Advertisement

Adbox

PARIVISH Episode 17 ( پری وش)

                   Parivish

                   (پری وش)

# Novel by Parivish

# Writer; Aima Ashfaq

# Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel

# Please Don't Copypaste My Novel

# Episode 17:

                       بس میں کچھ نہیں جانتا۔ وہ تمہارا کزن ہے یا پھر کچھ اور، میں بس اتنا جانتا ہوں۔ تم صرف میری ہو۔ تم آئندہ سے اس سے بات نہیں کرو گی۔ وہ تحکم بھرے لہجے میں بولا۔

کیوں۔۔۔۔۔۔؟ آپ ہوتے کون ہے مجھے منع کرنے والے، میں ان سے بات کروں یا نہ کروں۔ نریم غصے کی شدت سے بھڑک اٹھی۔
وہ تمہیں جلد پتہ چل جائے گا۔ میں کون ہوں، اور تمہارا لگتا کیا ہوں۔ ابھی فی الحال جو میں نے کہا ہے۔ اس پر عمل کرنا، اور ہاں اب تمہارا فون نہ بند جائے ورنہ میں تمہارے کالج فون کروں گا اَگے تم خود سمجھ دار ہو۔
آپ مجھے دھمکی دے رہے ہیں۔
جو بھی سمجھ لو، اچھا اب میں فون رکھ رہا ہوں۔ اوکے بائے۔
کال بند ہوتے ہی اس نے پریشانی سے اپنا سر دونوں ہاتھوں پر گرا لیا۔
          ♤        ♤        ♤
اچھا اب جاؤ اور خیر خیریت سے واپس آؤ۔ صائمہ نے ان دونوں پر کچھ پڑھ کر پھونکا، اور ان کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے بولی۔

رامیہ جو کافی دیر سے انہی کی طرف دیکھ رہی تھی، اور اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ آخر کار اسے برداشت نہیں ہوا تو وہ صائمہ کے گلے لگ کر رونے لگ پڑی۔
اسے اس طرح روتے دیکھ کر صائمہ اور اذان نے بےوقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ وہ اذان کے چہرے پر پریشانی کے تصورات باخوبی دیکھ سکتی تھی۔ کیونکہ ان کچھ دنوں میں وہ اذان کے دل کے  بہت قریب ہوگئی تھی۔ صرف اذان کے ہی کیا۔ اس نے تھوڑے ہی دنوں میں سب کے دل میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ پریشان تو صائمہ بھی ہو گئی تھی۔ اس لیے اسے اپنے سے الگ کر کے فکر مند لہجے میں اِستفسار کیا۔
رامیہ بیٹا کیا ہوا ؟ تم اس طرح کیوں رو رہی ہو ؟
اذان بھی پریشانی سے رامیہ کی طرف دیکھ رہا تھا، اور اس کے جواب کا منتظر تھا۔ اس نے جو جب سے وہ  خویلی آئی تھی، اسے ہنستے مسکراتے ہی دیکھا تھا۔ پتہ نہیں کیوں آج اسے اس طرح روتے دیکھ کر اسے اپنا دل کٹتا ہوا محسوس ہوا۔
کچھ نہیں آنٹی ماما کی یاد آ گئی تھی۔ جب بھی میں کہی جاتی تھی۔ وہ اسی طرح مجھ پر کچھ نہ کچھ پڑھ کر پھونکتی تھی۔ وہ اپنی وجہ سے ان سب کو پریشان دیکھ کر فوراً اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
رامیہ میں نے تمہیں سمجھایا تھا "نا" کہ تم ان کے لیے دعا کیا کرو۔ کہ اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں (آمین)۔ اور ویسے بھی میں بھی تو تمہاری ماما جیسی ہوں۔ ہم سب بھی تو تمہارے اپنے ہیں " نا" آئندہ سے تم کبھی بھی نہیں رؤں گی۔ صائمہ اسے اپنے ساتھ لگا کر پیار سے سمجھاتے ہوئے بولی۔
ماما بلکل ٹھیک کہہ رہی ہے گڑیا ہم تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے۔ چلو اب مسکرا کر دیکھاؤ۔ اذان اسے صائمہ سے الگ کر کے اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے بولا۔
رامیہ کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ رینگ گئی۔ وہ اتنی محبتیں پا کر خود پر ناز کر رہی تھی۔
یہ ہوئی نہ بات "ڈیٹس مائے لٹل سسٹر" اسے مسکراتے دیکھ کر اذان کو اپنے اندر سکون اُترتا ہوا محسوس ہوا، اور وہ اس کی ناک دباتے ہوئے بولا۔
اب بھائی بہن کا پیار ختم ہو گیا ہو تو چلے۔ مشعال ان کی طرف دیکھ کر مسکرا کر بولی۔
ارے رکو میں بھی ہوں۔ آپ لوگ مجھے کیسے چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔ عمیر بھاگتے ہوئے ان کے پاس آ کر بولا۔

