Parivish
( پری وش )
# Novel by Parivish
# Writer; Aima Ashfaq
# Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel
# Please Don't Copy Paste My Novel
# Episode 22:
ارے آپ چائے تو پی کر جائیے۔
نہیں پھر کبھی سہی ابھی مجھے ضروری کام سے کہی جانا ہے۔ ڈکٹر جمال گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے بولے۔
اچھا ٹھیک ہے آئیے میں آپ کو باہر تک چھوڑ آؤں۔
******************
صائمہ جو چیر پر ٹیک لگائے بیٹھی ہوئی تھی۔ بیٹھے بیٹھے ان کی کب آنکھ لگی انہیں پتہ ہی نہ چلا۔ ان کی آنکھ لگے ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی۔ کہ اپنے پاؤں پر کسی کے ہاتھوں کا لمس محسوس کر کے ہلکی ہلکی اپنی آنکھیں کھولی۔ تو اپنے سامنے نیچے زمین پر خارب کو اپنے گھٹنوں کے پاس بیٹھے دیکھ کر فوراً سیدھی ہو کر بیٹھی۔
ارے خارب تم, تم یہاں کیوں بیٹھے ہو ؟ اُٹھو یہاں سے۔ صاعمہ فوراً اسے زمین سے اٹھاتے ہوئے بولی۔
نہیں چچی جان پلیز مجھے یہاں سے مت اُٹھائیے۔ پلیز تھوڑی دیر کے لیے۔ وہ آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ التجا لیے بولا۔
چچی جان میں نے آپ کو بہت دکھ دیا ہے "نا"۔ بہت ہرٹ کیا ہے آپ کو۔۔۔۔۔۔۔؟ میں بہت بُرا ہوں۔ ایم سوری چچی جان پلیز ایم سوری۔ وہ روتے ہوئے بولا۔ اسے اس طرح روتے دیکھ کر صائمہ کی آنکھیں بھی بھیگ گئی۔
نہیں خارب تم معافی کیوں مانگ رہے ہو۔ معافی تو مجھے مانگنی چاہںیے, کہ تم پر ہاتھ اُٹھایا۔ مجھے معاف کر دو خارب۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں چچی جان پلیز آپ معافی مانگ کر مجھے شرمندہ نہ کریں۔ اگر آپ کی جگہ میری ماما بھی زندہ ہوتی, تو وہ بھی شاید یہی کرتی۔ بچے جب غلطی کرتے ہیں۔ تو والدین کا حق ہوتا ہے۔ کہ انہیں اس غلطی کی سزا دینا۔
آج آپ نے مجھے تھپڑ مارا, مجھے بالکل بھی بُرا نہیں لگا۔ میں نے ہمیشہ آپ کو ماں کا درجہ دیا ہے۔ وہ روتے ہوئے ان کا ہاتھ چومتے بولا۔
خارب میری جان کیا زیادہ زور سے تھپڑ لگا تھا۔ صائمہ پیار سے اس کے اسی گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
نہیں چچی جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چچی جان میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں۔ میں رامیہ کو اس خویلی میں واپس لے کر آؤں گا۔ میں نے غلطی کی ہے۔ تو سُدھاروں گا بھی میں ہی۔۔۔۔۔۔۔۔بس آپ مجھے معاف کر دے۔
خارب پلیز اب چپ کر جاؤ, میں تمہیں ایسے روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔ صائمہ اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
اچھا اب یہاں سے اُٹھو اور اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو۔ خارب ان کا ہاتھ چومتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا اور وہاں سے چلا گیا۔
****************
مس نیہا۔۔۔۔۔۔
میں اپنے کیبن میں جا رہا ہوں۔ پلیز مجھے کوئی ڈسٹرب نہ کریں۔ خارب آفس آتے ساتھ ہی ریسیپشن پر اپنی اسیسٹینٹ سے بولا۔
جی سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کام جلد سے جلد ہو جانا چاہںیے,کوئی گڑبڑ نہ ہو۔ اچھا تمہیں میں بعد میں کال کرتا ہوں۔ وہ ابھی فون پر بات کر رہا تھا۔ کہ ٹیبل پر موجود انٹر کام کی بزر ہوئی۔
جی مِس نیہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے آپ کو بولا بھی تھا۔ کہ پلیز مجھے ڈسٹرب نہ کیا جائے۔ وہ غصے سے بولا۔
سوری سر ایک لڑکی آئی ہے,جاب کے سلسلے میں۔ رامیہ نام بتا رہی ہے اپنا۔ کب سے یہی کھڑی تھی اس لیے مجھے مجبورً آپ کو کال کرنی پڑی۔ خارب کے غصے سے ڈرتے ہوئے اس نے فوراً وضاخت دی۔
کَیا ابھی کیا نام بتایا آپ نے اس لڑکی کا۔ اس نے فوراً تجسس کے مارے پوچھا۔
مِس رامیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے ایک بار پھر سے دہرایا۔
