Advertisement

Adbox

5 TUM MERA JANOON HO Episod ( تم میرا جنون ہو )

   Tum Mera Janoon Ho

         ( تم میرا جنون ہو ) 

# Novel Tum Mera Janoon Ho

 # Writer; Aima Ashfaq

# Janoon, Possessive hero, Innocente herion, Romantic and Uni based novel

# Please Don't Copy Paste My Novel❌❌🚫🚫

# Episode 5:

عفان مجھے یہاں ہی اُتار دو۔ مجھے آفس میں کچھ کام ہے۔ اگر تمہیں کوئی پرابلم نہیں تو پلیز عفی کو گھر چھوڑ دینا۔ اریش گاڑی چلاتے عفان سے بولا۔
ارے یار کیسی باتیں کر رہے ہو۔ تم بے فکر ہو کر جاؤ۔ میں عفو کو گھر چھوڑ دوں گا۔ وہ اس کے آفس کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے بولا۔
چل ٹھیک ہے بائے پھر ملتے ہے۔ اریش کے گاڑی سے اُترتے ہی عفساء بھی فوراً اَگے آ کر بیٹھی۔
عفان ہم کہاں جا رہے ہیں یہ راستہ گھر کی طرف تو نہیں جاتا۔ وہ سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔
ہم گھر جا بھی نہیں رہے, آج میں تمہیں ریسٹورینٹ میں اچھا سا کھانا کھلاؤ گا۔
ریسٹورینٹ کا سُن کر اس کے چہرے پر ڈر کے تصورات چھائے۔ جو عفان نے بخوبی محسوس کیے تھے۔ لیکن اسے خیرت بالکل بھی نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ وہ جانتا تھا اس کا یہی ری ایکشن ہو گا۔ اب اریش کی طرح عفان بھی اس کا ڈر دور کرنا چاہںتا تھا۔
ن۔۔۔۔۔نہیں عفان ہم گھر میں کھانا کھا لیں گے "نا"۔ پلیز مجھے کہیں نہیں جانا۔ وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
عفو مجھ پر یقین ہے۔ وہ ریسٹورینٹ کے سامنے گاڑی روک کر اب پوری طرح اس کی طرف گھوم کر بیٹھ گیا۔ اور تھوڑی سے اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے بولا۔
عفساء نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔ عفان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ جبکہ دور ایک گاڑی میں بیٹھے شارم نے یہ منظر غصے بھری نظروں سے دیکھا۔ اپنی انگلیوں میں سگریٹ دبائے مسلسل غصے سے اس کے کش لے رہا تھا۔ لیکن غصہ جو تھا کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اب وہ لوگ اندر چلے گئے تھے۔
نہیں ہرنی یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ اس نے غصے سے سگریٹ گاڑی سے باہر پھینکا اور اسی وقت گاڑی سے نکلا اور مغرور چال چلتا پیچھے کھڑی گارڈز کی گاڑی کی طرف بڑھا۔
تم لوگوں کو جو کچھ کہا ہے۔ وہ سب یاد ہے, اگر زرا سی بھی غلطی ہوئی۔ تو پتہ ہے "نا" پھر میں کیا کروں گا۔ اس نے ایک گارڈ کو کالر سے پکڑ کر غصے سے دانت چباتے ہوئے بولا۔ جبکہ آنکھوں میں بھی آگ بھرس رہی تھی۔
جج۔۔۔۔۔۔۔جی سر ہو جائے گا۔ وہ گبھراتے ہوئے بولا۔
جبکہ غصے سے اسے پیچھے دھکیلتے۔ شارم کا رُح اب ریسٹورینٹ کی طرف تھا۔
                                                    ***************
عفو تم اِدھر بیٹھو, میں ابھی آیا, اور ڈونٹ وری یہ پرائیویٹ روم ہے۔ یہاں تم آرام سے بیٹھ سکتی ہوں۔ عفان نے اس کے چہرے پر گھبراہٹ دیکھ کر فوراً بولا۔ اس نے اس کے لیے پہلے ہی پرائیویٹ روم بُک کر لیا تھا۔ کیونکہ وہ اچھے سے جانتا, کہ وہ لوگوں سے کتنا گبھراتی تھی۔
اس نے صرف ہاں میں ہی سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
جبکہ عفان مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر وہاں سے چلا گیا۔
اس کے روم سے نکلتے ہی شارم فوراً اندر داخل ہوا۔ پہلی نظر ہی اس کی سامنے بیٹھی دشمن جاں پر پڑی۔ جو نظریں نیچے کیے اپنی انگلیوں سے کھیل رہی تھی۔
عفساء جو نظریں نیچے کیے بیٹھی تھی۔ کہ اس کمرے میں کسی اور کی بھی ماجودگی محسوس کر کے اس نے نظریں اُٹھائی۔ تو سامنے شارم کو کھڑا دیکھ کر اس کا سانس سینے میں ہی اٹکا۔
وہ قدم قدم چلتا اس کی طرف آ رہا تھا۔ جبکہ عفساء ڈر کے مارے وہاں بیٹھے بیٹھے ہی پیچھے کی طرف کھسک رہی تھی۔ جیسے اس سے دور جانا چاہںتی ہو۔
وہ اس کے قریب پہنچا, اور ایک ہاتھ ٹیبل پر دوسرا ہاتھ بنچ پر رکھ کر  اس کے جانے کا راستہ مسدود کیا۔
ہرنی چلے, اب تمہیں ہمیشہ کے لیے اپنا بنانے کا ٹائم آ گیا ہے۔ وہ تھوڑا جھکتے ہوئےحمار آلود  لہجے میں بولا۔
اس کی چلنے والی بات پر عفساء کو ایسا لگا۔ وہ اگلا سانس نہیں لے پائے گی۔ اس کی آنکھوں میں پانی اکٹھا ہونے لگا, اور وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر پوری شدت سے رونے لگی۔
ہرنی اب تمہارا یہ رونا مجھ پر کام نہیں آئے گا۔ اس لیے چلو شاباش اُٹھو۔ وہ زبردستی اس کے چہرے سے ہاتھ ہںٹا کر اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے بولا۔ اسے اس کے رونے سے تکلیف تو ہوئی تھی۔ لیکن آج وہ اپنا دل مضبوط کر کے آیا تھا۔ ہمیشہ کے لیے اسے پانے کے لیے اسے اپنا بنانے کے لیے۔ چلو اب۔ اس نے اسے اٹھانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی تھی۔
نن۔۔۔۔۔۔۔نہیں پپ۔۔۔۔۔۔۔پلیز مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا۔ وہ ہچکیوں کے درمیان روتے ہوئے بولی۔
اچھا تو تم میرے ساتھ نہیں جاؤ گی۔ تو ٹھیک ہے۔ ابھی اگر تمہارے بھیا کا آفس آگ کی لپیٹ میں آ جائے تو۔ تمہارا بھیا ابھی آفس میں ہی ہے "نا"۔ شارم اسے دھمکاتے ہوئے بولا۔
نہیں نہیں پلیز آپ میرے بھیا کو کچھ مت کہیے گا۔ میں چلو گی جا رہی ہوں۔ وہ فوراً روتے ہوئے بولی۔
شارم نے اسے کھڑا کیا, اور دوسرے ہاتھ سے اپنی انگلیوں کی پوروں سے اس کے آنسو صاف کیے۔
خبردار اب تمہاری آنکھوں سے اب ایک آنسو بھی نکلا تو, وہ تحکم بھرے لہجے میں بولا۔ اور اس کا ہاتھ پکڑے باہر کی طرف بڑھا۔ وہ نازک سی لڑکی ناچاہںتے ہوئے بھی۔ اس کے ساتھ کھینچتی چلی جارہی تھی۔
شارم نے باہر آتے ہی اسے گاڑی میں بیٹھایا, اور اپنے گارڈز کو کچھ اِشارہ کرتے خود بھی جلدی سے دوسری طرف آ کر گاڑی میں بیٹھا۔

