Advertisement

Adbox

PARIVISH Episode 31 (پری وش)

               Parivish 

               (پری وش) 

# Novel by Parivish

# Writer; Aima Ashfaq

# Family, Funny Innocent herion, Rude hero based novel

# Please Don't Copy Paste My Novel

# Episode 31:

رامیہ میں آخری بار پوچھ رہا ہوں, تم دوائی لگواؤ گی کہ نہیں۔ اس بار وہ اس کی طرف بغور دیکھتے ہوئے ہنوز سنجیدگی سے بولا۔
اُوں تو تم ایسے نہیں مانو گی, ٹھیک ہے مت مانو۔ اب تم خود مجھے زبردستی کرنے پر مجبور کر رہی ہو۔ کافی دیر سے اس کا جواب نہ پا کر وہ سرد لہجے میں بولا۔
خارب نے اس کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی سکارف چھڑوایا, اور دوسرے ہاتھ سے سکارف اتار کر سامنے ڈیش بورڈ پر رکھ دیا, جبکہ رامیہ نے باقاعدہ رونا شروع کر دیا, اور مسلسل اپنے آپ کو چھڑانے کی مزاحمت کر رہی تھی۔
,چھوڑو مجھے, میں نے کہا "نا" مجھے دوائی نہیں لگوانی۔ میں دادجی کو تمہارا بتاؤنگی۔ وہ روتے ہوئے اسے دھمکی دیتے ہوئے بولی۔
چُپ ایک دم چُپ۔۔۔۔۔۔۔اب تم ذرہ بھی ہلی "نا"۔ تو الٹے ہاتھ کی ایک لگاؤں گا۔ اس کی مزاحمت پر وہ منہ پر انگلی رکھ کر سُرخ آنکھیں لیے غصے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ اس نے فوراً سہم کر اپنی آنکھیں میچیں۔ جبکہ آنسوؤں کا سیلاب اب بھی جاری تھا۔
                                                *****************
میں نے کتنا غلط کیا نمی کے ساتھ, وہ میرے اس رویے سے کتنا ہرٹ ہوئی ہو گی۔
نہیں نہیں یہ میں کیا سوچ رہی ہوں, اس کی بھی تو غلطی تھی۔ کیا ضرورت تھی عمیر کی بات ماننے کی۔ جب اسے پتہ تھا میں اس سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔
ہاں ضوفی اس کی غلطی تھی لیکن اتنی بھی بڑی غلطی نہیں تھی۔ جتنی بڑی تو نے اسے سزا دے دی۔ تجھے پتہ ہے "نا" وہ تجھ سے بات کیے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتی, اور تو رات سے اسے اگنور کر رہی ہے۔ اس نے تو کتنی بار تم سے سوری بولا۔ وہ لائبریری میں کتاب کھولے بیٹھی مسلسل نریم کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔ خود سے ہی سوال کرتے اور خود سے ہی جواب دیتے, پتہ نہیں اور کتنی دیر وہ انہی سب سوچوں میں مگن رہتی کہ موبائل کی رنگ کی آواز پر وہ چونکی, اور بنا دیکھے ہی موبائل اُٹھا کر کان سے لگایا۔
ہیلو ! اسلام علیکم جی کون ؟
وعلیکم اسلام, میں آپ کا پیار عمیر بات کر رہا ہوں۔ دوسری طرف لہجہ شوخ بھرا تھا۔ جبکہ ضوفیرہ جو پہلے ہی بہت غصے میں تھی۔ کہ اس کی آواز سُن کر اس کا غصہ مزید بڑھا تھا۔
