Advertisement

Adbox

PARIVISH Episode 21 ( پری وش )

                   Parivish

                   (پری وش)

# Novel by Parivish

# Writer; Aima Ashfaq

# Family, Funny innocente herion, Rude hero based novel

# Please Don't Copy Paste My Novel

# Episode 21:

                    آج پہلی دفعہ دادجی نے مجھ سے

 غصے میں بات کی۔ وہ بھی صرف تمہاری وجہ سے۔ اب دیکھنا میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں مس رامیہ۔ جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔ وہ دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتے غصے سے بولا۔
                                               *****************
رامیہ تم نے ہم سب کو یہاں کیوں بلایا۔ مشعال اسے مسلسل ایسے ہی کھڑا دیکھ کر بولی۔
بس دو منٹ مشعال بھابھی اذان بھائی جان کو بھی آجانے دے پلیز۔ 
لے وہ بھی آگئے۔ رامیہ انہیں سامنے سے آتا دیکھ کر بولی۔
ہاں تو ہماری گڑیا نے ہم سے کیا بات کرنی تھی ؟ وہ اس کے پاس آ کر مسکرا کر بولا۔
میں نے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔ بلکہ آپ سب کو کچھ دینا ہے۔
دادجی یہ آپ کے لیے اسلامی بکس۔ آپ کو اسلامی بکس بہت پسند ہے "نا"۔ وہ مسکرا کر بولی۔
آنٹی یہ آپ کے لیے شال, ڈارک براؤن شال جس پر نفاست سے وائٹ کڑھائی سے کام کیا گیا تھا۔
مشعال بھابھی اینڈ افشال یہ آپ کے لیے ڈریسیزز, میں نے اور ضوفی نے اپنے لیے تھے تو آپ کے لیے بھی لے لیے۔
اذان بھائی جان یہ آپ کے لیے واچ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میں نے پاکستان سے نہیں لی۔ میں ایک دن ڈیڈ کے ساتھ مارکٹ گئی تھی۔ تو یہ واچ مجھے بہت پسند آئی تھی اور میں نے خرید لی۔ اس دن میرے دل میں خیال آیا تھا کہ کاش میرا بھی کوئی بھائی ہوتا۔ لیکن یو نو واٹ اذان بھائی جان اللاّ تعالیٰ نے میری سن لی اور مجھے اتنا اچھا بھائی دے دیا۔ وہ اسے واچ پکڑاتے ہوئے خوشی سے بولی۔ اس کی باتیں سن کر اذان کی آنکھیں بھر آئی اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔
رامیہ تمہارے والدین بہت خوش قسمت ہیں۔ جن کو تم جیسی بیٹی ملی۔ صائمہ بھی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور اسے پیار سے گلے لگاتے ہوئے بولی۔ لیکن بیٹا اس کی کیا ضرورت تھی۔
ضرورت تھی آنٹی کیوں ضرورت نہیں تھی۔ ویسے سچ بتاؤں آنٹی یہ سب خریدا تو میں نے۔ بٹ ان سب کی پیمنٹ اذان بھائی کی۔ وہ منہ بسورتے ہوئے بولی۔
اس کی بات پر سب کھلکھلا کر ہنسے۔
ہاں یاد آیا, عمیر کا گفٹ تو دینا ہی بھول گئی۔ وہ اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اپنی عقل پر ماتم کرتے ہوئے بولی۔
عمیر تو یہاں ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔افشال پلیز تم ہی یہ شرٹ عمیر کو دے دینا۔
اُوکے رامیہ آپی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنٹی یہ پرفیوم میں نے خارب کے لیے لی تھی۔ میں اسے دے کر آئی۔ وہ فوراً کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
اچھا ٹھیک ہے۔ انہوں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔
اس نے خارب کے کمرے باہر کھڑی ہو کر دروازہ ناک کیا۔ لیکن جواب ندارد۔۔۔۔۔۔۔ایک دفعہ دوبارہ ناک کرنے پر بھی جب اسے کوئی جواب نہ ملا تو اس نے اَکتا کر دروازہ کھول ہی لیا اور کمرے میں آئی۔ تو سامنے ہی وہ بیڈ سے ٹیک لگائے ٹانگیں سیدھی کیے۔ گود میں رکھے لیپ ٹاپ پر کوئی کام کر رہا تھا۔
تم۔۔۔۔۔؟ تم یہاں۔۔۔۔۔؟ اس نے نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا۔ تو سامنے دروازے میں رامیہ کو کھڑا دیکھ کر خیرت سے بولا۔
دیکھو۔۔۔۔۔۔۔مجھے پتہ ہے۔ شروع سے ہی ہمارے تعلقات کافی اچھے نہیں رہے۔ لیکن میں اب یہ سب ختم کرنا چاہںتی ہوں۔ میں تھک گئی ہوں۔ لڑ جھگڑ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ کہ تم ہر وقت مجھ سے خفا کیوں رہںتے ہو۔ لیکن میں سب کچھ بُلا کر تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے آئی ہوں۔ میں سب کے لیے گفٹ لے کر آئی تھی۔ تو تمہارے لیے بھی لے لیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں خیرت کے تصورات دیکھ کر وہ فوراً وضاخت دیتے ہوئے بولی اور گفٹ ٹیبل پر رکھ دیا۔
بول لیا جو بولنا تھا, یا ابھی کچھ بولنا ہے۔
جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے انداز پر وہ خیران ہوئی۔
یہ پر فیوم اٹھاؤ یہاں سے۔ وہ روکھے لہجے میں بولا۔
کہ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا ؟
میں نے بولا, پرفیوم اٹھاؤ تمہیں سنائی نہیں دیتا بہری ہو کیا۔ اس بار وہ انتہائی غصے اور سخت لہجے میں بولا۔ رامیہ نے فوراً ٹیبل سے پرفیوم اٹھائی اور سہم کر ایک قدم پیچھے لیا۔
اب جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم نے کیا سمجھا۔ کہ تم میرے لیے گفٹ لاؤ گی تو میں خوشی خوشی تسلیم کر لوں گا اور تم سے دوستی کر لوں گا۔ نہیں "مِس رامیہ" تم ان چال بازیوں سے میرے گھر والوں کو تو امپریس کر سکتی ہو لیکن مجھے نہیں۔ وہ شعلے برساتی آواز میں اس طرف دیکھ کر بولا۔ جبکہ دوسری طرف رامیہ کی آنکھوں میں بہت سارا پانی جمع ہونے لگا۔ وہ بمشکل اپنے آنسوؤں پر ضبط کیے کھڑی تھی۔ اس نے دو تین قدم پیچھے کی طرف لیے۔ اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے جاتی۔ کہ خارب کی آواز پر رکی۔
اور ہاں آئندہ سے میرے کمرے میں ناک کر کے آنا۔ لیکن زیادہ بہتر یہی ہوگا کہ تم میرے کمرے میں ہی مت آنا۔ میرے سے تم جتنا دور رہو گی, تمہارے لیے یہی بہتر ہو گا۔ اس کے لہجے میں نفرت صاف جھلک رہی تھی۔ لیکن اس بار رامیہ کا بھی ضبط جواب دے گیا تھا۔ وہ فوراً اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے پیچھے کی طرف مڑی۔

مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تمہارے کمرے میں آنے کا۔ میں صرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے آئی تھی۔ جس سے تم نے رجیکٹ کر دیا۔ لیکن اس پر مجھے کوئی افسوس نہیں۔ کیونکہ کہی نہ کہی مجھے تم سے یہی اُمید تھی, اور رہی بات ان گھر والوں کی۔ تو میں صرف ان کی خوشی کے لیے یہاں رُکی ہوئی ہوں۔ میں کسی غلط ارادے سے اس خویلی میں نہیں آئی۔ میں نے سب کو اداس دیکھ کر صرف ان کے چہرے پر خوشی لانی چاہی تھی۔ لیکن یہ بات تم جیسا شخص نہیں سمجھے گا۔ تم انتہائی خود غرض اور سیلفش انسان ہو۔ جو صرف اپنی خوشی کے بارے میں سوچتا ہے۔ دوسروں کی خوشی کی تمہیں کیا پرواہ۔ رامیہ بھی اس کی طرف دیکھ کر سخت لہجے میں بولی,اور منہ پر ہاتھ رکھ کر روتے ہوئے فوراً وہاں سے بھاگی۔ اور اپنے کمرے میں آتے ہی دروازہ اندر سے بند کر لیا اور اس کے ساتھ ہی نیچے ٹیک لگاتی نیچے زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
آج تک میرے ڈیڈ نے مجھے کچھ نہیں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔اور تم ہوتے کون ہو میری انسلٹ کرنے والے۔ وہ روتے ہوئے خود سے بڑبڑائی اور ہاتھ میں پکڑی پرفیوم کی بوتل غصے سے دیوار پر دے ماری۔ جو نیچے گِر کر کرچی کرچی ہو گئی, اور پورا کمرا اس کی خوشبو سے مہک گیا۔ لیکن اسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ تو بس گٹھنوں میں سر دئیے رونے میں مصروف تھی۔
جب وہ کافی دیر سے رو رو کر تھک گئی۔ تو گلا خشک ہونے کی وجہ سے اسے پیاس کی شدت کا احساس ہوا۔ وہ فوراً اپنے آنسو صاف کر کے اُٹھ کھڑی ہوئی, اور دروازہ کھول کر کمرے سے باہر آئی۔ ابھی وہ زینے اُترنے ہی لگی تھی کہ خارب کے کمرے سے اپنا نام سن کر وہی رک گئی۔
چچی آخر یہ رامیہ نام کی لڑکی کب تک ہمارے گھر میں ٹِکی رہے گی۔ ایک تو چلی گئی واپس امریکہ اور دوسری ابھی تک یہی پر ہے۔
خارب یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ مجھے تم سے یہ اُمید نہیں تھی۔ کہ تم ایسا بھی کچھ بولو گے, اور تم یہ کیوں بول رہے ہو۔ شاید تم بھول  رہے ہو, ہم نے انہیں یہاں رہںنے پر مجبور کیا ہے۔ وہ تو یہاں رہںنا ہی نہیں چاہںتی تھی۔ صائمہ کو اس کی بات پر غصہ آیا۔ اس کو خارب کی یہ بات سخت ناگوار گزری تھی۔
چچی جان مجھے پتہ ہے ان کچھ دنوں میں, وہ آپ لوگوں کے کافی قریب ہو گئی ہے۔ لیکن چچی جان آپ لوگ بھی سمجھنے کی کوشش کرے۔ آپ سب لوگ جسے اپنی پری وش سمجھ رہے ہیں۔ وہ ہماری پری نہیں ہے۔
رامیہ سے اس کی اور باتیں سنی نہ گئی۔ تو وہ فوراً وہاں سے واپس اپنے کمرے کی طرف بھاگی, اور بیڈ پر بیٹھ کر پوری شدت سے روئی۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنا بیگ لے کر الماری سے اپنے کپڑے نکال کر پیک کرنے لگی۔
                                          ***********************
ضوفی کس کی کال ہے کیوں بار بار کاٹ رہی ہو۔ نریم جو کافی دیر سے اسے فون کاٹتے دیکھ رہی تھی۔ آخر کار سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر اِستفسار کیا۔
اسی عمیر کی ہے میں اسی کی وجہ سے پاکستان سے یہاں آگئی۔ لیکن جب سے آئی ہوں فون کالز کر کے پریشان کر رکھا ہے۔ وہ جو اپنے نوٹس بنا رہی تھی۔ کہ اپنی ہاتھ میں پکڑی بک بند کرتے جنجھلا کر بولی۔
اُوں تو اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔ تم اٹھا لو فون۔
نمی تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے میں اس کا فون کیسے اُٹھا سکتی ہوں۔ اس نے گھورا۔
ہاں میرا دماغ ٹھیک ہے۔ لیکن مجھے تمہارا ٹھیک نہیں لگ رہا۔ اس لیے تو فون نہیں اُٹھا رہی۔ نریم نے بھی دوبدو جواب دیا۔
کیا مطلب ہے تمہارا اس بات سے ؟
مطلب صاف ظاہر ہو رہا ہے۔ تم بھی اسے پسند کرتی ہو۔ وہ اطمینان سے بولی۔
نمی تم نے پھر سے یہ بکواس شروع کر دی۔
میں بکواس نہیں کر رہی بلکہ تمہارے رویے سے صاف ظاہر ہو رہا ہے۔ کہ تم بھی اسے محبت کرتی ہو۔
ایسا کچھ بھی نہیں ہے اس نے بے ساختہ نظریں چرائی۔
ایسا ہی ہے اس لیے تو تم اس کا فون نہیں اُٹھا رہی۔ وہ پرُزور لہجے میں بولی۔
میں اس کا فون اس لیے نہیں اُٹھا رہی۔ کیونکہ میں اس سے بات نہیں کرنا چاہںتی۔ وہ جنجھلا کر بولی۔
یہی تو میں کہہ رہی ہو۔ تم اس سے بات نہیں کرنا چاہںتی۔ کیونکہ تم اندر ہی اندر ڈر رہی ہو۔ کہ وہ کہیں اپنے محبت کا اظہار ہی نہ کر دے۔
نہیں نمی ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔میں نہیں ڈرتی اس سے, اور نہ میں اسے پسند کرتی ہوں۔ ضوفیرہ اس کی طرف دیکھ کر مضبوط لہجے میں بولی اور فوراً بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
ضوفی تم اپنے ساتھ ایسے کیوں کر رہی ہو ؟ تم بہت اچھی ہو۔ تم اپنے آپ کو ہم سب سے الگ کیوں سمجھتی ہو۔ تم عمیر کے ساتھ خوش رہو گی۔ نریم نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے سمجھانے کی بھرپور کوشش کی۔ نریم کے لہجے میں اس کے لیے فکر صاف جھلک رہی تھی۔
نمی تم ابھی تک عمیر سے ملی بھی نہیں ہو۔ تم اتنے یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتی ہو۔ کہ میں اس کے ساتھ خوش رہوں گی۔ وہ پلٹ کر اس کی طرف دیکھ کر خیرانی سے بولی۔