عفساء جو سیٹ پر بیٹھے پوری شدت سے رونے میں مصروف تھی۔ کہ اچانک اس کی نظر سامنے فون پر بات کرتے عفان پر پڑی۔ پتہ نہیں اس میں اتنی ہمت کہاں سے آئی۔ کہ بے ساختہ اس کے لبوں سے یہ نام نکلا۔
جسے سنتے ہی شارم نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ اپنی ہرنی کے منہ سے کیسے کسی اور کا نام سن سکتا تھا۔ لیکن وہ اس کی طرف دیکھ ہی کب رہی تھی اس کا سارا دھیان تو عفان کی طرف تھا۔
شارم نے اس کی نظروں کے تعاقب میں سامنے دیکھا۔ تو غصے کے مارے اس کی رگیں تنی۔ ہاتھوں کی گرفت سٹرنگ پر مضبوط ہوئی۔ آنکھیں خون چھلکانے لگی۔ اس نے ایک بھی لمحے کی تاخیر کیے بغیر گاڑی وہاں سے نکالی۔
عفان۔۔۔۔۔۔۔۔عفان۔۔۔۔۔۔۔۔شارم کی گاڑی دور جاتے دیکھ کر اس نے شیشے پر ہاتھ مارتے ہوئے اونچی اونچی آواز میں اسے پکارنے لگی۔ کبھی گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرتی تو کبھی شیشے پر دونوں ہاتھ مارتی عفان عفان پکارتی۔
شارم یہ سب بہت مشکل سے برداشت کر رہا تھا۔ اس کی ہرنی کسی اور کا نام کیسے لے سکتی تھی۔
اب ان کی گاڑی ریسٹورینٹ سے کافی دور آ گئی تھی۔
عفساء اب بے بسی سے منہ نیچے کر کے رو رہی تھی۔ اسے پتہ تھا اب اسے شارم سے کوئی بھی بچا نہیں سکتا تھا۔ جو آخری اُمید اسے نظر آئی, وہ بھی اب ختم ہو گئی تھی۔
اس نے اپنے فلیٹ کے سامنے گاڑی روکی اور غصے سے بھرا گاڑی سے باہر نکلا, اور اس کی طرف کا آ کر دروازہ کھولا۔ چلے ہرنی۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے پیچھے کی طرف کھسکی۔
جبکہ شارم نے اب کی بار اس کی کچھ بھی سنے بغیر کسی گڑیا کی طرح اپنی بانہوں میں اُٹھا لیا۔ اتنے غصے میں بھی اس کی پکڑ میں نرمی ہی تھی۔
ایک پَل عفساء کو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔ اس کے ساتھ ہوا کیا تھا۔ شرم کے مارے اس کے گال دھک اُٹھے تھے۔ اس نے گِرنے کے ڈر سے اس کے گلے میں دونوں ہاتھ ڈالے۔ اس کی اس حرکت پر غصے میں بھی شارم کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے۔
اس کے قدم اندر کی طرف بڑھتے دیکھ کر وہ فوراً ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔ اسے ایسا لگ رہا تھا وہ ہمیشہ کے لیے اپنے بھیا سے دور ہو رہی تھی۔
نہیں نہیں مجھے اندر مت لے کر جاؤ۔ مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ۔ مجھے بھیا کے پاس جانا ہے۔ وہ اپنے ہاتھ اس کے سینے پر مارتے ہوئے  روتے ہوئے بولی۔
تھوڑی دیر پہلے جو گِرنے کے ڈر سے جو ہاتھ اس کی گردن پر تھے۔ اب اپنے بھیا کے دور جانے کے خوف سے اب وہ انہی ہاتھوں سے اسے پیچھے دھکیل رہی تھی۔
پلیز مجھے بھیا کے پاس جانا, مجھے اندر مت لے کر جائے۔ پلیز بھیا۔ وہ مسلسل اس کی بانہوں میں مچل رہی تھی۔ لیکن وہ بے حس انسان سن ہی کب رہا تھا۔
شارم نے اسے اپنے کمرے میں لا کر کسی نازک گڑیا کی طرح اسے بیڈ پر بیٹھایا۔ خود گھٹنوں کے بَل اس کے پاس بیٹھ گیا۔
بھ۔۔۔۔۔۔بھیا کے پپ۔۔۔۔۔پاس ج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شششش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خبردار اب تمہاری آواز آئی تو۔ وہ اس کے ہونٹوں پر اپنی شہادت کی انگلی رکھ کر تخکم بھرے لہجے میں بولا۔
ہرنی تم میری ہرنی تھی "نا"۔ میں نے تمہیں بتایا تھا "نا"۔ تم صرف میری ہو ؟ وہ اس کے گالوں پر آنسوؤں سے چپکے بالوں کو پیار سے پیچھے کرتے ہوئے بولا۔
لیکن وہ تو بس آنکھوں میں آنسو لیے رونے میں مصروف تھی۔
ہرنی میں نے کچھ پوچھا ہے۔ اس بار وہ بیڈ پر ہاتھ مارتے غصے سے بولا۔
 وہ ڈر کے مارے اچھلی۔ اس نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔
تو پھر ان ہونٹوں پر کسی اور کا نام کیسے آیا۔ تم کیسے ان ہونٹوں پر میرے علاوہ کسی اور کا نام لے سکتی ہو۔ وہ اپنی ہاتھوں کی انگلیاں اس کے گال پر رکھے اور انگھوٹھے سے اس کے ہونٹوں کو رب کرتے جنونیٹ بھرے لہجے میں بولا۔ اس کے لہجے میں غصہ صاف جھلک رہا تھا۔
اس کے ایسا کرنے سے عفساء کے دل میں ایک بیٹ مِس ہوئی۔
نن۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں اب نہیں لونگی۔ وہ فوراً اس کا وہ ہاتھ پیچھے کرتے ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی۔
اس کے ایسا کرنے پر دوبارہ اس کے چہرے پر غصے کے تصورات چھائے۔ لیکن اس کے ہاتھوں کو دیکھ کر دوبارہ اس کے چہرے پر وہ ویڈیو والا منظر گھوم گیا۔ وہ فوراً غصے سے وہاں سے اُٹھا, اور الماری سے ایک کپڑا لیا اور واش روم میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ گیلا کپڑا لے کر واشروم سے نکلا۔ تو عفساء اپنے دونوں پاؤں بیڈ کے اُوپر کیے۔ گھٹنوں میں سر دئیے رو رہی تھی۔ وہ اس کی طرف بڑھا۔ اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔
ہرنی اپنا ہاتھ دو۔
پپ۔۔۔۔۔۔۔پلیز مم۔۔۔۔۔۔مجھے جانے دے۔ اس کی آواز پر وہ اپنا سر اُٹھا کر آنکھوں میں اُمید لیے بولی۔
جبکہ کے شارم نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ اس کا ہاتھ پکڑا اور اس  گیلے کپڑے سے صاف کرنے لگا۔
ہرنی تم نے انہیں ہاتھوں سے اس کمینے سے ہاتھ ملایا تھا۔ عفساء کی آنکھیں خیرت سے پھیلیں۔

