آ رہا تھا۔
خارب میرا ہاتھ چھوڑو ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے غصے بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ لیکن نجانے اس کی آنکھوں میں ایسا کیا تھا۔ کہ اس نے رامیہ کو نظریں جھکانے پر مجبور کر دیا تھا۔ اسی وقت خارب نے بھی اسے اپنی طرف کھینچا اور تھوڑا جھک کر اس کے بالوں سے ہیئربینڈ نکال دیا۔ اس کے لمبے براؤن ور سلکی بالوں کا آبشار کھل کر کندھے اور چہرے پر بکھر گیا۔
تمہیں کھلے بال اچھے لگتے ہیں وہ اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے مسکرا کر بولا۔
اس کی اس اچانک افتاد پر رامیہ کے دل کی دھڑکنوں کی رفتار تیز ہوئی تھی۔ ایسا لگا جیسے ابھی نکل کر باہر آ جائے گا۔ اپنے ہاتھوں میں اس کی پکڑ ہلکی محسوس کر کے وہ فوراً پیچھے ہوئی اور نظریں چراتے گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی۔
خارب بھی مسکراتے ہوئے دوسری طرف آ کر بیٹھ گیا۔
                                                       *******************

کمرے میں آتے ہی اس نے دروازہ بند کر دیا, اور ہاتھ میں پکڑا کارڈ دوبارہ کھول کر پڑھنے لگی۔ اس میں لکھی تحریر نے اس کے ہونٹوں پر دلفریب سی مسکراہٹ بکھیر دی۔ پتہ نہیں اور کتنی دیر وہ ایسے ہی کارڈ کو دیکھتی رہتی۔ کہ اس کے موبائل پر رنگ ہوئی۔ سکرین پر جگمگاتے نمبر نے اس کے چہرے کی چمک کو دگنا کر دیا تھا۔
اسلام علیکم ! اس کے کال اُٹھاتے ہی دوسری طرف خوشگوار لہجے میں سلام کیا گیا۔
وعلیکم اسلام ! جی بولیے ؟ کیا کام ہے۔۔۔۔۔؟ کیوں فون کر رہے ہیں اب آپ مجھے۔ وہ اپنی مسکراہٹ لبوں میں دباتے اپنے لہجے کو تھورا سخت رکھتے ہوئے بولی۔
ارے اتنا غصہ لگتا ہے ابھی تک تم نے مجھے معاف نہیں کیا۔  دوسری طرف وہ منہ بناتے ہوئے بولا۔
کیوں۔۔۔۔۔۔؟ کیوں معافی مانگ رہے ہیں آپ ؟ لگتی کیا ہوں میں آپ کی ؟ نا چاہ کر بھی وہ گلہ کر گئی تھی۔ شاید وہ اس کا,جواب جاننا چاہتی تھی۔
ہونے والی بیوی, شوخی بھرا جملہ نریم کے کانوں میں گونجا۔ جو اسے اندر تک سرشار کر گیا تھا۔ ہمیشہ کی طرح اس دفعہ اسے یہ جملہ بُرا نہیں لگا تھا۔
ہونہہ۔۔۔۔۔بیوی شاید آپ بھول رہے ہیں۔ میں کسی کی منگیتر ہوں, اور بیوی بھی اسی کی بنوں گی۔ اس نے مسکراتے ہوئے اسے چڑایا۔ لیکن وہ کیا جانتی تھی یہ بات اگلے انسان کو غصہ دلانے کا باعث بنے گی۔
شٹ اپ۔۔۔۔۔۔۔ جسٹ شٹ اپ خبردار تم نے آئندہ ایسی بات کی۔ تم صرف میری ہو اور بیوی بھی میری ہی بنو گی۔ اس کی بات سُن کر وہ اپنے ہاتھوں کی مُٹھیاں بھینچتے غصے سے دھاڑتے ہوئے بولا۔
مم۔۔۔۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔میں نے مذاق کیا تھا۔ اس کے غصے نے ایک پَل کے لیے نریم کو بھی خوفزدہ کر دیا تھا۔ لیکن اپنے خوف پر قابو پاتے ہلکاتے ہوئے بمشکل بولی۔
