Parivish
(پری وش)
# Novel by Parivish
# Writer; Aima Ashfaq
# Family, Funny Innocent herion, Rude hero based novel
# Please Don't Copy Paste My Novel
# Episode 30:
پپو اس کے بال دیکھ کتنے پیارے ہیں, اس بار تیسرا لڑکا اس کے سلکی براؤن بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
ارے چھوڑ یار شان تو اس کے بالوں کی بات کر رہا ہے یہ تو پوری کی پوری مست ہے۔ کیوں یار یوسف, پہلے والا لڑکا دوسرے والے لڑکے کے ہاتھ پر تالی مارتے کمینگی سے بولا۔ پھر تینوں کا مشترکہ قہقہہ وہاں پر گونجا تھا۔
تو سہی کہہ رہا ہے پپو۔
رامیہ جو کب سے چُپ کھڑی تھی اب اس کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس لیے اس نے فوراً پہلے والے لڑکے کے کھینچ کر تھپڑ دے مارا۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے چہرے پر ہاتھ رکھے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا۔ تمہاری اتنی جرأت تم نے مجھ پر ہاتھ اُٹھایا سالی, اب دیکھ میں تیرا کیا حال کرتا ہوں۔
وہ فوراً خوفزدہ ہو کر ایک قدم پیچھے ہوئی۔
*****************
خارب مسکراتے آئس کریم لے کر باہر آیا تو جونہی اس کی نگاہ سامنے گئی۔ سامنے کا منظر دیکھ کر اس کا خون سر پر چڑھنے لگا تھا۔
تین لڑکے رامیہ کے اِردگِرد گھیرا کیے کھڑے تھے۔ خارب جو کب سے کھڑا یہ سب برداشت کر رہا تھا۔ ان کا گندی نظروں سے رامیہ کو دیکھنا, اور بے باک گفتگو۔۔۔۔۔۔۔۔خارب کے خون نے جوش مارا تھا۔ وہ غصے سے بھرا ان کی طرف بڑھنے لگا تھا۔ کہ رامیہ کی تھپڑ کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ اس کے ردِعمل پر وہ ایک دم ساکت رہ گیا۔ لیکن اسے دلی سکون بھی ملا تھا, اور ساتھ ہی اس کی بہادری کو بھی سراہا تھا۔ اب اس سے پہلے وہ لڑکا بدلے میں رامیہ کو کچھ کہتا۔ کہ خارب سُرخ آنکھیں لیے فوراً اس کی طرف لپکا تھا, اور ایک زبردست گھونسا اس کے منہ پر جڑ دیا۔ وہ جو اس بات سے مکمل انجان تھا۔ ایک دم اس حملے پر بوکھلا کر منہ کے بَل نیچے گِرا اور اس کے ہاتھ سے خون نکلنے لگا۔
خارب نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو دوسرے لڑکے کو رامیہ کی طرف بڑھتا دیکھ کر ایک دم حلق کے بل چیخا۔
خبردار تم نے اسے ہاتھ لگانے کی کوشش بھی کی۔ ورنہ ہاتھ توڑ کر رکھ دونگا۔ پتہ نہیں اس کی آواز میں ایسا کیا تھا۔ کہ وہ لڑکا فوراً اس کی سُرخ آنکھوں اور غصے سے ڈر کر پیچھے ہٹا۔ جبکہ پہلے والا لڑکا بمشکل کھڑے ہوتے اپنی ناک سے خون صاف کرتے ہوئے غصے سے بولا۔
کیوں۔۔۔۔۔۔؟ کیوں ہاتھ نہ لگائیں۔۔۔۔۔۔؟ کیوں۔۔۔۔؟ وہ صرف تیری ہے ؟ جسے چھونے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی اس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی۔ کہ خارب پیچھے مُڑا اور اسے سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر ایک اور موکہ اس کے جبڑے پر جڑ دیا۔
