Advertisement

Adbox

TUM MERA JANOON HO Episode 3( تم میرا جنون ہو )

   Tum Mera Janoon Ho

          ( تم میرا جنون ہو )

# Novel by Tum Mera Janoon Ho

# Writer; Aima Ashfaq

# Janoon, Possessive hero, Innocent herion, Romantic and Uni based novel

# Please Don't Copy Paste My Novel ❌❌🚫🚫

# Episode 3

تھوڑی ہی دیر میں ٹیچر بھی کلاس میں آگئی۔ لیکن شارم نے پورے لیکچر اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔ کبھی وہ اس کے ہاتھ کو سہلاتا تو کبھی اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے رکھتا۔ جبکہ وہ مسلسل اس کی نظروں سے الجھن کا شکار تھی۔
آخر کار کلاس ختم ہوتے ہی عفساء نے فوراً سکون کا سانس لیا۔ لیکن اصل پرابلم تو یہ تھی۔ اس کا ہاتھ ابھی بھی شارم کے ہاتھ میں تھا۔
اس نے ہلکا سا اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکالنے کی کوشش کی۔
شارم جو یک ٹک اسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا۔ کہ اس کے ایسا کرنے پر فوراً چونکا۔ اس کی عفساء کے ہاتھ پر گرفت اور مضبوط ہوئی تھی۔ جیسے اس کی یہ حرکت پسند نہیں آئی تھی۔
اس نے اِردگِرد دیکھا تو آدھے سے زیادہ سٹوڈینٹ کلاس روم سے جا چکے تھے۔
عفساء نے بھی خالی ہوتی کلاس کو دیکھا۔ تو اس کی آنکھوں میں دوبارہ آنسو جمع ہونے لگے۔
پ۔۔۔۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے ج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جانے دے۔ وہ ہلکا سا منمائی۔
اُفف ہرنی یہ ٹائم اتنی جلدی کیسے گزر گیا۔ میرا تو بالکل بھی دل نہیں کر رہا کہ تمہیں جانے دوں۔ شارم چیر سے ٹیک لگا کر اس کے ہاتھوں کی انگلیاں اپنے ہاتھوں کی انگلیوں میں الجھاتے وہی ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے مخمور لہجے میں بولا۔
ن۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔آپ ایسا۔۔۔۔۔۔ن۔۔۔۔۔نہیں کر سکتے۔ ورنہ میں اپنے بھیا سے آپ کی شکایت لگاؤں۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے بمشکل اٹکتے ہوئے بولی۔ جبکہ ڈر ابھی بھی واضح تھا۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُوں میری معصوم ہرنی۔ اس کی بات سن کر شارم کا بھرپور قہقہہ خالی کلاس روم میں گو نجا۔ وہ فوراً سیدھا ہو کر بیٹھا, اور اس کا ایک گال کھینچتے ہوئے بولا۔
اچھا پھر بتاؤ, تم اپنے بھیا کو کیا بتاؤ گی۔ وہ اس کی طرف تھوڑا جھکتے اپنے ہاتھ کو تھوڑی اور ہونٹوں کے درمیان میں رکھتے۔ اسے نظروں کے حصار میں لیا بولا۔
م۔۔۔۔۔میں ان۔۔۔۔۔۔ک۔۔۔۔۔کو ب۔۔۔۔۔۔بتاؤں گی۔ کہ آپ م۔۔۔۔۔۔مجھے تنگ کرتے ہے۔ وہ ڈر کی وجہ سے نظریں نیچے کیے ہی بولی۔
