Parivish
(پری وش)
# Novel by Parivish
# Writer; Aima Ashfaq
# Family, Funny Innocent herion, Rude hero based novel
# Please Don't Copy Paste My Novel
# Episode 29:
وہ تو مجھے بھی نظر آ رہا ہے لیکن خارب تمہیں پتہ ہے "نا" مجھے پاستہ بالکل بھی نہیں پسند۔۔۔۔۔۔۔پھر تم نے کیوں آڈر کیا, میں یہ نہیں کھاؤنگی۔ وہ عجیب سے منہ بناتے ہوئے بولی۔
کھانا تو تمہیں پڑے گا, کیونکہ میں نے بھی تو تمہارے پسندیدہ گول گپے کھائے تھے "نا"۔ تو اب یہ میری فیورٹ ڈیش ہے جو تمہیں کھانی پڑے گی۔ وہ بھی اسے باور کراتے ہوئے اٹل لہجے میں بولا۔
تم میرے گول گپوں کا اس پاستے سے مقابلہ کر رہے ہو۔ پلیز خارب, کم از کم میرے گول گپے تو اس پاستے سے زیادہ بیٹر ہیں۔ وہ صاف گوئی سے بولی۔
اچھا ٹھیک ہے مان لیا, تمہارے گول گپے زیادہ مزے کے تھے۔ لیکن یہ پاستہ پھر بھی تمہیں کھانا پڑے گا۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔
پپ۔۔۔۔۔۔پلیز مجھے نہیں کھانا یہ, اس نے اب التجائیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
چپ چاپ کھا لو ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑا تھا۔
ورنہ ؟ ورنہ کیا ؟ ہاں ورنہ کیا ؟ اس نے استفسار کیا۔
ورنہ سب کے سامنے میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے کھلاؤنگا۔ وہ چیر سے ٹیک لگاتے پرسکون لہجے میں بولا۔ جبکہ رامیہ نے خونخوار نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔
تم ایسا کچھ نہیں کرو گے, وہ غصے سے دانت چباتے ہوئے بولی۔
تمہیں پتہ ہے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں, وہ ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ لیے کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔
اس کی بات پر اس نے غصے سے پاستے کی پلیٹ اپنی طرف کھینچی اور ایک ایک نوالہ زہر مار کر کھانے لگی۔ جبکہ اسے پاستہ کھاتے ہوئے عجیب سی شکلیں بناتے دیکھ کر اس نے بمشکل اپنی ہنسی ہونٹوں میں ضبط کی۔
تم ایک دفعہ حویلی چلو خارب, میں نے تمہیں دادجی اور اذان بھائی جان سے ڈانٹ نہ پڑوائی تو میرا نام بھی رامیہ نہیں۔ پاستہ کھاتے ہوئے وہ زیرِ لب خود سے بڑ بڑائی۔
تھینک یو رامیہ آج کا دن میرے لیے سپیشل بنانے کے لیے, میں تم سے اپنی محبت کا اظہار تو نہیں کر سکتا۔ لیکن تمہارے ساتھ گزارے یہ پَل اور یہ یادیں ہمیشہ میرے دل میں زندہ رہیں گی۔ آج کا دن میں کبھی بھی نہیں بھولونگا۔ وہ بغور اس کے چہرے کو نظروں کے حصار میں لیے من ہی من میں بولا۔
******************
نریم اب رموٹ اُٹھا کر ٹی وی لگانے ہی لگی تھی۔ کہ صوفے پر پڑے ضوفیرہ کے موبائل پر رنگنگ ہوئی تھی۔ شاید وہ غصے میں اپنا موبائل یہی بھول گئی تھی۔
لیکن سکرین پر جگمگاتے نام نے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔
چپکو, بدتمیز, اس نے زیرِ لب یہ نام دہرایا۔
اُوں تو ضوفی نے عمیر کا نام چپکو بدتمیز سے سیو کیا ہے۔ اسے فوراً شرارت سوجھی تو کچھ سوچتے ہوئے اس نے پش کا بٹن دبا کر کال پک کر لی۔
ہیلو اسلام علیکم !