ضوفی میں نے بیشک اسے دیکھا نہیں اور نہ ہی اسے ملی ہوں۔ لیکن میرا دل کہتا ہے تم اس کے ساتھ خوش رہو گی۔ وہ مضبوط لہجے میں بولی۔
نمی میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہںتی۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے فوراً وہاں سے چلی گئی۔
نریم اَگے سے کچھ بھی نہیں بولی۔ بس افسوس سے اسے جاتے ہوئے دیکھا۔
                                            *********************
رامیہ اپنا سوٹ کیس لے کر نیچے آئی۔ اس کا یہاں سے جانے کا بالکل دل نہیں کر رہا تھا۔ آنکھوں سے آنسو اب بھی رواں تھے۔ وہ جانے ہی لگی, کہ پھر فوراً ایک خیال کے تخت روکی۔ وہ اپنے دادجی سے ملے بغیر کیسے جا سکتی تھی۔ پھر پتہ نہیں کب ملاقات ہو۔ یہ سب سوچتے ہوئے وہ فوراً دادجی کے کمرے کی طرف بھاگی, اور ان کے پاس بیڈ پر بیٹھ کر فٹ سے انہیں گلے لگا لیا۔ اور پوری شدت سے روئی۔
رامیہ کیا ہوا میری بچی۔۔۔۔۔۔۔؟
 کسی نے کچھ کہا ہے ؟ تم اس طرح کیوں رو رہی ہو ؟
دادجی جو کتاب پڑھ رہے تھے۔ کہ رامیہ کو اس طرح اپنے کمرے میں آتے اور گلے لگ کر روتے دیکھ کر فکر مند لہجے میں بولے۔
دادجی کو پریشان دیکھ کر اسے شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا, اور وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے فوراً ان سے الگ ہوئی۔
کچھ نہیں دادجی ویسے ہی دل بھر آیا۔ کہ جب میں یہاں سے چلی گئی۔ تو آپ سب کی بہت یاد آئے گی۔ وہ زبردستی ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کر بولی۔
بس اتنی سی بات تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔ یاد تو ہمیں بھی تمہاری بہت آئے گی۔ کیا تم وہاں جا کر ہم سے رابطہ ختم کر لو گی ؟
نہیں دادجی آپ نے ایسا سوچا بھی کیسے۔ وہ فوراً بولی۔
تو پھر رونا کس بات کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں جا کر تمہیں جب بھی ہماری یاد آئی۔ ہمیں فون کر لینا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
آپ ٹھیک کہہ رہے دادجی۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی کتنی پاگل ہوں۔ پتہ نہیں جذباتی کیوں ہو گی۔ وہ اپنے آپ کو سرزش کرتے ہوئے بولی۔
اچھا دادجی اب میں چلتی ہوں۔ وہ فوراً کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
کہاں۔۔۔۔۔۔؟
وو۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔اپنے کمرے میں۔ وہ بوکھلائی۔
میں نے آپ کو ڈسٹرب کر دیا "نا"۔ وہ شرمندہ ہوئی۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے اچھا لگتا ہے۔ جب تم یہاں آ کر مجھ سے بہت ساری باتیں کرتی ہو۔ وہ ان کی بات پر صرف مسکرا ہی سکی۔
سوری دادجی میں نے آپ سے جھوٹ بولا۔ کہ میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں۔ میں آپ کو سچ بتا کر دکھی نہیں کرنا چاہںتی تھی۔ رامیہ ان کے کمرے سے نکلتے ہوئے دل ہی دل میں بولی, اور اپنا سوٹ کیس لے کر فوراً خویلی سے باہر آ گئی۔ جبکہ آنکھیں خشک ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
                                                  *********************
گڑیا سرپرائز دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔ تمہاری فیورٹ آئس کریم۔ اذان رامیہ کے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے بولا۔ لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر اس کا دماغ ایک پَل کرے لیے گھوم کر رہ گیا۔پورا کمرا خالی تھا۔ کپڑوں کی الماری کھولی ہوئی تھی۔ جس میں اب کپڑوں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ پرفیوم کی شیشی نیچے فرش پر ٹوٹی ہوئی تھی۔ جو وہ خارب کے لیے لائی تھی۔ اذان کے دماغ میں فوراً کسی خطرے کا الارم بجا۔ آئس کریم اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گِر گئی۔
گڑیا۔۔۔۔۔۔۔۔گڑیا۔۔۔۔۔۔۔۔گڑیا کہاں ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اذان پورے کمرے میں اسے تلاش کرتے ہوئے اس کا نام پکار رہا تھا۔ لیکن پورا کمرا خالی تھا۔ کہ اچانک اس کی نظر ٹیبل پڑے ایک لیٹر پر پڑی۔ اذان نے فوراً وہ لیٹر اٹھا کر پڑھا۔
                                                اسلام علیکم !
                       اذان بھائی جان مجھے پتہ ہے۔ میرے جانے کے بعد یہ لیٹر آپ کو ہی ملے گا۔ اذان بھائی جان میں اس خویلی سے جا رہی ہوں۔ مجھے بہت پہلے ہی چلے جانا چاہںیے تھا۔ لیکن آپ سب لوگوں نے مجھے اتنا پیار دیا۔ کہ میرا اس طرف کبھی دھیان ہی نہیں گیا۔ کہ اس خویلی میں کوئی ایک شخص مجھ سے اس قدر نفرت کرتا ہے۔ کہ میرا وجود بھی اس خویلی میں برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن اذان بھائی جان مجھے بالکل بھی بُرا نہیں لگا۔ اس وقت تھوڑی دیر کے لیے مجھے برا لگا۔ سوری اذان بھائی جان میں نے آنٹی اور خارب کی باتیں سن لی تھی۔ آنٹی نے تو میرے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ لیکن مجھے خود سوچنا چاہںیے تھا۔ کہ آپ لوگوں کی خویلی میں رہںتے ہوئے مجھے کافی دن ہو گئے ہیں۔ اذان بھائی جان میں نہیں چاہںتی۔ کہ میری وجہ سے لے کر آپ کی خویلی میں کسی قسم کا آپس میں جھگڑا ہو۔ اس لیے میں یہاں سے جا رہی ہوں۔ لیکن مجھے آپ لوگوں سے بالکل بھی گلہ نہیں ہے۔ میں بالکل بھی ناراض نہیں ہوں۔ آپ سب تو اتنے اچھے ہیں۔ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔ آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کبھی بھائی کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ آنٹی کو دیکھتی ہوں تو ان میں مجھے اپنی ماما نظر آتی ہے۔ میں نے کبھی اپنے دادجی تو نہیں دیکھے۔ لیکن جب سے آپ کے دادجی سے ملی ہوں۔ لگتا ہے ان جیسے ہی ہونگے۔ مشعال بھابھی, افشال, عمیر سب بہت اچھے ہیں۔ آپ لوگوں کے ساتھ رہی تو پتہ چلا فیملی کسے کہتے ہیں۔ میں نے آپ لوگوں کے ساتھ میں  جتنا بھی وقت گزارا بہت مزہ آیا۔ لیکن کچھ ہی دنوں میں, میں نے امریکہ واپس چلے جانا ہے۔ تو آپ سمجھیے گا میں واپس امریکہ چلی گئی۔ میری طرف سے سب کو بہت سارا پیار۔