اچھا پھر پتہ ہے کیا ہو گا۔ تمہارے بھیا اور میرے درمیان بہت لڑائی ہوگی, اور آخر میں جیت کس کی ہو گی "شارم شاہ کی"۔  کیونکہ شارم شاہ نے کبھی ہارنا نہیں سیکھا۔ اپنی ہرنی کے معاملے میں تو بالکل بھی نہیں۔ ہرنی صرف شارم شاہ کی ہے وہ صرف شارم شاہ کے لیے بنائی گئی ہے۔ اگر کوئی ہمارے درمیان آیا یا پھر کسی نے تمہیں مجھ سے چھیننے کی کوشش کی۔ تو اسے میں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ پھر چاہے وہ تمہارے بھیا ہی کیوں نہ ہو۔ وہ جنونیت بھرے لہجے میں بولا۔ اس کی ہاتھوں کی گرفت عفساء کے ہاتھوں پر اور مضبوط ہوئی۔ شاید اسے ڈر تھا کہ کوئی اس کی ہرنی اس سے چھین نہ لے۔
عفساء کو ہاتھوں میں درد اٹھتا ہوا محسوس ہوا۔ لیکن وہ سب درد بلائے, بس اسے ایک بات کی فکر تھی کہ اس کے بھیا کو کچھ نہ ہو۔
ن۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔پ۔۔۔۔۔پلیز آپ میرے بھیا کو کچھ مت کہیے گا۔ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔ بس میرےبھیا کو کچھ مت کہیے گا۔ وہ فوراً نظریں اٹھاتے روتے ہوئے ہوئے بولی۔
اسے اس طرح روتے دیکھ کر شارم کے دل کو کچھ ہوا۔
ہے ہرنی شش رونا بند کرو۔ میں تمہیں ایسے روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ پھر تم کیوں رو کر مجھے تکلیف دیتی ھو۔ وہ اپنے ہاتھوں سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔
تو رولاتے بھی تو آپ ہی ہے۔ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ لیکن پھر فوراً اس نے ڈرتے ہوئے چور نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ کہ کہی وہ اس بات پر بھی اسے کوئی سزا نہ دے دیں۔
اس کی بات پر شارم کے لبوں نے ہلکے سے مسکراہٹ کا احاطہ کیا۔ لیکن جلد ہی اس نے اپنی مسکراہٹ کو چھپا لیا۔
تو میری ہرنی مجھے غصہ دلانے والے کام بھی نہ کرے "نا"۔ وہ پیار سے اس کے گال سہلاتے ہوئے بولا۔
پ۔۔۔پلیز مجھے جانے دیں۔ باہر بھیا میرا ویٹ کر رہے ہو نگے۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر التجائیہ لہجے میں بولی۔ سفید گال جو رونے کی وجہ سے سرخی لیے پھولے ہوئے تھے۔ جنہیں شارم کا بار بار چھونے کا دل کرتا تھا۔
اچھا ٹھیک ہے جاؤ۔ لیکن یہ بات جلدی اپنے ذہن میں ڈال لو۔ کہ تمہیں آنا شارم کے پاس ہی ہے۔ وہ اس کا ہاتھ چھوڑتے ہی اسے اچھے سے باور کراتے ہوئے بولا۔
جبکہ عفساء اس کے ہاتھ چھوڑتے ہی فوراً وہاں سے بھاگی۔
اس کی تیزی پر شارم کے ہونٹوں پر مسکراٹ پھیل گئی۔ اس نے چیر کے ساتھ ٹیک لگائی اور چہرہ اُوپر کر کے  آنکھیں موند لی۔
ابھی پتہ نہیں اور وہ کتنی دیر ایسے ہی بیٹھا رہںتا۔ کہ اس کا موبائل رنگ کیا۔
اس نے ایسے پوکٹ سے موبائل نکال کر کان سے لگایا۔ لیکن اَگے سے جو خبر اسے سننے کو ملی۔ ایک پَل کے لیے اس نے شارم کے اوسان خطا کر دیے تھے۔ تھوڑی دیر پہلے جو اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اب اس کا دور دور تک کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ وہ فوراً وہاں سے اُٹھ کر باہر کی طرف بھاگا تھا۔
                                              **********************
  عفساء اریش کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی۔ تو سامنے اپنے ماما پاپا کو دیکھ کر خوشی کے مارے فوراً ان کی طرف بھاگی, اور اپنے ماما کے گلے لگ گئی۔