ٹھیک ہے آپ جلدی سے انہیں اندر بھیج دے۔
رامیہ یہاں جاب کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ لیکن اسے جاب کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ واقع ہی رامیہ ہے یا پھر کوئی اور ؟ وہ ابھی اپنے آپ سے ہی بڑبڑا رہا تھا۔ کہ اسی وقت دروازہ ناک ہوا۔
جی آ جائیے وہ بارعب آواز میں بولا۔
رامیہ جونہی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔ کہ اپنے سامنے خارب کو کھڑا دیکھ کر خیران رہ گئی۔ خیرانی تو خارب کی آنکھوں میں بھی بہت تھی۔ وہ وہی ساکت کھڑا رہ گیا۔ ہوش تو اسے تب آیا جب وہ اسے اپنے قدم واپس پیچھے مُڑتے دیکھ کر دیکھ کر وہ فوراً اس کی طرف لپکا۔ اس سے پہلے وہ وہاں سے جاتی خارب نے ایک جھٹکے سے اسے اندر کی طرف کھینچا اور دروازہ بند کر دیا۔
یہ کیا بد تمیزی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رامیہ گِرتے گِرتے بچی۔
تم کہاں چلی گئی تھی ؟ تم آئیڈیا بھی ہے کہ ہم سب کتنے پریشان ہو گئے تھے۔ تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔ چچی جان نے تمہاری وجہ سے رؤ رؤ کر بُرا حال کر لیا ہے۔ اس کی طرف آ کر دونوں کندھوں سے پکڑتے غصے سے بولا۔
جبکہ رامیہ نے آنکھوں میں خیرت لیے اس کی طرف دیکھا۔ جیسے کہہ رہی ہو۔ خود ہی نکال کر خود ہی پوچھتے ہو۔ کہاں چلی گئی تھی۔
اس کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر خارب نے ہلکلے سے اپنے ہاتھ اس کے کندھوں سے ہٹائے اور فوراً پیچھے ہوا۔ اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے خود کو کمپوز کیا۔
اب وہ دوبارہ اس کی طرف مُڑا۔
رامیہ پلیز یہاں بیٹھ جاؤ۔ کیا ہم بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔ اب کی بار اس کے لہجے میں نرمی تھی۔
مجھے نہیں بیٹھنا یہاں پر اور نہ میں یہاں بیٹھنے آئی ہوں۔ مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی, اور اگر مجھے پتہ ہوتا اس کمپنی کے بوس تم ہو۔ اور یہ تمہارا آفس ہے تو میں یہاں آنے کی غلطی کبھی بھی نہ کرتی۔ وہ غصے سے بول کر دوبارہ دروازے کی طرف بڑھی۔ کہ خارب اس کا ارادہ بھانپتا فوراً اس کی طرف بڑھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی اسے چیر پر بیٹھا دیا, اور خود بھی چیر لے کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
اب تم خبردار یہاں سے ہلی بھی تو۔ جب تک میری بات مکلمل نہیں ہو جاتی۔ تم یہاں سے نہیں جا سکتی۔ وہ نہایت ہی سنجیدہ اور تخکمانہ انداز میں بولا۔ رامیہ کا ہاتھ ابھی بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔
میں نے کہا "نا"۔ مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی۔ اب تو میں خویلی سے بھی چلی گئی ہوں۔ اب تم کیا چاہںتے ہو۔ جانے دو مجھے, وہ ہاتھ چھڑانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے غصے سے بولی۔
بس بہت ہوا, میں نے کہا "نا" ایک دفعہ کی۔۔۔۔۔۔۔کی بات تمہیں سمجھ نہیں آتی۔ میں نے کہا ایک دفعہ میری بات سن لو۔ پھر تم بیشک یہاں سے چلی جانا۔ لیکن یہ تو طہ ہے جب تک تم میری بات نہیں سنوں گی۔ میں تمہیں یہاں سے جانے نہیں دوں گا۔ اس نہایت اونچی آواز میں غصے سے بولا۔ کیونکہ وہ یہ بات اچھے سے جانتا تھا وہ اس کی بات اتنی آسانی سے نہیں سُنے گی۔ رامیہ فوراً سہم کر پیچھے ہوئی۔
رامیہ میرا ارادہ تمہیں ڈرانا یا دھمکانہ نہیں۔ میں تم سے صرف پانچ منٹ مانگ رہا ہوں بات کرنے کے لیے۔ اسے خود سے خوف زدہ ہوتے دیکھ کر وہ نرمی سے بولا۔
میں تم سے سوری کرنا چاہںتا ہوں۔
رامیہ کی آنکھوں میں فوراً خیرت اُتری۔ کیونکہ اسے بالکل یقین نہیں آ رہا تھا۔ کہ وہ کھڑوس اسے سوری بول رہا تھا۔
ایم سوری رامیہ اس دن کے لیے جب تم نے افشال کی جان بچائی اور میں نے تم سے بہت روڈلی بات کی اور بہت بدتمیزی بھی کی۔