آئیے آئیے آپ کو ہم کیسے چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔ آپ کو چھوڑ کر جانے کا مطلب خود کے پیر پر کلہاڑی مارنے کے برابر ہے۔ مشعال نے اس کی طرف دیکھ کر طنز کیا۔
اچھا اب یہ سب چھوڑو، جلدی چلو دیر ہو رہی ہیں۔ اذان ان کو بخس کرتے دیکھ کر فوراً بولا۔
اذان بھائی جان آپ سب گاڑی میں جا کر بیٹھے میں ابھی دادجی سے مل کر آئی۔
اچھا جاؤ لیکن جلدی آنا۔ اذان مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ اور وہاں سے چلا گیا۔
دادجی میں اندر آ جاؤں۔ رامیہ دادجی کے کمرے کا دروازہ کھول کر اپنا چہرہ اندر کرتے ہوئے بولی۔
رامیہ بیٹا تم، آؤ "نا" تم ابھی تک گئی نہیں ؟ میں تو سمجھا تھا تم اب تک چلی گئی ہو گی۔ دادجی اسے سامنے دیکھ کر خیرت سے بولے۔
آپ سے ملے بغیر کیسے جا سکتی تھی۔ آپ تو باہر مجھ سے ملنے بھی نہیں آئے۔ اس نے اندر آتے ہوئے شکوہ کیا۔
نہیں بیٹا ایسی بات نہیں ہے۔ ضوفیرہ مجھ سے ملنے آئی تھی۔ تو میں نے سمجھا اب تک تم لوگ چلے گے ہو گے۔ اس کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر دادجی نے فوراً وضاحت دی۔
یہ ہو سکتا ہے بھلا میں اپنے دادجی سے ملے بغیر چلی جاتی۔
رامیہ بیٹا تمہیں باہر اذان بلا رہا ہے۔ صائمہ کمرے میں آتے ہوئے بولی۔
اچھا دادجی اب میں چلتی ہوں۔ وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
آنٹی آپ اور دادجی بھى چلتے۔ کتنا مزہ آتا لیکن کوئی بات نہیں، مگر آپ لوگ مری تو آئے گے "نا"۔۔۔؟ اس نے پھر سے جاننا چاہا۔
ہاں ضرور، صائمہ نے مسکرا کر اس کے گال پر ہاتھ رکھا۔
اچھا اب جاؤ، وہ لوگ باہر تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ اس نے خوشی میں ہاں میں سر ہلایا، اور وہاں سے چلی گئی۔
         ♤       ♤       ♤
 رامیہ اور ضوفیرہ نے ان کچھ دنوں میں ان کے ساتھ اتنا انجوائے کیا تھا۔ کہ کوئی ایسی جگہ نہیں تھی۔ کہ جہاں اذان نے انہیں گمایا نہ ہو۔ رامیہ کو پاکستان اتنا پسند آیا تھا۔ کہ اندر ہی اندر اس کا یہاں سے جانے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ جبکہ اس کے بر عکس ضوفیرہ کا بس نہیں چل رہا تھا۔ آج ہی واپسی کی ٹکٹ کرواتی، اور یہاں سے چلی جاتی۔کیونکہ عمیر کی شرارتوں اور اس کی حرکتوں نے ضوفیرہ کو پریشان کر رکھا تھا۔ آج بھی رامیہ اسے زبردستی باہر لے کر آئی تھی۔ رامیہ کی خواہش پر اذان انہیں آج سی سائیڈ لے کر آیا تھا۔ کل انہیں مری کے لیے نکلنا تھا۔