کیسا ہے میرا بچہ احمد بھی پیچھے سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔ اب کی بار وہ ماما سے الگ ہو کر فوراً ان کے گلے لگی۔
پاپا آئی مس یو۔۔۔۔۔۔۔آئی مس یو سو مچ۔ وہ پوری شدت سے روتے ہوئے بولی۔ وہ جو پورے راستے اپنے آنسوؤں پر بند باندھے بیٹھی تھی۔ اپنے بھائی کو اپنے ڈر کی بھنک بھی نہیں لگنے دی تھی۔ اپنے پاپا کے گلے لگتے ہی وہ رو پڑی, اور ان کی شرٹ کو سختی سے مٹھیوں میں بھینچا ہوا تھا۔ جیسے وہ اسے شارم سے بچا لیں گے۔ وہ ان کی پناہوں میں سکون محسوس کر رہی تھی۔
ارے عفی میرے بچے تمہارے پاپا نے بھی تمہیں بہت مس کیا۔ اسی لیے تو ہم آگئے۔ احمد پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔
عفساء کیا اپنے انکل آنٹی سے نہیں ملو گی یا پھر سارا پیار اپنے ماما پاپا سے ہی کرو گی۔
اسراء اس کی طرف دیکھ کر بولی۔
عفساء نے آواز کی سمت دیکھا۔ تو سامنے اسراء آنٹی اور رحمان انکل کو دیکھ کر فوراً ان کی طرف لپکی۔
آنٹی آپ۔۔۔۔۔۔؟ وہ گلے ملتے ہوئے بولی۔
آنٹی عفان نہیں آیا کیا ؟ وہ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولی۔ جبکہ اریش نے اسے افسوس بھری نظروں سے دیکھا تھا۔وہ اسے بہت دفعہ کہہ چکا تھا۔ اسے بھائی بولا کرو لیکن وہ سنتی کہاں تھی کسی کی۔اس کی بے چینی دیکھ کر رحمان اور اسراء کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ کیونکہ سب جانتے تھے۔ کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے کتنے اچھے دوست تھے, اور ایک دوسرے کے کتنے قریب تھے۔ لیکن اسراء اور رحمان اس پیاری سی لڑکی کو اپنی بہو بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ اس بارے میں وہ احمد اور عشما سے بات بھی کر چکے تھے۔ جس کے لیے انہوں نے ابھی سوچنے کے لیے وقت مانگا تھا, اور ویسے بھی وہ اچھے سے جانتے تھے۔ کہ آخری فیصلہ اریش کا ہی ہو گا۔ کیونکہ وہ اپنی بہن کے معاملے میں بہت پوزیسو تھا۔
نہیں بیٹا وہ کل آئے گا۔ انہوں نے پیار سے اس کے گال پر ہاتھ پھیرا۔
ان کی بات سن کر اس کا منہ لٹک گیا۔
چلو عفی بچہ آپ جلدی سے جا کر کپڑے چینج کر کے فریش ہو جاؤ۔ پھر نیچے آ کر کھانا کھاؤ۔ اس کا اداس چہرہ دیکھ کر اریش فوراً بات بدلتے ہوئے بولا
اوکے بھیا وہ فوراً اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔
                                          **********************
وہ رش ڈرائیونگ کرتے ہوئے ہاسپیٹل  پہنچا۔ رسیپشن سے کچھ پوچھتے فوراً اوپر کی طرف بھاگا۔
سامنے اپنے بڑے پاپا کو کاریڈور میں پریشانی سے ٹہلتے دیکھ کر فوراً ان کی طرف لپکا۔
بڑے پاپا "کیسے ہیں آغا جان" وہ ٹھیک تو ہے "نا" ؟ کیا ہوا تھا انہیں ؟ اس کے لہجے میں پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔
اریش بیٹا ابھی تک ڈاکٹرنے کچھ نہیں بتایا۔ لیکن تم پریشان نہ ھو انشاء اَلله‎ سب ٹھیک ہو گا۔ وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے حوصلہ دیتے ہوئے بولے۔ جب کہ آنکھوں میں آنسو ان کے بھی تھے۔
شارم پریشانی سے وہی پاس پڑی بنچ پر بیٹھ گیا, اور ڈاکٹر کے باہر نکلنے کا ویٹ کرنے لگا۔
                                            ***********************
شارم شاہ ائیر پورٹ پہنچا تو اپنے بڑے پاپا کو ائیر پورٹ پر اپنا انتظار کرتے پایا تھا۔ جنہیں دیکھ کر اسے بہت حیرت ہوئی تھی۔ لیکن وہ سمجھ گیا تھا, یہ ضرور  رجاء کی کارستانی تھی۔ جس نے بڑے پاپا کو بتایا میں پاکستان آ رہا ہوں۔ جبکہ رجاء اچھے سے جانتی تھی, وہ ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہںتا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی۔ کہ آغا جان کی اس کی ماں سے بلا وجہ کی نفرت تھی۔ لیکن اپنے بڑے پاپا کے بے جا اصرار کی وجہ سے آخر کار وہ حویلی جانے کے لیے مان گیا تھا۔ لیکن حویلی پہنچتے ہی اس نے اپنے آغاں جان کو دیکھا, تو اس کا سارا غصہ پانی کی طرح بہہ گیا تھا۔ وہ اسے صدیوں کے بیمار لگے تھے۔ لیکن یہ سچ بھی تھا بیٹے کی جدائی نے انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا۔ لیکن آغاں جان کی آنکھوں میں اپنے لیے بے رخی دیکھ کر اس کا دل کٹ کر رہ گیا تھا۔ لیکن وہ بھی آخر انہی کا پوتا تھا انہی کی طرح ضدی آخر آغا جان کب تک اسے اگنور کر سکتے تھے۔ آخر وہ دن بھی جلد ہی آ گیا کہ آغا اپنے پوتے کے گلے لگ کر پوری شدت سے روئے تھے۔
                                              ***********************
ڈاکٹر کو باہر آتے دیکھ کر شارم فوراً بنچ سے اٹھ کر ان کی طرف لپکا۔
اب آغاجان کیسے ہیں ڈاکٹر ؟ انہیں کیا ہوا تھا ؟ اس نے ڈاکٹر کی طرف دیکھ کر متفکر لہجے میں اِستفسار کیا۔
آپ کے پیشنٹ کو ہارٹ آ ٹیک آیا تھا۔ لیکن آپ اس رب کا شکر ادا کریں۔ جس کی وجہ سے ان کی جان بچ گئی۔ اگر وقت پر آپ انہیں یہاں نہ لے کر آتے تو کچھ بھی ہو سکتا تھا, اور پلیز انہیں ہر پریشانی سے دور رکھے اور خوش رکھنے کی کوشش کرے۔ تھوڑی دیر میں ہم انہیں روم میں شفٹ کر دیں گے۔ آپ لوگ ان سے مل سکتے ہیں۔ ڈاکٹر بہت سی ہدایتوں کے ساتھ اسے بول کر وہاں سےچلا گیا۔