 جبکہ شارم تو اس کے ہاتھ صاف کرنے میں مصروف تھا۔ جیسے اس شخص کا لمس اپنی ہرنی کے ہاتھ سے مِٹا دینا چاہںتا ہو۔ جب صاف کرنے سے بھی اسے سکون نہ ملا تو اس نے وہاں اپنے ہونٹ رکھ دئیے۔ اس  کے ایسا کرنے سے عفساء نے فوراً اپنا ہاتھ کھینچا۔

شارم کا پارہ ہائی ہوا۔ ہرنی تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی۔ مجھ سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی۔ بولا تھا "نا" آئندہ ایسے نہ کرنا۔ اس  کمینے کے ہاتھ پر خود ہاتھ رکھ دیا, اور میرے پکڑنے میں تمہیں تکلیف کیوں ہوئی۔ وہ اسے دونوں کاندھوں سے پکڑے ترش لہجے میں بولا۔
اس  کی خوف کے مارے آنکھیں پھیلیں۔ وہ شدت سے اپنے بھیا کو یاد کر رہی تھی۔
مجھے بھیا کے پاس جانا ہے۔ وہ روتے ہوئے بولی۔ شاید وہ اس شخص کا  غصہ نہیں برداشت کر پا رہی تھی۔ وہ تھی تو نازک سی گڑیا جو ڈیول کی قید میں آ گئی تھی۔
اچھا اچھا میں کچھ نہیں کہتا۔ لیکن جو میں کر رہا ہوں۔ اس سے تم مجھے نہیں روکو گی اور نہ مجھ سے دور ہو گی۔ اسے خود سے ڈرتے دیکھ کر شارم تھوڑی نرمی سے بولا لیکن ساتھ تنبہیہ کرنا نہیں بولا۔
اب کی بار شارم نے اس کی ناک کو صاف کیا اور وہاں بھی اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اس بار عفساء نے پیچھے ہونے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اسے اپنی بے بسی پر رونا آ رہا تھا۔ وہ اس کی قربت برداشت نہیں کر پارہی تھی۔
شارم نے اب تھوڑی صاف کی اور وہاں بھی وہی عمل دکھایا۔ تو عفساء کی بس ہو گئی تھی۔ اسے اب یہ سب برداشت نہیں ہو رہا۔ اس نے غصے سے اسے پیچھے کی طرف دھکا دیا۔
مجھے نہیں رہںنا آپ کے ساتھ, آپ بہت گندے ہیں۔ وہ فوراً بیڈ سے اُٹھی اور اس سے دور جا کر کھڑی ہو گئی, اور روتے ہوئے بولی۔ اور اپنے ہاتھوں, ناک اور تھوڑی سے اس کا لمس مٹانے کی کوشش کرنے لگی۔
شارم کے چہرے پر غصے کے تصورات چھائے۔ ہاتھوں کی مٹھیاں فوراً بھینچی۔ وہ غصے سے فوراً بیڈ سے اُٹھا اور پاس ٹیبل پر پڑی چیزیں ہاتھ مار کر غصے سے نیچے پھینک دی۔
آں ں ں ں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے ایسا کرنے پر عفساء کے ہلک سے ڈر کے مارے چیخ نکلی تھی۔ وہ فوراً دروازے کی طرف بڑھی۔ وہ موم سی لڑکی اب یہاں نہیں رہںنا چاہںتی۔
اسے دروازےکی طرف بڑھتا دیکھ کر شارم نے فوراً نیچے سے ریموڈ اُٹھا کر ریموڈ کنٹرول سے دروازہ لاک کر دیا۔
عفساء کے پہنچنے تک فٹ سے دروازہ بند ہو گیا۔ اس نے خوفزدہ نظروں سے پیچھے مُڑ کر دیکھا۔ تو ہاتھ میں ریموڈ پکڑے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
ہرنی جب تمہیں پتہ ہے تم اپنے شارم سے کہی دور نہیں جا سکتی۔ پھر کوشش کیوں کرتی ہو۔ وہ اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔وہ پیچھے کی طرف ہوتے دوبارہ اس نے اپنا رخ دروازے کی جانب کیا۔ کوئی ہے دروازہ کھولو۔۔۔۔۔۔۔مجھے اپنے بھیا کے پاس جانا ہے۔ بھیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھیا پلیز مجھے لے جائے۔ وہ دروازہ پیٹتے پوری شدت سے روتے ہوئے بولی۔
ہرنی بس بہت ہوا۔ اب تمہاری آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہ نکلے۔ ورنہ میں تمہیں کبھی بھی یہاں سے جانے نہیں دوں گا۔ اس کے پاس پہنچتے ہی شارم نے اس کا رُخ اپنی طرف کر کے غراتے ہوئے بولا۔ اب وہ اور اس کے آنسو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
اس نے ڈر کے مارے فوراً اپنی آنکھیں میچ لی۔
ہرنی اپن یور آئز۔
نن۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں آپ پھ۔۔۔۔۔۔۔پھر ڈانٹے گے۔ وہ نفی میں سر ہلاتے اٹکتے ہوئے بولی۔
اس کی بات سن کر غصے میں بھی شارم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ یہی ادائیں اسے اپنی ہرنی کی پسند تھی۔ اس وقت وہ اسے ایک ڈری ہوئی ہرنی ہی لگ رہی تھی۔ جو شیر کو دیکھتے ہی خوف زدہ ہو جاتی تھی۔
میری جان اپن یور آئز میں نہیں ڈانٹوں گا۔ وہ ایک ہاتھ اس کی کمر میں ڈالے دوسرے ہاتھ سے پیار سے اس کے گال سہلا تے ہوئے بولا۔
اس نے ہلکے ہلکے اپنی آنکھیں کھولی تو شارم اس کے بہت قریب کھڑا تھا۔ اس نے فوراً نظروں کا زاویہ بدلہ۔
ہرنی تم گھر جانا چاہںتی ہو "نا"۔ تو میں تمہیں گھر جانے دوں گا۔ لیکن اس کے لیے تمہیں میری ایک بات ماننی ہو گی۔ تمہیں ہمیشہ کے لیے میرا ہونا ہو گا۔ وہ اسے نظروں کے حصار میں لیے مسکراتے ہوئے بولا۔
عفساء سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
تمہیں ابھی اور اسی وقت مجھ سے نکاح کرنا ہو گا۔ اس کے لہجے میں اطمینان ہی اطمینان تھا۔ جیسے اسے یہ بات کرتے ہوئے اسے بہت سکون ملا ہو۔
نن۔۔۔۔۔۔۔نہیں میں آپ سے۔۔۔۔۔۔۔۔نن۔۔۔۔۔نکاح نہیں کک۔۔۔۔۔۔کروں گی۔ مجھے آپ سے نکاح نہیں کرنا۔ پلیز نہیں۔ وہ فوراً نفی میں سر ہلاتے اٹکتے ہوئے بولی۔ آنسو جو تھوڑی دیر پہلے تھم چکے تھے۔ اب دوبارہ بہہ نکلے۔ کیونکہ وہ جانتی تھی اگر اس نے شارم سے نکاح کر لیا تو وہ ہمیشہ کے لیے اپنے بھیا سے دور ہو جائے گی۔