ہاں وہ میری ہے, صرف اور صرف میری۔ اگر کسی نے اسے آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھا۔ تو میں اسے جان سے مار دونگا۔ وہ مسلسل اسے پیٹ رہا تھا, اور اب کی بار اس کے وار کی زد میں اس کا پیٹ تھا۔ جبکہ یہ ہاتھا پائی دیکھ کر رامیہ کے ہاتھ پیر پھولنے لگے تھے۔ یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ اسے اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہوا۔ ابھی وہ سنبھل بھی نہ پائی تھی۔ کہ کسی نے پیچھے سے آ کر اس کی گردن پر چاقو رکھ دیا۔
آں۔۔۔۔۔۔۔ں۔۔۔۔۔ں۔۔۔۔۔۔۔اس کے حلق سے ایک زور دار چیخ نمایاں ہوئی تھی۔
دیکھو میرے دوست کو چھوڑ دو, ورنہ میں اس لڑکی کو جان سے مار دونگا, وہ لڑکا غرایا۔ جبکہ رامیہ کی چیخ پر خارب کے اس لڑکے کو مارتے ہوئے ہاتھ رکے تھے۔ اس نے یک لخت مُڑ کر رامیہ کو دیکھا۔ تو اسے ایسا لگا۔ جیسے اس کا دل کسی نے مُٹھی میں لے لیا ہو۔
وہ لڑکا رامیہ کی گردن پر چاقو رکھے کھڑا تھا, اور وہ کانپتی, ڈری سہمی اس لڑکے کی قید میں تھی۔ آنسو متواتر بہہ رہے تھے وہ ایسی تو نہ تھی۔ خارب نے ہمیشہ اسے نڈر, بہادری سے دوسروں کا مقابلہ کرتے دیکھا تھا۔ آج اسے اس حالت میں دیکھ کر خارب کو اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ اس کا دل کیا وہ ساری دنیا کو آگ لگا کر ہر شخص کو ختم کر دے۔ جس نے اسے تکلیف پہنچائی ہو۔ وہ طیش کے عالم میں کھڑا ہوا اور فوراً اس لڑکے کی جانب بڑھا۔
د۔۔۔۔۔۔د۔۔۔۔۔۔دیکھو ممم۔۔۔۔۔۔میرے پاس مت آنا۔ ورنہ میں اس لڑکی کو جان سے مار دونگا۔ اسے اپنی طرف آتے دیکھ کر وہ لڑکا ڈر کے مارے بولا۔ جبکہ خارب اس کی سُن ہی کہاں رہا تھا, اس کا تو سارا دھیان رامیہ کی گردن پر تھا۔ جہاں چاقو کے دباؤ کی وجہ سے, اس کی گردن سے تھوڑا سا خون نکل آیا تھا۔ جو بہتے ہوئے اس کی گردن پر لکیر کھینچ رہا تھا۔ اس سے پہلے وہ رامیہ کو کوئی اور نقصان پہنچاتا, کہ خارب نے ایک ہی جست میں لات کچھ اس طرح اس کے ہاتھ پر ماری کہ رامیہ کو کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ لیکن اس کی اچانک کاروائی سے چاقو اس لڑکے کے سمیت دور جا گِرا۔ اب اس نے یک لخت رامیہ کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور اپنے پیچھے کھڑا کر کے خود اس کے آگے ڈھال بن کر کھڑا ہو گیا۔
اتنی دیر میں اس لڑکے نے بھی خود کو سنبھال لیا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کے وہ ڈر کے مارے وہ خارب سے بچ کر بھاگتا۔ وہ فوراً جنونی انداز میں اس لڑکے کی طرف لپکا, اور اس کا بازو پیچھے اس کی کمر پر لے جا کر اتنی زور سے مُڑوڑا۔ کہ کڑک کی اواز سے وہ ٹوٹ گیا, اور درد ناک چیخیں اس کی اِردگِرد گونجنے لگیں۔ ابھی وہ اس درد سے ہی نکل نہیں پایا تھا۔ کہ خارب نے اس کے منہ پر موکوں کی برسات شروع کر دی۔