شارم بیٹا تم آغاجان سے جا کر ملو۔ میں تمہاری بڑی امی اور قصواء کو بتا کر آیا۔ کہ اب بابا جان ٹھیک ہے۔
آس نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنے قدم روم کی طرف بڑھا دئیے۔
اب آپ خوش اپنی صحت خراب کر کے, آخر آپ اپنے بیٹے کو معاف کیوں نہیں کر دیتے۔ شارم کمرے میں آتے ہی ان کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے غصے سے بولا۔
اس خبیث شخص کا میرے سامنے نام مت لو۔ اپنے پوتے کی آواز سن کر انہوں نے اپنی ہلکی ہلکی آنکھیں کھولی۔ اس کی بات پر وہ بھی اپنا غصہ دکھانے سے باز نہیں آئے تھے۔
ہاں میں بابا کا نام نہیں لے سکتا۔ لیکن آپ چھپ کر رات کو ان کی تصویریں دیکھ کر رو سکتے ہیں۔
نن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں ایسی۔۔۔۔۔۔۔ک۔۔۔۔۔۔۔کوئی بات نن۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں ہے۔ تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ لڑکھڑاتی آواز میں بولے۔
آہمممم۔۔۔۔۔۔۔۔آغا جان آپ مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتے۔ وہ ان کے پاس ہی بیٹھتے ہوئے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔
تم اپنی بتاؤ, تم کون سا اپنے آغا جان کا کرتے ہو۔ ایک دفعہ بھی نہیں سوچا میں اپنے آغا جان سے مل آؤں۔ انہوں نے بھی فوراً شکوہ کیا۔
اسے پتہ تو چل گیا تھا۔ کہ آغا جان نے جان بوجھ کر بات بدل دی تھی۔ لیکن اب وہ بھی اس ٹاپک کو مزید نہیں چھیڑ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا وہ اپنے آغا جان کو دھیرے دھیرے منا لےگا۔
آغا جان آپ کو تو پتہ ہے کہ پڑھائی میں بزی تھا۔ اس نے زبردستی ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کر جھوٹ کا سہارا لیا۔
میں سب جانتا ہوں۔ تم یہاں کون سے پڑھائی کر رہے ہو۔ انہوں نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھ کر باور کرایا۔
وہ ہجل سا ہو گیا۔
لیکن آج تم ہمارے ساتھ حویلی چل رہے ہو۔ یہ ہمارا آخری فیصلہ ہے۔ وہ تحکم بھرے لہجے میں بولے۔
جبکہ شارم یہ بات اچھے سے جانتا تھا آغا جان کے ساتھ حویلی جانے کا مطلب اس کی اب کل تک ہی واپسی ہونی تھی, اور وہ یہ ایک دن بھی اپنی ہرنی کو دیکھے بغیر کیسے گزارے گا۔ یہ صرف وہی جانتا تھا۔ لیکن وہ اپنے آغا جان کی بھی بات کو نہیں ٹال سکتا تھا۔
اچھا ٹھیک ہے جیسے آپ چاہے۔ وہ ان کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے لگاتے ہوئے بولا۔
اس کی بات اور حرکت پر ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
                                         *********************
ہے چھٹکی کیا کر رہی ہو۔ حنان لیونگ روم میں آیا۔ تو سامنے رجاء کو صوفے پر بیٹھے دیکھ کر بولا۔
حنان بھائی آپ ؟ آپ کب آئے ؟ اور ویسے بھی جب سے شارم بھائی پاکستان گئے ہیں۔ آپ نے تو ہماری طرف آنا بھی چھوڑ دیا۔ رجاء جو لیپ ٹاپ پر اپنی کزن قصواء سے ویڈیو کال پر بات کر رہی تھی۔ کہ اپنے سامنے حنان کو دیکھ کر فوراً شکوہ کن لہجے میں بولی۔
ارے نہیں چھوٹی ایسی کوئی بات نہیں۔ بس سٹڈی میں تھوڑا بزی تھا۔ حنان اس کے ساتھ ہی بیٹھتے ہوئے بولا۔ لیکن سامنے ویڈیو کال پر اسی دشمن جاں کو دیکھ کر ساکت رہ گیا۔ کیونکہ آج سے پہلے اس نے اسے صرف تصویر میں دیکھا۔ لیکن آج اسے ویڈیو کال پر دیکھ کر حنان کو اپنے دل پر قابو پانا بہت مشکل امر لگ رہا تھا۔
جبکہ دوسری طرف قصواء اس چیز سے بالکل بے خبر تھی کہ کوئی اس کا تفصیلی جائزہ لے رہا تھا۔ کیونکہ سامنے سکرین پر اسے صرف رجاء کا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ اگر اسے پتہ ہوتا کہ کوئی انجان شخص اسے دیکھ رہا ہے۔وہ ایک پل نہ لگاتی کال کاٹنے میں۔
چھٹکی کتنی بری بات ہے۔ تمہارا بھائی کب سے آ کر بیٹھا ہے لیکن تم نے ایک بار بھی مجھ سے چائے کا کپ نہیں پوچھا۔ وہ رجاء کی طرف شکوہ کن لہجے میں بولا۔ اصل مقصد تو اس کا رجاء کو یہاں سے بھیجنے کا تھا۔
اُوپس۔۔۔۔۔۔ایم سوری حنان بھائی میں ابھی بنا کر لائی۔ اس نے فوراً اپنے سر پر ہاتھ مارتے معذرت کی۔
اچھا قصواء ایک منٹ ہولڈ کرنا میں ابھی آئی۔ رجاء سامنے سکرین پر دیکھ کر فوراً بولی اور اَگے سے اس کی کچھ بھی سنے بغیر لیپ ٹاپ  صوفے پر رکھ کر وہاں سے بھاگی۔
اس کے وہاں سے جاتے ہی حنان نے ایک منٹ کی تاخیر کیے بغیر فوراً لیپ ٹاپ اٹھا کر اپنی گود میں رکھا۔ کیونکہ قصواء سے بات کرنے کا اسے دیکھنے کا وہ یہ سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہںتا تھا۔
جبکہ قصواء جو دوپٹے سے بے نیاز آرام و سکون سے بیٹھی ہوئی تھی۔ کہ سامنے سکرین پر کسی انجان شخص کو دیکھ کر ایک پَل کے لیے اس کے اوسان خطا ہو گے۔ اس کے ہاتھ پیر پھول گئے تھے۔ کیونکہ آج تک وہ کسی مرد کے سامنے نہیں گئی تھی اور آج وہ دوپٹے سے بے نیاز کسی کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس نے فوراً کیمرے کا رُخ دوسری طرف کیا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ اب کیا کرے۔ کیونکہ اس کا ایسی سچویشن سے پہلی دفعہ سامنا ہوا تھا۔ دل بہت تیزی کے ساتھ دھڑک رہا تھا۔
حنان نے جو ابھی اسے جی بھر کر دیکھا بھی نہ تھا۔ کہ کیمرے کا رُخ دوسری طرف ہوتے دیکھ کر سخت بد مزہ ہوا۔