نہیں میری ہرنی, میں انکار نہیں سنوں گا۔ تمہیں میرا ہونا ہو گا۔ کیونکہ یہی تمہاری سزا ہے۔ تمہیں جب پتہ تھا تم میری ہو, پھر بھی تم نے کسی لڑکے سے  بات کی۔ نہ صرف بات کی بلکہ اس لڑکے نے تمہیں چھوا بھی اور تمہیں ہاتھ بھی لگایا, اور میں یہ بات اچھے سے جانتا ہوں۔ جب تم مکمل طور پر میری ہو جاؤ گی۔ پھر تو میں تمہیں کسی کو دیکھنے بھی نہیں دوں گا, ہاتھ لگانا تو بہت دور کی بات ہو گی۔ کیونکہ تمہیں دیکھنے کا, تمہیں چھونے کا, تمہیں ہنسانے کا صرف شارم شاہ کا حق ہے۔ تم صرف شارم شاہ کی ہرنی ہو۔ اگر ہمارے بیچ جو بھی آیا۔ اسے میں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ وہ اس کے گال اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں لیتے جنونیت بھرے لہجے میں بول رہا تھا۔ آنکھیں اس کی سرخ انگارہ ہو گئی تھی۔ جیسے ابھی وہ سب کچھ تہس نہس کر دے گا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار وہ منظر لہرا رہا تھا۔ جس میں اس لڑکے نے اس کی ہرنی کو چھوا تھا۔ وہ چاہ کر بھی اپنی ہرنی کو تکلیف نہیں دے سکتا تھا۔ لیکن وہ دل میں پکہ ارادہ کر چکا تھا۔ کہ اس لڑکے کو وہ چھوڑنے والا نہیں تھا۔
ہے ہرنی ڈرو نہیں مائے بیبی میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔ اس سے خود سے خوفزدہ ہوتے دیکھ کر شارم فوراً اپنے لہجے میں نرمی لایا۔
مم۔۔۔۔۔۔مجھے پلیز یہ نن۔۔۔۔۔۔نکاح نہیں کرنا۔ میں وعدہ کرتی ہوں۔ آئندہ کک۔۔۔۔۔۔کسی سے بب۔۔۔۔۔۔۔بات نہیں کروں گی۔ پلیز۔ وہ روتے ہوئے بچوں کی طرح التجائیہ لہجے میں بولی۔
نہیں ہرنی نکاح تمہیں کرنا پڑے گا, اور اب انکار کرنے سے پہلے یہ ویڈیو ضرور دیکھ لینا۔ وہ اسے چھوڑتے اپنے پاکٹ سے موبائل نکال کر ایک ویڈیو پلے کر کے اس کے سامنے کیا۔
جسے دیکھتے ہی اس نے فوراً کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کے ہاتھ سے موبائل چھینا۔
عفان۔۔۔۔۔۔عفان۔۔۔۔۔۔پپ۔۔۔۔۔پلیز انہیں روکو۔ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ مر جائے گا۔ پپ۔۔۔۔۔۔پلیز انہیں روکو۔ وہ ویڈیو دیکھتے ہچکیوں سے روتے ہوئے بمشکل بولی۔  ویڈیو میں کچھ لوگ عفان کو بُری طرح پیٹ رہے تھے۔ جس سے کرسی پر باندھا گیا تھا, اور آنکھوں پر بھی پٹی تھی۔
اپنی ہرنی کی آنکھوں میں کسی اور کے لیے آنسو دیکھ کر شارم نے غصے سے  اپنی دونوں ہاتھ کی مٹھیاں بھینچی۔
پلیز عفا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شششش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خبردار ہرنی اب ان لبوں پر کسی اور کا نام آیا تو ورنہ بالکل بھی اچھا نہیں ہو گا۔ وہ سرخی مائل آنکھیں لیے سخت لہجے میں بولا۔ وہ اب اس کے منہ سے کسی اور کا نام نہیں سن سکتا تھا۔
جلدی سے جا کر فریش ہو جاؤ۔ تھوڑی ہی دیر میں ہمارا نکاح ہے۔ وہ اَٹل لہجے میں بول کر فوراً وہاں سے چلا گیا۔ کیونکہ وہ نہیں چاہںتا تھا۔ کہ غصے میں آ کر وہ اپنی ہرنی کو کوئی بھی تکلیف دے۔