ضوفی کال اُٹھانے سے پہلے دیکھ تو لیتی, کس کی کال ہے۔ اب اس کی پٹر پٹر پھر سے شروع ہو جائے گی۔ وہ اپنی عقل پر ماتم کرتی خود سے بڑبڑائی۔
ارے ہیلو!  کہاں کھو گئی, کہیں میرے خیالوں میں تو نہیں۔ دوسری طرف وہ خاموشی محسوس کر کے شریر لہجے میں بولا۔ پتہ نہیں کیوں لیکن وہ جب بھی اسے کال کرتا تھا۔ اسے تنگ کر کے اسے بڑا مزہ آتا تھا۔
دیکھو عمیر میں پہلے ہی بہت ڈسٹرب ہوں۔ پلیز مجھے تنگ مت کرو۔ وہ مدھم لہجے میں التجا کرتے ہوئے بولی, اور ساتھ ہی ٹیبل سے اپنی چیزیں سمیٹ کر اپنا بیگ اُٹھا کر لائبریری سے باہر چلی گئی۔
اُوں تو ضوفیرہ میڈم ڈسٹرب ہیں جبکہ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے۔ دوسروں کو تکلیف پہنچا کر آپ تو ویسے بھی خوشی محسوس کرتی ہیں۔ دوسری طرف وہ اس کا طنزیہ لہجے بخوبی سمجھ گئی تھی۔
کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ میں نے کس کو تکلیف پہنچائی, وہ آنکھوں میں حیرانگی لیے فوراً رکی۔
میری بہن کو......
بہن کو, لیکن میری افشال سے تو کافی دن سے بات نہیں ہوئی, اور ویسے بھی میں اسے کیوں تکلیف پہنچاؤں گی۔ وہ ناسمجھی سے بولی۔
میں افشال کی نہیں نریم کی بات کر رہا ہوں۔ اس نے باور کرایا۔
اُوں میں تو بھول ہی گئی, رات کو ہی تو اس نے تمہیں اپنا بھائی بنایا تھا, اور آج میری شکایت بھی لگا دی۔ وہ طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے بولی, اور دوبارہ چل پڑی۔
ضوفی اتنی غلط فہمیاں بھی مت پالو, کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔ تم نے آج بہت غلط کیا نریم کے ساتھ, تمہیں قدر کرنی چاہیے ایسی دوست کی جو تم سے اتنی محبت کرتی ہے۔ اسے تمہاری اتنی پرواہ ہے کہ تمہاری زرہ سی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتی۔ رات سے وہ تم سے معافیاں مانگ رہی ہے۔ لیکن تمہیں کیا, تمہیں اپنی ایگو اور انا اتنی پیاری ہے کہ تمہیں کسی کی خوشیوں کی خاک پرواہ۔ تم تو اپنی دنیا میں مگن ہو۔ مس ضوفیرہ مبارک ہو آپ کو اپنی خوشیاں۔ عمیر کو جب سے نریم نے بتایا تھا۔ کہ ضوفیرہ رات سے اسے اگنور کر رہی ہے۔ معافی مانگنے پر بھی اس سے بات نہیں کر رہی۔تو اسے غصہ تو بہت آیا تھا۔ لیکن اس وقت چپ کر گیا تھا۔ اب ضوفیرہ سے بات کرنے پر جو کچھ اس کے منہ میں آیا بولتا چلا گیا۔ یہ جانے بغیر کہ اس کے یہ الفاظ اگلے کے دل میں کسی تیر کی طرح پیوست ہو رہے تھے۔
وہ سن کھڑی رہ گئی, آنکھوں سے آنسو کب سے اس کا چہرہ بگھو رہے تھے۔ کال تو وہ کب کی کاٹ چکی تھی۔