فون پک کرتے ساتھ اس نے سب سے پہلے سلام کیا۔
وعلیکم اسلام ! جی کیا آپ میری ضوفیرہ سے بات کرا سکتی ہیں۔ دوسری طرف سلام کا جواب دیتے ساتھ ہی پوچھا گیا۔ شاید وہ پہلے ہی آواز سے پہچان گیا تھا کہ کال پک کرنے والی ضوفیرہ نہیں تھی۔
جی میں ضوفیرہ ہی بات کر رہی ہوں, وہ بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے ہنوز سنجیدگی سے بولی۔
نہیں آپ ضوفیرہ نہیں ہے وہ پُراعتماد لہجے میں بولا۔
آپ اتنے یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہیں میں ضوفیرہ نہیں ہوں۔ اب وہ دونوں پاؤں صوفے پر کر کے چوکڑی مارتے ہوئے بولی۔ اب اسے مزہ آ رہا تھا۔ اس سے بات کر کے۔
آواز سے۔۔۔۔۔۔۔۔
آواز سے۔۔۔۔۔۔۔اس نے اس نے آنکھیں پھیلاتے زیرِلب دہرایا۔
جی ہاں آواز سے, میں اپنی ضوفی کی آواز لاکھوں میں بھی پہچان سکتا ہوں۔ دوسری طرف وہ آنکھیں موندھتے پُریقین لہجے میں بولا۔
اتنی محبت کرتے ہیں آپ ضوفی سے۔۔۔۔۔؟ اس نے ایک اور سوال داغا۔
خود سے بھی زیادہ, ویسے آپ کون ہیں جو مجھ سے یہ سب سوال پوچھ رہی ہیں۔ وہ خمار آلود لہجے میں بولا۔ کہ پھر آنکھیں کھولتے فوراً استفسار کرتے ہوئے بولا۔
آپ مجھے نہیں جانتے لیکن میں آپ کو اچھے طریقے سے جانتی ہوں۔
اچھا وہ کیسے ؟ وہ پرسوچ لہجے میں گویا ہوا۔
ضوفی کے منہ سے آپ کے بارے میں اتنا ْذکر سُنا ہے کہ اب مجھے بھی لگتا ہے آپ سے ملنا ہی پڑے گا۔ وہ اشتیاق سے بولی۔
اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر تو ضرور آپ نے میرے بارے میں اس کے منہ سے برا ہی سُنا ہو گا۔ وہ صاف گوئی سے بولا۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔سہی کہا آپ نے وہ بے ساختہ ہنستے ہوئے بولی۔
ویسے میرے بارے میں تو آپ کو سب کچھ پتہ ہے اب اپنا تعارف بھی کروا دیں۔ اب کی بار وہ استفسار کرتے ہوئے بولا۔
میں نریم ضوفیرہ اور رامیہ کی بیسٹ فرینڈ۔ اس نے فوراً اپنا تعارف کرایا۔
آپ سے بات کر کے اچھا لگا۔ وہ مسکرا کر بولا۔
مجھے بھی عمیر بھائی, کیا میں آپ کو بھائی بُلا سکتی ہوں "نا" ؟ وہ تھوڑا جھجکتے ہوئے اجازت طلب لہجے میں بولی۔
یا شیور کیوں نہیں, اس کی بات پر عمیر کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
تھینک یو عمیر بھائی, وہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی۔ کیونکہ اسے ایک بھائی مل گیا۔
ایک طرف بھائی کہہ رہی ہو, دوسری طرف تھینکس کر کے پرایا بھی کر دیا۔ دوسری طرف وہ ناراضگی بھرے لہجے میں بولا۔
اُوکے میں اپنا بولا ہوا تھینکس واپس لے لیتی ہوں۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
دوسری طرف وہ ڈھٹائی سے ہنسا, پتہ نہیں کیوں اس کے بولنے کے انداز سے اسے اس لڑکی میں اپنی افشال کی ہی جھلک نظر آ رہی تھی۔
اچھا بھائی بنا ہی لیا ہے تو پلیز اپنے بھائی کا ایک چھوٹا سا کام کرو گی۔ کچھ سوچتے ہوئے وہ فوراً بولا۔
وہ کیا عمیر بھائی اس کی آنکھوں میں حیرت اتری۔