آئندہ تم مذاق میں بھی ایسی بات نہیں کرو گی۔ ورنہ مجھ سے بُرا کوئی بھی نہیں ہو گا۔ وہ تحکم بھرے لہجے میں باور کراتے ہوئے بولا۔ چاہ کر بھی اپنے لہجے کو نرم نہیں رکھ پایا تھا۔ اس کا بس چلتا تو اس روم میں بیٹھے ہر چیز کو تہس نہس کر دیتا۔ جبکہ اب کی بار نریم نے بھی غصے میں کال کاٹ دی۔
دوبارہ رننگ ہوتے دیکھ کر اس نے منہ بنایا۔
ہونہہ کرتا رہیں کال میری بلا سے, ایسا بھی میں نے کیا کہہ دیا۔ کہ نواب زادے کو اتنا غصہ آ گیا۔ لیکن نم تمہیں کال تو اٹھانی ہی پڑے گی اگر نہ اٹھائی تو اس سے کوئی بعید نہیں کہ یہ فون سے نکل کر مجھے کچا چبا جائے۔ مسلسل رننگ ہوتے دیکھ کر وہ خود سے بڑبڑائی, اور ناچاہتے اس نے پُش کا بٹن دبا دیا۔ جبکہ اندر ہی اندر وہ اس کے غصے سے ڈر بھی رہی تھی۔
ہہ۔۔۔۔۔ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔عجیب ڈرا سہما سا انداز تھا۔
نریم ایم سوری۔۔۔۔۔۔۔میرا ارادہ تمہیں ڈرانا یا دھمکانہ نہیں تھا۔ جب تم نے وہ بات کی تو میں اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پایا۔ کیونکہ خواب میں بھی میں تمہیں کسی اور کے ساتھ نہیں سوچ سکتا۔ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔ تمہارے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ وہ جذبات سے پُر لہجے میں بولا۔
نریم تم مجھے سُن رہی ہو ؟ دوسری طرف سے خاموشی محسوس کر کے وہ فوراً بولا۔ لیکن وہ اس کی سانسوں کی آواز بحوبی سُن سکتا تھا۔
جج۔۔۔۔۔۔۔۔جی خاموشی سے چند آنسو اس کے گالوں پر آ کر گِرے تھے جنہیں اس نے فوراً ہاتھ کی پُشت سے صاف کرتے بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
نریم کیا اب بھی تم مجھے معاف نہیں کرو گی ؟ لیکن دوسری طرف ہچکیوں کی آواز نے اسے پریشان کر دیا تھا۔
نریم تم رؤ رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا ہوا ؟ میری گلابو رؤ کیوں رہی ہے ؟ کیا تمہیں میری کوئی بات بُری لگی ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں دوبارہ تم سے معافی مانگتا ہوں۔ مگر پلیز رونا بند کرو۔
جہاں اس کے اتنے پیار سے گلابو کہنے پر اس کا دل دھڑکا تھا۔ وہاں ہی کچھ سوچتے ہی اس  کے رونے میں اضافہ ہوا تھا۔
گلابو اگر تم چاہتی ہو, میں تمہارا فون بند کر دوں تو میں بند کر دیتا ہوں, اور آئندہ کبھی بھی تمھیں تنگ نہیں کرونگا۔ اسے چُپ نہ ہوتے دیکھ کر اس نے جان بوجھ کر یہ دھمکی دی تھی۔
نہیں نہیں پپ۔۔۔۔۔پلیز ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ فون بند نہ کریں۔ وہ فوراً روندھی ہوئی آواز میں بولی۔
اچھا ٹھیک ہے نہیں کرتا لیکن پھر تمہیں بھی مجھے رونے کی وجہ بتانی ہو گی۔ وہ اس سے استفسار کرتے ہوئے بولا۔