اس کے کمرے سے جاتے ہی عفساء نیچے زمین پر بیٹھتی چلی گئی اور پوری شدت سے رونے لگی۔ بھیا۔۔۔۔۔۔۔۔بھ۔۔۔۔۔۔۔بھیا پلیز مم۔۔۔۔۔۔۔مجھے یہاں سے لے جائے۔
                                             *****************
 باہر آتے ہی شارم نے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے اپنے غصے کو کنٹرول کیا۔ جبکہ غصہ جو تھا۔ کسی طور پر کم نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے غصے سے موقہ دیوار پر مارا۔
شارم تیرے آدمی زبردستی مجھے یہاں اُٹھا کر لے آئے۔ یہ کوئی طریقہ ہے مجھے یہاں لانے کا۔ تم پاگل ہو گے ہو۔ خنان جو کب سے غصے سے باہر بیٹھا۔ اس کا انتظار کر رہا تھا۔ کہ اسے باہر نکلتا دیکھ کر فوراً اس کی طرف بڑھا اور غصے سے بولا۔
دیکھ خنان اس وقت میرا دماغ پہلے ہی بہت گرم ہے اور تو اسے اور ہوا مت دے۔ میں اس وقت کسی بحث کے موڈ میں نہیں ہوں۔ وہ آنکھوں میں انگارہ لیے اس کی طرف یکھ کر بولا۔
ابھی اس سے پہلے کہ خنان کچھ بولتا۔ کہ اندر کمرے میں کسی لڑکی کی رونے کی آواز سن کر خنان نے آنکھوں میں خیرت لیے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
شارم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اب اپنی بک بک نہ شروع کر دینا۔ کیونکہ میں تیرا لیکچر سننے کے بالکل بھی موڈ میں نہیں ہوں۔ میں نے تمہیں یہاں صرف اپنے نکاح میں شامل ہونے کے لیے بُلایا ہے۔
نن۔۔۔۔۔۔۔نکاح۔۔۔۔۔۔۔۔شارم تو پاگل ہو گیا۔ اس کی آنکھیں خیرت سے پھیلیں۔
 ایک تو تم اپنی آدمیوں سے کہہ کر زبردستی مجھے اٹھوا کر لے آئے۔ اب تم کہہ رہے ہو, میں تمہارے نکاح میں شامل ہوں۔ نکاح کوئی بچوں کا کھیل ہے, اور مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ تم زبردستی اسے اٹھا کر یہاں لے کر آئے ہو۔ وہ غصے سے اس کی طرف دیکھ کر بولا, اور سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
شارم نے بے ساختہ نظریں چرائی۔
شارم تم پاگل تو نہیں ہو گے۔ جب وہ لڑکی راضی ہی نہیں ہے نکاح کے لیے تو تم کیسے اس سے نکاح کر سکتےہو۔ اسے نظریں چراتے دیکھ کر خنان سب سمجھ گیا تھا اس لیے اس کی طرف دیکھ کر غرایا۔
خنان تو یہاں صرف میرے نکاح میں شامل ہونے آیا ہے۔ باقی چیزوں سے تمہیں اور کوئی مطلب نہیں ہونا چاہںیے۔ اگر تجھے اتنی تکلیف ہو رہی ہے تو چلے جاؤ  یہاں سے۔ لیکن اتنا تو طہٰ ہے ۔ آج تو میرا نکاح ہو کر رہے گا۔ کیونکہ میرے اور ہرنی کے درمیان کوئی نہیں آ سکتا۔ وہ صرف میری ہے, صرف میری۔ وہ کمرے کی ہر چیز توڑتے ہوئے بولا۔ خنان کو وہ اس وقت کوئی سائکو, پاگل, جنونی ہی لگ رہا تھا۔ جو اس وقت اپنی ہرنی کو پانے کے لیے کتنا پاگل تھا۔ اسے اس لڑکی پر ترس آ رہا تھا۔ جس کا نکاح شارم سے ہونے والا تھا۔