تو پھر کیسا لگا، تمہیں پاکستان ؟ اذان اس کے ساتھ ہی ریت پر چلتے ہوئے بولا۔ ایک طرف اس نے مشعال کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ تو دوسری طرف رامیہ کا۔
بہت بہت زیادہ اچھا۔ رامیہ اپنا ہاتھ چھڑاتے خوشی سے جھومتے ہوئے بولی۔ اسے خوش دیکھ اذان اور مشعال کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔
اذان بھائی میں وہاں اَگے جا سکتی ہوں۔ اب وہ اذان کی طرف دیکھ کر سامنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔
جہاں پر کچھ بچے پانی میں کھیل رہے تھے، اور کچھ مٹی سے گھر بنا رہے تھے۔
لیکن گڑیا زیادہ دور مت جانا۔ اَگے پانی بہت گہرا ہے خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ اذان فکرمند لہجے میں اسے تنبہیہ کرتے ہوئے بولا۔
اذان بھائی جان آپ فکر مت کرے۔ میں زیادہ دور نہیں جاؤں گی۔ اس نے اطمینان دلایا۔
اچھا ٹھیک ہے جاؤ۔
رامیہ نے اجازت ملتے ہی جلدی سے اپنے جوتے اتارے، اور اپنی پینٹ کو نیچے سے فولڈ کیا۔ تاکہ گیلی نہ ہو، اور ننگے پاؤں ہی ریت پر چلتے ہوئے سامنے پانی کی طرف چلی گئی۔
ضوفیرہ آپی آپ یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہے ؟ افشال اس کے پاس آ کر بولی۔
ویسے ہی دل چاہ رہا تھا۔ ضوفیرہ جو ریت پر ننگے پاؤں بیٹھی سامنے لہروں کی طرف دیکھ رہی تھی۔
کہ افشال کے بلانے پر بولی۔ افشال بھی اس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔
افشال تم اپنے گاؤں سے اتنی دور شہر کے کالج میں کیوں پڑھتی ہو۔
ضوفیرہ آپی ہمارے گاؤں میں کوئی کالج نہیں ہے۔ میں اَگے پڑھنا چاہںتی تھی۔ تو خارب بھائی جان نے میرا ایڈمیشن شہر کے کالج میں کر دیا۔ اس نے وضاحت دی۔
"اوه۔۔۔۔۔۔۔اچھا" ضوفیرہ نے دوبارہ اپنا رُخ سمندر کی لہروں کی طرف کر لیا۔
ضوفیرہ آپی آئے اس مٹی پر چھوٹا سا گھر بناتے ہے۔ سچی بہت مزہ آئے گا۔ وہ لا ابالی پن سے بولی۔