قصواء جی یہ کیا ابھی تو میں نے آپ کو جی بھر کر دیکھا بھی نہ تھا, اور آپ نے کیمرے کا رُخ بھی دوسری طرف کر دیا۔ ایک تو پہلے ہی آپ نے میرے دل پر وار کر کے اچھا نہیں کیا۔ جب سے آپ کی تصویر دیکھی ہے۔ دل آپ سے ملنے کے لیے بے چین ہے اور آخر اَلله‎ نے یہ موقع مجھے دے ہی دیا۔ تو اب آپ اپنا چہرہ نہ دیکھا کر مجھ پر ظلم کر رہی ہیں۔ حنان کے لہجے میں کیا کچھ تھا محبت, شکوہ, جنون۔ دوسری طرف قصواء بہت ڈر گئی تھی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ شخص کون تھا اور اس کے پاس اس کی تصویریں کہاں سے آئی تھی۔
اچھا چلے کوئی نہیں نہ سامنے آئے نہ بات کریں۔ میں کل ویسے بھی پاکستان آ رہا ہوں۔ پھر تفصیلی بات ہو گی اور پھر آپ مجھ سے کہی چھپ بھی نہیں سکتی۔ کیونکہ میں آپ کو ایسا کوئی موقع نہیں دوں گا۔ حنان مصنوئ غصے سے بولا۔ مقصد صرف اسے ڈرانا تھا۔ جبکہ یہ اس کے لہجے کا حصہ نہیں تھا۔
قصواء نے فوراً کال کاٹ دی۔ وہ واقع ہی اس شخص سے بہت ڈر  گئی۔ یا اَلله‎ کون ہے اگر اس بارے آغا جان اور بابا جان کو پتہ چل گیا۔ کہ ایک انجان شخص نے میرا چہرہ دیکھا ہے تو۔ وہ خود سے بڑبڑائی اور ویسے ہی بیڈ پر گِرتے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہچکیوں سے رونے لگی۔ تاکہ کمرے سے باہر اس,کی آواز نہ جا سکے, ورنہ اس کی اماں جان نے آ کر رونے کی وجہ ضرور معلوم کرنی تھی۔
                                                ******************
یہ لے حنان بھائی آپ کی چائے۔ رجاء ٹیبل پر چائے کا کپ رکھتے ہوئے بولی۔
نہیں چھٹکی اب میں جا رہا ہوں۔ مجھے کچھ ضروری کام یاد آ گیا ہے۔ میں بس تمہیں اتنا کہنے آیا تھا۔ کہ اپنی پیکنگ کر لینا۔ ہم کل کی فلائیٹ سے پاکستان جا رہے ہیں۔ انکل اور آنٹی کی فکر نہ کرنا ان سے میں کل ہی پرمیشن لے چکا ہوں۔
حنان بھائی آپ سچ کہہ رہے ہیں۔ ہم پاکستان جا رہے ہیں۔ وہ فوراً چہکتے ہوئے بولی۔
جی چھٹکی, اس کے چہرے پر خوشی کے تصورات دیکھ کر خنان بھی مسکراتے ہوئے بولا۔
لیکن حنان بھائی, شارم بھائی کو پتہ چلا وہ کبھی مجھے آنے نہیں دے گے۔ تم فکر نہ کرو, اسے ہم ابھی کچھ نہیں بتائے گے۔ اور اگر پتہ بھی چل گیا میں اسے سنبھال لوں گا۔ وہ رجاء کو تسلی دیتے ہوئے بولا۔
اُوں حنان بھائی آپ کتنے اچھے ہیں۔ چلے ٹھیک آپ بھی اب جائے۔ میں بھی اپنی پیکنگ کرنے جا رہی ہوں۔ رجاء صوفے سے اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کر خوشی سے بولی اور فوراً وہاں سے کمرے کی طرف بھاگی۔
پاگل لڑکی, حنان اس کے بچپنے پر فوراً نفی میں سر ہلاتے ہوئے مسکرا کر بولا۔
                                               *********************
شارم ابھی ابھی اپنے فلیٹ پر آیا تھا۔ فریش ہونے کے لیے۔ کیونکہ شام کو اسے آغا جان کے ساتھ خویلی کے لیے نکلنا تھا۔
وہ واشروم سے نہا کر نکلا اور ٹاول سے اپنے بال سُکھا کر ٹاول کو اس کی جگہ پر رکھا, اور خود بیڈ پر جا کر لیٹ گیا۔
وہ مسلسل کروٹوں پر کروٹیں لے رہا تھا۔ لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اسے مسلسل ایسے کرتے ہوئے پندرہ سے بیس منٹ ہو چکے تھے۔ اتنی تھکاوٹ کے باوجود اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ وجہ صرف اس کی ہرنی تھی۔
افف ہرنی میں ایک دن تمہیں دیکھے بغیر کیسے گزاروں گا۔ شارم سیدھا لیٹتے ایک ہاتھ اپنے سر کے نچے رکھتے ہوئے اس کے خیالوں میں کھوئے بولا۔ پھر کچھ سوچتے فوراً بیڈ سے اٹھا اور جوتے پہنتے باہر کی طرف بھاگا تھا۔
اب  وہ اپنی گاڑی میں بیٹھا عفساء کے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے موبائل پر کسی کی کال آئی۔
ہیلو ہاں بولو کام ہو گیا۔ کال اٹھاتے ساتھ ہی شارم رعب دار آواز میں بولا۔
جی سر آپ اندر جا سکتے ہیں۔ کوئی بھی آپ کو نہیں روکے گا, اور سڑھیوں سے اُوپر جاتے ہی سامنے والا کمرا ہی میم کا ہے۔ دوسری طرف سے وہ تیزی سے بولا۔
اُوکے ٹھیک ہے۔ فون بند کرتے ہی وہ گاڑی سے اترا اور اندر کی طرف بڑا۔
شارم گھر میں داخل ہوا۔ تو پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ شاید سب اپنے اپنے کمروں میں سو رہے تھے۔ اس نے موبائل کی لائٹ سے اپنے قدموں کا رُخ سڑھیوں کی طرف کیا۔
شارم اس کے کمرے میں داخل ہوا۔ تو اسے خیرت ہوئی۔ کیونکہ یہ واحد لائٹ جو اس کی ہرنی کے روم میں آن تھی۔
اُوں تو میری ہرنی کو اندھیرے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ لیکن کوئی نہیں میری جان جب تم میرے پاس آؤں گی۔ میں تمہارے سارے ڈر دور کر دوں گا۔ وہ مسکراتے ہوئے دل ہی دل میں بولا۔ اب وہ اپنا موبائل دوبارہ پاکٹ میں رکھ کر اس کے پاس ہی جا کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔
اُف ہرنی کتنی بری بات ہے۔ میری نیند اُڑھا کر تم خود سکون سے سو رہی ہو۔ شارم نے ایک ہاتھ اس کے تکیے کے پاس رکھا۔ دوسرے ہاتھ سے اس کے بالوں کی کچھ لٹو کو چہرے سے  پچھے کرتے ہوئے خمار  آلود لہجے میں بولا۔