خنان بے بسی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے اپنے دوست کی طرف دیکھا۔
                                       ****************
اریش آفس سے گھر آتے ہی گِرنے کے انداز میں بیٹھا اور پیچھے صوفے سے ٹیک لگا لی۔
اریش بیٹا تم ٹھیک ہو۔ احمد جو ابھی کمرے سے باہر نکلے کہ اسے ایسے صوفے پر بیٹھے دیکھ کر اس کی طرف بڑھے اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر متفکر لہجے میں بولے۔
ان کے کندھے پر ہاتھ رکھنے پر وہ فوراً چونکا۔
ہاں جی پاپا آپ نے کچھ کہا۔ وہ آنکھیں کھولتے فوراً سیدھا ہو کر بیٹھا, اور ان کی طرف دیکھ کر بولا۔
اریش کیا ہوا بیٹا تم مجھے کچھ پریشان لگ رہے ہو۔ وہ اس کے پاس ہی بیٹھتے ہوئے بولے۔
پتہ نہیں پاپا آج میرا دل بہت گبھرا رہا ہے۔ میری عفی ٹھیک بھی ہو گی کہ نہیں۔۔
اریش بیٹا تم نے آج پہلی دفعہ اسے عفان کے ساتھ باہر بھیجا "نا"۔ اس لیے تمہیں فکر ہو رہی ہے۔ تھوڑی دیر پہلے تمہاری ماما بھی بہت پریشان تھی۔ بہت مشکل سے میڈیسن دے کر آیا ہوں۔ اب تم بھی فکر نہ کرو, وہ عفان کے ساتھ بالکل ٹھیک ہو گی, وہ اسے سنبھال بھی لے گا, اور اگر تمہیں اس کی زیادہ فکر ہو رہی ہے۔ تو تم اسے کال کر لو۔ وہ اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولے۔
جی پاپا آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں کچھ زیادہ ہی پریشان ہو رہا ہوں۔ شاید اسے کبھی خود سے دور نہیں نہ جانے دیا اس لیے, اور رہی کال کرنے کی تو تھوڑی دیر پہلے میں نے عفان کو کال کی تھی۔ وہ کہہ رہا عفی بالکل ٹھیک ہے۔ اس نے بھی ان کی بات پر اتفاق کیا۔
تو چلو اب جلدی سے جا کر فریش ہو جاؤ۔ میں تمہارے لیے کھانا لگاتا ہوں۔ اب تمہاری ماما تو میڈیسن کھا کر سو گئی ہے۔ مجھے ہی جانا پڑے گا۔ وہ منہ بناتے ہوئے بولے۔
ان کی بات پر اریش بھی مسکراتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔
                                               ***************
چلے ہرنی۔۔۔۔۔۔۔شارم  کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آیا, اور اسے نیچے زمین سے اُٹھاتے اپنے ہاتھوں سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔ جو مسلسل رونے میں مصروف تھی۔ اب وہ اپنی الماری کی طرف بڑھا۔ اس میں سے ایک ریڈ کلر کا دوپٹہ نکال کر اس پر اُڑھا دیا۔ یہ اس نے اپنی ہرنی کے لیے ہی لیا تھا۔ لیکن اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ کہ وہ اسے ایسے دے گا۔
جبکہ وہ نظریں نیچے کیے رونے میں مصروف تھی۔ جو شارم مسلسل نظرانداز کر رہا تھا, وہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے باہر لے آیا۔ جہاں بہت اس کے گارڈز اور ایک سائیڈ پر اس کا دوست کھڑا اسے غصے بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ جونہی اس کی نظر عفساء پر گئی۔ ایک پَل کے لیے وہ بھی ساکت رہ گیا۔ اس کے چہرے پر اس قدر معصومیت تھی۔ کہ اس نے نفی میں سر ہلاتے افسوس بھری نظروں سے شارم کو دیکھا۔ جس کے چہرے پر خوشی تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ آخر ہوتا بھی کیوں نہ اس کی ہرنی ہمیشہ کے لیے اس کی ہونے والی تھی۔ جبکہ عفساء اس سارے معاملے میں چپ چاپ رو رہی تھی۔ وہ اچھے سے جانتی تھی اگر وہ کچھ بولتی۔ تو عفان کی جان کو خطرہ ہو سکتا تھا۔
کب مولوی نے پوچھا, کب اس نے نکاح نامہ پر سائن کیے اور کب اس نے نکاح فرائض سر انجام دئیے۔ اسے کچھ پتہ نہ چلا۔ وہ تو بس کٹھ پتلی کی طرح چلتی جا رہی تھی۔ اس کے نام کے ساتھ اب ہمیشہ کے لیے شارم کا نام جُڑ چکا تھا۔
اب وہ شارم کے بیڈ پر لیٹے پوری شدت سے رو رہی تھی, اور بار بار اپنے بھیا اور پاپا کو پکار رہی تھی۔
                                                  *****************
شارم تم نے اس معصوم کے ساتھ اچھا نہیں کیا یار۔ پلیز اب نکاح کر ہی لیا ہے تو اس کی قدر کرنا۔ اس پر کبھی غصہ مت کرنا وہ بہت نازک ہے۔ خنان اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔
دیکھ خنان یہ آخری غلطی تھی تمہاری جو میں معاف کر رہا ہوں۔ آئندہ سے تم میری ہرنی کے بارے میں کوئی بات نہیں کرے گا۔ یہ حق میں نے تمہیں بھی نہیں دیا۔ وہ انگلی اُٹھا کر اسے اچھے سے باور کراتے ہوئے بولا۔
مگر شا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس میں اب کچھ نہیں سننا چاہںتا۔ میرے خیال میں اب تمہیں چلے جانا چاہںیے۔ آغاجان پریشان ہو رہے ہوں گے۔ وہ ختمیٰ فیصلہ کرتے ہوئے کمرے کی طرف بڑھا۔ جہاں اس کی ہرنی تھی۔
اس نے مسکراتے ہوئے کمرے کا دروازہ کھولا۔ تو اپنی ہرنی کو اس طرح روتے دیکھ کر فوراً اس کی طرف بڑھا۔
ہرنی میری جان, وہ اس کے پاس بیڈ پر بیٹھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک جھٹکے سے اُٹھا کر گلے سے لگا لیا۔  