میں نے تھوڑی دیر پہلے تمہاری دوست کو کال کی تھی۔ اسے ویڈیو کال کرنے کو کہا۔ تو اس نے غصے سے میری کال کاٹ دی۔ اس کے بعد اس نے میری کال ہی رسیو نہیں کی۔ دوسری طرف تفصیل سے بتایا۔
اُوں تو اس لیے ضوفی اتنی غصے میں تھی۔ آپ کو پتہ ہے عمیر بھائی اس نے تھوڑی دیر پہلے آپ کا سارا غصہ مجھ پر نکالا, اس نے گلہ کیا۔
سوری سسٹر, اس نے فوراً معذرت کی۔
نہیں کوئی بات نہیں, آپ بتائیں مجھے کیا کرنا ہو گا۔ وہ فوراً بولی۔
میں تمہیں ابھی ویڈیو کال کرونگا۔ بس تم کیمرے کا رُخ ضوفی کی طرف کر دینا۔ وہ مسکراتے ہوئے اس پر انکشاف کرتے ہوئے بولا۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ڈر اور خوف کے مارے اس کے ہاتھ سے موبائل گِرتے گِرتے بچا تھا۔ لیکن جلد ہی خود کو سنبھالتے موبائل دوبارہ کان سے لگاتے ہوئے بولی۔
عمیر بھائی آپ کو پتہ ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ آپ مجھے شیرنی کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ وہ ڈر کے مارے تھوک نگلتے ہوئے بولی۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری طرف اس کی حالت دیکھ کر عمیر کا بھرپور قہقہہ گونجا۔
ہاں ہاں ہنس لیں یہاں پر میری جان پر بنی ہوئی ہے اور آپ کو ہنسی آ رہی ہے۔ وہ ناراضگی بھرے لہجے میں بولی۔
اچھا اچھا سوری سوری,میں اب نہیں ہنستا۔ لیکن پلیز تم کیا اپنے بھائی کا اتنا سا کام نہیں کر سکتی۔ وہ بمشکل اپنی ہنسی روکتے التجائیہ لہجے میں بولا۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا ٹھیک ہے میں ضوفی کے روم میں جاتی ہوں۔ آپ مجھے ویڈیو کال کریں۔ پہلے وہ انکار کرنے ہی لگی تھی کہ پھر اسے عمیر کا دل توڑنا اچھا نہیں لگا۔ اس لیے فوراً مان گئی۔ لیکن اندر ہی اندر ڈر بھی رہی تھی۔ کیونکہ بعد میں ضوفیرہ نے جو اس کی حالت کرنی تھی یہ صرف وہی جانتی تھی۔
یااللہ پلیز مجھے بچا لینا, ابھی وہ کمرے کے باہر کھڑے ہو کر دعائیں مانگ رہی تھی۔ کہ موبائل پر عمیر کی ویڈیو کال آتی دیکھ کر وہ دروازے کا ناب گھوُما کر کمرے میں آئی, اور فوراً سے پش کا بٹن دبا کر کیمرے کا رُخ ضوفیرہ کی طرف کر دیا۔
وہ جو نظریں جھکائے اپنے میتھ کے سوالوں میں اس قدر بزی تھی۔ کہ اسے نریم کی کمرے میں موجودگی کا احساس تک نہیں ہوا تھا۔
عمیر کی جونہی نظریں سامنے سکرین پر اُٹھی۔ تو ایک لمحے کے لیے مبہوت رہ گیا۔
بلیک ٹروزر, پنک شرٹ, سلکی بلیک بالوں کا جوڑا بنائے کچھ بال جو چہرے پر بکھرے ہوئے تھے۔ منہ اور دانتوں میں پین دبائے, وہ دشمن جاں ہر طرف سے بے خبر بیڈ پر چوکڑی مار کر بیٹھی تھی, اور مکمل توجہ اپنی کاپی کی طرف تھی۔
گھریلوں حلیے میں وہ غضب ڈھا رہی تھی۔ وہ سادگی میں عمیر کے دل پر بجلیاں گرانے کا کام کرتی تھی۔ اسی وقت اس کی نگاہ سامنے اُٹھی تو نریم کو دروازے کے وسط میں کھڑا دیکھ کر چونکی تھی۔ پھر جلد ہی اس کے چہرے پر غصے کی لکیریں عود آئی تھیں۔