اس دن کے لیے جب تم میرے روم میں مجھے پرفیوم گفٹ کرنے آئی تھی۔ تو بدلے میں, میں نے تمہاری بہت انسلٹ کی تھی اور چچی سے بھی تمہارے خلاف بہت باتیں کی۔ لیکن میں نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا۔
میں تو اسی دن تم سے سوری بولنا چاہںتا تھا۔ جب تم نے افشال کی جان بچائی تھی۔ لیکن جب تم چچی جان کے ساتھ خویلی آئی۔ تو مجھے ایسا لگا کہ تم نے افشال کی جان بچانے کا ایک ناٹک کیا تھا۔ اصل مقصد تو تمہارا اس خویلی میں آنا تھا۔ تاکہ تم یہ سب حاصل کر سکو۔ لیکن افشال نے جب تمہارے بارے میں بتایا۔ کہ تم امریکہ سے آئی ہو۔ تمہارے پاس خود اتنا کچھ ہے۔ تم ہماری دولت لے کر کیا کروں گی۔
پھر جب تم ہماری خویلی میں رہی۔ تو میں کچھ ہی دنوں میں تمہیں جاننے لگا سمجھنے لگا۔ تم واقع بہت اچھی ہو۔ پھر آہستہ آہستہ سارے گھر والے تمہارے قریب ہوتے گئے۔ کہ چچی جان کو تم میں اپنی بیٹی پری وش نظر آنے لگی, دادجی کو اپنی پوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اذان بھائی جان کو اپنی گڑیا۔ تب مجھے یہ احساس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب تم یہاں سے چلی جاؤ گی۔ تو ان سب کو بہت دکھ ہو گا۔ اس لیے میں ہر دفعہ, ہر جگہ تمہاری انسلٹ کرتا, تم سے بدتمیزی سے بات کرتا۔ کہ تم یہاں سے چلی جاؤ۔
ایم سوری رامیہ, میری وجہ سے تم ہرٹ ہوئی۔ میں دل سے یہ سب نہیں چاہںتا تھا۔ لیکن رامیہ میں تم سے ریکویسٹ کرتا ہوں۔ پلیز خویلی واپس آ جاؤ۔ وہاں سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ سب تمہاری وجہ سے پریشان اور بہت دکھی ہے۔
رامیہ کیا ہم سب کچھ بُلا کر ایک اچھے دوست نہیں بن سکتے۔ میں جانتا ہوں۔ میں نے ایک دفعہ تمہاری دوستی کو رجیکٹ کر دیا تھا۔ اب تم چاہو۔۔۔۔۔۔تو میری دوستی کو اکسیپٹ کر لو یا پھر رجیکٹ کر دو۔ وہ اس کا ہاتھ چھوڑ کر ونڈو کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔
یہ کھڑوس دل کا اتنا بھی بُرا نہیں ہے۔ جتنا میں اسے سمجھ رہی تھی۔ رامیہ اس کی پُشت کو دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں بولی۔
مسٹر کھڑوس کیا آپ مجھ سے دوستی کریں گے۔ وہ اس کے پاس جا کر مسکراتے ہوئے بولی, اور فوراً مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
جبکہ خارب نے آنکھوں میں خیرت لیے اس کی طرف دیکھا۔
جی ضرور لیکن اُمید کرتا ہوں اس بار میرا کچومڑ نہیں بناؤ گی۔ خارب نے بھی مسکراتے ہوئے اسے ہاتھ ملایا, اور ساتھ اس کی بات اچھے سے یاد دلائی۔
اُوں تو اس دن تم نے میری باتیں سن لی تھی۔ وہ خیران ہوئی۔
جی میڈم میں بہرہ تو نہیں ہوں۔
لیکن لگتے تو تھے اس بار اس نے مذاق اُڑایا۔
اچھا جی۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے گھورا۔
ہاں جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ایک دوسرے کو دیکھتے ہی دونوں کا بھرپور قہقہہ آفس میں گونجا۔
*****************
صبح نو بجے ضوفیرہ کی آنکھ کھولی۔ تو اس وقت تک نریم کالج چلی گئی تھی۔ ضوفیرہ کی طبیعت تھوڑی ناساز تھی۔ اس لیے وہ نہیں جا سکی تھی۔ وہ اپنے اوپر سے بلینکٹ ہٹا کر بیڈ سے اُٹھی اور سیدھا واش روم میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد فریش ہو کر نکلی اور مرر میں اپنے بالوں میں کنگی کر کے ان کا جوڑا بنا کر کچن کی طرف رُخ کیا۔
ابھی وہ اپنے لیے کافی بنانے ہی لگی تھی۔ کہ اس کی نظر ٹیبل پر موجود بِپ ہوتے موبائل پر گئی۔ سامنے سکرین پر عمیر کا نمبر دیکھ کر اس کے چہرے کے تصورات فوراً بدلے۔ اس نے کال کاٹ کر دوبارہ موبائل ٹیبل پر رکھ دیا۔
لیکن رننگ تھی کہ مسلسل ہوتی جا رہی تھی۔ شاید وہ بھی ڈیٹھ تھا۔
اُف اللہ کہاں پھنس گئی میں۔ آج میں اسے پوچھ ہی لیتی ہوں۔ آخر مسئلہ کیا ہے اس کے ساتھ۔ جب سے آئی ہوں۔ کالز اور میسجز کر کے تنگ کر رکھا ہے۔ اس نے خود سے بڑبڑاتے ہوئے فوراً غصے سے فون اُٹھایا۔
ہیلو !