میں نے خود کو بہت روکا کہ میں آپ سے محبت نہ کروں۔ کیونکہ مجھے پتہ تھا۔ میں خود کسی کی امانت ہوں۔ لیکن پھر بھی مجھے آپ سے محبت ہوگئی۔ جب یہ بات میرے مما پاپا کو پتہ چلے گی تو انہیں بہت دکھ ہو گا۔ وہ ٹوٹ جائیں گے۔ شاید وہ میرے اور آپ کے رشتے کے لیے بھی نہ مانیں۔ اس کے آنسو جو تھم چکے تھے۔ لیکن یہ سب کہتے وہ دوبارہ ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی۔
بس اتنی سی بات, تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا گلابو۔ وہ سکون بھرا سانس ہوا میں خارج کرتے ہوئے بولا۔
گلابو اگر تم مجھ سے سچی محبت کرتی ہو۔ تو سب سے پہلے اپنے آنسو صاف کرو۔ اب کی بار حکم صادر کرتے ہوئے بولا۔

کک۔۔۔۔۔۔۔کر دئیے, وہ فوراً اپنے ہاتھوں سے آنسو صاف کرتے عجیب سی بھاری آواز معصومیت سے بولی۔
گڈ گرل اب میری بات دھیان سے سنو, گلابو تمہارے مما پاپا تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اگر تم ان کو ہماری محبت کے بارے میں بتاؤ گی تو وہ ضرور سمجھیں گے۔
اگر وہ پھر بھی نہ مانے تو, اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ کسی خوف کے زیرِ اثر بولی۔
تو پھر میں انہیں سمجھاؤنگا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وہ میری بات کو ضرور سمجھیں گے اور رد نہیں کرینگے۔ وہ اسے تسلی دیتے پُراعتماد لہجے میں بولا۔
آپ اتنے یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہیں, کہ وہ آپ کی بات کو رد نہیں کرینگے۔ اس نے جواب طلب کیا۔
کیونکہ مجھے اپنی محبت پر یقین ہے جو بہت پاک ہے۔ وہ پُراسرار مسکراہٹ لیے بولا۔
اچھا یہ سب چھوڑو, تم مجھے یہ بتاؤ۔ اب تو تم نے مجھے معاف کر دیا "نا"۔ وہ جان بوجھ کر اس کاموڈ ٹھیک کرنے کے لیے ٹاپک چینج کرتے ہوئے بولا۔ جس میں وہ کافی حد کامیاب بھی ہو گیا۔
نہیں بالکل بھی نہیں, وہ پہلے والی ٹون میں آتے ہوئے بولی۔ اس بار اس کے ہونٹوں پر دلفریب سی مسکراہٹ تھی۔
کیوں ؟
کیونکہ آپ نے مجھے بہت رًلایا ہے۔ آپ کو اندازہ بھی ہے جب ٓآپ نے مجھ سے یہ کہا کہ آپ میرے علاوہ کسی اور سے محبت کرتے ہیں۔ تو اس وقت میرے دل پر کیا بیتی تھی۔ مجھے اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہوا تھا ایسا لگا جیسے مجھے سانس نہیں آ رہی تھی۔ وہ ناراضگی سے خود پر بیتی داستان سُناتی ہوئی بولی۔
اچھا جی تو جو تم نے مجھے اتنا تنگ کیا جب تم مجھ سے محبت کرتی تھی پھر مجھ سے چھپایا کیوں ؟ اگر میں یہ سب نہ کرتا تو کیا تم کبھی مجھ سے اپنے پیار کا اظہار کرتی۔ وہ بھی باور کراتے ہوئے بولا۔
برحال جو بھی ہے اب آپ نے آئندہ میرے علاوہ کسی اور لڑکی کے بارے میں سوچا بھی تو اچھا نہیں ہو گا۔ وہ دھمکی بھرے لہجے میں بولی۔
عجیب زبردستی ہے وہ منہ بناتے ہوئے بولا۔ جبکہ اس کا رعب بھرا انداز اور یہ نیا روپ اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔
ہاں ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے ابرو اچکاتے مسکراتے ہوئے کہا۔
کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔پھس گیا میں, وہ جان بوجھ کر اسے تنگ کرنے کے لیے زیر لب بڑبڑایا۔
یہ تو آپ کو مجھ سے محبت کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ وہ مسکرا کر بولی۔
ہاں سوچ لیتا, لیکن تم ہو ہی اتنی خوبصورت کے کسی اور کی طرف دھیان جاتا ہی نہیں۔ ویسے میری گلابو کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔ دوسری طرف وہ ایک ہاتھ سے اپنا موبائل دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے حمار آلود لہجے میں بولا۔
گلابو تمہیں پتہ ہے میں نے تمہارا نام گلابو کیوں رکھا۔ کیونکہ میری گلابو کو گلاب کے پھول بہت پسند ہیں اور مجھے میرا پھول میری گلابو, جو تم ہو۔ یہ نام تو میں نے پہلے دن ہی تمہارا رکھ دیا تھا۔ لیکن میں نے دل میں عہد کیا تھا۔ جس دن میری گلابو کو مجھ سے محبت ہو گی۔ اس دن میں اپنی گلابو کو اسی نام سے بلاؤں گا۔ دوسری طرف اسے خاموش دیکھ کر وہ دوبارہ بات کا آغاز کرتے اتنا خوبصورت اس پر انکشاف کرتے ہوئے بولا۔ جس نے نریم کو اندر تک سرشار کر دیا تھا۔ وہ خود کو دنیا کی خوش قسمت لڑکی تصور کر رہی تھی۔ جسے اتنا چاہنے والا جیون ساتھی ملنے والا تھا۔
آپ کا نام کیا ہے ؟ آپ نے تو اپنا نام مجھے بتایا ہی نہیں ؟ وہ فوراً کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
تم مجھے ہیرو بلا سکتی ہو, گلابو کا ہیرو۔ دوسری طرف شاید وہ اس کے اسی سوال کی توقع کر رہا تھا اس لیے فوراً سے جواب دیا۔
یہ کیسا نام ہے ؟ اس نے منہ بنایا۔
گلابو کیا تمہیں اچھا نہیں لگا, اب کے دوسری طرف اس کے لہجے میں نریم نے اداسی صاف محسوس کی تھی۔
نہیں یہ بھی اچھا ہے ہیرو, وہ فوراً اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے بولی۔
گلابو کیا تم ایک دفعہ یہ نہیں بول سکتی, گلابو صرف ہیرو کی ہے۔ دوسری طرف وہ التجا کرتے ہوئے بولا۔ جبکہ چہرے پر شرارت صاف ناچ رہی تھی۔
مم۔۔۔۔۔۔مجھے لگتا ہے مم۔۔۔۔۔مجھے ضوفی بلا رہی ہے۔ میں پھر کال کرونگی۔ یہ کہتے ہی اس نے کال کا سلسلہ منتفقع کر دیا, اور ایک نظر موبائل کو دیکھتے خود سے مسکرانے لگی۔
                                                       ****************
خارب یہ تم کہاں جا رہے ہو, یہ راستہ حویلی کی طرف تو نہیں جاتا۔
ہم حویلی جا بھی نہیں رہے, وہ سامنے روڈ پر نظریں جمائے سکون سے بولا۔
تو پھر کہاں جا رہے ہیں وہ آنکھوں میں حیرت لیے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔
مسکان ہوٹل ڈنر کرنے, وہ مسکرا کر اس پر انکشاف کرتے ہوئے بولا۔
کیا۔۔۔۔۔۔؟ تم پاگل ہو گئے ہو۔ وہ اپنی آنکھیں پھیلاتے ہوئے بولی۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔جو لوگ مسکان ہوٹل ڈنر کرنے جاتے ہیں وہ پاگل ہوتے ہیں۔ وہ اپنی مسکراہٹ لبوں میں دباتے شرارت لیے بولا۔