لیکن عمیر کے الفاظ اب بھی اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ وہ گھٹنوں کے بَل نیچے زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
ہاں میں بُری ہوں, بہت بُری ہوں۔ اس لیے تو میری مما مجھے اس دنیا میں اکیلا چھوڑ کر چلی گئیں۔ میں بُری ہی تو تھی جو پیدا ہوتے ہی اپنی مما کو کھا گئی۔ میری وجہ سے تو آج مما دنیا میں نہیں, اور ڈیڈ" ڈیڈ نے تو مجھے اپنے ساتھ رکھنا بھی مناسب نہیں سمجھا. میں بری ہی تھی, اور رہی خوشیوں کی بات وہ تو جیسے مجھ سے روٹھ ہی گئیں ہیں۔ میری زندگی میں تو خوشیوں کا کوئی نام و نشان بھی نہیں ہے۔ صحیح کہتا ہے عمیر جن لوگوں کو میری خوشیاں عزیز ہیں مجھے ان کی کوئی پرواہ نہیں۔ میں بہت بری ہوں۔ اتنی بری ہوں کہ سب کو مجھ سے نفرت کرنی چاہیے۔ جیسے ڈیڈ مجھ سے کرتے تھے۔ میں پیار کے نہیں نفرت کے قابل ہوں۔ وہ سنسان جگہ پر نیچے بیٹھتی ہزیاتی انداز میں روتے ہوئے چیخ رہی تھی۔ لیکن وہاں اس کا کوئی اپنا کوئی ہمدرد نہیں تھا۔ جو اسے تسلیاں دیتا۔ اسے چپ کراتا اپنے ہونے کا احساس دلاتا۔ بس وہ تھی اور اس کی تنہائی۔ آج ایک بار پھر وہ ٹوٹ گئی تھی۔ یا کبھی وہ اپنے درد بھرے بچپن سے نکلی ہی نہیں تھی۔ جب جب اس کے ڈیڈ اسے دھتکارتے تھے۔ اس سے نفرت کرتے تھے۔ وہ ابھی بھی اپنے اسی بچپن کی یادوں میں کھڑی تھی۔
                                                ******************
خارب نے پہلے روئی سے اس کا زخم صاف کیا پھر دوائی لگا کر چھوٹی سی بینڈیج کر دی۔ اپنے کام سے فارغ ہو کر جونہی وہ سیدھا ہو کر بیٹھا ایک نظر اس دشمں جاں کو دیکھا تو ایک پَل کے لیے مبہوت رہ گیا۔ دونوں ہاتھوں کی مُٹھیاں اور آنکھیں میچیں, ہونٹوں کو دانتوں میں دبائے شاید وہ درد برداشت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو متواتر گالوں پر بہہ رہے تھے۔ رونے کی وجہ سے سفید چہرہ سُرخی لیے ہوئے تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر خارب کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ درد اسے ہو رہا تھا لیکن اسے کہیں زیادہ تکلیف خارب کو ہو رہی تھی۔
نہیں چھوڑونگا رامیہ میں انہیں جن کی وجہ سے تمہیں اتنی تکلیف برداشت کرنی پڑھ رہی ہے۔ ان کی وہ حالت کرونگا وہ موت مانگیں گے انہیں موت نصیب نہیں ہو گی۔ وہ ہاتھ بڑھا کر اپنے ہاتھ کی پوروں سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا, لیکن آخری الفاظ اس نے غصے سے دانت چباتے ہوئے کہے تھے۔
اس کی اس حرکت پر رامیہ نے فوراً اپنی آنکھیں کھولیں, نظروں کا تصادم ہوا۔ لیکن جلد ہی اس نے اپنی نظروں کا زاویہ بدل لیا۔ شاید یہ اس کی ناراضگی کا اظہار تھا۔ اس نے بھی ایک خاموش نظر اس پر ڈال کر کار سٹارٹ کر کے آگے بڑھا دی۔
                                                **************
نریم جو بیڈ پر لیٹی آنسو بہا رہی تھی۔ کہ اسے دروازہ کھولنے اور بند ہونے کی آواز آئی۔ وہ اچھے سے جانتی تھی آنے والی ہستی کون ہو گی۔ اس لیے اس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے اور آنکھیں موندھ لیں۔ ابھی اسے اپنی آنکھیں موندھے تھوڑی ہی دیر گزری تھی۔ کہ اس کے کانوں میں کسی کے رونے کی آواز گونجی۔
یہ تو ضوفی کے رونے کی آواز ہے کہیں ضوفی۔۔۔۔۔۔۔۔یہ خیال آتے ہی وہ یک لخت بیڈ سے اُٹھی اور بھاگتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر آئی۔ لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر وہ وہی ساکت رہ گئی۔
ضوفیرہ سامنے صوفے پر بیٹھی دونوں ٹانگیں سمیٹے ان کے اِردگِرد ہاتھ لپیٹے, تھوڑی گھٹنوں پر رکھے اونچی اونچی آواز سے رؤ رہی تھی۔ اسے اس طرح روتے دیکھ کر نریم کے دل کو کچھ ہوا, اس لیے فوراً اس کی طرف لپکی۔
ضوفی۔۔۔۔۔۔۔ضوفی کیا ہوا میری جان, تم اس طرح کیوں رؤ رہی ہو۔ کسی نے کچھ کہا ہے کیا ؟ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے تھوڑی سے اس کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے بولی۔ جبکہ اس نے خالی خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
نمی کیا میں بہت بُری ہوں, اس نے بولا بھی تو کیا بولا تھا۔ لیکن اس کے ان الفاظ پر نریم دنگ رہ گئی تھی۔اس کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ کیونکہ اس کی آواز میں وہ درد واضح محسوس کر سکتی تھی۔
بولو "نا"نمی کیا میں بہت بُری ہوں۔ اسے کچھ نہ بولتے دیکھ کر وہ اسے ہلا کر دوبارہ گویا ہوئی۔
نہیں میری جان تم ایسے کیوں کہہ رہی ہو, تم بہت اچھی ہو۔ وہ جو حیرانی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ کہ اس کے ہلانے پر فوراً ہوش میں آتے ہوئے بولی۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔جھوٹ۔۔۔۔۔۔۔بالکل جھوٹ وہ اس کے ہاتھ جھٹکتے ایک دم سے چیخی۔