عمیر کیوں مجھے فون کر کے پریشان کر رہے ہو ؟ جب میں تمہاری کالز نہیں اُٹھا رہی تو اس کا مطلب یہی ہوا "نا"۔ میں تم سے بات نہیں کرنا چاہںتی۔ وہ فون اُٹھاتے ہی غصے سے بولی۔
اُوں۔۔۔۔۔۔۔شکر ہے خدا کا۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نے فون تو اُٹھایا, تمہاری آواز تو سننے کو ملی۔ ورنہ ہم تو سمجھ رہے تھے۔ تمہاری آواز سنے بغیر ہی ترستے ہوئے اس دنیا سے چلے جائیں گے۔ وہ اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے شوخی سے بولا۔
عمیر ہمارے درمیان ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے کہ میں تم سے کال پر باتیں کرو۔ اس نے اسے اچھے سے باور کرایا۔
رشتہ بنانے سے بنتا ہے عمیر نے بھی دوبدو جواب دیا۔
مگر تمہارے ساتھ ایسا کوئی رشتہ نہیں بنانا چاہںتی۔
کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔
تمہاری کوشش بیکار جائے گی۔ وہ تلخی سے بولی۔
یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ دوسری طرف وہ مسکرا کر بولا۔
میں نے تمہاری یہ فضول سی باتیں سننے کے لیے نہیں کال اُٹھائی۔ جو بھی بات کرنی ہے وہ کرو۔ وہ ناگواری سے بولی۔
ضوفی کبھی پیار سے بھی بات کر لیا کرو۔ دوسری طرف لہجہ التجائیہ تھا۔
اگر تم نے کوئی بات نہیں کرنی تو میں فون رکھ رہی ہوں۔ وہ اَکتا کر بولی۔
اچھا۔۔۔۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔۔۔۔فون نہ بند کرنا۔ ورنہ تم جانتی ہو, میں دوبارہ کروں گا۔
ضوفیرہ کا اس وقت دل کر رہا تھا۔ اپنا سر کسی دیوار سے پیٹ لے۔
اچھا بتاؤ اس وقت کیا کر رہی ہو ؟
عمیر تم بات کو اتنی طول کیوں دے رہے ہو۔ تم نے صرف یہ بات کرنے کے لیے مجھے کال کی تھی۔ ضوفیرہ کو اس کی ذہنی خالت پر شبعہ ہوا۔
تم سے جو پوچھا ہے اس کا جواب دو۔ ورنہ تم جانتی ہو, میں تب تک پوچھتا رہوں گا۔ جب تک تم بتاؤ گی نہیں۔ وہ اَٹل لہجے میں بولا۔
پتہ ہے مجھے۔۔۔۔۔۔۔اس نے منہ بسورا
ہمم کافی اچھے سے جانتی ہو مجھے۔ وہ شوخی سے بولا۔
جی ہاں بہت ڈیٹھ انسان ہو تم۔
جو بھی سمجھ لو۔ مگر جو ابھی پوچھا ہے اس کا جواب دو۔ وہ ابھی بھی اپنی بات پر قائم تھا۔
کافی بنا رہی ہوں, آخر کار وہ ہار مانتے ہوئے تلخ لہجے میں بولی۔
اُہوں اسی لیے تم ایسی ہو۔
کیا مطلب ؟ کیسی ہوں میں ؟ اس نے اِستفسار کیا۔
تم کافی نہ پیا کرو۔
کیوں۔۔۔۔۔۔؟ وہ خیرانی سے بولی۔
کافی کڑوی ہوتی ہے۔ اس نے اپنی طرف سے پتے کی بات بتائی۔
تو۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کافی کڑوی ہی ہوتی ہے۔ ضوفیرہ نے بھی اسے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے باور کرایا۔
میرا مطلب یہ تھا کہ تم کافی پی پی کر "نا" بہت کڑوا بولنے لگی ہو۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ تم میٹھی چیزیں کھایا کرو, تاکہ میٹھا میٹھا بولو۔ دوسری طرف مسلسل اس کے ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ رقصاں تھی۔
مجھے تمہارے مشورے کی ضرورت نہیں۔ تم اپنا مشورہ اپنے پاس رکھو,اور جو بات کرنی ہے جلدی کرو۔
ارے کب سے باتیں ہی تو کر رہا ہوں۔ اس نے اپنی طرف سے باور کرایا۔
عمیر میں مذاق کے موڈ میں بالکل بھی نہیں ہوں۔ جو بات کرنی ہے جلدی کرو, اس بار وہ غصے سے بولی۔
دیوار حستہ حال ہے در اداس رہے
جب سے کوئی گیا ہے میرا گھر اداس ہے
اک بار ملا تھا مجھے بے رخی کے ساتھ
اس دن سے دل کا شہر برابر اداس ہے
عمیر اگر تم نے یہی بکواس کرنی ہے تو میں فون رکھ رہی ہوں, اور اب کی بار میں تمہارا فون نہیں اُٹھاؤں گی۔ وہ غصے سے دانت چباتے ہوئے بولی۔
اچھا ٹھیک ہے میں اب سرئیس ہو۔ وہ نہایت سنجیدگی سے بولا۔
اس کے لہجے میں پہلی بار سنجیدگی محسوس کر کے, ضوفیرہ کا سانس اٹکا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ آخر وہ وقت آ ہی گیا تھا۔ جس کا اسے ڈر تھا۔ جس کی وجہ سے وہ پاکستان سے بھاگ کر یہاں آئی تھی۔ پتہ نہیں اسے ایسا لگ رہا تھا شاید عمیر وہی بات کرنے لگا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ اب تک بھاگ رہی تھی۔ اس سے پہلے وہ عمیر کی بات سنتی۔ اس نے فوراً کال کا سلسلہ منتقطع کر دیا۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی۔ کہ وہ اس کی بات سنتی۔ وہ نہیں چاہںتی تھی, عمیر وہ سب کچھ کہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اس کا موبائل دوبارہ رنگ کیا۔ اس بار بھی ضوفیرہ نے کال کاٹ دی۔