نمی تم یہاں بھی آ گئی, میں نے کہا "نا" مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی, پلیز جاؤ یہاں سے۔ پہلے ہی یہ میتھ کا سوال مجھ سے حل نہیں ہو رہا۔ اوپر سے تم مجھے تنگ کر رہی ہو۔ وہ جھجھلا کر بولی۔
ضوفی اگر تمہیں پتہ چل گیا "نا" میں یہاں پر کھڑی ہو کر کیا کر رہی ہوں۔ تو تم تو میرا قتل ہی کر دو گی۔ وہ منہ ٹیڑھا کر کے پیچھے سے اپنا کان کھجکاتے خود سے بڑبڑائی۔
کیا۔۔۔۔۔۔؟ کیا کہا تم نے۔۔۔۔۔۔؟ اسے خود سے بڑبڑاتے دیکھ کر فوراً بولی۔
کک۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں مم۔۔۔۔۔۔میں نے کک۔۔۔۔۔کیا کہنا ہے۔ وہ یک دم بوکھلائی اور اٹکتے ہوئے بولی۔
اچھا اور یہ میرا موبائل تمہارے ہاتھ میں کیا کر رہا ہے اس نے استفسار کیا۔ جبکہ دوسری طرف عمیر اس کے چہرے پر غصے سے بدلتے تصورات دیکھ کر مسکرائے جا رہا تھا۔
یہ تمہارا موبائل ہے, اس نے اسے بتایا۔ بلکہ اسے خود سمجھ نہیں آیا تھا۔ وہ جلدی میں کیا بول گئی تھی۔
ہاں مجھے پتہ ہے یہ میرا موبائل ہے لیکن یہ تمہارے ہاتھ میں کیا کر رہا ہے, اور تم نے ایسے کیوں پکڑا ہوا ہے جیسے تم کوئی ویڈیو یا تصویر بنا رہی ہو۔ اب وہ تشویش بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
نن۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تمہارا موبائل "نا"۔۔۔۔۔۔۔نریم جلدی سے کوئی بہانہ سوچ ورنہ تیرا بھانڈہ پھوٹ جائے گا۔ وہ اپنے سوکھے لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے من ہی من میں بولی۔ کہ فوراً اس کے ذہن نے کام کیا۔
ہاں یاد آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ یک دم اونچی آواز میں بولی۔
آہستہ بولو چیخ کیوں رہی ہو, اور کیا یاد آیا۔ وہ کانوں پر ہاتھ رکھتے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
میرا مطلب کہ تمہارا موبائل کب سے باہر پڑا بج رہا تھا۔ میں نے سوچا تمہیں دے دیتی ہوں۔ کیا پتہ تمہاری کوئی امپارٹینٹ کال ہو۔ اس لیے پکڑو اپنا موبائل۔ وہ بیڈ پر موبائل رکھ کر وہاں سے ایسے رفو چکر ہوئی۔ جیسے بلی کو دیکھ کر چوہا۔ جبکہ وہ پیچھے سے حیرت بھری نظروں سے اس کی پُشت کو دیکھتی رہ گئی۔ لیکن وہ اب نظرانداز کرتے دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہونے لگی تھی کہ اچانک اس کی نظر اپنے موبائل پر پڑی, کہ سامنے سکرین پر عمیر کو ویڈیو کال پر دیکھ کر وہ ایک لمحے کے لیے دنگ رہ گئی۔
نریم کا کافی دیر دروازے میں کھڑے رہنا, ضوفیرہ کے سوال پوچھنے پر بوکھلانا, اس کا بات کرتے ہوئے اٹکنا, اس کے ہاتھ میں اپنا موبائل دیکھنا۔ یہ سب ایک فلم کی طرح اس کے ذہن میں چل رہا تھا۔ جوں جوں وہ سوچتے جا رہی تھی۔ غصے سے اس کے چہرے کے تصورات بدلتے جا رہے تھے۔
نمی میں تمہیں چھوڑونگی نہیں, وہ عمیر کی ویڈیو کال بند کر کے آڈیو کرتے ہوئے غصے سے خود سے بڑبڑائی۔ دوسری طرف پہلی ہی رنگ پر کال رسیو کر لی گئی۔