                                                                                                                   والسّلام
                                                                                                   آپ کی پیاری گڑیا ( رامیہ )                                                 *******************
ٹرن۔۔۔۔۔۔۔ٹرن۔۔۔۔۔۔۔۔
لگتا ہے ضوفی مارکیٹ سے آ گئی ہے۔ نریم جو ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ ڈور پر بیل ہوتے دیکھ کر خود سے بڑبڑائی۔
اسلام علیکم ! پلیز آپ نریم کو بلا دیجئیے۔
وعلیکم اسلام ! جی میں ہی نریم ہوں۔ لیکن آپ کون ہے۔۔۔۔۔۔ ؟ دروازہ کھولتے ہی سامنے ضوفیرہ کی بجائے انجان لڑکی کو برخے میں دیکھ کر خیرت سے بولی۔ جس نے منہ پر نقاب کیا ہوا تھا۔
یہ آپ کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ لڑکی ہاتھ میں پکڑا گفٹ نریم کو پکڑا کر کچھ بھی کہے بغیر زینے اُترتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
جبکہ نریم ایک پَل کے لیے ساکت کھڑی رہ گئی۔ کبھی وہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے گفٹ, تو کبھی اس برخے والی لڑکی کو جاتے دیکھتی رہ گئی۔
یہ گفٹ کِس نے دیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اور وہ کون تھی ؟
امریکہ جیسے ماحول میں نقاب اور برخا۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
نریم جو صوفے پر بیٹھی اسی گفٹ کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔ کہ موبائل کی رنگ کی آواز پر چونکی۔
ہیلو !
ہیلو ! کیسا لگا میرا گفٹ میری جان کو۔
یہ کیا بدتمیزی ہے اور یہ گفٹ آپ نے بھیجا ہے۔ دوسری طرف اس کا اس بے خودہ نام سے بلانا نریم کو سخت غصہ آیا۔ اوپر سے یہ گفٹ بھیجنا۔
کیوں تم نے کیا سمجھا ؟ کہ تمہارے منگیتر نے بھیجا ہے, اور ویسے بھی یہ بدتمیزی نہیں میرا پیار ہے اور یہ گفٹ میں نے بہت پیار سے تمہیں بھیجا ہے۔
شٹ اپ تمیز سے بات کرے, اور کس خوشی میں آپ نے مجھے یہ گفٹ بھیجا۔ وہ غصے سے دہاڑی۔
کیوں اچھا نہیں لگا ؟ لیکن تم گرین کلر میں مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔ دوسری طرف شوخی سے بولا گیا۔
آپ نے مجھے گرین کلر میں کب دیکھا۔۔۔۔۔۔۔؟ نریم سخی معنوں میں اب اس سے ڈر گئی تھی۔
تصویر میں۔۔۔۔۔۔۔۔قسم سے تم گرین سوٹ میں بہت پیاری لگ رہی تھی, اور مجھے بہت خوشی بھی ہوئی کہ تم نے باہر جیسے ماحول میں بھی اپنی ڈریسنگ نہیں چینج کی۔
ت۔۔۔۔۔۔تصویر میں۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اس کی ڈر کے مارے زبان لڑکھڑائی۔
یہ سب چھوڑو نریم۔۔۔۔۔۔۔کہ تصویر کہاں سے آئی یا کس سے لی۔۔۔۔۔۔۔۔جو تمہارا نام, اڈریس سب کچھ معلوم کرا سکتا ہے۔ یہ تصویر لینا کون سا مشکل کام ہے۔ وہ شوخ اور پُرسکون لہجے میں بولا۔
آپ کیوں میرا پیچھا نہیں چھوڑ دیتے ؟ کیوں مجھے ہر روز پریشان کرتے ہیں۔ وہ ہارے ہوئے لہجے اور بے بسی سے بولی۔
اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم اپنی بارڈی گارڈز کو میرے پیچھے لگا کر تم اپنا پیچھا چھڑا لو گی۔ تو یہ تمہاری سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ دوسری طرف وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
بارڈی گارڈز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ وہ ناسمجھی سے بولی۔
جی ہاں بارڈی گارڈز تمہاری وہ دونوں دوستیں۔ اس نے باور کرایا۔
آپ تو اتنے بڑے فلرٹی ہے۔ آپ نے تو میری دونوں دوستوں کو بھی نہیں چھوڑا تھا۔ وہ طنزیہ لہجے میں بولی۔
یار میں نے فلرٹ تو نہیں کیا۔ صرف نام ہی پوچھا تھا۔ وہ معصومیت سے بولا۔
دیکھے مجھے نہیں پتہ آپ کَیا ہے اور کَیا نہیں۔ میں بس اتنا جانتی ہوں مجھے فون مت کیا کرے۔
جس دن میں نے تمہیں فون کرنا چھوڑ دیا "نا"۔ اس دن تم خود میرے فون کا انتظار کرو گی۔ وہ بھی مضبوط لہجے بولا۔
غلط فہمی ہے یہ آپ کی بلکہ جس دن آپ کا فون نہ آیا۔ اس دن مجھے سب سے زیادہ خوشی ہو گی۔ اَگے سے وہ بھی اٹل لہجے میں بولی۔
وہ تو وقت ہی بتائے گا۔ یہ کہتے ہی اس نے اَگے سے کال کاٹ دی۔ جبکہ نریم نے ٹیبل پر پڑا گفٹ غصے سے اٹھا کر نیچے پھینکا۔
                                             *********************
بابا جان اپکی کی میڈیسن کا  ٹائم ہو گیا۔
یہ لے آپ کی میڈیسن ۔ جبکہ انہوں نے آج اَگے سے کچھ بھی کہے بغیر چپ چاپ میڈیسن لے لی۔ صائمہ کو خیرت ہوئی۔ آج انہوں نے ہمیشہ کی طرح میڈیسن لینے سے انکار نہیں کیا تھا۔
کیا ہوا باباجان آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں ؟ صائمہ ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
صائمہ بہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں تو ٹھیک ہوں۔ لیکن رامیہ آج مجھے کچھ پریشان پریشان سی لگی تھی۔ وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولے۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا ہوا رامیہ کو ؟ کوئی بات ہوئی ہے باباجان ؟ صائمہ نے فکر مند لہجے میں اِستفسار کیا۔