میسج کی بِپ ہوئی۔
ضوفی اب تم نے میرا فون نہ اُٹھایا۔ تو کل کی فلائٹ سے میں امریکہ آ جاؤں گا, اور یہ بات تم اچھے سے جانتی ہو۔ جو میں بولتا ہوں۔۔۔۔۔۔وہ کر کے دکھاتا ہوں۔ عمیر کا دھمکی بھرا میسج پڑھ کر ضوفیرہ کے ہاتھ پیر کانپے۔ اب کی بار اس نے کال کاٹنے کی بجائے اُٹھا لی تھی۔
ضوفی میں ابھی تم سے بات کر رہا تھا۔ پھر بیچ میں میری کال کیوں کاٹی۔ اس کے فون اُٹھاتے ہی, دوسری طرف وہ نہایت ہی سنجیدگی اور غصے سے بولا۔
کیونکہ میں اس وقت کالج میں ہوں۔ تم سے بات نہیں کر سکتی۔ اس کے غصے سے سہم کر ضوفیرہ کو جو سمجھ میں آیا۔ اس نے بول دیا تھا۔
تم جھوٹ کیوں بول رہی ہو۔
جج۔۔۔۔۔۔جھوٹ کک۔۔۔۔۔۔کیسا جھوٹ ؟ میں کوئی جھوٹ نہیں بول رہی۔
یہی کہ تم کالج میں ہو۔ عمیر نے اسے باور کرایا۔
ت۔۔۔۔۔تو اس میں۔۔۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔میں نے جھوٹ کیا بولا۔ میں کالج میں ہی ہوں, اپنے جھوٹ پکڑے جانے پر وہ بمشکل اَٹکتے ہوئے بولی۔ جبکہ اب بھی اپنی بات پر قائم تھی۔
ضوفی مجھ سے جھوٹ مت بولو۔ مجھے پتہ ہے تم اس وقت گھر میں ہی ہو۔ اس بار بھی اس نے اپنا لہجہ سنجیدہ ہی رکھا۔
تمہیں کیسے پتہ میں اس وقت گھر پر ہوں۔ اس کی آنکھوں میں خیرت اُتری۔
کیونکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے تم نے کہا۔ کہ تم کافی بنا رہی ہو۔ تو تم کافی کالج بنانے سے تو رہی۔ وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔
یااللہ یہ کتنا چالاک ہے یہ, اسی لیے تھوڑی دیر پہلے یہ مجھ سے پوچھ رہا تھا میں کیا کر رہی ہوں۔ وہ اپنی عقل پر ماتم کرتے ہوئے دل ہی دل میں بولی۔
لیکن تم سے کم ہوں۔ وہ شرارت سے بولا۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟
چالاک اور کیا ؟
لیکن میں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا۔ وہ منکر ہوئی۔
تم بیشک زبان سے کچھ بھی نہ کہو۔ لیکن میں تمہارے دل کی ہر ایک بات جان لیتا ہوں۔ وہ باور کراتے شوخ لہجے میں بولا۔
جبکہ ضوفیرہ اَگے سے چپ ہی رہی۔
ضوفی اس دفعہ پلیز میری کال مت کاٹنا۔ اس نے گزارش کی۔
اگر کاٹ بھی دی تو تم کون سا باز آ جاؤ گے۔ اس لیے بے فکر رہو, اس دفعہ ایسا کچھ نہیں کروں گی۔
****************
آنٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رامیہ خویلی میں داخل ہوئی۔ تو اسے سامنے لاؤنچ میں ہی صائمہ صوفے پر بیٹھی نظر آئی۔ وہ بھاگ کر ان کی طرف گئی۔
رامیہ کی آواز سن کر صائمہ نے سامنے دیکھا تو اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر فوراً خوشی کے مارے کھڑی ہوئی, اور رامیہ کو اپنے سینے میں بھینچ لیا۔
رامیہ میری بچی تم ٹھیک ہو۔ تمہیں کچھ ہوا تو نہیں ؟ پتہ ہے میں کتنا ڈر گئی تھی۔ وہ کبھی اس کی پیشانی اور کبھی چہرے پر بوسہ دیتے ہوئے بولی۔
آنٹی۔۔۔۔۔۔آنٹی میں بالکل ٹھیک ہوں۔ پلیز آپ پریشان نہ ہوئے۔ وہ ان کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔رامیہ اگر تم ہم سے ناراض تھی۔ تو ہم سے کہتی اس طرح گھر چھوڑ کر جانے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ آنکھوں میں شکوہ اور ناراضگی لیے بولی۔
جب سے خارب نے فون کر کے بتایا تھا۔ کہ وہ رامیہ کو لے کر خویلی آ رہا ہے۔ تب سے صائمہ لاؤنچ میں بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ اس کے آنے پر جتنا خوش تھی اب اسے اتنا ہی ڈانٹ رہی تھی۔
سوری آنٹی آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ وہ کان پکڑتے ہوئے معصومیت سے بولی۔
صائمہ نے اسے دوبارہ پیار سے گلے لگا لیا۔
آنٹی اب آپ پلیز رونا بند کرے۔ ورنہ میں واپس چلی جاؤں گی۔ وہ ان سے الگ ہو کر بولی۔ اس بار صائمہ نے اسے گھورا۔
اب کی بار اس نے اذان کی طرف دیکھا۔ جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ کہ رامیہ کے دیکھنے پر اس نے دوبارہ اپنی نظریں لیپ ٹاپ پر جما دی۔
سوری اذان بھائی جان, وہ اس کے پاس جا کر دوزانوں بیٹھ کر کان پکڑتے ہوئے بولی۔