تم جھوٹ بول رہی ہو, میں بہت بُری ہوں۔ اس لیے مما اور ڈیڈ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ میں بہت بری ہوں اس لیے اکیلی اور تنہا ہوں۔ میں بری۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جو ہزیاتی انداز میں مسلسل روتے ہوئے چیخ رہی تھی۔ کہ نریم نے فوراً اس کے منہ پر انگلی رکھ کر اسے کچھ بھی کہنے سے منع کیا۔
ضوفی بس۔۔۔۔۔۔۔اب اور نہیں۔ پلیز ایسا مت کہو۔ اس کی باتیں اور اس طرح روتے دیکھ کر اس کی بھی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں۔ اس نے فوراً اس کے منہ پر انگلی رکھ کر التجا کی۔
نہیں نمی آج نہیں, آج مجھے بولنے دو۔ وہ اپنے منہ سے اس کی انگلی ہٹا کر روندھی ہوئی آواز میں بولی۔
نمی ایم رئیلی سوری میں نے تمہیں ہرٹ کیا۔ یہ کہتے اس کی آنکھیں دوبارہ پانیوں سے بھیگ گئیں تھیں۔
نہیں ضوفی ایسی کوئی بات نہیں, تم کیوں ایسا سوچ رہی ہو۔ وہ اس کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر انکار میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔ جبکہ آنکھیں تو اس کی بھی آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ اپنی جان سے پیاری دوست کو اس طرح دیکھ کر۔
نہیں ایسی ہی بات ہے میں بہت بُری ہوں۔ نمی تمہیں پتہ ہے میں ہی وہ لڑکی ہوں جس کے پیدا ہونے پر اس کی ماں اس دنیا میں نہیں رہی۔ میں اپنی مما کی قاتل تھی ڈیڈ ہمیشہ مجھے کہتے تھے۔ میں اپنی مما کی قاتل ہوں۔ انہوں نے ہمیشہ مجھے خود سے دور رکھا, اور ایک دن مجھے اتنا دور بھیج دیا۔ تاکہ وہ کبھی میرا چہرہ ہی نہ دیکھ سکیں۔ نمی میں بہت روئی تھی کہ ڈیڈ مجھے خود سے دور نہ کریں۔ بہت تڑپی تھی نمی۔ لیکن انہوں مجھے کسی کوڑھے کی طرح پھینک دیا۔ نمی عمیر پاگل ہے میں کسی کی پسند کیسے بن سکتی ہوں۔ وہ مجھ سے محبت کیسے کر سکتا ہے۔ جبکہ میں تو شروع سےہی نفرت کے لیے بنی ہوں۔ مجھے پتہ ہے ایک دن وہ بھی مجھے چھوڑ دے گا۔ جیسے ڈیڈ نے چھوڑا تھا۔ لیکن میں ایسا ہونے سے پہلے ہی یہاں آ گئی۔ نمی میں ڈیڈ کو بہت مس کرتی ہوں۔ وہ مجھ سے محبت کیوں نہیں کرتے تھے۔ مجھے پیار سے گلے کیوں نہیں لگاتے تھے۔ کاش وہ ایک دفعہ ہی مجھے اپنے سینے سے لگا کر پیشانی پر پیار بھرا بوسہ دے کر کہتے۔ ضوفیرہ بیٹا تمہارے ڈیڈ ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں۔ لیکن نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ وہ تو اس سے پہلے ہی مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ کیوں نمی وہ کیوں چلے گئے۔ وہ نریم کے گلے لگ کر پوری شدت سے رؤ رہی تھی, کافی سالوں سے چھپا درد آج نریم سے بیان کر رہی تھی۔ وہ آج ایک دفعہ پھر ٹوٹ گئی تھی۔ اس کی باتوں سے نریم کو اپنا دل پھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا وہ اوپر سے خوش رہنے والی لڑکی اپنے اندر کتنا درد چھپائے بیٹھی تھی۔ اپنی جان سے پیاری دوست کے غم نے اسے بھی رُلا دیا تھا۔ رونے سے اس کے منہ سے بھی آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔ کہ وہ اپنی دوست کو تسلی دے سکتی۔ لیکن اس کے ہاتھ باقاعدہ اس کی کمر کو سہلا رہے تھے۔
نمی تمہیں پتہ ہے تم بہت اچھی ہو,اتنی اچھی ہو کہ تمہیں اندازہ بھی نہیں۔ تم ایسا کرو, تم مجھے چھوڑ دو, توڑ دو میرے سے دوستی۔ وہ کچھ سوچتے فوراً اس سےالگ ہوتے ہوئے بولی۔ جبکہ اس کے لفظوں سے نریم کو جھٹکا لگا تھا۔ اس کے آنسو فوراً تھمے تھے۔
دماغ ٹھیک ہے تمہارا ضوفی, تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تم کہہ کیا رہی ہو۔ وہ چہرے پر غصے کے تصورات لیے سخت لہجے میں بولی۔
ہاں مجھے پتہ ہے میں کیا کہہ رہی ہوں۔ اسی میں تمہاری بہتری ہے۔ وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔
تم ہوتی کون ہو, یہ ڈسائیڈ کرنے والی, میری بہتری کس میں ہے اور کس میں نہیں۔ جبکہ وہ آگے سے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں گِرائے پھر سے رونے لگ گئی۔ اس کی حالت دیکھ کر نریم کا غصہ دوبارہ جاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اس نے یک لخت اسے اپنے ساتھ لگایا۔
ضوفی پلیز چُپ کر جاؤ, تمہارے اس طرح رونے سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔ وہ بے بسی سے اس کے بال سہلاتے ہوئے بولی۔
نمی اس نے ٹھیک کہا تھا میں تمہاری دوستی کے قابل نہیں ہوں۔ اس کی بات سُن کر وہ ایک پَل کے لیے چونکی تھی۔
تو اس کا مطلب جو میں سوچ رہی تھی وہ ٹھیک سوچ رہی تھی۔ ضرور کسی نے ضوفی سے کچھ کہا ہے کہ وہ ایسے ری ایکٹ کر رہی ہے۔ مگر کون۔۔۔۔۔۔۔؟ کون ہو سکتا ہے وہ ؟ وہ دل ہی دل میں خود سے محاطب ہوئی۔ لیکن ابھی ضوفیرہ ایسی پوزیشن میں نہیں تھی کہ وہ کوئی بھی سوال کرتی اس لیے چپ رہی۔
                                          ******************
حویلی پہنچتے ہی وہ بنا خارب کی طرف دیکھے اپنی طرف کا دروازہ کھول کر گاڑی سے اتری اور بھاگتے ہوئے اندرونی حصے کی جانب بڑھی۔