میں نے ایسا کب کہا۔۔۔۔۔۔؟
ابھی اس نے باور کرایا۔
میرا مطلب وہ نہیں تھا وہ جنجھلائی۔

اچھا تو پھر کیا تھا وہ گاڑی کا ٹرن لیتے مسکراتے ہوئے بولا۔
کچھ نہیں۔۔۔۔۔خارب پلیز تم مجھے اس وقت تنگ نہ کرو۔ میں بہت تھک چکی ہوں, اور اس وقت صرف آرام کرنا چاہتی ہوں۔ وہ تھکن سے بھرپور لہجے میں بولی۔ اس نے آج سارا دن رامیہ کو جتنا تنگ کیا تھا یہ صرف وہی جانتی تھی۔ شاید اس دن والا اس نے اپنا سارا بدلہ آج نکالا تھا۔ ہر جگہ کی سیر کرتے ہوئے اس کے ساتھ جان بوجھ کر مختلف پوز میں سیلفیاں لینا اسے زچ کرنے کا باعث بنتا تھا۔ لیکن جب وہ اسے کسی کام سے منع کرتی۔ تو وہ دوبارہ اسے اپنا وعدہ یاد کروا کر خاموش کروا دیتا۔ تھکن کا تو صرف ایک بہانہ تھا اس سے دور جانے کا۔ لیکن وہ جتنا اس سے اجتناب بھرتنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ اتنا ہی اس کے قریب ہوتا جا رہا تھا۔ اگر کوئی اور وقت ہوتا تو رامیہ اس پَل کو خوب انجوائے کرتی۔ لیکن اب۔۔۔۔۔۔۔
رامیہ رامیہ۔۔۔۔۔۔
ہاں ہاں تم نے کچھ کہا۔ حارب کی آواز پر اس کی محویت ٹوٹی تھی۔ اس لیے فوراً اس کی طرف دیکھ کر بولی۔
نہیں میں نے کچھ نہیں کہا, تم بتاؤ تم ٹھیک ہو "نا" وہ متفکر لہجے میں بولا۔
خارب نے ایک اچٹتی نظر اس پر ڈالی پھر دوبارہ اپنی نظریں سامنے سکرین پر جما دی۔
خارب کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس کی آواز گاڑی میں گونجی۔
ہمممم۔۔۔۔۔۔۔اس نے صرف ہنکارہ بھرا۔
و۔۔۔۔۔و۔۔۔۔۔۔وہ میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ وہ دانتوں سے اپنے لب کاٹتے ہوئے بولی۔
ہاں بولو اس بار وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔
وو۔۔۔۔۔۔۔۔وہ میں سوچ رہی تھی کیوں نہ میں امریکہ واپس چلی جاؤں۔ ہونٹوں پر زبان پھیرتے آخر اس نے بول ہی دیا۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ اس کی بات پر اس کے پاؤں فوراً بریک پر گئے تو گاڑی ایک جھٹکے سے رُک گئی۔
اس جھٹکے پر اس نے بمشکل اپنا سر ڈیش بورڈ پر لگنے سے بچایا اور یک لخت خارب کی طرف دیکھا۔ جو آنکھوں میں حیرت لیے سوالیہ نظروں سے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظروں کی تاب نہ لاتے رامیہ نے فوراً اپنی نظروں کا زاویہ بدلہ۔
رامیہ تمہیں یہاں پر کسی نےکچھ کہا ہے اگر کوئی پرابلم ہے تو مجھے بتاؤ۔ وہ پورے کا پورا اس کی طرف گھوم کر بیٹھتے استفسار کرتے ہوئے بولا۔ پتہ نہیں اس کے جانے والی بات پر اسے اپنی سانسیں تھمتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں۔ جیسے اس کی بہت ہی قیمتی چیز اس سے دور جا رہی ہو۔ ایک طرف وہ اپنی محبت کو دل میں ہی دفن کر چکا تھا۔ لیکن دوسری طرف اس کا دل بھی بغاوت کر رہا تھا۔