اگر اذان بھائی جان آپ اب بھی نہ مانے "نا"۔ تو میں اُوٹھک بیٹھک شروع کر دوں گی۔ پلیز سوری اذان بھائی جان آئندہ ایسی غلطی نہیں ہو گی۔
جبکہ اس بار بھی اس کی نظریں لیپ ٹاپ پر ہی تھی۔
اچھا ٹھیک ہے آپ ایسے نہیں "نا" مانے گے۔ اس سے پہلے وہ اُوٹھک بیٹھک کرتی۔ اذان نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر نیچے زمین سے اُٹھا کر اپنے پاس بیٹھایا۔
سزا تو تمہیں ملے گی اور وہ بھی سخت۔
مشعال جو میرے کمرے میں ایک موٹی سی سٹک پڑی ہے "نا"۔ وہ تو لے کر آنا زرا, اذان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کچھ اشارہ کیا۔
اچھا میں لاتی ہوں, مشعال اذان کی شرارت سمجھ کر مسکرا کر بولی۔
جبکہ رامیہ کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
اذان بھائی جان کیا آپ مجھے مارے گے۔ وہ ڈر کے مارے رونے والی ہو گی۔
اب غلطی کی ہے سزا تو ملے گی "نا"۔ وہ اس کی خالت دیکھ کر وہ دل ہی دل میں مسکرایا۔
چلو جلدی سے اپنی آنکھیں بند کرو,اور اپنا ہاتھ اَگے کرو۔
آپ سچ میں مارے گے۔ وہ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے بولی۔
تمہیں معافی چاہںیے ؟ اذان بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔
جی اس نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔
پھر جیسا میں کہہ رہا ہوں۔ ویسا کرو۔
رامیہ نے فوراً اپنی آنکھیں بند کر کے ہاتھ اَگے کیا۔ آنکھوں سے آنسو نکل کر گالوں پر لڑھک آئے
اب جلدی سے اپنی آنکھیں کھولو۔
اس نے ہلکی ہلکی اپنی آنکھیں کھولی, تو اپنے ہاتھ میں آئس کریم دیکھ کر اس نے خیرانی سے اذان کی طرف دیکھا جو اب ہنس رہا تھا۔
تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تم پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی گڑیا پر ہاتھ اُٹھاؤں گا۔ اذان اپنے ہاتھوں سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔
اذان بھائی جان میں آپ سے بات نہیں کر رہی۔ آپ نے مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔ یہ لے اپنی آئس کریم مجھے نہیں چاہںیے, وہ ٹیبل پر آئس کریم رکھ کر منہ پُھلاتے ہوئے بولی۔
اچھا جو تم نے ہمیں ایک دن پورا ڈرائے رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا کیا ؟
تو میں نے سوری بھی تو بولا "نا"۔ وہ منہ لٹکا کر بولی۔
اچھا بابا سوری۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز یہ آئس کریم لے لو۔ میں مذاق کر رہا تھا۔ وہ ہار مانتے ہوئے اسے دوبارہ آئس کریم پکڑا کر بولا۔
تھینک یو اذان بھائی جان میں بھی مذاق کر رہی تھی۔ وہ فوراً آئس کریم پکڑتے کھلکھلا کر ہنسی۔
اچھا جی ہم سے ہوشیاری, اس کی چالاکی پر اذان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
آخر بہن بھی تو آپ کی ہوں "نا"۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
رامیہ تم سے ایک بات پوچھوں۔ اس بار اذان کی بجائے خارب بولا۔
ہاں خارب پوچھو۔
تم جاب کے لیے کیوں آئی تھی۔ میرے خیال سے تم جس فیملی سے بلانگ کرتی ہو۔ تمہیں جاب کی ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ہاں گڑیا تمہیں جاب کی کیا ضرورت ہے۔ اذان نے بھی اس کی طرف دیکھ کر اِستفسار کیا۔
گڈ کوئسچن مائے لارڈ۔۔۔۔۔۔۔
وہ دراصل بات یہ ہے, جیساکہ میرے ڈیڈ کا خود کا بزنس ہے اپنا آفس ہے لیکن وہاں جانے کی مجھے کبھی بھی پرمیشن نہیں ملی۔ کیونکہ میرے ڈیڈ کا کہنا تھا میرے ہوتے ہوئے تمہیں جاب کی کوئی ضرورت نہیں, اور نہ میں تمہیں کبھی جاب کرنے دوں گا۔ بس پھر میں یہ شوق پاکستان آ کر پورا کرنا چاہںتی تھی۔ اب آپ بتائے جج صاحب کیا آپ مجھے میری اس خواہش کو پورا کرنے کی پرمیشن دے گے۔ مجھے آپ کا ہر فیصلہ منظور ہے۔ وہ نظریں نیچے کیے معصومیت سے بولی۔
تو ٹھیک ہے ہمارا فیصلہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا فیصلہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب بول بھی دے اذان بھائی جان۔ وہ جنجھلائی۔
تم خود ہی بھول دو خارب مجھ سے میری گڑیا کی آنکھوں میں آنسو دیکھے نہیں جائے گے۔ اذان سنجیدگی کی بھرپور ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔
ہاں تو رامیہ ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ تم کل سے ہمارا آفس جوائن کر سکتی ہو۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔سچ وہ خوشی کے مارے چیخی۔
ارے گڑیا آہستہ ماءشااللہ سے ابھی ہمارے کان سلامت ہے۔
اذان بھائی جان آپ بہت اچھے ہے وہ فوراً ان کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے بولی۔
رامیہ میں نے تمہارے لیے کھانا لگا دیا ہے۔ آ کر کھا لو, پتہ نہیں کل سے تم نے کچھ کھایا بھی ہو گا۔ کہ نہیں۔ صائمہ اس کے پاس آ کر بولی۔
اُوکے آنٹی میں فریش ہو کر آئی۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
ہاں یاد آیا آنٹی دادجی کہاں ہے۔ وہ دکھائی نہیں دے رہے۔ اس نے دوبارہ پلٹ کر ان کی طرف دیکھ کر اِستفسار کیا۔
وہ رامیہ آپی کل جب آپ یہاں سے چلی گئی تھی "نا"۔ تو ان کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔
افشال چپ کرو۔۔۔۔۔۔۔جاؤ جا کر برتن لگاؤ, مشعال نے اسے گھورا۔
****************
ضوفی مجھے سمجھ نہیں آ رہا۔ میں اپنی بات کیسے اور کہاں سے شروع کروں۔
اس دن ہاسپیٹل میں صرف رامیہ کا حال پوچھنے آیا تھا۔ لیکن جب کمرے میں آیا تو میری نظر تم پر پڑی۔ تھوڑی گھبرائی گبھرائی سی۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارا مجھے دیکھ کر نظریں چرانا۔ لیکن جب میرے مسلسل دیکھنے پر تم نے غصے سے منہ پیچھے کیا۔ تو مجھے شدید اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ لیکن مجھے اپنی بےوقوفی پر ہنسی بھی بہت آئی تھی۔
پھر میرا دل کیا۔۔۔۔۔۔تمہیں بًلاؤ, تم سے باتیں کروں۔ میں تمہاری آواز سننا چاہںتا تھا۔ کہ تمہاری آواز بھی اتنی ہی خوبصورت ہے جتنی تم۔ پھر مجھے موقعہ بھی مل گیا۔ جب تم اس دن فون سننے کے لیے باہر گئی۔ میں تمہارے پیچھے گیا اور تمہارا فون بند ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
جب تمہارا فون بند ہوا۔ میں نے تمہیں اپنا تعارف کرایا۔ لیکن تم نے مجھے نظر انداز کر دیا۔ تو اس وقت میں سمجھ گیا تھا۔ تم اتنی آسانی سے مجھ سے دوستی نہیں کرو گی۔
اس لیے تم سے بات کرنے کے لیے, میں نے تمہیں تنگ کرنا شروع کر دیا۔ میرا دل کرتا تھا۔ تم بھی مجھ سے باتیں کرو, جب تم مجھ سے غصے سے بات کرتی تھی۔ مجھے بالکل بھی بُرا نہیں لگتا تھا۔ بلکہ مجھے خوشی ہوتی تھی۔ کہ چلو اسی بہانے تم مجھ سے بات تو کرتی ہو۔
ضوفی تم مجھے سن رہی ہو ؟ وہ ایک پَل کے لیے رُک کر بولا۔
ہاں۔۔۔۔۔۔۔وہ ٹرانس کی کیفیت میں بولی۔ اسے خود سمجھ نہ آئی تھی۔ اس نے یہ کیوں بولا۔
اس کی آواز سن کر عمیر نے دوبارہ اپنی بات جاری رکھی۔
اس دن ہاسپیٹل میں, میں نے جان بوجھ کر تمہارے کپڑوں پر جوس گرایا تھا۔ کہ تم واش روم جاؤ اور پیچھے سے میں ان سب کو خویلی بھیج دوں۔ کیونکہ میں تمہارے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہںتا تھا۔ ہوا بھی ایسے ہی تھا, میری سوچی سمجھی پلینگ کے مطابق۔ مجھے نہیں پتہ میں نے ایسا کیوں کیا تھا۔ میں بس اتنا جانتا تھا مجھے تم پہلی ہی نظر میں اچھی لگی تھی۔ اور جب اس دن گاڑی میں بھی میرے بار بار بُلانے پر بھی تم مجھے جواب نہیں دے رہی تھی۔ تو مجھے غصہ آ گیا اس لیے میں نے تم سے جھوٹ بولا تھا کہ میں نے تمہیں کڈنیپ کر لیا ہے۔
کڈنیپنگ کا سن کر تمہارے چہرے پر جو ڈر کے تصورات آئے تھے۔ وہ دیکھ کر مجھے بہت مزہ آیا تھا۔ اور شکر بھی کیا کہ چلو اب تو تم مجھ سے بات کرو گی۔ لیکن تم تو رونے ہی شروع ہو گئی تھی۔ اس وقت تم مجھے بالکل چھوٹی بچی لگ رہی تھی۔ لیکن پھر دوسرے دن جو تم نے جا کر میری خالہ جانی سے شکایت لگائی تھی۔ اس دن خالہ جانی نے مجھے پہلی بار غصے سے بات کی تھی, اور مجھے بہت بُرا لگا تھا تم پر غصہ بھی آیا۔ لیکن پھر میں نے سوچا تم یہی تو چاہںتی تھی۔ مجھے غصہ آئے اور میں غصے میں آ کر تم سے بات نہ کروں۔ اس لیے جب تم مجھے ناشتہ دینے آئی, میں نے جان بوجھ کر تمہیں بولا تھا کہ تم مجھ سے ڈرتی ہو۔ تاکہ نیکسٹ ٹائم میری خالہ جانی کو کچھ بھی نہ بتاؤ۔ سب کچھ میرے مطابق چلتا جارہا تھا۔ لیکن اس کھیل میں, تمہیں تنگ کرتے کرتے مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ میں کب تم سے محبت کر بیٹھا۔ مجھے تمہاری عادت ہو گئی تھی۔ اس دن جب تم نے امریکہ جانے کا بتایا۔ تو مجھے ایسا محسوس ہوا, کہ جیسے مجھ سے میری سب سے قیمتی چیز چھینی جا رہی ہو۔
