Advertisement

Adbox

PARIVISH Episode 16 ( پری وش)

                  Parivish

                  (پری وش)


# Novel by Parivish

# Writer; Aima Ashfaq

# Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel

# Please Don't Copypaste My Novel

# Episode 16:

                  نریم کنٹین میں بیٹھے اسی شخص کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
 ابھی اسے کنٹین میں بیٹھے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے۔ کہ اس کا موبائل دوبارہ رنگ کیا۔ سامنے ضوفیرہ کا نمبر جگمگاتے دیکھ کر اس نے فوراً کال اٹھائی۔
ہیلو ضوفی
ہائے نریم کیسی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔؟
میں بس ٹھیک ہوں۔ " تم بتاؤ" تم کیسی ہو اور رامی کی اب طبیعت کیسی ہے ؟
میں بھی ٹھیک ہوں اور رامی بھی، تم اپنے بارے میں بتاؤ۔ تم مجھے کچھ پریشان لگ رہی ہو۔ کیا ہوا ؟ دوسری طرف وہ متفکرانہ لہجے میں بولی۔
بس ضوفی تمہیں پتہ تو ہے۔ میں اس فون کالز سے تنگ آ گئی ہوں۔ پتہ نہیں وہ کون ہے، میں اسے جانتی بھی نہیں ہوں، اور یہاں تک کہ مجھے تو اس کا نام بھی نہیں معلوم۔ اس کی آواز میں پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔
او تو تم نے اس سے پوچھا نہیں۔ کہ وہ کیا چاہںتا ہے۔ ضوفیرہ نے فکر مند لہجے میں اِستفسار کیا۔
          پوچھا تھا میں نے اسے۔
         تو پھر کیا کہا اس نے ؟
کہتا ہے میں تم سے شادی کرنا چاہںتا ہوں۔ وہ غصے سے دانت چباتے ہوئے بولی۔
تو تم نے اسے بتایا نہیں۔ تمہاری منگنی ہو چکی ہے۔
ضوفی میں نے بتایا تھا اسے، وہ ڈھیٹ انسان کہتا ہے منگنی توڑ دو۔ اس بار ضوفیرہ نے اس کے لہجے میں بےبسی، ڈر ، خوف اور غصہ کیا کچھ نہ  محسوس کیا تھا۔
وہ پاگل تو نہیں ہو گیا۔ کتنا ڈھیٹ انسان ہے تمہارے پیچھے ہی پڑھ گیا ہے۔ ضوفیرہ کا چہرہ بھی غصے سے لال ہوا۔
چلو چھوڑو ضوفی اس بات کو۔ میں اس شخص کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہںتی۔ تم اپنے بارے میں بتاؤ۔ جدھر تم لوگ رہ رہی ہو، وہ لوگ کیسے ہیں۔ اسے اپنی وجہ سے پریشان دیکھ کر نریم فوراً بات بدلتے ہوئے بولی۔
نریم سچ بتاؤں، تو یہ فیملی بہت اچھی ہے۔ بس اس عمیر کو چھوڑ کر۔ اس کا نام لیتے ہوئے صوفیرہ نے عجیب سا منہ بنایا۔
ہاں یاد آیا، اب تو اس نے تمہیں تنگ تو نہیں کیا۔
ایک منٹ نریم میں تمہیں تھوڑی دیر تک کال کرتی ہوں۔ یہ کہتے ہی ضوفیرہ نے فون کا سلسلہ منتفقع کر دیا۔ کیونکہ وہ عمیر کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہںتی تھی۔ پتہ نہیں کیوں عمیر کو دیکھتے یا اس کا ذکر کرتے ہوئے ۔اس کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا تھا۔
          ♤         ♤       ♤
کس کی کال تھی۔ رامیہ واش سے نکلتے ہوئے بولی۔
نریم کى تھى۔ ضوفیرہ نے ٹیبل پر موبائل رکھتے ہوئے جواب دیا۔
کیا کہہ رہی تھی۔ وہ شیشے کے سامنے کھڑے ہوئی، اور اپنے لمبے بال فولڈ کر کے کیچر میں مقید کرتے ہوئے بولی۔
کچھ نہیں بس پریشان تھی۔
کس بات سے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ رامیہ اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ کر فکرمند لہجے میں بولی۔
وہی ان نون نمبرز سے فون کالز۔
امممم۔۔۔۔۔۔۔اگر میں وہاں ہوتی تو اسے کبھی بھی کالز پک کرنے نہ دیتی۔ بلکہ میں خود کرتی، اور اسے ایسی سناتی کہ آئندہ کسی بھی لڑکی کو کال کرنے کے بارے میں دس بار سوچتا۔ رامیہ غصے سے بھرپور لہجے میں بولی۔
ضوفی تم پریشان نہ ہو۔ ہم دیکھ لے گے اسے۔ اچھا تم بتاؤ، کل تم نے گاجر کا خلوہ کھایا تھا۔ رامیہ نے اسے پریشان اور گُم صُم دیکھا تو فوراً بات کا رُخ بدلہ۔
ہاں کھایا تھا۔۔۔
کیسا لگا۔۔۔۔۔۔؟ اچھا تھا "نا" ؟ ضوفی میں تمیں بتا نہیں سکتی آنٹی نے اتنے مزے کا گاجر کا خلوہ بنایا تھا۔۔۔۔۔ رامیہ اس کا ذئقہ ابھی بھی اپنے منہ میں محسوس کرتے ہوئے بولی۔
ہاں ہاں مزے کا تھا، اور مجھے یہ بھی پتہ ہے تمہیں گاجر کا خلوہ بہت پسند ہے۔ اسے خوش دیکھ کر ضوفیرہ کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔
وہ تو ہے، اور تمہیں پتہ ہے آنٹی نے وہ سپیشل صرف میری فرمائش پر بنایا تھا۔ اس نے خوشی سے چہکتے ہوئے بتایا۔