نہیں خارب ایسی بات نہیں ہے میں نے سوچا بعد میں بھی تو میں نے واپس ہی جانا ہے ابھی کیوں نہیں, ویسے بھی میری پڑھائی کا بھی حرج ہو رہا ہے اور ڈیڈ کی بھی بہت یاد آ رہی ہے۔ وہ فوراً اس کی غلط فہمی دور کرتے اپنی نظریں نیچی کیے انگلیاں چٹخاتے ہوئے بولی۔
خارب نے متعجب نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔ لیکن زبان پر سرد خاموشی جامد تھی۔اس سے پہلے خارب کچھ کہنے کے لیے لب واہ کرتا۔ کہ اس کے موبائل پر رنگنگ ہوئی۔ سامنے سکرین پر چچی کا نبمر جگمگاتے دیکھ کر اس نے فوراً کال اُٹھائی۔اسلام علیکم چچی جان جی چچی جان ہم ٹھیک ہیں
چچی جان آپ ہمارا انتظار نہ کیجئیے گا۔ ہم ڈنر باہر ہی کرینگے۔
جی ہم جلدی آ جائنگے, آپ فکر نہ کریں۔
 اُوکے اللہ خافظ۔ انہیں تسلی دے کر اس نے محتصر سی بات کر کے فون کا سلسلہ منتقطع کر دیا۔
رامیہ ہم اس بارے میں بعد میں بات کرینگے۔ اسے اپنی طرف دیکھتا پاکر وہ اپنی سیٹ بیلٹ کھولتے ہوئے بولا۔
جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
جی میڈم پتہ نہیں آپ کا دھیان کہاں ہے لیکن آپ کی اطلاع کے لیے آپ کو بتا دوں۔ ہم اس وقت ہوٹل کے باہر ہی کھڑے ہیں, اور مجھے بھوک بھی بہت لگ رہی ہے اس لیے جلدی سے گاڑی سے اترو۔ اس کی آنکھوں کا مفہوم سمجھتے وہ سامنے ہوٹل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
خارب تم کیوں نہیں سمجھ رہے مجھے بالکل بھی بھوک نہیں ہے آل ریڈی تم مجھے آج سارا دن اتنا کچھ کھلا چکے ہو۔ اب میرے پیٹ میں بالکل بھی گنجائش نہیں ہے کہ اب میں تمہارے ساتھ جا کر ڈنر بھی کروں۔ وہ التجائیہ لہجے میں بولی۔
رامیہ جب تمہیں پتہ ہے تمہاری میرے آگے ایک نہیں چلے گی۔ تو پھر کیوں اپنی انرجی ویسٹ کر رہی ہو۔ وہ پیار سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
اُوں تو تم نہیں مانو گے, اس کے ہونٹوں کی معنی خیز مسکراہٹ نے اسے اور تپا دیا تھا۔
آہ ہم۔۔۔۔۔۔۔اس نے انکار میں سر ہلایا۔
تم بہت ڈھیٹ انسان ہو, وہ زیر لب بڑبڑائی اور منہ بناتے ہوئے فوراً گاڑی سے اتری۔ جبکہ اس کے الفاظوں نے اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ کو اور گہرا کر دیا تھا۔
تم یہاں پر بیٹھو, میں ابھی مینیو لکھوا کر آیا۔ وہ اس کے لیے چیر پیچھے کرتے اسے اس پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
تم یہاں پر بھی تو ویٹر کو بلوا سکتے ہو, وہ چیر پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
ہاں بالکل بلوا سکتا ہوں, لیکن آج میں نے تمہارے لیے کوئی سپیشل ڈش منگوانی ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔

وہ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر گویا ہوئی۔
وہ تو میں تمہیں ابھی نہیں بتاؤنگا۔ وہ ابرو اچکاتے ہوئے بولا۔
کیوں۔۔۔۔۔۔؟ اس نے استفسار کیا۔
کیونکہ وہ تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے, یہ کہتے ہی وہ پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہی وہاں سے چلا گیا۔