یا شیور۔۔۔۔۔۔۔کیوں نہیں۔۔۔۔۔!
اے چھپکلی کیا کر رہی ہو۔ وہ دونوں جو مٹی پر گھر بنا رہی تھی۔ کہ عمیر ان کے پاس آ کر پیچھے سے افشال کے بال کھینچتے ہوئے بولا۔
آں ں۔۔۔۔۔۔۔۔۔عمیر بھائی جان میں چھپکلی نہیں ہوں۔ اس کے بال کھینچنے پر افشال نے درد کے مارے چیختے ہوئے اسے باور کرایا۔
پھر کیا ہو ؟ اب میں چھپکلی کو چھپکلی نہ بولوں تو کیا بولوں ؟
اب آپ نے مجھے چھپکلی کہا تو میں اذان بھائی جان کو آپ کی شکایت لگاؤں گی۔ افشال نے اسے وارن کیا۔ جبکہ ضوفیرہ مسلسل مٹی سے گھر بنانے میں مگن تھی۔
چھپکلی۔۔۔۔۔چھپکلی ایک دفعہ بار نہیں ہزار بار بولوں گا چھپکلی۔ اب کر لو جو کرنا ہے۔ عمیر نے اسے مزید چڑایا۔
میں ابھی جا کر اذان بھائی جان کو آپ کا بتاتی ہوں۔ افشال نے چڑتے ہوئے منہ بنایا اور وہاں سے چلی گئی۔
یہی تو چاہںتا تھا عمیر، کہ وہ یہاں سے چلی جائے اور اسے ضوفیرہ کے ساتھ ٹائم سپینڈ کرنے کا موقع مل سکے یا پھر اسے تنگ کرنے کا۔ آخر کار اس میں کامیاب بھی ہوگیا تھا۔
کیا کر رہی ہو ضوفی ؟ افشال کے جاتے ہی اب وہ ضوفیرہ کی طرف متوجہ ہو کر بولا۔
کیوں تمہیں نظر نہیں آ رہا۔ ضوفیرہ نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور طنزیہ لہجے میں جواب دیا۔
تمہارے چہرے سے ہماری نظریں ہںٹیں تو ہمیں کچھ اور نظر آئے "نا" عمیر اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے شوخ لہجے میں بولا۔
ضوفیرہ کو اس کی بات پر غصہ تو بہت آیا۔ لیکن وہ اسے نظرانداز کرتے ہوئے دوبارہ اپنے کام میں مگن ہو گی۔
اوہ تو گھر بنایا جا رہا ہے۔ تم فکر نہ کرو ہم ہمارا گھر بھی ایسا ہی بنوائے گے۔
ہمارے گھر سے کیا مطلب ہے آپ کا ؟ اور میں نے آپ کو کتنی دفعہ منع کیا ہے۔ مجھے ضوفی مت بلایا کرے۔ اس نام سے صرف میرے دوست مجھے بلاتے ہیں۔ وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں غصہ  لیے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔ ہوا کی وجہ سے کچھ لٹیں اس کے چہرے کو چھو رہی تھی۔ جو وہ ساتھ ساتھ اپنے مٹی والے ہاتھوں سے پیچھے کر رہی تھی۔
عمیر اس کا چہرہ دیکھ کر کھلکھلا کر ہنسا۔
اسے اس طرح ہنستے دیکھ کر ضوفیرہ کو اس کی ذہنی خالت پر شبعہ ہوا۔