تم سمجھتے کیا ہو خود کو, اگر تم یہ سوچ رہے ہو۔ کہ یہ سب حرکتیں کر کے تم میرا دل جیت لو گے, اور میرے دل میں تمہارے لیے محبت پیدا ہو جائے گی۔ یہ تمہاری سب سے بڑی غلط فہمی ہے ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ وہ آنکھوں میں تندو تیز غصہ لیے اسے باور کراتے ہوئے بولی۔
ارے اب میں نے ایسا کیا کر دیا, اس نے انجان بننے کی بھرپور ایکٹنگ کی۔
زیادہ انجان بننے کی کوشش مت کرو, تھوڑی دیر پہلے جو تم نے حرکت کی ہے اس کے لیے تمہیں شرم آنی چاہیے۔ جب میں نے تم سے کہا تھا۔ کہ مجھے تم سے ویڈیو کال پر کوئی بات نہیں کرنی, پھر بھی تم نے کی, اور سب سے بڑی بات تم نے ان سب میں میری دوست کو بھی شامل کیا۔ وہ شاید آج تپی ہوئی تھی۔ اس کا غصہ کسی طور پر کم نہیں ہو رہا تھا۔
ہاں تو میں کیا کرتا, اگر تم میری بات مان لیتی, تو مجھے یہ سب کرنا ہی نہ پڑتا, اور تمہاری دوست بہت التجاؤں کے بعد جا کر کہیں مانی ہے۔ ویسے تم نے میری بہن کو کتنا ڈرا رکھا ہے "نا"۔ دوسری طرف پرسکون لہجے میں آگاہ کرتے ہوئے بولا۔ آخری الفاظ اس نے افسوس بھرے لہجے میں بولے تھے۔
بہن۔۔۔۔۔۔۔۔؟ بہن کے نام پر وہ چونکی تھی اور زیرلب بڑبڑائی۔
وہ تمہاری بہن کب سے بن گئی۔ وہ حیرت سے گویا ہوئی۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے, اس نے خوشی سے بتایا۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اسے تو میں بعد میں پوچھتی ہوں۔ بہن بننے کا اسے اتنا شوق ہے "نا" بناتی ہوں میں اسے بہن۔ وہ غصے سے دانت چباتے ہوئے خود سے بولی۔
کیا۔۔۔۔۔۔؟ کیا کہا ابھی تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس نے استفسار کیا۔
کچھ نہیں, میں تمہیں کچھ کہنے کی گستاخی کر سکتی ہوں۔ وہ طنزیہ لہجے میں بولی۔
ہاں یہ تو ہے آخر تم مجھ سے ڈرتی جو ہو ؟ وہ مخصوص مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولا۔
ڈرتی ہے میری جوتی تم سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ غصے سے پھنکاری۔
چلو تم نہ سہی تمہاری جوتی تو مجھ سے ڈرتی ہے "نا", اس نے اسے مزید تپایا اور تیر سیدھا نشانے پر لگا تھا, اور وہ اندر تک سلگ کر رہ گئی تھی۔
عمیر میرا دل کر رہا ہے میں خود کو ختم کر لوں یا تمہارا قتل کر دوں۔ وہ زچ ہوتے ہوئے بولی۔
اور مجھے پتہ ہے تم ان دونوں کام پر عمل نہیں کرو گی۔ وہ سکون سے بولا۔
اچھا پھر تو تمہیں بہت بڑی غلط فہمی ہے, وہ طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے بولی۔
غلط فہمی نہیں یقین ہے وہ پریقین لہجے میں بولا۔
اچھا پھر یہ بھی بتا دو, میں ایسا کیوں نہیں کرونگی۔ وہ غصے سے دانت چباتے استفسار کر رہی تھی۔
پہلی بات خود کشی اسلام میں حرام ہے, اور تم ایسا کچھ نہیں کرو گی۔ دوسری بات تم مجھے قتل کر کے جیل تھوڑی جاؤ گی۔ وہ ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ لیے مسلسل اسے تنگ پر تنگ کیے جا رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے وہ بھی چپ کر گئی تھی۔
مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی اور خبردار آئندہ سے تم نے اس نمبر پر کال کی۔ ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔ یہ سب کہتے ہی اس نے غصے سے کال کاٹ دی تھی, اور سوئچ آف کر دیا تھا, اور اپنا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔ کیونکہ وہ عمیر سے اس قدر تنگ آ گئی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اس سے پیچھا کیسے چھڑوائے۔
******************
ہوٹل کے باہر قدم رکھتے ہی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے ان کا استقبال کیا۔ رامیہ کے پورے جسم میں کپکپاہٹ سی طاری ہو گئی۔ اس نے دونوں بازو باندھ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے بازؤں کو سہلانے کی ناکام سی کوشش کی تھی۔ خارب نے اس کے کپکپاتے جسم کو دیکھا۔ تو فوراً اپنی جیکٹ اُتار کر اسے پہنا دی۔
رامیہ چونکی اور حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔ لیکن پھر فوراً ہی پہلے والا غصہ عود آیا۔
مجھے نہیں چاہیے میں ٹھیک ہوں۔ اس نے جیکٹ اتار کر دوبارہ اسے پکڑا دی۔
جی وہ تو مجھے دکھ رہا ہے تم کتنی ٹھیک ہو۔ وہ اسے سردی سے کانپتے دیکھ کر طنزیہ لہجے میں بولا, اور دوبارہ اپنی جیکٹ اسے پہنا دی۔ رامیہ نے دوبارہ ابھی جیکٹ اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا۔ کہ خارب کی سرد آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
خبردار اب تم نے یہ جیکٹ اتاری, ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔ میں اس,معاملے میں تمہاری کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرونگا۔
تم سے برا کوئی ہو بھی نہیں سکتا, اس نے خود سے بڑبڑاتے ہوئے نظروں کا زاویہ بدلہ۔ اسکی بڑبڑاہٹ سُن کر خارب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
لگتا ہے میڈم ابھی تک ناراض ہے اس کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر وہ خود سے بولا۔
آئس کریم کھاؤ گی, اب کی بار وہ تھوڑا جھکا اور اس کے کان کے قریب سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔
آئس کریم کے نام پر ایک پَل کے لیے اس کی آنکھیں چمکیں تھی۔ لیکن فوراً ہی اس نے اپنے تصورات بدلے۔
نہیں مجھے نہیں کھانی۔۔۔۔۔۔۔۔ناراضگی ہنوز برقرار تھی۔
اُوکے نہ کھاؤ, لیکن میرا تو بڑا دل کر رہا ہے میں تو کھاؤنگا۔ وہ سکون سے ابرو اچکاتے ہوئے بولا۔
اچھا تم اِدھر ہی رُکو, میں صرف اپنے لیے آئس کریم لے کر آیا, خارب نے جان بوجھ کر صرف اپنے پر زور دیا تھا, اور اسے وہی جلتا کڑتا چھوڑ کر مسکراتے ہوئے دوبارہ ہوٹل کے اندر چلا گیا۔ جبکہ پیچھے سے وہ سر تا پیر سلگ کر رہ گئی۔
خارب میرا دل کر رہا ہے میں تمہارا قتل کر دوں۔ اسے اندر جاتا دیکھ کر وہ غصے سے بولی۔