اندر آتے ہی اس سے پہلے وہ بھاگتے ہوئے زینے عبور کرتی کہ صائمہ کی آواز پر وہ فوراً رکی۔
رامیہ تم لوگ آ گئے۔۔۔۔۔؟ وہ کمرے سے نکلی تو سامنے سیڑھیوں کے پاس رامیہ کو دیکھ کر وہ فوراً بولیں اور اس کی طرف بڑھی۔ جبکہ رامیہ نے فوراً اپنے آنسو صاف کیے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کر پیچھے مُڑی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس کے چہرے سے کچھ بھی اخذ کر کے پریشان ہو جاتیں۔ لیکن وہ کیا جانتی تھی وہ بھی ایک ماں تھیں بیشک صائمہ کو نہیں پتہ تھا کہ وہی اس کی بیٹی۔ لیکن بچہ تکلیف میں ہو, تو ماں کے دل کو تو پہلے ہی خبر ہو جاتی ہے۔
آنٹی آپ ابھی تک جاگ رہی ہیں۔ وہ زبردستی مسکراتے ہوئے بولی۔
ہاں بس تم لوگوں کا ہی انتظار کر رہی تھی۔ پتہ نہیں میرا دل بہت گبھرا رہا تھا تم لوگوں کا سوچ سوچ کر رات بھی کافی ہو گئ ہے "نا" اور اوپر سے تم لوگ ابھی تک حویلی نہیں آئے تھے۔ رامیہ بیٹا تم ٹھیک ہو "نا" ؟ وہ سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔ ان کے چہرے پر پریشانی کی صاف جھلک نظر آ رہی تھی۔
آنٹی ہم بالکل ٹھیک ہیں آپ پریشان نہ ہوں۔ وہ ان کے ہاتھ پکڑ کر انہیں تسلی دیتے ہوئے بولی۔
اچھا ٹھیک ہے رامیہ بیٹا اب تم بھی جا کر آرام کرو۔ بہت تھک گئی ہو گی۔ اس کے چہرے پر تھکن کے تصورات دیکھ کر وہ مسکرا کر بولیں۔ کیونکہ وہ اپنی وجہ سے اسے پرہشان نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن پتہ نہیں کیوں ابھی بھی ان کا دل مئطمن نہیں تھا۔
اوکے آنٹی گڈ نائٹ وہ مسکراتے ہوئے بولی اور فوراً زینے عبور کرتے اوپر چلی گئی۔ جبکہ صائمہ آگے سے پھیکی سی مسکراہٹ سے مسکرا دیں۔
                                            ****************
کمرے میں آتے ہی وہ اوندھے منہ بیڈ پر گِرتے رونے لگ پڑی تھی۔ وہ جو کافی دیر سے اپنے آنسوؤں پر بندھ باندھے ہوئے تھی اب پلکوں کی باڑ توڑتے دوبارہ بہہ نکلے تھے۔ اسے درد اس بات پر نہیں ہو رہا تھا کہ اسے چوٹ لگی تھی بلکہ اسے تو درد اس بات پر ہو رہا تھا کہ وہ خارب سے محبت کرنے کا گناہ کر بیٹھی تھی۔ جو اس کا کبھی تھا ہی نہیں کسی اور کی امانت تھا۔ خارب سے تو اس نے گاڑی میں چھوٹا سا درد کا جھوٹ بولا تھا۔ اصل وجہ تو یہ تھی کہ وہ اسے دور رہنا چاہتی تھی۔ تاکہ وہ اس کے قریب نہ آئے, اسے اور امتحان اور آزمائش میں نہ ڈالے۔ وہ تو پہلے ہی اس کی محبت کی پور پور میں ڈوبی ہوئی تھی۔ رات بھر وہ اضطرابی کیفیت میں رہی, پھر ناجانے کب نیند اس پر مہربان ہوئی۔ کہ وہ نیند کی وادیوں میں اترتی چلی گئی۔
صبح سورج کی روشنی آنکھوں پر پڑھنے سے وہ کسملندی سے اُٹھی۔ تو سائیڈ ٹیبل سے موبائل اُٹھا کر دیکھا۔ تو صبح کے دس بج رہے تھے۔
اُفف میں اتنی دیر کیسے سوتی رہی, ٹائم دیکھتے ہی وہ پوری آنکھیں کھول کر ایک جھٹکے سے اُٹھ کر بیٹھی۔ اس سے پہلے وہ بیڈ سے اُٹھ کر واش روم میں بھاگتی کہ صائمہ کو اپنے کمرے میں آتے دیکھ کر رُک گئی۔ لیکن یک لخت اس نے اپنا دوپٹہ اُٹھا کر گردن پر لپیٹا۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ صائمہ اس کا زخم دیکھ کر پریشان ہو جاتیں۔

جاری ہے


 


               






Posta un commento

0 Commenti

Parvish novel

PARIVISH Episode 31 (پری وش)