عفساء کو نیند میں بھی اپنے چہرے پر کسی کی نظروں کی تپش اور ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا۔ اسی وقت شارم بھی جھکا اور اس کے چہرے کے نزدیک جا کر کان میں سرگوشی کی۔
ہرنی شارم کی ہرنی۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نام سنتے ہی عفساء نے فوراً اپنی آنکھیں کھولی۔
شارم جو سرگوشی کر کے اپنا چہرہ اٹھانے ہی لگا تھا۔ کہ اسے چیخنے کے لیے منہ کھولتے دیکھ کر اپنا بھاری ہاتھ فوراً اس کے منہ پر رکھ کر اس کی چیخ کا گلا گھونٹ دیا۔
شش۔۔۔۔۔۔۔ہرنی بہت بری بات۔ ایسا سوچنا بھی مت۔ وہ اپنا چہرہ اس کے نزدیک کیے ایک ہاتھ اس کے منہ پر رکھے دوسرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی اپنے منہ پر رکھ کر اسے خاموش رہںنے کا اشارہ کیا۔ وہ اس کی سانسوں کی تپش بخوبی اپنے چہرے پر محسوس کر سکتی تھی۔ اسے اپنے اتنے نزدیک دیکھ کر اسے اپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ اس وقت وہ سہمی ہوئی ہرنی کی طرح ہی اسےدیکھ رہی تھی۔
اچھا میری جان رونا "نا" میں ہاتھ ہٹا رہا ہوں۔ لیکن اگر تم چیخی نقصان تمہارا ہی ہو گا۔ شارم اسے پھر سے رونے کی تیاری پکڑتے دیکھ کر فوراً بولا اور ساتھ تنبہیہ کرنا نہیں بھولا تھا۔
اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹایا تھا, اور سیدھا ہو کر بیٹھا۔ اس کے ہاتھ ہٹاتے ہی عفساء بھی اٹھ کر بیٹھی اور تھوڑی سی پیچھے کی طرف کھسکی۔
ہرنی تم میرے سے اتنا ڈرتی کیوں ہوں۔ شارم اسے پیچھے کھسکتے دیکھ کر بولا۔
پ۔۔۔۔۔پلیز آ۔۔۔۔۔۔آپ یہاں۔۔۔۔۔۔۔سے ج۔۔۔۔۔۔جائے۔ وہ ہچکچیوں کے درمیان روتے ہوئے بمشکل بولی۔
ہے ہرنی وائے آر یو کرائنگ بےبی۔ ( hey heerni why are crying baby )۔ شارم  اس کے تھوڑا اور نزدیک ہو کر بیٹھا۔ اپنے ایک ہاتھ سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔
اس دفعہ عفساء پیچھے کی طرف نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ وہ اچھے سے جانتی تھی۔ کہ اب اس نے ایسا کیا۔ تو پھر اسے غصہ آئے گا, اور وہ کہی غصے میں اسے اپنے ساتھ نہ لے جائے اور اس وقت کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا, کہ میں کڈنیپ ہو گی۔ کیونکہ وہ اس کے یہاں آنے کی یہی وجہ سمجھی تھی۔
شارم شاید اس کا ڈر بھانپ گیا تھا۔ وہ سمجھتا بھی کیوں نہ۔ سامنے بیٹھی لڑکی اس کی محبت, عشق, جنون سب کچھ تھی۔ اسکے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نے احاطہ کیا۔
ارے ڈونٹ وری ہرنی۔ میں یہاں تمہیں اپنے ساتھ لے جانے نہیں آیا۔ میں بس اتنا کہنے آیا تھا۔ میں کل یہاں نہیں ہو گا۔ تو تم نے یونی میں اپنا بہت سارا خیال رکھنا ہے میرے لیے۔ وہ اس کے روئی جیسے سفید گال سہلاتے ہوئے بولا۔ جو اس کے ایسا کرنے سے تھوڑے سرخ ہو گے تھے۔ اس کے لہجے میں فکر صاف جھلک رہی تھی۔