تمہارے لیے سرپرائز ہے وہ پیچھے سے اس کی پُشت دیکھتے منہ چڑا کر بولی۔
                                                       ******************
ہائے ضوفی کیا کر رہی ہو, نریم اس کے پاس آ کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
ضوفی۔۔۔۔۔۔۔ی۔۔۔۔۔۔۔ی۔۔۔۔۔۔۔اسے نہ بولتے دیکھ کر وہ ضوفی پر زور دیتے اس کے چہرے کے آگے ہاتھ لہراتے ہوئے بولی۔
کیا ہے نمی پلیز تنگ مت کرو,  اس کی اس حرکت پر وہ جنجھلا کر بولی۔
ارے میں نے ایسا کیا کر دیا جو تم خفا ہو رہی ہو, اب کی بار وہ بھی منہ بناتے ہوئے بولی۔
نمی اگر تمہیں یاد نہ ہو, تو میں تمہیں بتا دوں کل ہمارا میتھ کا ٹیسٹ ہے۔ وہ اسے باور کراتے ہوئے بولی۔
ضوفی میں بھی تمہاری اطلاع کے لیے تمہیں بتا دوں۔ مجھے پتہ ہے کل ٹیسٹ ہے اور میں اپنی تیاری کر چکی ہوں۔ اس کے ہونٹوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ تھی۔
اُوں اچھا مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا۔ اب ضوفیرہ اس کی طرف دیکھ کر طنزیہ لہجے میں بولی۔
ضوفی کیا ہو گیا ہے تمہیں, تم میرے ساتھ ایسے کیوں بہیو کر رہی ہو۔ اس کے مسکراتے ہونٹ سکڑے تھے, اور وہ سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ مجھے نہیں کرنا چاہیے ایسے ؟ الٹا وہ سوال داغتے ہوئے بولی۔
ضوفی اتنی بڑی غلطی بھی نہیں تھی میری۔ اس کی آنکھوں کا مفہوم سمجھتے وہ باور کراتے ہوئے بولی۔
ہاں غلطی تو میری تھی جو میں نے تمہارا کارڈ پڑھنے کی گستاخی کر دی۔ سوری نمی میرے سے غلطی ہو گئی۔ آئندہ میں تمہارا کارڈ نہیں پڑھوں گی۔ کارڈ ہی کیا, میں آئندہ تمہاری کسی چیز کو بھی ہاتھ نہیں لگاؤنگی ہیپی۔ اب پلیز میں تمہارے سے ریکویسٹ کرتی ہوں۔ مجھے ڈسٹرب مت کرو۔ وہ روکھے لہجے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
ضوفی تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمی پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے تمہیں کہا "نا" مجھے ڈسٹرب مت کرو۔ کل میرا ٹیسٹ ہے اور مجھے تیاری کرنی ہے پلیز تم اب جاؤ یہاں سے۔ اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ تلخ لہجے میں بولی۔
نہیں میں نہیں جاؤنگی, جب تک تم مجھے بتاتی نہیں بات کیا ہے۔ جو تمہیں پریشان کر رہی ہے کیونکہ اتنا تو میں جانتی ہوں۔ کہ تم اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایسے ری ایکٹ نہیں کرتی۔ ضرور کچھ اور بات ہے جو تمہیں پریشان کر رہی ہے۔ اب جلدی سے بتاؤ وہ بات کیا ہے۔ وہ اس کی باتوں کا بُرا منائے بغیر تشویش بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