ششش پلیز ہرنی چپ کر جاؤ, وہ اسے گلے سے لگائے پیچھے سے اس کے سر کے بالوں میں انگلیاں چلاتے  ہوئے اسے ریلیکس کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
پپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز مم۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے گھر اپنے بھ۔۔۔۔۔۔۔۔بھیا کے پاس جانا ہے۔ وہ اس سینے پر سر رکھے ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی۔
اچھا ہم چلتے ہیں۔ پہلے یہ پانی پیو۔ وہ اسے اپنے سے الگ کر کے سائیڈ ٹیبل پر پڑا پانی کا گلاس اس کے ہونٹوں سے لگاتے ہوئے بولا۔ جو اس نے دو گھونٹ پی کر گلاس پیچھے کر دیا۔
اب کی بار شارم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیڈ سے نیچے اُتارا۔ وہ فوراً بیڈ سے نیچے اُتری کہ اب شاید وہ اسے گھر چھوڑ دے گا۔ لیکن اسے کیا پتہ تھا۔ ابھی تو اس بیچاری کی آزمائش ختم نہیں ہوئی تھی۔
شارم اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اسی فلیٹ کے تہہ خانے میں لے آیا تھا۔ وہ جو سمجھی تھی شارم اسے گھر لے کر جائے گا۔ اسے ایک اندھیر نما جگہ میں لاتے دیکھ کر وہ ڈرتے ہوئے شارم سے چپکی اور سینے پر اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں سختی سے بھینچ لیا۔ اسے ایسے ڈرتے دیکھ کر شارم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
ہے ہرنی میں ہوں "نا"۔ وہ بھی اپنا ہاتھ اس کے گِرد پھیلاتے۔ اسے اپنے ہونے کا احساس دلایا۔
جونہی وہ تھوڑی اَگے بڑھے, ہر طرف روشنی چھا گئی۔ عفساء نے بھی نظریں اُٹھا کر سامنے دیکھا۔ سامنے عفان کو زخمی حالت میں دیکھ کر اسے اپنے پیروں پر کھڑے رہںنا مشکل ہو گیا۔ اگر شارم نے اسے نہ پکڑتا تو وہ اسی وقت گِر جاتی۔
عف۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے وہ اس کا نام پکارتی اس کی طرف بڑھتی۔ پیچھے سے شارم نے ایک ہاتھ اس کے پیٹ پر دوسرا اس کے کے منہ پر رکھ کر پیچھے سے اس کمر کو سختی سے اپنے ساتھ لگایا۔ جس سے اس کے باقی کے الفاظ منہ میں ہی دب گئے۔
شش ہرنی بولا تھا نہ اس کا نام نہیں لینا۔ پھر بھی تم وہی غلطی کرنے جا رہی تھی "نا"۔ اب اس کی سزا تو اسے ملے گی "نا"۔
وہ اسے اپنے ساتھ جھوڑے, پیچھے سے اس کے کان کے قریب سرگوشی کرتے ہوئے بولا, اور اب کی بار اپنے گارڈز کو کچھ اشارہ کیا۔
جو اس کا اشارہ سمجھتے اب دوبارہ اسے پیٹنے لگے۔
جبکہ عفساء روتے ہوئے مسلسل نفی میں سر ہلا رہی تھی, اور اس کے پاس جانے کے لیے مچل رہی تھی۔ جو شارم کے غصے کو اور ہوا دے رہا تھا۔
اب کی بار عفساء بمشکل خود کو چھڑاتے ہوئے شارم کی جانب مُڑی۔ اس کے ایسا کرنے پر اب وہ اس کے بہت نزدیک کھڑی تھی اور شارم کے دونوں ہاتھ اب اس کی کمر پر تھے۔ وہ مکمل طور پر اس حصار میں قید تھی۔ لیکن اسے ان سب کی پرواہ ہی کب تھی۔ اسے تو صرف اس وقت عفان کی فکر تھی۔
پلیز شارم آپ اسے چھوڑ دے۔ میں اس کا کبھی نام بھی نہیں لوں گی۔ نہ کبھی ہینڈ شیک کروں گی۔ پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔وہ شدت سے روتے ہوئے منت بھرے لہجے میں بولی۔
کیا کہا ابھی تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
پلیز اسے چھوڑ دے۔۔۔۔۔۔۔
نہیں اس سے پہلے کیا بولا۔ وہ فوراً بولا۔
شارم۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ پھر سے بولو۔ وہ اپنی پیشانی اس کی پیشانی کے ساتھ جوڑتے, اپنی ناک کو اس کی ناک کے ساتھ رب کرتے ہوئے آنکھیں موندھتے خمار آلود لہجے میں بولا۔
اس کے ایسا کرنے سے عفساء کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ شاید ابھی نکل کر باہر آ جائے گا۔ شرم کے مارے گال دھک اُٹھے تھے۔
پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ خود سے اسے پیچھے کرنےکی غلطی تو نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے روتے ہوئے اس کی زبان سے یہی ایک  لفظ ادا ہوا۔
اس کی حالت پر ترس کھاتے وہ فوراً مسکراتے ہوئے پیچھے ہوا۔ لیکن شرم کے مارے اس کے سُرخ نرم و ملائم بھرے ہوئے گال دیکھ کر اسے اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل لگ رہا تھا۔ لیکن وہ اس ننھی کی جان کو اور امتخان میں نہیں ڈالنا چاہںتا تھا۔ کیونکہ وہ اچھے سے جانتا تھا اب کی بار وہ سہہ نہیں پائے گی۔
اچھا اب میری جان نے مجھے اتنے پیار سے کہا ہے۔ تو اس کی بات تو ماننی پڑے گی۔ لیکن ہرنی یہ آخری غلطی تھی جو میں معاف کر رہا ہوں, اور اس خبیث کو جانے دے رہا ہوں۔ ورنہ میری ہرنی کی طرف دیکھنے والے کی میں آنکھیں نوچ لوں۔ وہ غصے بھری نظروں سے کرسی سے بندھے عفان کو دیکھتے ہوئے بولا, اور اپنے آدمیوں کو اشارے سے اسے وہاں لے جانے کے لیے کہا۔
ہرنی اب سے تم صرف میری ہو۔ بھول جانا تمہارا بچپن کا کوئی دوست بھی تھا۔ وہ پیار سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔
عفساء کی آنکھوں میں خیرت اُتری۔
ایسے نہ دیکھو, مجھے اپنی ہرنی کے بارے میں ہر ایک بات معلوم ہے۔ تم کیا کھاتی ہو, کب کھاتی ہو, اور تمھیں کیا پسند ہے اس کی آنکھوں میں خیرانی دیکھ کر وہ فوراً بولا۔
اور اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آیا۔
                                              ***************
قصو تم یہاں آرام سے بیٹھی ہو۔ کیا تمہیں میرے آنے کی بالکل بھی خوشی نہیں ہوئی۔ کہ تم میرا ویلکم کرنے نیچے بھی نہیں آئی۔ ابھی بھی میں بڑی امی سے تمہارا کمرا پوچھ کر یہاں آئی ہوں۔ رجاء کمرے میں آئی, تو اسے دوسری طرف منہ کیے آرام سے بیٹھے دیکھ کر شکوہ کن لہجے میں بولی۔