میں نے کہا تھا "نا" ہاتھ مت لگانا ورنہ ہاتھ توڑ دونگا۔ پھر بھی تمہاری جرأت کیسے ہوئی۔ اسے ہاتھ لگانے کی, وہ مسلسل اسے مارتے ہوئے بولا۔ وہ جنونی ہو چکا تھا, ہر شے سے بے خبر۔ اس کے سر پر خون سوار تھا۔ جیسے وہ اس کے خون کا پیاسہ ہو۔ اس کے انداز میں اس قدر وحشت اور جنونیت تھی کہ جیسے اس کی جنونیت کی آگ سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ ہر شے جل کر بھسم ہو جائے گی۔ پاس کھڑی رامیہ اس کی جنونیت دیکھ کر ایک دم سہم کر رہ گئی۔ اس نے کہاں دیکھا تھا خارب کا یہ روپ۔ آج پہلی بار خارب کے غصے سے واقف ہوئی تھی۔ اسے غصے میں دیکھ رہی تھی۔ جو بے دردی سے اس لڑکے کو پیٹ رہا تھا۔ وہ جلدی خارب کو روکنے کے لیے آگے بڑھنے ہی لگی تھی۔ کہ اسی وقت بہت سی جیپ وہاں آ کر کھڑی ہوئی تھیں, اور ان میں سے بہت سے لوگ بندوقیں لے کر باہر نکلے تھے۔ یہ سب دیکھتے رامیہ نے واپس اپنے قدم پیچھے لیے خوف کے مارے بے ساختہ اپنے منہ پر دونوں ہاتھ رکھے۔ جبکہ انہیں خارب کو سلام کرتا دیکھ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔ کیا یہ حارب کے لوگ تھے پہلے تو کبھی نہیں اس نے انہیں دیکھا تھا۔ وہ تو آج خارب کا یہ کوئی الگ ہی روپ دیکھ رہی تھی۔
خارب نے ان کو دیکھتے ہی مڑتے کراہتے اس لڑکے کا گریبان چھوڑ کر ان کی طرف دھکا دیا۔ لے جاؤ ان دونوں کو یہاں سے اور ان کی اچھے طریقے سے خاطر مدارت کرنا۔ مجھے شکایت کا موقع نہ ملے, اور ہاں ایک بات اور ان میں سے ایک لڑکا غائب ہے اسے کہیں سے بھی ڈھونڈ کر لاؤ۔ ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔ وہ ان پر غصے سے حکم صادر کرتے ہوئے بولا۔ جبکہ غصہ ابھی بھی اس کا کم نہیں ہوا تھا۔
جی سر آپ فکر نہ کریں, ہم آپ کو کوئی شکایت کا موقع نہیں دینگے۔ کل تک ہم اس لڑکے کو بھی ڈھونڈ نکالیں گے۔ ان میں سے ایک آدمی نظریں جھکائے ادب سے بولا۔
ہممم گڈ اب تم لوگ جاؤ, یہ کہتے ہی اب وہ رامیہ کی طرف بڑھا, اور اس سے پہلے کہ وہ اس کا ہاتھ پکڑتا۔ کہ اس نے ڈر کے مارے ایک قدم پیچھے لیا۔ خارب کے اس روپ نے اسے مکمل طور پر خوفزدہ کر دیا تھا۔ جبکہ اس کی اس حرکت نے خارب کے غصے کو مزید ہوا دی تھی۔ اس لیے آگے بڑھ کر زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کی طرف چل دیا, اور وہ اس کے ساتھ کھینچتی چلی جا رہی تھی۔ گاڑی کے پاس آتے ہی اس نے ڈورز ان لاک کیے, اور اسے گاڑی میں بیٹھایا۔ خود بھی دوسری طرف طرف آ کر بیٹھ گیا۔ اب اس نے اپنا سر سیٹ کی پُشت سے ٹکا دیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ سیدھا ہو کر بیٹھا, اور سامنے ڈیش بورڈ پر پڑا ہئیر بینڈ اُٹھا کر اس کی طرف بڑھایا۔
یہ لو پکڑو اور جلدی سے اپنے بال باندھو۔ آئندہ تم مجھے باہر کھلے ہوئے بالوں یا پھر ان کپڑوں میں نظر آئی "نا" تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔ یہ تمہارا امریکہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان ہے۔ جہاں ہزاروں لڑکے آوارہ گردی کرتے پھرتے ہیں۔ خارب شہادت کی انگلی اٹھا کر چہرے پر غضب اور غصہ لیے, اسے وارن کرتے ہوئے تحکم بھرے لہجے میں بولا۔
وہ جو پہلے ہی اسے خوف زدہ تھی۔ کہ اس کے غصے سے ڈر کر وہ مزید دروازے سے چپک گئی۔ آنکھوں سے بہت تیزی کے ساتھ آنسو بہہ کر اس کی تمام ہمتوں کو ایک دم پھر سے بکھیر گئے تھے, اور وہ دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا کر ہچکیوں کے ساتھ رونے لگی۔ رونے کی وجہ سے اس کا وجود لرز رہا تھا۔