نہیں لیکن آج وہ میرے کمرے میں آ کر مجھ سے گلے لگ کر بہت روئی تھی۔ میں نے پوچھا تو اس نے بات کو ٹال دیا۔ پھر میں نے بھی زیادہ نہیں پوچھا ۔
ان کی بات سن کر اس بار صائمہ بھی پریشان ہو گئی۔
صبح تک تو وہ بہت خوش تھی لیکن پھر بھی آپ فکر نہ کریں۔ میں پوچھوں گی اسے۔ ابھی صائمہ بات کر ہی رہی تھی کہ باہر سے شور کی آواز سنائی دی۔
اب یہ بچوں کو کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔اتنا شور کیوں کر رہے ہیں۔ باہر شور کی آواز سن کر محمد علی الدین فوراً بولے۔
بابا جان آپ آرام کریں۔ میں دیکھتی ہوں۔
                                     *******************
خارب۔۔۔۔۔۔۔۔۔خارب۔۔۔۔۔۔۔۔
اذان زینے اُترتے ہوئے۔ اونچی اُونچی آواز میں غصے سے اس کا نام پکارا۔ کہ وہ اسے سامنے صوفے پر ہی بیٹھا نظر آیا۔ وہ اُدھر ہی چلا گیا۔
خارب جو ابھی اپنے آفس کی فائل لے کر بیٹھا ہی تھا۔ کہ اذان کے اس طرح بلانے پر اوپر دیکھا تو وہ اسے سامنےسے اپنی طرف ہی آتا نظر آیا۔
کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ ۔ اذان بھائی کوئی کام تھا۔ وہ آنکھوں میں خیرت لیے بولا۔
اتنے بھولے تو نہیں ہو خارب تم کہ تمہیں کچھ پتہ ہی نہیں کیا ہوا۔
اذان بھائی آپ ایسے کیوں بات کر رہے ہیں ؟ مجھے سچ میں مجھے کچھ بھی نہیں پتہ کیا ہوا۔
خارب پلیز یہ ناٹک بند کرو۔ اب تم بہت خوش ہو گے "نا"۔ اذان نے ہاتھ اٹھا کر  اسے کچھ بھی کہنے سے منع کیا۔ اور طنزیہ لہجے میں بولا۔
اذان بھائی جان سچ میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ کس بارے میں بات کر رہے ہیں۔ پلیز بتائیں ہوا کیا ہے ؟ آپ اس طرح کیوں بات کر رہے ہیں۔ وہ ناسمجھی سے بولا۔
اذان کیا ہوا ؟ تم خارب سے اس طرح کیوں بات کر رہے ہو ؟  صائمہ جو ابھی کمرے سے نکلی تھی۔ کہ اسے خارب پر چلاتے دیکھ کر غصے سے بولی۔
ماما مجھے نہیں پتہ آپ اور خارب کے درمیان کیا بات ہوئی۔ کہ میری گڑیا یہاں سے چلی گئی۔ میں بس اتنا جانتا ہوں۔ اگر آج گڑیا اس خویلی سے گئی ہے۔ تو صرف اور صرف خارب کی وجہ سے۔ وہ آنکھوں میں غصہ لیے خارب کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
یہ تت۔۔۔۔۔۔۔۔تم کک۔۔۔۔۔۔۔کیا کہہ رہے ہو ؟ ایسا نہیں ہو سکتا۔ تت۔۔۔۔۔۔۔تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہو گی۔ وہ اپنے کمرے میں ہی ہو گی۔ صائمہ کی زبان لڑکھڑائی۔
نہیں ماما۔۔۔۔۔۔۔۔میں پورا کمرا چیک کر آیا ہوں, اور یہ دیکھے یہ لیٹر یہ اسی نے لکھا ہے۔ وہ انہیں لیٹر پکڑاتے ہوئے بولا۔
صائمہ نے  لڑکھڑاتےہوئے اپنے قدم پیچھے لیے۔ کیونکہ کچھ سال پہلے بھی اسے ایسا ہی کوئی لیٹر ملا۔ جس نے ان کا سب کچھ ختم کر دیا تھا۔ آج صائمہ کو لگا وہ پھر اسی دوراہے پر کھڑی ہے۔ انہوں نے ڈرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے لیٹر لے کر پڑھنا شروع کیا۔ جیسے جیسے وہ پڑھتی گئی انہیں ایسا لگا وہ اگلا سانس نہیں لے پائیں گی۔ وہ گِرنے کے انداز میں صوفے پر بیٹھی۔
ماما۔۔۔۔۔۔۔۔ماما مشعال گِرتے دیکھ کر فوراً بھاگتے ہوئے ان کی طرف لپکی۔
اذان نے بھی مشعال کی آواز پر نظریں اُٹھا کر اپنی ماما کی طرف دیکھا۔ جو صوفے پر ساکت بیٹھی تھی۔
ماما۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماما پلیز آپ پریشان نہ ہوئے۔ میں گڑیا کو ڈھونڈ کر لاؤں گا۔ پلیز ماما۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے بولا۔
صائمہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ پھر یکدم رونے لگ پڑی۔
اذان پلیز رامیہ کو لے آؤ۔ میں ایک بار پھر سے وہ سب برداشت نہیں کر سکتی۔ میرے میں اب اتنا حوصلہ نہیں ہے۔ کہ میں دوبارہ سے اپنی بیٹی کو کھو دوں۔ پلیز وہ اس,شہر میں اکیلی پتہ نہیں کہاں کہاں بھٹک رہی ہو گی۔ اسے تو یہاں کے راستوں کا بھی اتنا معلوم نہیں۔ ضوفیرہ نے اسے ہمارے بھروسے چھوڑا تھا۔ ہم اسے کیا جواب دے گے۔
اذان میرا دل بہت گبھرا رہا ہے۔ کہی اللہ نہ کرے۔ اس کے ساتھ کوئی خادثہ نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما۔۔۔۔۔۔۔ماما پلیز چپ ہو جائے, میری گڑیا کو کچھ نہیں ہوا ہو گا۔ میں اپنی گڑیا کو ڈھونڈ کر لاؤں گا۔ پلیز آپ رونا بند کرے۔ اگر آپ ایسا کرینگی۔ تو میں گڑیا کو کیسے ڈھونڈ کر لاؤں گا۔ اپنے آنسو صاف کرے, اور میرے پر بھروسہ رکھے۔ بچپن کی طرح اس بار میں اپنی گڑیا کو خود سے دور جانے نہیں دوں گا۔ وہ ان کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔ آنکھیں تو اس کی بھی آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھی۔
خارب سے اپنی چچی کے آنسو دیکھے نہیں گئے۔ تو وہ پہلے ہی وہاں سے چلا گیا تھا۔
مشعال تم ماما کو سنبھالو, میں گڑیا کو ڈھونڈنے جا رہا ہوں۔ وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔
اذان بھائی جان کیا ہوا ؟ آپ پریشان لگ رہے ہیں۔
اذان جو جانے ہی لگا تھا کہ سامنے سے عمیر اندر آتے ہوئے بولا۔
عمیر تم میرے ساتھ چلو۔ میں تمہیں راستے میں بتاتا ہوں۔ وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے فوراً باہر نکل گیا۔
                                                 *******************
نمی کیا ہو گیا یار اُٹھو۔ کب تک اسی طرح بیٹھی رہو گی۔
ضوفی تو پھر بتاؤ میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔

ضوفی جب مارکٹ سے آئی تو نریم نے اسے سب کچھ بتا دیا۔ جو اس کے جانے کے بعد ہوا۔
ضوفی مجھے سمجھ نہیں آ رہا۔ اس کے پاس میری تصویریں کہاں سے آئی۔ میری تصویریں تمہارے اور رامی کے پاس ہوتی ہے یا پھر میں اپنی کزن زرمینے کو بھیجتی ہوں۔ لیکن تم دونوں پر مجھے بھروسہ ہے۔ اور رہی بات زرمینے کی وہ تو اسے جانتی بھی نہیں ہے۔ وہ کیسے بھیج سکتی ہے۔ پھر کس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ عجیب کشمکش میں تھی۔
نمی تم پریشان نہ ہو۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے۔ وہ جو برخے والی لڑکی آئی تھی۔ اس نے تمہاری تصویریں چھپ کر لی ہو۔ اور وہ پھول بھی وہی رکھ کر جاتی ہو۔
یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے اپنی عقل پر ماتم کیا۔
یہی تو جو سوچنے والی بات ہوتی ہے۔ وہ تم سوچتی ہی نہیں ہو۔ اچھا اب یہ سب چھوڑو, مجھے بہت بھوک لگی ہے آؤ کچھ کھانے کے لیے بناتے ہیں۔ اور مجھے آج تمہارے ہاتھ کی بریانی کھانی ہے۔ضوفیرہ اس کا
 موڈ ٹھیک کرنے کے لیے بات کا رُخ بدلتے ہوئے بولی, اور زبردستی اسے صوفے سے اُٹھایا۔
ہاں یاد آیا ضوفی تمہارا فون کمرے میں پڑا کب سے بج رہا تھا۔ نریم نے کچن میں جاتے پیچھے سے ہانک لگائی۔
اسی عمیر کا ہو گا۔ وہ ناگواری سے بولی۔
ضوفی پلیز پھر بھی ایک دفعہ دیکھ تو لو۔ کیا پتہ اس کا نہ ہو۔ کوئی امپارٹینٹ کال ہو۔
اچھا ٹھیک ہے میں دیکھتی ہوں۔ وہ جنجھلائی۔
ٹو ہنڈرڈ مِس کالز۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کمرے سے نکل کر خود سے بڑبڑاتے ہوئے بولی۔
کس کی کالز ہے ؟ نریم بھی اس کی طرف دیکھ کر بولی۔
پتہ نہیں نمی کوئی نیو نمبر ہے۔ اس نے ابرو اچکا کر لا علمی کا اظہار کیا۔
کال کر کے دیکھ لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب کی بار وہ بھی اس کے پاس آ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
پاگل ہو کیا۔۔۔۔اگر اسی عمیر کا ہوا تو۔ کیا پتہ نمبر چینج کر کے بات کر رہا ہو۔ ضوفیرہ فوراً بولی۔
افف ضوفی یہ بھی تو ہو سکتا ہے, کہ اس کا نہ ہو۔ 
اوکے میں کال کر کے دیکھتی ہوں۔ وہ کال ملاتے ہوئے بولی۔ لیکن اندر ہی اندر ڈر رہی تھی۔ کہ کہی عمیر نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو !
ہیلو ! ضوفی کیسی ہو۔ میری کال کیوں نہیں پِک کر رہی تھی۔
رامی یہ تم ہو اور یہ نمبر تمہارا ہے۔ دوسری طرف رامیہ کی آواز سن کر اس نے سکون بھرا سانس خارج کیا۔ جبکہ نریم کو اس حالت پر ہنسی آئی۔ جو عمیر سے اتنا ڈرتی تھی۔ اب کی بار وہ بھی دوبارہ کچن میں چلی گئی۔
ہاں ضوفی کیوں کیا ہوا ؟ اس کی خیرت سے بھرپور آواز گونجی۔