وہ جو رونے میں مصروف تھی۔ کہ پیچھے سے رجاء کی آواز سن کر اس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے۔ اور مسکراتے ہوئے پیچھے مُڑ کر دیکھا۔
نہیں رجاء ایسی بات نہیں ہے۔ میں بس آنے ہی والی تھی۔ وہ زبردستی ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کر بولی۔
ہاں ہاں بس بس رہںنے دو۔ مجھے پتہ ھے تم جونسا آنے والی تھی۔ وہ بیڈ پر لیٹتے ہوئے ناراضگی سے بولی۔ جبکہ ٹانگیں اس کی نیچے ہی تھی۔
رجاء اچھا سوری "نا"۔ ناراض تو نہ ہو۔ وہ بھی بیڈ پر چڑھتے اس کے سر کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی۔
اچھا ٹھیک ہے ایک شرط پر پلیز میرے سر میں بہت درد ہے اسے دبا دو۔ وہ فوراً اس کی گود میں سر رکھتے ہوئے بولی۔
اس کے بچپنے پر قصواء کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اور اپنی جان سے پیاری دوست کا سر دبانے لگی۔
اس کے ایک دفعہ کہنے پر اسے ایسا کرتے دیکھ کر رجاء نے تھوڑا سا اپنا سر اُٹھایا, اور اس کے گال چوم کر دوبارہ سر اس کی گود میں رکھ لیا۔ جبکہ قصواء کی آنکھیں خیرت سے پھیلیں۔
قصو سرئیسلی یار تم بلش کر رہی ہو۔ اگر میری جگہ جیجو ہوتے تو پھر کیا ہوتا تمہارا۔ اسے بلش کرتے دیکھ کر رجاء نے مسکراتے ہوئے اسے چھیڑا۔
اس کی بات پر قصواء نے فوراً تکیا اٹھا کر اسے مارا۔ جو فوراً اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر بچاؤ کیا, اور اسے تنگ کرنے کے انداز میں مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔

جاری ہے


Posta un commento

1 Commenti

  1. Nice episode 👌🏻👌🏻brava 👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻

    RispondiElimina

Commento

Parvish novel

PARIVISH Episode 31 (پری وش)