اس کا خارب سے ڈرنا پھر ایک دم رونے لگ پڑنا۔ صحیح معنوں میں خارب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
خارب یہ تو کیا کر رہا ہے یار۔ اس میں اس کی کیا غلطی ہے۔ تو اسے کیوں ڈانٹ رہا ہے۔۔۔۔۔جو لڑکی امریکہ جیسے ماحول میں پلی بڑھی ہو۔ وہ پاکستان کے حالات کے بارے میں کیسے جانتی ہو گی۔ وہ پہلے ہی ان لڑکوں کی وجہ سے سہمی ہوئی تھی۔ اوپر سے تمہارا ان لڑکوں کو جارحانہ انداز میں مارنا۔ ظاہر ہے وہ لڑکی تھی۔ تم سے خوف زدہ تو ہو گی "نا"۔ اب بھی تم نے اسے غصے میں ڈانٹ دیا۔ وہ مسلسل خود کو سرزش کرتے ہوئے دل ہی دل میں بولا۔
اس نے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خود کو کمپوز کیا۔ پھر پوری طرح اس کی طرف گھوم کر بیٹھ گیا۔
رامیہ اِدھر دیکھو میری طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایم سوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے جان بوجھ کر نہیں تمہیں ڈانٹا۔ پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا۔ اس بار وہ نرمی سے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھتے مٹھاس بھرے لہجے میں بولا۔ لیکن اب بھی وہ ہچکچیوں سے روئے جا رہی تھی۔
رامیہ پلیز رونا بند کرو۔ میں تمہیں ایسے روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ تم تو میری بہادر رامیہ تھی "نا" جو بہادری سے ہر کسی کا مقابلہ کرتی تھی۔ پھر آج اس کی آنکھوں میں آنسو۔ وہ انگلیوں کی پوروں سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔ لیکن اس کے رونے میں کوئی کمی نہ آئی۔
مم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے ہچکیوں کے درمیان بولنا چاہا۔ مگر بول نہیں پا رہی تھی۔
ہاں رامیہ میں سن رہا ہوں۔ تم بولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پیار سے ایک ہاتھ سے اس کا گال سہلاتے ہوئے بولا۔
مم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔گ۔۔۔۔۔۔۔گھر جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے۔ مم۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں۔۔۔۔۔۔۔نہ۔۔۔۔۔۔۔نہیں رہنا۔ مم۔۔۔۔۔۔۔۔میں ڈیڈ۔۔۔۔۔۔۔کےپاس۔۔۔۔۔۔۔۔جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔چ۔۔۔۔۔۔چاہتی ہوں پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔وہ روتے ہوئے ہچکیوں کے درمیان بولی۔ شاید وہ اب بھی خوف کے زیر اثر تھی۔ اس لیے یہ سب بول رہی تھی۔ خارب کو خود سے نفرت ہونے لگی تھی۔ کہی نہ کہی وہ خود کو اس کی اس حالت کا قصوروار سمجھ رہا تھا۔
کیا ہوتا اگر میں رامیہ کو اکیلا چھوڑ کر آئس کریم نہ لینے جاتا۔ نہ وہ لڑکے اسے تنگ کرتے, نہ میں غصے میں آ کر انہیں مارتا,نہ رامیہ خوف زدہ ہوتی اور نہ اس کی یہ حالت ہوتی۔ وہ مسلسل خود کو بلیم کر رہا تھا۔
خارب مم۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شش۔۔۔۔۔۔۔۔اب تم کچھ نہیں بولو گی۔ خارب اس کے نرم گداز لبوں پر انگلی رکھتے ہوئے بولا۔ وہ بھیگی بھیگی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔
ایم سوری۔۔۔۔۔۔۔۔اسے اپنی طرف دیکھتا پاکر خارب نے فوراً اپنے کان کی لو کو چھو کر ندامت بھرے لہجے میں بولا۔ جبکہ اس نے دوبارہ نظریں جھکا لیں اور زبان سے کچھ بھی نہ بولی۔
**************
مایوس ہو کر وہ اب کالج سے باہر آ گئی تھی۔ اب اس کا ارادہ سیدھا گھر جانے کا تھا۔ کہ اسی وقت اس کا موبائل رنگ کیا۔ جو اس نے بنا دیکھے اُٹھا لیا۔
ہیلو ! اسلام علیکم
وعلیکم سلام کیسی ہو نریم ؟ دوسری طرف عمیر کی چہکتی ہوئی آواز آئی۔
میں ٹھیک عمیر بھائی آپ کیسے ہیں ؟ وہ بے تاثر لہجے میں استفسار کرتے ہوئے بولی۔
میں بھی ٹھیک, تم بتاؤ کیا کر رہی ہو ؟ وہ گویا ہوا۔
کچھ نہیں اس وقت کالج میں ہوں, بس گھر ہی جا رہی تھی۔ وہ مختصر سا بولی۔
ہمم اور ضوفی۔۔۔۔۔۔؟ کیا وہ بھی تمہارے ساتھ ہے ؟ اب اس نے کال کرنے کا اصل مقصد بتایا تھا۔
ضوفیرہ کے نام پر وہ ایک دم چُپ ہوئی, کیونکہ اب اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
اُوں میڈم کہاں چلی گئی, جواب نہ پا کر وہ فوراً بولا۔
جی عمیر بھائی, وہ جو ضوفیرہ کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ عمیر کی آواز پر فوراً چونک کر بولی۔
نریم تم کسی بات کو لے کر اپ سیٹ ہو۔ وہ فوراً فکر مند لہجے میں بولا۔ کیونکہ اس کے لہجے کی اداسی وہ صاف پہچان سکتا تھا۔ پتہ نہیں کیوں آج وہ اسے کچھ پریشان سی لگی تھی۔
وہ بوکھلائی۔۔۔۔۔
نن۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں تو عمیر بھائی ایسی تو کوئی بات نہیں۔ بھلا میں کیوں اپ سیٹ ہونگی۔ وہ اپنے لہجے کو ہشاش بشاش رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔ کیونکہ وہ عمیر کو کچھ بھی بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ لیکن دوسری طرف وہ اس کے لہجے کی بوکھلاہٹ صاف محسوس کر چکا تھا۔ جس کی وجہ سے اسے پورا یقین ہو گیا تھا۔ یقیناً کوئی بات تھی جو وہ اس سے چھپا رہی تھی۔
نریم۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے مدھم بھری آواز نریم کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
جی بھائی۔۔۔۔۔۔۔وہ بے ساختہ بولی۔
اب تم اپنے بھائی سے بھی جھوٹ بولو گی۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔
نہیں عمیر بھائی آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں۔ میں کیوں آپ سے جھوٹ بولونگی۔ سچ میں ایسی کوئی بات نہیں۔ آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے وہ اس کی غلط فہمی دور کرتے پُر اعتماد لہجے میں یقین دلاتے ہوئے بولی۔
اُوں تو تم نہیں بتاؤ گی, ٹھیک ہے پھر میں بھی فون رکھ رہا ہوں, آخر کار اسے اپنی بات پر قائم دیکھ کر اس نے جان بوجھ کر فون بند کرنے کی دھمکی دی۔ جو کار آمد بھی ثابت ہوئی۔
نہیں نہیں عمیر بھائی پلیز آپ فون مت رکھیے گا, میں بتاتی ہوں آپ کو۔ اس سے پہلے کہ وہ فون کا سلسلہ منفقطع کرتا۔ وہ تیزی سے بولی, کیونکہ ضوفیرہ تو پہلے ہی ناراض تھی اور اب وہ عمیر کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔
یہ ہوئی نہ بات, چلو اب جلدی سے بتاؤ, وہ کیا بات ہے کہ جس نے میری بہن کو اتنا اداس کر دیا۔ وہ استفسار کرتے ہوئے بولا۔
عمیر بھائی وہ ضوفی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر اس نے اسے رات سے لے کر اب تک جو کچھ بھی ہوا, وہ سب کچھ تفصیل سے اس کے گوش گزار دیا۔ جسے سُن کر عمیر کے چہرے پر بے شمار شکنیں ابھریں تھیں۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ مجھے یقین نہیں آ رہا, ضوفی تمہارے ساتھ ایسے ری ایکٹ کرے گی۔ دل تو کر رہا ہے اسے کس کے دو تھپڑ لگاؤں۔ وہ غصے سے اسے اپنے خیالات سے آگاہ کرتے ہوئے بولا۔
نہیں عمیر بھائی پلیز آپ ایسا کچھ بھی نہیں کرینگے۔ وہ فوراً پریشانی سے بولی۔ جیسے وہ سچ میں اسے تھپڑ مار دے گا۔ لیکن اسے عمیر کی یہ بات اچھی نہیں لگی تھی۔ چاہے ان کے بیچ جتنی بھی ناراضگی تھی۔ لیکن وہ ایک دوسرے کا خود سے بڑھ کر کرتی تھیں۔
دوسری طرف عمیر کا بھرپور قہقہہ اس کی سماعتوں سے ٹکرایا۔
صیحع کہا تم نے, میں ایسا کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ وہ میرے سے اتنی دور جو بیٹھی ہے۔ وہ بمشکل اپنی ہنسی پر ضبط کرتے ہوئے بولا۔ اس کی بات پر نریم کے ہونٹوں پر بھی ہلکی سی مسکراہٹ رینگ گئی۔
عمیر بھائی اگر ضوفی اس وقت آپ کے پاس ہوتی, تو آپ واقع میں اسے تھپڑ مارتے۔ اس نے کسی ڈر کے زیر اثر استفسار کیا۔
تم بتاؤ, تمہیں اپنا بھائی اتنا ظالم لگتا ہے کیا ؟ اس نے سوال کے بدلے الٹا سوال کیا۔
نہیں تو, مجھے تو آپ ایسے نہیں لگتے, بلکہ آپ تو بہت اچھے ہیں۔ وہ پُریقین لہجے میں بولی۔
یہ تو تم کہہ رہی ہو, جبکہ تمہاری دوست کے تو میرے بارے کچھ اور ہی خیالات ہیں۔ وہ منہ لٹکا کر بولا۔
عمیر بھائی آپ فکر نہ کریں, بس اپنے ارادے پر ڈٹے رہیں۔ ایک نہ ایک دن تو لڑکی مان ہی جائے گی "نا" وہ شرارتی لہجے میں بولی۔
تم ٹھیک کہہ رہی ہو, لاتوں کے بھوت باتوں سے تھوڑی مانتے ہیں۔ وہ بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔ ایک پَل کے لیے دونوں طرف خاموشی چھائی تھی۔ پھر دونوں کا مشترکہ قہقہہ گونجا۔
اچھا عمیر بھائی اب میں فون رکھتی ہوں۔ پھر بات ہو گی۔
اچھا ٹھیک ہے ہاں ایک بات اور پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سیدھا گھر جانا اورکھانا کھا کر سو جانا۔ وہ فون بند کرنے سے پہلے وہ تنبہیہ کرنا نہیں بھولا تھا۔
اُوکے ٹھیک ہے اللہ خافظ اس کی فکر پر وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
*******************
خارب نے ایک نظر اس کی جھکی ہوئی پلکوں کو دیکھا۔ اس سے پہلے وہ دوبارہ کچھ کہنے کے لیے لب واں کرتا۔ کہ اس کی نظر رامیہ کی سفید صراحی دار گردن پر گئی۔ جہاں پر چھوٹا سا کٹ کا نشان تھا۔ خون نکل کر اب اِردگِرد جم چکا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تھوڑی دیر پہلے والا منظر لہرایا تھا۔ جب وہ لڑکا رامیہ کی گردن پر چھری رکھے کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر سلوٹیں ابھریں۔