صوفی کیا ہوا ؟ کیا سوچ رہی ہو ؟ اسے کسی سوچ میں ڈوبا دیکھ کر رامیہ آنکھوں میں خیرت لیے بولی۔
کچھ نہیں رامی بس یہی سوچ رہی تھی۔ ابھی ہمیں یہاں آئے ہوئے صرف چار دن ہوئے ہے، اور یہ لوگ تم سے کتنا اٹیچڈ ہوگئے ہیں۔ تم سے کتنا پیار کرنے لگے ہیں۔ تم روزانہ دادجی کے کمرے میں جا کر ان کے ساتھ ڈھیر ساری باتیں کرتی ہو، آنٹی تمہارا کتنا خیال رکھتی ہے۔  تمہاری فرمائش پر ہر روز خود اپنے ہاتھوں سے کچھ نہ کچھ بنا رہی ہوتی ہے، اور اذان بھائی جان روز آفس سے گھر آتے ہوئے تمہارے لیے آئس کریم لانا کبھی نہیں بولتے۔ یہاں تک کہ انہوں نے تمہیں گڑیا کہنا بھى شروع کر دیا ہے۔ جہاں تک میں نے افشال سے سنا تھا۔ وہ گڑیا صرف پری وش کو کہتے تھے۔ رامی یہ سب لوگ تمہیں پری وش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ جب تم یہاں سے چلی جاؤ گی۔ تو انہیں بہت دکھ ہو گا۔ وہ پرسوچ لہجے میں سنجیدگی سے بولی۔
ضوفی تم سہی کہہ رہی ہو۔ جب میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔ تو انہیں بہت دکھ ہو گا۔ رامیہ نے اس کی بات پر اتفاق کیا۔ لیکن ضوفی مجھے بھی بہت دکھ ہو گا۔ جب میں یہاں سے چلی گئی، سچی مجھے بھی ان سب کی بہت یاد آئے گی۔ وہ اداس ہوئی۔
گڑیا آج میں تمہارے لیے ایسی خوشخبری لایا ہوں۔ جس سے تم سنتے ہی خوش ہو جاؤ گی۔ رامیہ اذان کو اندر آتے دیکھ کر فوراً چپ ہوئی۔
وہ کیا اذان بھائی جان ؟ رامیہ بیڈ سے اٹھ کر ان کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے خیرانی سے بولی۔
وہ یہ کہ کل تم دونوں عمیر اور افشال کے ساتھ آوٹینگ پر جارہے ہو۔ تم پاکستان دیکھنا چاہںتی تھی "نا" تو لو میں نے سب انتظام کر دیا ہے، اور عمیر کو سب کچھ سمجھا دیا۔
کل آپ لوگ اسلام آباد کے لیے نکل رہے ہو۔ اذان اسے وضاحت دیتے ہوئے بولا۔
کیا سچی اذان بھائی جان۔ رامیہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی۔ اس کے چہرے پر خوشی کا کوئی ٹھکانہ تک نہیں تھا۔
ہاں مچی۔۔۔۔۔۔۔۔اسے خوش دیکھ کر اذان کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ بکھر گئی۔ وہ اس کی ناک دباتے ہوئے بولا۔
لیکن اذان بھائی جان میں نہیں جاؤں گی۔ وہ فوراً اپنے چہرے پر سنجیدگی کے تصورات سجا کر بولی، اور بیڈ پر جا کر بیٹھ گئی۔
کیوں گڑیا۔۔۔۔۔۔۔؟ کیوں نہیں جاؤ گی ؟ اذان نے اسے دیکھا تو فوراً اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھتے ہوئے فکر مند لہجے میں اِستفسار کیا۔
وہ اس لیے آپ لوگ ہمارے ساتھ کیوں نہیں جا رہے۔ افشال اور عمیر کو بارڈی گارڈ کی طرح ہمارے ساتھ بھیج رہے ہیں۔ کیا ہم دونوں آپ لوگوں کی کچھ نہیں لگتی۔