عمیر نے ہنستے ہوئے اپنی پاکٹ سے رومال نکالا، اور اس کا چہرہ صاف کرنے ہی لگا تھا۔ کہ ضوفیرہ نے اس کا رومال والا ہاتھ اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر غصے سے جھٹک دیا۔ یہ وہی رومال تھا۔ جو اس دن اس نے ضوفیرہ کو آنسو صاف کرنے کے لیے دیا تھا۔
یہ کیا بدتمیزی ہے۔ وہ گھور کر بولی۔
ارے تمہارے چہرے پر مٹی لگی تھی۔ وہی صاف کر رہا تھا۔ بالکل چڑیل لگ رہی ہو۔ یہ لو خود کر لو۔ عمیر مائنڈ کیے بغیر شرارت سے بولا۔
کیا۔۔۔۔۔تم نے مجھے چڑیل کہا۔ وہ تپے ہوئے لہجے میں بولی۔

اچھا تم چڑیل نہیں تو پھر ڈین ہو کیا ؟ وہ چہرے پر چڑانے والی مسکراہٹ اور آنکھوں میں شرارت لیے بولا۔
ضوفیرہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔ لیکن وہ اس سے بخس نہیں کرنا چاہںتی تھی۔ اس لیے اسے نظر انداز کر کے اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کرنے لگی۔ لیکن ہاتھوں پر لگی مٹی نے اس کا چہرہ اور گندہ کر دیا تھا۔
ضوفی رومال لے لو تمہارے ہاتھوں پر لگی مٹی کی وجہ سے تمہارا چہرا اور گندہ ہو گیا ہے۔ اس نے بمشکل اپنا قہقہہ ضبط کرتے ہوئے ضوفیرہ کی طرف رومال بڑھایا۔
ضوفیرہ بے بسی سے ایک نظر رومال اور ایک نظر عمیر کی طرف دیکھا۔ جس نے ضوفیرہ کے دیکھنے پر فوراً چہرے پر سنجیدگی کا تبادلہ اڑھ لیا۔ جیسے اس جیسا معصوم اس دنیا میں کوئی بھی نہ ہو۔ ضوفیرہ نے مجبوراً اس کے ہاتھ سے رومال چھینا اور اپنا چہرہ صاف کرنے لگی۔
تھینک یو۔ صوفیرہ اس کا رومال واپس کرتے ہوئے لٹھ مار لہجے میں بولی۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا بولا تم نے ؟
میں نے ٹھیک سے سنا نہیں۔ عمیر اپنا کان اَگے کرتے ہوئے بولا۔
میں نے جو بولنا تھا سو بول دیا۔ بار بار نہیں بولوں گی۔ اس نے منہ پھیرا۔
ارے سو نہیں تھینک یو بولنا تھا۔ اب تم نے مجھے کنفیوژ کر دیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا۔ میں نے پہلے سخی سنا تھا یا پھر اب۔ عمیر اسے مسلسل زچ کرتے ہوئے بولا۔
میں نے سو نہیں بولا۔ ضوفیرہ غصے سے جنجھلاتے ہوئے منکر ہوئی۔
پہلے میں تمہیں پاگل سمجھتا تھا۔ لیکن آج یہ بھی پتہ چل گیا ہے۔ تم جھوٹی بھی ہو۔
نہ میں پاگل ہوں نہ میں جھوٹی ہوں۔ وہ اس کی بات پر تپی۔
چور چوری کر کے تھوڑی مانتا ہے۔ اس بار وہ مدھم لہجے میں بولا۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا کہا تم نے ؟ ایک بار پھر سے کہنا۔ضوفیرہ نے غصے سے دانت چباتے ہوئے اِستفسار کیا۔
میں نے کہا چور چوری کے کے تھوڑی مانتا ہے۔ عمیر نے بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسے چڑایا۔ جو وہ چڑ بھی گئی۔
کیا تم نے مجھے چور کہا ؟
اب تمہارے کان بھی کیا کمزور ہو گے ہیں۔ کہ میں تمہیں بار بار کہتا پھروں۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے چور کہنے کی۔ ضوفیرہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔
دیکھو پاگل اور جھوٹی تو تم پہلے سے ہی تھی۔ اب اگر تم چور بھی بن جاؤ گی کون سا بڑی بات ہے۔ اس کے غصے سے پھولے ہوئے منہ کو دیکھ کر عمیر من ہی من میں مسکرایا۔
میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ اس نے باور کرایا۔
اچھا تم نے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ عمیر نے بھی اس کی طرف دیکھا۔
نہیں بالکل بھی نہیں۔ وہ انکار میں سر ہلا کر منکر ہوئی۔
تم نے سو بولا کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ہا۔۔۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔ب۔۔۔۔۔۔بولا تھا۔۔۔۔۔ل۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔وہ بوکھلائی۔
اب لیکن ویکن کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی۔
اوکے۔۔۔۔۔۔۔میں مان لیتی ہوں۔ میں نے جھوٹ بولا۔ لیکن میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوہ خدا کا شکر ہے۔ تم نے مانا تو سخی۔ اس سے پہلے کے ضوفیرہ کچھ بولتی۔ عمیر اپنے دونوں ہاتھ منہ پر پھیرتے ہوئے بولا۔
لیکن میں نے تھینک یو بھی تو بولا تھا۔ اس کا بات کاٹنا ضوفیرہ کو سخت ناگوار گزرا۔ اس لیے سخت لہجے میں اسے باور کرایا۔
میں  نے ٹھیک سے سنا نہیں تھا۔ پتہ نہیں تم نے کب تھینک یو بولا تھا۔ وہ انجان بنا، لیکن اصل وجہ یہ تو یہ تھی۔ اسے تنگ کرتے ہوئے عمیر کو بہت مزہ آ رہا تھا۔
اب تم جھوٹ بول رہے ہو۔
میں نے کیا جھوٹ بولا ؟ اس نے اپنے کندھے اچکاتے ہوئے اِستفسار کیا۔
تم نے کہا، میں نے تمہیں تھینک یو نہیں بولا تھا۔ ضوفیرہ بھی اس کی طرف دیکھ کر دو ٹوک لہجے میں بولی۔
میں نے کب یہ بولا ؟
ابھی۔۔۔۔۔۔۔۔!
ابھی کب۔۔۔۔۔۔؟
ابھی تھوڑی دیر پہلے۔
چچ چچ کتنی بری بات ہے۔ اب تم پھر تم جھوٹ بول رہی ہو، اور الزام مجھ پر لگا رہی ہو۔ میں نے تمہیں بولا۔ کہ میں نے ٹھیک سے سنا نہیں تھا۔ کہ تم نے مجھے تھینک یو بولا کہ نہیں۔ عمیر بمشکل اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔
ہاں ہاں اتنے بھولے ہو "نا" تم۔ کہ تم نے ٹھیک سے سنا نہیں تھا۔ میں نے آہستہ تو بولا نہیں تھا۔ ضوفیرہ بھی طنز کے تیر چلاتے ہوئے سخت لہجے میں بولی۔
سچ میں ضوفی میں نے نہیں سنا تھا۔ وہ انجان بنا۔
اب ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔ اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتا پا کر ضوفیرہ جنجھلا کر بولی۔
یہی کہ تم کتنی پاگل ہو۔
کیا مطلب۔۔۔۔۔۔؟ وہ خیرت سے بولی۔
مجھے تم پر ترس آ رہا ہے۔
کیوں تمہیں مجھ پر ترس کیوں آ رہا ہے ؟ اس نے غصے سے دانت چبائے۔
پہلے میں سمجھا تھا۔ تم تھوڑی پاگل ہو۔ لیکن نہیں۔ تم تو پوری کی پوری پاگل ہو۔ اس کی آنکھوں میں شرارت بھری مسکراہٹ تھی۔
کیا تم نے پاگل پاگل کی رٹ لگا رکھی ہے۔ اگر تمہیں پاگل لوگ اتنے اتنا ہی پسند ہے۔ تو مینٹل ہاسپیٹل چلے جاؤ۔ وہاں تمہیں بہت زیادہ پاگل ملے گے۔ پھر انہیں کہتے رہںنا۔ "پاگل پاگل پاگل" اب کی بار ضوفیرہ غصے کی شدت سے بھڑک اٹھی تھی۔
لیکن پاگل تو تم بھی ہو۔
میں پاگل نہیں ہوں۔ وہ غصے سے دانت پیستے ہوئے بولی۔
پاگل انسان، خود کو تھوڑی پاگل کہتا ہے۔ ویسے تم فکر نہ کرو۔ میں بھی ایک ڈاکٹر ہوں۔ اگر تم چاہو تو مجھ سے اپنا علاج کروا سکتی ہو۔

 کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟ تم پاگلوں کے ڈاکٹر ہو۔ جو میرا علاج کرو گے۔وہ طنزیہ ہنسی سے بولی۔
پاگلوں کا ڈاکٹر تو نہیں ہوں۔ لیکن تمہارا علاج میں ہی کر سکتا ہوں۔ وہ مخصوص مسکراہٹ سے بولا۔
نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم سب سے پہلے اپنے دماغ کا علاج کرو۔ تو وہی بہتر ہے۔
میرے دماغ کا علاج صرف ایک ہی ڈاکٹر کر سکتی ہے۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر معنی خیز لہجے میں بولا۔
کون ہے وہ ؟ ضوفیرہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ وہ خود نہ سمجھ سکی۔ کہ وہ کیوں جاننا چاہںتی تھی۔
تم۔۔۔۔۔؟ اس کے جواب دینے پر وہ بوکھلائی۔
م۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔میں کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟ میں کوئی ڈاکٹر نہیں ہوں۔
تو بن جاؤ۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟ ضوفیرہ کو اب واقع اس کی ذہںنی خالت پر شبع ہو رہا تھا۔
میرے لیے۔۔۔۔۔
تمہارے لیے کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟
کیونکہ میں چاہںتا ہوں۔
اور تم ایسا کیوں چاہںتے ہو۔ ضوفیرہ نے دانت پیستے ہوئے پوچھا۔
تاکہ تم میرا علاج کر سکو۔ اس نے بھی مسکراتے ہوئے فوراً جواب دیا۔
اوں۔۔۔۔۔۔۔ں تو تم چاہںتے ہو۔ میں ڈاکٹر اس لیے بنوں۔ تاکہ صرف تمہارا علاج کر سکوں۔ اس نے سوالیہ نظروں سے عمیر کی طرف دیکھ کر اِستفسار کیا۔
ہاں تو اس میں خرج ہی کیا ہے۔ اس نے کندھے اچکائے۔
پہلی بات، میں ڈاکٹر ہوتی بھی تو تمہارا علاج کبھی نہ کرتی۔ دوسری بات میں ڈاکٹر نہیں بننا چاہںتی۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
میری مرضی۔۔۔۔۔۔۔ ضوفیرہ نے خیران نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر جواب دیا۔ جو ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گیا تھا۔
مگر ہر دفعہ تو تمہاری مرضی نہیں چل سکتی۔ وہ استہزایہ سی مسکراہٹ لبوں پر پھیلا کر بولا۔
میں اپنی مرضی کی مالک ہوں۔ کوئی مجھ پر اپنی مرضی تھوپ نہیں سکتا، اور ویسے بھی مجھے ڈاکٹر کی جاب میں کوئی انڑسٹ نہیں۔ ضوفیرہ اس کی طرف دیکھ کر اٹل لہجے میں اسے باور کراتے ہوئے بولی۔
لیکن ڈاکٹر والے میں تو ہے "نا"، اس نے آنکھ ونک کی۔
کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ ایک دم بوکھلائی۔
مطلب تم اچھی طرح جانتی ہو۔ اب جان بوجھ کر انجان بنو تو اور بات ہے۔ وہ معنی خیز لہجے میں بولا۔ جبکہ ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ رقصاں تھی۔
دماغ ٹھیک ہے تمہارا۔ ضوفیرہ نے خفگی سے اس کی طرف دیکھا۔
دماغ ہی تو درست نہیں۔
تو پھر جاکر اپنے دماغ کا علاج کروائیے۔
وہی تو کروانا چاہںتا ہوں۔ وہ ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے تھوڑا جھک کے بولا۔
میں نے تو اسے کچھ کہا بھی نہیں ہے ۔ کیوں جب سے میں آئی ہوں، ہاتھ دھو کر میرے پیچھے ہی پڑھ گیا ہے۔ کتنا بڑا بدتمیز اور فلرٹی ہے۔ ضوفیرہ نے اس کی طرف دیکھ کر دل ہی دل میں سوچا۔ آج اسے پتہ نہیں کیوں عمیر کی نظروں اور باتوں سے خوف آ رہا تھا۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔ مجھے پتہ ہے، میں ہینڈسم لگ رہا ہوں۔ لیکن اب کیا نظر لگانے کا ارادہ ہے۔ اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ شوخ لہجے میں بولا۔
اگر اب تم یہاں سے اٹھ کر نہ گئے تو میں ابھی جا کر تمہارا اذان بھائی جان کو بتاؤں گی۔ اسے مزید برداشت کرنا دشوار ہوا تو اس نے عمیر کو دھمکی دی۔
 سب ہر وقت مجھے ازان بھائی جان کے نام سے ڈراتے کیوں رہںتے ہیں۔ عمیر منہ بنا کر بولا۔
اچھا تو تم نہیں جاؤ گے۔ ٹھیک ہے پھر میں ہی اٹھ کر چلی جاتی ہوں۔
ایک منٹ رکو، جا رہا ہوں میں۔ لیکن میری ایک شرط ہے۔ اسے کھڑے ہوتے دیکھ کر عمیر اس کا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ بیٹھاتے ہوئے بولا۔
وہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ضوفیرہ نے فوراً اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے پوچھا۔
وہ یہ کہ تمہیں مجھ سے دوستی کرنی ہو گی۔
سوری میں تم سے دوستی نہیں کر سکتی۔ وہ فوراً انکاری ہوئی۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
کیونکہ میں تم سے دوستی نہیں کرنا چاہںتی۔
چلو دوستی نہ سخی شادی تو کر سکتی ہو۔ عمیر کی بات پر اس نے ایک دم اپنی آنکھیں بڑی کر کے اس کی طرف دیکھا۔ شرم کے مارے اس کے گال سرخ ہو گے تھے۔
میں مذاق کر رہا تھا۔ ایم جسٹ کیڈینگ۔ اس کا زدر اور شرم سے سرخ چہرہ دیکھ کر عمیر کھلکھلا کر ہنسا۔
ویسے تم نے کیا سمجھا تھا۔ وہ بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتے تھوڑا جھک کر بولا تھا۔
بھاڑ میں جاؤ تم۔ ضوفیرہ غصے سے اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔
اوہ عمیر اَگے جا کر تمہارا کیا بنے گا۔ عمیر اسے جاتے دیکھ کر پیچھے سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
           ♤         ♤       ♤
اذان مشعال کے ساتھ باتوں میں مگن تھا۔ کہ اچانک اس کی نظر سامنے سمندر کی لہروں اور رامیہ پر پڑی تھی۔ جو اردگرد سے بے نیاز اَگے چلی جا رہی تھی۔ اذان کو ایسا محسوس ہوا، جلد ہی یہ لہرے رامیہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی، اور بچپن کی طرح اس بار بھی اس کی گڑیا اس سے دور ہو جائے گی اور وہ کچھ نہیں کر پائے گا۔
اس سے پہلے کہ وہ لہرے رامیہ کو اپنی لپیٹ میں لیتی۔ اذان فوراً بھاگتے ہوئے وہاں پہنچا اور رامیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا۔
گڑیا تم ٹھیک ہو۔ اذان پیار سے اس کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے پریشانی سے بولا، اور پھر ان لہروں کو دیکھا۔ جو اب ان کے قدم چومتے ہوئے پیچھے چلی گئی تھی۔
اتنے دیر میں مشعال بھی وہاں آگئی۔ وہ اذان کے چہرے پر خوف واضع محسوس کر سکتی تھی۔
  رامیہ جو ابھی بھی گبھرائی ہوئی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ آخر اس کے ساتھ ہوا کیا تھا۔ اس نے اذان کی نظروں کی سمت دیکھا۔ تو اسے ساری بات سمجھ آ گئی تھی۔
ایم سوری اذان بھائی جان، مجھے یہ جگہ اتنی پسند آئی۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ میں کیسے اتنی اگے چلی آئی۔ سوری اَگین، وہ شرمندہ ہوئی۔
کوئی بات نہیں گڑیا، تم ٹھیک ہو۔ میرے لیے یہی کافی ہے۔ اپنا خیال رکھا کرو۔ آئندہ میں یہ کوتاہی کبھی معاف نہیں کروں گا۔ اذان نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے ساتھ اسے وارن بھی کیا۔
رامی تم ٹھیک ہو۔ ضوفیرہ اس کے پاس آ کر اسے پریشانی سے گلے لگاتے ہوئے بولی۔
ہاں ضوفی میں ٹھیک ہوں۔ وہ اسے اپنے سے الگ کر کے وه مسکرا کر بولی۔
چلیں اب ہمیں گھر چلنا چاہںیے ویسے بھی کافی ٹائم ہو گیا ہے۔ اذان گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے بولا۔
مگر اذان بھائی جان آپ نے کہا تھا۔ ہم اس کے بعد شاپنگ پر جائیں گے پلیز۔
اچھا ٹھیک ہے۔ وہ اتنی معصومیت سے بولی کہ اذان اسے انکار نہیں کر سکا۔


اسلام علیکم ! ریڈرز یہ رہی میری آج کی ایپیسوڈ🤗 امید ہے۔ آپ سب لوگوں کو پسند آئے گی۔ پلیز کمینٹ میں ضرور بتائیے گا😁۔ مجھے پتہ ہے یہ ایپیسوڈ تھوڑی لیٹ دی۔ سوری میں تھوڑا بزی تھی۔ لیکن آئندہ میری پوری کوشش ہو گی جلدی دینے کی😍۔ لیکن پھر مجھے میری ایپیسوڈ پر رسپونس بھی اچھا ملنا چاہںیے🤭۔اور پلیز پلیز میرے بلاگ کو فالو اور نیچے👇🏻👇🏻 دئیے ہوئے میرے چینل کو سبسکرائب، لائک اور شئیر ضرور کیجئیے گا😁۔


Posta un commento

1 Commenti

  1. Very nice episode and amazing fantastic episode👌🏻❣👍🏻👍🏻

    RispondiElimina

Commento

Parvish novel

PARIVISH Episode 31 (پری وش)