اللہ میاں میرا بھی آئس کریم کھانے کا دل کر رہا تھا۔ کیا جاتا خارب کا اگر وہ ایک دو بار اور پوچھ لیتا, اور میرے سے ری کویسٹ کرتا۔ تو میں نے مان ہی جانا تھا۔ لیکن وہ مجھے کیوں مناتا, اسے میری ناراضگی کی کیا پرواہ۔ اب جان بوھ کر مجھے چڑانے کے لیے میرے سامنے آئس کریم کھائے گا۔ مجھے بھی آئس کریم کھانی ہے۔ وہ جلتی کڑتی رونی شکل بنائے مسلسل خود سے بڑبڑا رہی تھی۔
کہ اچانک اس کی نظر سامنے درخت سے ٹیک لگائے تین لڑکوں پر پڑی۔ جو سگریٹ پیتے اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ جو پہلے ہی خارب کی وجہ سے غصے سے بھری بیٹھی تھی۔ اب ان لڑکوں کا اسے گندی نظروں سے دیکھنا۔ اس کے غصے کو مزید ہوا دے گیا تھا۔
بدتمیز, گھٹیا انسان, لفنگے کہیں کے, ایسے دیکھ رہے ہیں۔ جیسے کبھی کوئی لڑکی نہیں دیکھی۔ انہیں مختلف لقبوں سے نوازتے اس نے غصے سے نظروں کا زاویہ بدلہ۔ اب اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد جب دوبارہ اس کی نظریں ان کی طرف اُٹھی۔ تو انہیں اپنی طرف آتا دیکھ کر اب سہی معنوں میں اس کی جان ہوا ہوئی تھی۔
رامیہ یہ تو تیری طرف ہی آ رہے ہیں۔ مارے خوف کے وہ سُن ہو گئی۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھ کر کسی کو مدد کے لیے پکارنا چاہا۔ تو اسے کوئی بھی دیکھائی نہ دیا۔ شاید رات کا ٹائم تھا اس لیے ہر طرف خاموشی جامد تھی۔ اسے ڈر کے مارے اپنا خلق خشک ہوتا ہوا محسوس ہوا۔
اب وہ اس سے دو فاصلے کی دوری پر تھے۔
نہیں رامیہ تم نے ڈرنہ نہیں, ہمت سے کام لینا ہے اگر انہوں نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی۔ تو میں بھی نہیں چھوڑونگی انہیں۔ دیکھ لونگی, وہ خود کو بہادر بناتے ہوئے خود سے بولی۔ لیکن اسے کیا پتہ تھا وہ اوپر سے جتنی بھی بہادر بننے کی کوشش کر لے۔ لیکن اندر سے وہی نرم و نازک ڈری سہمی سی۔۔۔۔۔۔۔تھی تو ایک لڑکی "نا"۔
*******************
نریم کالج کے لیے ریڈی ہو کر کمرے سے باہر آئی, تو سامنے ڈائنگ ٹیبل پر ضوفیرہ کو ناشتہ کرتے دیکھ کر حیران رہ گئی۔
ضوفی آج تم نے میرے بغیر ہی ناشتہ کر لیا۔ وہ اس کے پاس ہی چیر کھسکا کر بیٹھتے ہوئے بولی۔
وہ اچھی طرح جانتی تھی جب تک وہ نہ آ جاتی تھی تب تک ضوفیرہ بھی اس کے بغیر ناشتہ نہ کرتی تھی۔ لیکن آج اسے ناشتہ کرتے دیکھ کر وہ شدید ہرٹ ہوئی تھی۔
اس کے بیٹھتے ہی ضوفیرہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی اور سامنے صوفے سے اپنا بیگ اور بکس اُٹھا کر باہر کی طرف چل دی۔ جبکہ وہ منہ کھولے اسے جاتا دیکھتی رہ گئی۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی۔ ضوفیرہ ایسا کیوں کر رہی تھی۔ جبکہ نریم اپنے کیے پر شرمندہ تھی۔ وہ رات بھر اس سے معافی بھی مانگتی رہی تھی۔ لیکن اس نے تو شاید قسم اُٹھائی تھی اس سے نہ بولنے کی۔
نریم کالج پہنچی تو کلاس میں قدم رکھتے ہی اسے کسی اور کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر اس کا موڈ خراب ہو گیا۔ وہ پورا پریڈ اس سے معافی مانگتی رہی تھی۔ کبھی ضوفیرہ کے دیکھتے ہی کان پکڑ کر معافی مانگ لیتی, تو کبھی ایک چِٹ پر سوری لکھ کر بھیجنا, جسے وہ فوراً ہی غصے سے پھاڑ کر پھینک دیتی۔ ابھی بھی پریڈ آف ہوتے ہی نریم اس کے پیچھے بھاگی۔