ارے کچھ نہیں, بس یہ نیو نمبر تھا "نا"۔ اس وجہ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے سوچا پتہ نہیں کس کا ہے۔
ہاں یار وہ میرا موبائل ٹوٹ گیا تھا۔ تو یہ اذان بھائی نے نیو گفٹ کیا ہے نیو سِم کے ساتھ۔ اس نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا۔ کیونکہ وہ اسے پریشان نہیں کرنا چاہںتی تھی۔
ارے واں ں ں۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا تم بتاؤ۔ اتنی مِس کالز کیوں کی ؟ کوئی پرابلم تھی ؟
نہیں ضوفی ایسی کوئی بات نہیں۔ بس تمہیں نمی اور ڈیڈ کو مِس کر رہی تھی اس وجہ سے۔ اسے اپنی وجہ سے پریشان دیکھ کر وہ فوراً بولی۔
لیکن ضوفی تمہاری آواز کچھ بدلی بدلی لگ رہی ہے۔ کیا تم روئی ہو ؟ ضوفیرہ کو شاید تسلی نہیں ہوئی تھی۔
نہیں ضوفی ایسی کوئی بات نہیں, تم پریشان نہ ہو۔ میں فون رکھ رہی ہوں بعد میں بات کرتی ہوں۔ مجھے آنٹی بلا رہی ہے۔ اوکے بائے اَگے سے اس کی کچھ بھی سنے بغیر اس نے فون بند کر دیا۔
کیا کہا رامیہ نے۔۔۔۔۔۔۔؟
کچھ نہیں بس اتنا ہی کہا وہ ہمیں مِس کر رہی ہے۔ لیکن نمی مجھے آج وہ کچھ پریشان سے لگی۔ وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولی۔
ضوفی اب تم پریشان نہ ہو جانا, وہ وہاں پر اکیلی ہے۔ اس وجہ سے ہمیں مِس کر رہی ہو گی۔ اور اب تم بھی آ جاؤ اور میری ہیلپ کرا دو۔ وہ مسکرا کر بولی۔
جبکہ ضوفیرہ کو ابھی بھی تسلی نہیں ہوئی تھی۔
                                      ******************
مشعال پتا نہیں میری بچی رامیہ کس خال میں ہوگی اس نےصبح سے کچھ کھایا بھی ہو گا کہ نہیں۔صائمہ دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر روتےہوئے بولی۔
ماما آپ ایسی باتیں کیوں کر رہی ہیں انشاءاللہ رامیہ بلکل ٹھیک ہوگی اسے کچھ نہیں ہو گا۔ اذان گئے ہیں نا اسے لینے۔ پلیز چپ کر جائیں۔ اگر آپ اسی طرح روتی رہی تو آپ کی طبعیت خراب ہو جائے گی۔ مشعال انہیں اپنے ساتھ لگا کر چپ کرواتے ہوئے بولی۔
ماما۔۔۔۔۔!
اذان کی آواز پرصائمہ نے  اپنی نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا۔ جو دروازےکے پاس سر جھکائے مجرموں کی طرح کھڑا تھا۔
صائمہ فورا صوفے سے اٹھ کر اس کی طرف لپکی۔اذان رامیہ کہاں ہے وہ تمہیں ملی؟ اگر وہ ہم سے ناراض ہے تو ہم اسےکچھ بھی کرکے اسے منا لیں گے۔
صائمہ روتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر بولی،جو ابھی بھی نظریں جھکائے ان کے سا منے کھڑا تھا۔اذان میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں، تمہیں کچھ سنائی دے رہا ہے کیا۔اسے ایسے ہی کھڑا دیکھ کر صائمہ اسے جنجھوڑتے ہوئے بولی۔
ماما۔۔۔۔۔۔۔!