اپنے ہونٹ دانتوں میں دبائے, مٹھیاں بھینچتے وہ اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
نہیں چھوڑونگا میں انہیں جان سے مار دونگا۔
اس کی غصے سے بھری آواز رامیہ کی سماعتوں سے ٹکرائی تو اس نے یک لخت نظریں اُٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔ جو چہرے پر غصے کے تصورات لیے۔ اس کی گردن کی جانب دیکھ رہا تھا۔
رامیہ کو ایک لمحہ لگا تھا پوری بات سمجھنے میں, اس لیے اس نے فوراً گردن میں لپٹا ہوا سکارف کچھ اس طرح سے ٹھیک کیا۔ کہ زخم اب چھپ چکا تھا۔ جبکہ وہ اس کی یہ حرکت نظرانداز کرتے سیدھا ہو کر بیٹھا, اور گاڑی کی کبرڈ کھول کر اس میں سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر اس میں سے پایو ڈین لے کر تھوڑی سی رؤئی پر ڈالی۔
اب وہ دوبارہ اس کی طرف پورا گھوم کر بیٹھ گیا۔ جونہی اس نے رؤئی والا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ کہ اس نے گلے میں لپٹا سکارف اور مضبوطی سے پکڑ لیا۔ اب وہ بڑی بڑی آنکھوں میں خوف لیے اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ جبکہ خارب کو اس کی اس حرکت پر بالکل بھی حیرت نہیں ہوئی تھی۔ اسے لگا شاید وہ ناراضگی کی وجہ سے ایسا کر رہی تھی۔
رامیہ کیا اب بھی تم مجھ سے ناراض ہو۔ اس نے بے بس لہجے میں استفسار کیا۔ جبکہ رامیہ نے فوراً نفی میں سر ہلایا۔
تو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ چونکا۔
مم۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے دوائی نہیں لگوانی۔ وہ آہستگی سے بولی۔
وہ کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟ اس نے آنکھوں میں حیرانی لیے استفسار کیا۔
بہت درد ہو گا "نا" وہ مدھم آواز میں چہرے پر ڈھیر ساری معصومیت لیے بولی۔
اس کے جواب پر خارب کو ہنسی تو بہت آئی تھی۔ جسے وہ منہ نیچے کیے دانتوں میں دبا گیا۔ اس وقت وہ اسے ایک بالکل چھوٹی بچی لگ رہی تھی۔ جو ان جیکشن کا نام سُنتے ہی ڈر جاتی تھی۔
رامیہ تم نے دوائی نہ لگائی, تو زخم بڑھ جائے گا, اور تمہیں اور زیادہ تکلیف ہو گی, اور میں نہیں چاہتا تمہیں زرہ سی بھی تکلیف چھو کر بھی گزرے۔ اس لیے مجھے دوائی لگانے دو۔ وہ اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولا۔ جبکہ اس نے فوراً نفی میں سر ہلایا۔
رامیہ دیکھو سمجھنے کی کوشش کرو, اچھا ٹھیک ہے میں زخم بالکل آرام سے صاف کر کے دوائی لگاؤں گا۔ تاکہ تمہیں بالکل بھی درد نہ ہو۔ اسے مسلسل نفی میں سر ہلاتے دیکھ کر خار ب نے پیار سے اس کے گال پر ہاتھ رکھ کر منانے کی چھوٹی سی کوشش کی تھی۔ لیکن شاید وہ کچھ بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس لیے وہ اپنے گال سے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولی۔
نہیں لگوانی مجھے دوائی۔۔۔۔۔۔۔کہا "نا" نہیں تو نہیں۔ پھر کیوں نہیں سمجھ رہے تم۔ رامیہ کی اس حرکت پر وہ ششد رہ گیا۔ غصہ تو بہت آیا, لیکن جلد ہی اس نے اپنے غصے کو کنٹرول کر لیا۔
جاری ہے
0 Commenti
Commento