کیا سچ میں, خوشی کے مارے اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ لیکن اس کی آنکھوں میں تنبہیہ دیکھ کر اس نے فوراً ڈرتے ہوئے اپنی نظریں نیچی کر لی۔
ہرنی اِدھر دیکھو میری طرف۔ اس نے تھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا۔
ہرنی میں تم پر سختی نہیں کرنا چاہںتا۔ تم بہت معصوم ہو۔ میرا غصہ برداشت نہیں کر پاؤ گی, اور میں تم پر سختی کرنا بھی نہیں چاہںتا۔ لیکن تم بھی ہر دفعہ مجھے غصہ مت دلایا کرو۔ میری جان یہ تمہاری ننھی سی جان برداشت نہیں کر پائے گی۔ اس لیے اپنے ذہن میں بیٹھا لو۔ کہ تم صرف شارم کی ہو اور شارم شاہ اپنی چیزوں کو لے کر بہت پوزیسو ہے۔ میں نہیں چاہںتا تم میرے جانے پر خوش ہو۔ لیکن کوئی بات نہیں۔ یہ کچھ دن کی بات ہے۔ جب مکمل طور پر تم میری ہو جاؤ گی۔ میں ہمیشہ کے لیے تمہیں اپنی دنیا میں لے جاؤں گا۔ اور جب تم ہر ٹائم میرے ساتھ رہو گی۔ تو تمہیں میری عادت ہو جائے گی۔ شارم دونوں گالوں پر ہاتھ رکھ کر اسے اچھے سے باور کراتے ہوئے بولا۔ کہ وہ اس کی ہے اور وہ اسے کبھی بھی یہاں سے لے جائے گا۔ اس کی یہی جنونیت دیکھ کر وہ ڈر گئی تھی۔ رہی سہی کثر اس کے آخری لفظوں نے پوری کر دی تھی۔
ن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔میں آپ کے ساتھ کہی نہیں جاؤں گی۔ مم۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے کہیں نہیں ج۔۔۔۔۔۔۔جانا۔ مجھے اپنے بھیا اپنے ماما پاپا کے پاس ہی رہںنا ہے۔ وہ فوراً اس کے ہاتھ جھٹکتے دوسری طرف سے بیڈ سے اُتر کر نیچے جا کر کھڑی ہو گی۔ اور روتے ہوئے بولی۔
شارم نے بمشکل اپنا غصہ کنٹرول کیا۔
ہرنی فوراً سے اپنی جگہ پر واپس آؤ۔ وہ دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتے اپنے غصے کو خطا القدر کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔
نہیں مجھے بھیا کے پاس جانا۔ وہ روتے ہوئے فوراً دروازے کی طرف بھاگی۔ اس سے پہلے وہ دروازہ کھولتی شارم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر فوراً اپنی طرف کھینچا۔ یہ سب اتنا اچانک ہوا۔ وہ اس کے سینے سے جا لگی۔ اس کا دل تیزی سے دھڑکا۔ اس کا وجود خوف کے مارے کانپ رہا تھا۔
مجھے پلیز جانے دے, مم۔۔۔۔۔۔میں آپ کی دنیا میں نہیں جانا چاہںتی۔ مجھے اپنے بھیا کے پاس رہںنا۔ مجھے نہیں جانا چھوڑے مجھے۔ وہ اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے مسلسل ایک ہی بات دہرا رہی تھی۔ شارم کو اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔
چپ ایک دم چپ اب خبردار ہرنی تمہاری آواز نہیں آنی چاہںیے۔