اس کی آواز میں کیا کچھ نہ تھا۔ دکھ، درد، ڈر، چھن جانے کا خوف۔ صائمہ ایک پل کے لیے ساکت رہ گئ۔ اور فورا اپنی نظریں اٹھا کر اس کو دیکھا۔ جو آنسوؤں سے تر چہرہ لیے صائمہ کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
ماما کیا بچپن کی طرح اس دفعہ بھی میری گڑیا مجھے چھوڑ کر چلی جائے گی۔ اور میں اسے ڈھونڈ نہیں پاؤں گا۔ لیکن ماما تب تو میں چھوٹا تھا" نہ"، اب تو میں بڑا ہو گیا ہوں نہ، پھر میری گڑیا مجھے کیوں نہیں ملی۔ وہ صائمہ کے دونوں ہاتھ پکڑتے بچوں کی طرح روتے ہوئے بولا۔
اذان کے لفظوں نے صائمہ کو ماضی کی یادوں میں دھکیل دیا۔
ماما پلیز اس دفعہ میری گڑیا مجھے لا دیں۔"پلیز ماما" اذان صائمہ کو گلے لگاتے ہوئے بولا۔ اس کی تڑپ بھری آواز سن کر صائمہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی۔
مشعال بھی اذان کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ کر رہ گئ۔ کیوں نہ تڑپتی۔ وہی تو ہر سکھ درد میں اس کی ساتھی تھی۔ بچپن سے لیکر اب تک اذان کو اپنی گڑیا کے لیے روتے ہی تو دیکھا ہے کبھی اس کی بچپن کی تصویریں دیکھتے ہوئے تو کبھی اس کے کپڑے اور کھلونے پکڑے کر روتے ہوئے۔ اور اب رامیہ کی صورت میں اسے اپنی گڑیا دیکھی تو وہ بھی اس سے دور چلی گئ۔ جب مشعال سے اس کا درد دیکھا نہیں گیا تو وہ منہ پر ہا تھ رکھ کر روتے ہوئے بھاگ کر اندر کمرے میں چلی گئ۔
خارب جو نہ جانے کب سے دروازے میں کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اپنے جان سے پیارے  چچا ذاد بھائی اور چچی کو اس خا لت میں دیکھ کر اس کا دل کیا خود کو ختم کر لے۔ یہ سب اسی کی وجہ سے ہی تو ہوا تھا۔ وہ فورا ان کی طرف لپکا۔
اذان بھائی
حارب کی آواز سن کر اذان نے فوراً اپنی ماما سے الگ ہو کر پیچھے مڑکر دیکھا تو اپنے سامنے حارب کو دیکھ کر اس نے غصے سے اپنی نظروں کا زاویہ بدل لیا۔ اس کے اس رویے سے حارب کا دل کٹ کے رہ گیا۔ لیکن جلد ی سے خود کو سنبھالتے ہوئے صائمہ کی طرف دیکھ کر بولا۔ چچی جان پلیز خود کے ساتھ ایسا مت کریں۔ آپ اچھے سے جانتی ہیں کہ میں آپ کو ایسے روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ مجھے پتا ہے مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئ ہے مجھے ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا میں اس کے لیے معا فی بھی مانگتا ہوں ۔ لیکن چچی جان یہ بھی تو سوچیں ایک نہ ایک دن تو اسے جا نا ہی تھا۔ تو وہ کل کی بجائے آج چ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے پہلے وہ اپنا جملہ پورا کرتا ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے پر لال نشان چھوڑ گیا۔ جبکہ دوسری طرف سب ایک پَل کے لیے ساکت رہ گئے۔ ماما یہ آپ نے کَیا کِیا۔ اذان نے آنکھوں میں خیرت لیے اپنی ماما کو دیکھا۔ کیونکہ اسے نہیں لگتا کبھی اس نے اپنی ماما کو خارب پر ہاتھ اُٹھاتے بھی دیکھا ہو۔
تو کَیا کروں بولو کَیا کروں۔ تم دیکھ نہیں رہے وہ بول کَیا رہا ہے۔ اپنی غلطی پر شرمندہ ہونے کی بجائے وہ یہ سب بول رہا۔ وہ روتے ہوئے بولی۔ تکلیف انہیں بھی ہوئی اس پر ہاتھ اُٹھاتے ہوئے۔
مجھے خارب تم سے یہ اُمید نہیں تھی۔ ہاں میں مانتی ہوں۔ اس نے ایک نہ ایک دن امریکہ واپس چلے جانا تھا۔ لیکن اس نے وہاں اپنوں کے پاس جانا تھا۔ اپنے ڈیڈ کے پاس اپنی بہن کے پاس جانا تھا۔ لیکن اس وقت وہ اپنوں کے پاس نہیں ہے۔ یہاں پاکستان میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں اس کا ہمارے علاوہ کوئی اپنا نہیں ہے۔ اسے تو یہاں کے راستوں کا بھی اتنا علم نہیں ہے۔ خارب اگر وہ واپس امریکہ چلی گئی ہوتی۔ تو میں اتنا پریشان نہ ہوتی۔ لیکن وہ اس وقت پاکستان میں ہے, اور پاکستان کے خالات سے تم اچھے سے واقف ہو۔ خارب اگر رامیہ کوکچھ بھی ہوا۔ میں تمہیں کبھی بھی معاف نہیں کروں گی۔ صائمہ پوری شدت سے روتے ہوئے غصے سے بولی۔
اذان نے فوراً انہیں اپنے ساتھ لگا کر چپ کرانے کی کوشش کی۔ جبکہ خارب شرمندگی سے سر جھکائے کھڑا تھا۔
دادجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمیر کی آواز پر سب کا دھیان اس سمت گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ لوگ دادجی کے پاس,جا کر انہیں کچھ سمجھاتے  کے وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر نیچے گِر پڑے۔
                                            *********************
مسڑ اذان باہر آئے مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔
چیک اپ کے بعد ڈاکڑ اذان سے بولا۔
دیکھے مسڑ اذان انہیں ہارٹ اٹیک آیا ہے۔ اگر آپ مجھے وقت پر نہ بلاتے تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ ان کو کسی بات پر شاکڈ لگا ہے۔ ابھی ان کی طبیعت ناساز ہے۔ پلیز آپ کوشش کیجئیے گا۔ انہیں آپ ہر پرشانی اور ٹیشن سے دور رکھے۔ ان کے سامنے کوئی ایسی بات نہ کی جائے۔ جس کی وجہ سے انہیں کوئی دکھ پہنچے۔وہ اذان کے ساتھ چلتے ہوئے نہایت سنجیدگی سے بولے۔
تھینک یو ڈاکٹر جمال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ میری ارجینٹ کال پر فوراً آ گئے۔

جاری ہے
نہیں اس میں شکریہ کی کیا بات ہے۔ یہ میرا فرض تھا۔ میں نے صرف اپنا فرض پورا کیا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
اچھا اب میں چلتا ہوں۔

جاری ہے
   





Posta un commento

1 Commenti

  1. Nice &amazing out standing episode ❤👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻

    RispondiElimina

Commento

Parvish novel

PARIVISH Episode 31 (پری وش)