ضوفی۔۔۔۔۔۔۔ضوفی پلیز مجھے پتہ ہے میری غلطی ہے مجھے عمیر بھائی کی بات نہیں ماننی چاہیے تھی۔ لیکن یار میں شرمندہ ہوں۔ میں وعدہ کرتی ہوں, آئندہ سے میں ایسا کچھ نہیں کرونگی۔ پلیز مجھے معاف کر دو۔ تمہیں پتہ ہے "نا" میں تمہاری ناراضگی برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوۓ معذرت کرتے التجائیہ لہجے میں بولی۔ جبکہ ضوفیرہ اسے اگنور کرتے لائبریری کے اندر جانے ہی لگی تھی۔ کہ وہ فوراً اس کے راستے میں حائل ہوئی۔
ضوفی پلیز یار, مجھے مار لو, ڈانٹ لو, لیکن ایسے چپ نہ رہو۔ مجھ سے تمہاری چپی برداشت نہیں ہو رہی۔ پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اس کی طرف دیکھ کر آنکھوں میں التجا لیے بولی۔ چہرے سے ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی رؤ دے گی۔ جبکہ وہ اسے نظرانداز کر کے سائیڈ سے ہو کر گزر گئی۔ پیچھے سے وہ اداس چہرہ لیے اسے دیکھتی رہ گئی۔
******************
یااللہ آپ پلیز جلدی سے خارب کو بھیج دیں۔ پلیز پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ابھی آنکھیں بند کر کے دل ہی دل میں دعا مانگ ہی رہی تھی۔ کہ اسے اپنے پاس کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تھا اس کی سانسیں تھمی تھیں وہ دل ہی دل میں دُعا مانگ رہی تھی۔ جیسا وہ سوچ رہی ہے ویسا کچھ بھی نہ ہو۔ اس لیے اس نے فوراً اپنی آنکھیں کھولیں۔ جس چیز سے وہ ڈر رہی تھی۔ آخر وہی ہوئی تھی۔ انہی تینوں لڑکوں کو اپنے اِردگِرد گیرا بنائے دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گے۔ مارے ڈر کے اس کا رنگ فق ہو گیا۔ لیکن جلد ہی اس نے خود کو سنبھالا۔
یہ۔۔۔۔۔۔یہ کیا بدتمیزی ہے راستہ چھوڑیں میرا۔ وہ گلہ ترک کرتے خود کو مضبوط بناتے ہوئے بمشکل بولی۔
ہم نے ابھی بدتمیزی کی کہاں ہے, اور ویسے بھی ہم تو یہاں اپنی بلبل کی مدد کرنے آئے ہیں اپنی بلبل کو یہاں اکیلے کھڑا دیکھا تو سوچا کیوں "نا" تھوڑی کمپنی دے دیں۔ ان میں سے ایک لڑکا ہونٹوں پر جاندار مسکراہٹ لیے اپنی داڑھی کھجاتے ہوئے کمنگی سے بولا۔
دیکھیے مجھے آپ کی کسی مدد کی ضرورت نہیں۔ برائے مہربانی میرا راستہ چھوڑیں۔ اس بار وہ انتہائی سخت لہجے میں بولی۔
ارے ایسے کیسے چھوڑ دیں, ابھی تو ہم نے اپنی بلبل کو ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں۔ اس بار دوسرا لڑکا اسے پیر سے لے کر اوپر تک عجیب نظروں سے دیکھتے آنکھ ونک کرتے بولا۔ سفید پاؤں بلیک وائٹ جوتا, بلیو جینز, وائٹ شرٹ, اس پر بلیک لیدر کی جیکٹ۔ جو ابھی تھوڑی دیر پہلے خارب اسے پہنا کر گیا تھا۔ گلے میں بلیک سکارف لپیٹا ہوا تھا۔ اس کی نظروں سے خائف ہو کر وہ فوراً خود میں سمٹی اور خارب کی جیکٹ کو اچھی طرح خود پر لپیٹ کر سختی سے پکڑ لیا۔
جاری ہے
1 Commenti
Nice episode❤❤💕💕💕
RispondiEliminaCommento