شارم نے ایک ہاتھ سے اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑا۔ دوسرا ہاتھ اس کی کمر میں رکھ کر اسے اپنے اور نزدیک کر کے نہایت سخت لہجے میں بولا۔ اس کا سانس سوکھ کر رہ گیا تھا۔
وہ اب پوری کی پوری اس کی قید میں بے بس تھی۔ جب کے آنسو مسلسل اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔
ہرنی تم اب مجھے مجبور کر رہی ہو سختی کرنے پر جو میں تم پر کرنا نہیں چاہںتا۔ میرے واپس آنے تک تم اپنے دماغ میں یہ بات بیٹھا لو۔ کہ تم صرف شارم کی ہو, اور تم نے ہمیشہ میرے ساتھ رہںنا ہے۔ اگر تم آرام سے نہ مانی تو ہرنی نہ چاہ کر بھی مجھے تمہارے ساتھ زبردستی کرنے پڑے گی۔ کیونکہ جو چیز شارم شاہ کو  نہ ملے پھر وہ اسے سب سے چھین لیتا ہے۔ لیکن تم تو پھر شارم کی ہرنی ہو, میری جان ہو تو خود سوچو تمہیں میں کیسے خود سے دور جانے دے سکتا ہوں۔ وہ اس وقت کوئی اور ہی شارم لگ رہا تھا۔ اس کے لہجے میں جنونیت صاف جھلک رہی تھی۔ کہ وہ جو کہہ رہا ہے کرکے دکھائے گا۔ اس کی انگلیاں عفساء کی کمر میں پیوست ہو کر رہ گئی تھی۔
شارم نے ہلکے سے اس کی کمر سے ہاتھ نکالا اور اس کے ہاتھ چھوڑ کر تھوڑا دور کھڑا ہوا۔
ہرنی ابھی فلحال میں جا رہا ہوں۔ اپنا خیال رکھنا۔ وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ کیونکہ اس کے آنسو سیدھا اس کے دل پر گِر رہے تھے۔
 جبکہ عفساء فوراً نیچے زمین پر بیٹھتے ہوئے اونچی اونچی آواز میں رونے لگی۔
اس کے رونے کی آواز سن کر اریش فوراً بھاگتے ہوئے, اس کے کمرے میں آیا۔ لیکن سامنے اپنی جان سی پیاری بہن کو اس طرح روتے دیکھ کر فوراً اس کی طرف لپکا۔
عفی میرا بچہ کیا ہوا ؟ آپ اس طرح کیوں رو رہی ہو۔ اریش نیچے بیٹھتے  اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولا۔
بھ۔۔۔۔۔بھیا۔۔۔۔۔۔۔بھ۔۔۔۔۔بھیا وہ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ مجھے آپ سے چھین لے گا۔ بھیا مجھے اس کے ساتھ نہیں جانا۔ بھیا مجھے آپ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔سا۔۔۔۔۔۔۔ساتھ رہںنا۔ بھیا مجھے بچا لے۔ وہ اپنے بھائی کے سینے سے لگ کر پوری شدت سے روتے ہوئے بولی۔

جاری ہے




م




Posta un commento

1 Commenti

  1. Amazing &outstanding episode 👌🏻❤❤❤❤❤mery saaf alfaz nai hain 👏🏻👏🏻👏🏻👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻fabeolus episode

    RispondiElimina

Commento

Parvish novel

PARIVISH Episode 31 (پری وش)