اس دن میں تمہیں یہی بتانے تمہارے کمرے میں آیا تھا ضوفی۔ آئی لو یو ضوفی, آئی رئیلی لو یو۔ میں تم سے شادی کرنا چاہںتا ہوں۔
عمیر کہہ لیا جو تم نے کہنا تھا۔ اب میری بات غور سے سنو۔ اس کے اظہار پر ایک پَل کے لیے ضوفیرہ کے گال دھک اُٹھے تھے۔ اسے بلکل بھی اُمید نہیں تھی کہ وہ شادی کے لیے بھی بول دے گا۔ لیکن وہ فوراً خود کو سنبھالتے ہوئے بولی۔
میں تمہیں پسند نہیں کرتی اور نہ ہی تم سے شادی کر سکتی ہو۔ اور کیا جانتے۔۔۔۔۔۔۔جانتے کیا ہو تم میری لائف کے بارے میں۔ بس اتنا ہی کہ میں امریکہ سے ہوں, اور رامیہ میری بہن ہے۔ عمیر تم میرے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اگر میں تمہیں پسند بھی کرتی, تب بھی تم سے شادی کبھی نہ کرتی۔
سوری عمیر ہمارے راستے الگ ہے۔ نہ میں تمہیں پسند کرتی ہوں اور نہ ہی تم سے شادی کرنا چاہںتی ہوں۔ اس لیے برائے مہربانی آئندہ اِدھر فون مت کرنا۔ اس سے پہلے کہ وہ فون بند کرتی۔ کہ عمیر کی آواز پر رُکی۔
ایک منٹ ضوفی ابھی فون بند نہ کرنا۔ جہاں تک تمہاری شادی نہ کرنے کی بات ہے تو ٹھیک ہے مت کرو۔ لیکن جب تک تم مجھے ہاں نہیں بولو گی۔ میں اسی طرح تمہیں تنگ کرتا رہوں گا,اور ایک بات اور اگر تم نے میرا فون نہ اُٹھایا, یا پھر اَگے سے تمہارا فون مجھے بند ملا۔ تو تمہیں پتہ ہے "نا"۔ میں کیا کروں گا۔ عمیر غصے اور ختمی انداز میں اسے باور کراتے ہوئے بولا۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔کیوں تم میرے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئے ہو۔ وہ روتے ہوئے بولی۔
لیکن دوسری طرف عمیر نے اس کی کچھ بھی سنے بغیر فون بند کر دیا۔
*******************
آنٹی۔۔۔۔۔۔۔۔آنٹی کیا ہوا دادجی کو۔۔۔۔۔۔۔؟ یہ افشال ابھی کیا کہہ رہی تھی۔ وہ صائمہ کے پاس جا کر ان کے دونوں ہاتھ پکڑتے فکرمند لہجے بولی۔
رامیہ کچھ نہیں ہوا, وہ بالکل ٹھیک ہے۔ یہ افشال تو ایسے ہی اُلٹا سیدھا بولتی رہںتی ہے۔ تم جلدی سے فریش ہو کر آؤ, اور آ کر کھانا کھا لو۔ وہ پیار سے اس کے گال پر ہاتھ رکھ کر سمجھاتے ہوئے بولی۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں آنٹی میرے پیچھے کچھ تو ہوا ہے۔ کوئی تو بات ہے جو آپ سب مجھ سے چھپا رہے ہیں۔ پلیز آنٹی بتائے "نا" مجھے فکر ہو رہی ہے۔ پلیز بتائے کیا ہوا تھا میرے پیچھے۔ آپ کو میری قسم, وہ ان کا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے بولی۔
رامیہ کل تمہارے جانے کا سن کر انہیں ہاٹ آ ٹیک ہوا تھا۔ لیکن اب وہ بالکل ٹھیک ہے۔ صائمہ اس کی قسم کے اَگے ہار مانتے ہوئے بولی۔
کیا۔۔۔۔۔۔؟ میرے پیچھے اتنا سب کچھ ہو گیا, اور مجھے خبر بھی نہیں تھی۔ یہ سب میری وجہ سے ہوا, اگر میں نہ جاتی تو یہ سب کبھی نہ ہوتا۔ اس نے روتے ہوئے اپنے قدم پیچھے کی طرف لیے۔
تھوڑی دیر پہلے وہ جو ہنس بول رہی تھی۔ اب اس کی آنکھیں آنسوؤں سے پوری بھیگی ہوئی تھی۔
گڑیا اِدھر آؤ میری بات سنو۔ اذان فوراً اس کی طرف لپکا,اور اس کا ہاتھ پکڑتے اسے اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھایا۔
گڑیا دادجی اب بالکل ٹھیک ہے اور تمہاری وجہ سے کچھ نہیں ہوا۔ اپنے آپ کو بلیم کرنا بند کرو۔ اس نے اس کے گال پر ہاتھ رکھ کر پیار سے سمجھایا۔
نہیں اذان بھائی جان یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔ وہ ہچکچیوں سے روتے ہوئے بولی۔
نہیں گڑیا۔۔۔۔۔۔تمہاری وجہ سے کچھ نہیں ہوا۔ اب پلیز رونا بند کرو, اور یہ لو پانی پیو۔ اذان مشعال کے ہاتھ سے پانی کا گلاس پکڑتے اسے پلاتے ہوئے بولا۔ جو اس نے دو گونٹ پی کر گلاس پیچھے کر دیا۔
اب تم رونا بند کرو اور اگر اب تم روئی۔ تو میں تم سے بات کرنا بند کر دوں گا, اور کبھی بھی بات نہیں کروں گا۔ اذان نے اپنے ہاتھوں کی پُوروں سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے دھمکی دی۔
جاری ہے
1 Commenti
Amazing &out standing fabeolus episode👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻❤❤❤❤❤❤
RispondiEliminaCommento