اچھا مت جاؤ تم یہاں سے, میں ہی چلی جاتی ہوں۔ اسے سوالیہ نظروں سے اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ اپنی بکس اٹھاتے ہوئے فوراً صوفے سے اُٹھ کھڑی ہوئی اور چپلیں پہنتے کمرے کی طرف چلی گئی۔ جبکہ پیچھے سے نریم اسے حیرت بھری نظروں سے دیکھتی رہ گئی۔
                                               ***************
لگتا ہے ابھی تک تمہارا موڈ آف ہے خارب اس کے سامنے والی چیر پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
تمہیں میرے موڈ سے کیا,تم نے تو اپنی ضد پوری کرنی تھی سو کر لی۔ اب کیا پرابلم ہے تمہیں۔ وہ غصے سے منہ پھیرتے ہوئے بولی۔
ارے اتنا غصہ رامیہ تمہاری اس لمبی پتلی ناک پر غصہ سوٹ نہیں کرتا۔ وہ تھوڑا آگے بڑھ کر اس کی ستواں ناک دباتے ہوئے بولا۔ جبکہ رامیہ نے غصے سے اس کے ہاتھ جھٹکے۔
اچھا بابا میں کان پکڑ کر سوری بولتا ہوں۔ آئندہ جو تم بولو گی۔ میں تمہاری ہر بات مانوں گا۔ ابھی کے لیے اپنا موڈ ٹھیک کرو۔ آخر وہ ہار مانتے ہوئے بولا۔
رامیہ نے ایک اچٹتی نظر اس پر ڈالی تو ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر سرائیت کر گئی۔
شکر ہے تمہارا موڈ تو ٹھیک ہوا, اسے مسکراتے دیکھ کر وہ سکون بھرا سانس ہوا میں خارج کرتے ہوئے بولا۔
خارب ہمیں اور کتنی دیر یہاں بیٹھنا پڑے گا۔ وہ جو کب سے اس کی نظروں سے پزل ہو رہی تھی۔ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولی۔ جو اِردگِرد سے بے نیاز کب سے دائیں ہاتھ کی مُٹھی کو تھوڑی اور ہونٹوں کے درمیان میں رکھے بڑی فرصت سے اس سے دیکھ رہا تھا۔
نہیں رامیہ آج نہیں, آج تم مجھ سے یہ حق مت چھینو, پتہ نہیں پھر کبھی تمہیں دیکھنے کا موقع بھی ملے گا یا نہیں۔ خارب اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے من ہی من میں بولا۔ جو کب سے اِدھر اُدھر دیکھ کر مسلسل اسے اگنور کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
سر یہ آپ کا پاستہ, ویٹر کی آواز پر وہ چونکا۔ اس کی پیشانی پر بے شمار بَل آئے تھے۔ جیسے اس وقت اس کی مداخلت خارب کو اچھی نہیں لگی تھی۔

اپنے اوپر سے اس کی نظریں ہٹتے دیکھ کر رامیہ نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ لیکن جونہی اس کی نظر ٹیبل پر پڑی ڈش پر پڑی۔ تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس ڈش کو دیکھتے ہی اس نے عجیب سا منہ بنایا تھا۔
یہ کیا ہے وہ پلیٹ خارب کی طرف کھسکاتے ہوئے بولی۔
یہ پاستہ ہے اور کیا ہے, وہ اپنی مسکراہٹ لبوں میں دباتے باور کراتے ہوئے بولا۔ کیونکہ وہ اچھے سے جانتا تھا اسے پاستہ بالکل بھی نہیں پسند تھا۔ پتہ نہیں کیوں آج اسے تنگ کرتے ہوئے اسے بہت مزہ آ رہا تھا۔ وہ جو ہمیشہ اسے تنگ کرتی تھی۔ لیکن آج خارب یہ موقع بالکل بھی ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا تھا۔

جاری ہے








Posta un commento

0 Commenti

Parvish novel

PARIVISH Episode 31 (پری وش)