آں ں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سچ ہی تو ہے ہم دونوں آپ لوگوں کی کچھ نہیں لگتی۔ اس نے شکوہ کن لہجے میں کہا اور ناراضگی سے منہ پھیرا۔
گڑیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اذان نے غصے اور سخت لہجے میں اس کا نام پکارا۔ پتہ نہیں کیوں اذان کو اس کی یہ بات بہت چبی تھی۔ رامیہ ایک پل کے لیے ڈر گئی تھی۔
اسے خود سے ڈرتے دیکھ کر اذان نے فوراً خود کو سنبھالتے ہوئے نارمل کیا، اور نرمی سے بولا۔
گڑیا یہ بات تم نے سوچی بھی کیسے، کہ آپ دونوں ہماری کچھ نہیں لگتی۔ اذان کی زبان پر شکوہ تھا۔ اس کی باتوں نے اذان کو بہت دکھ پہنچایا تھا۔ جو بات وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ رامیہ نے کتنی آسانی سے کر دی تھی۔
اس لیے تو آپ ہمارے ساتھ نہیں جا رہے۔ ہم تب تک نہیں جائیں گی۔ جب تک آپ، مشعال بھابھی، آنٹی اور دادجی بھی ہمارے ساتھ نہیں جائیں گے۔ ان کے چہرے پر نرمی کے تصورات دیکھ کر رامیہ دوبارہ پہلے والی ٹون میں آتے اٹل لہجے میں بولی۔
مگر گڑیا مجھے آفس میں بہت کام ہے۔
تو پھر ٹھیک ہے ہم بھی نہیں جائیں گے۔ کیا آپ کا کام ہم سے زیادہ امپارٹینٹ ہے۔ وہ منہ پھیلاتے ہوئے بولی۔
اوکے ٹھیک ہے۔ اسے ناراض دیکھ کر اذان فوراً ہار مانتے ہوئے بولا۔ کیونکہ ایک تو وہ اس کا اداس چہرہ دوسری اس کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
او اذان بھائی جان آپ کتنے اچھے ہے۔ وہ خوشی سے ان کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے بولی۔
لیکن گڑیا مجھے تمہاری باتوں نے بہت ہرٹ کیا ہے۔ اذان نے اسے اپنے سے الگ کر کے شکوہ کیا۔
سوری اذان بھائی جان ایم رئیلی سوری وعدہ اب آئندہ سے ایسا کچھ بھی نہیں بولوں گی۔ وه اپنے دونوں کان پکڑتے ہوئے بولی۔
اٹس اوکے، لیکن آئندہ سے میں نے تمہارے منہ سے یہ بات سنی، کہ ہم تمہارے کچھ نہیں لگتے تو میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا۔ اسے کان پکڑتے دیکھ کر اذان اس کے دونوں ہاتھ نیچے کرتے تنبہیہ کرتے ہوئے بولا۔
پکا کبھی نہیں بولوں گی۔ وہ انکار میں سر ہلاتے معصومیت سے بولی۔ اس کے ایسا کرنے سے اذان کے ہونٹوں پر مسکرہٹ پھیل گئی۔
اور ہاں میں تو مان گیا ہوں تمہارے ساتھ جانے کے لیے۔ لیکن باقی سب کی گارنٹی میں نہیں لے سکتا۔ اذان کمرے سے جانے ہی لگا، کہ پھر مڑتے ہوئے بولا۔
آپ فکر نہ کریں اذان بھائی جان میں ان کو منا لوں گی۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
     ♤            ♤            ♤
تیمور بھائی آپ کی بات ہوئی ان سے ؟ زرمینے کمرے میں آتے ہوئے بولی۔ 

نہیں زرمینے ابھی تک تو نہیں۔ وہ جو کمپیوٹر پر اپنا کوئی کام کر رہا تھا۔ کہ زرمینے کو کمرے میں آتے دیکھ کر اپنا کمپیوٹر سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا۔
تیمور بھائی ان کا نمبر کیوں بند جا رہا ہے۔ کہیں آپ نے ان سے لڑائی تو نہیں کی۔ وہ ان کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھتے ہوئے تشویش زدہ نظروں سے ان کی طرف دیکھ کو بولی۔
نہیں زرمینے میری ان سے کوئی لڑائی نہیں ہوئی، اور تم جانتی ہو ہم لوگ ایک دوسرے سے اتنے دن ناراض نہیں رہ سکتے۔ اب تو پورا ایک سال ہو گیا ہے بات نہ ہوئے۔ دونوں کا فون بند جا رہا ہے۔ مگر تم فکر نہ کرو۔ میں جلد پتہ لگوا لوں گا۔ تیمور اسے پریشان دیکھ کر اس کا گال تھپکتے ہوئے بولا۔
اس سے پہلے زرمینے کچھ کہتی۔ اس کے موبائل پر رنگ ہوئی۔
کس کی کال ہے زرمینے ؟
وہ تیمور بھائی نریم کی کال ہے۔ وہ ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
تو اٹھاؤ، دیکھ کیا رہی ہو۔ ادھر لاؤ میں اٹھاتا ہوں، وہ اس کے ہاتھ سے موبائل لیتے ہوئے بولا۔
ہیلو ! نریم کیسی ہو ؟
میں زرمینے نہیں، تیمور بات کر رہا ہوں۔ ذرا ہمارا بھی خال پوچھ لیا کرو۔ تیمور اشارے سے زرمینے کو کمرے سے بھیجتے ہی موبائل کان سے لگاتے شوخ لہجے میں بولا۔
جی آپ کون۔۔۔۔۔۔۔؟ نریم زرمینے کی بجائے کسی اور کی بھاری آواز سن کر فکر مند لہجے میں بولی۔
ارے آپ تو اپنے منگیتر کو ہی بھول گئی۔ یہ نہ ہو کہ کل کو ہمارا نکاح ہو، اور آپ یہ بھی بھول جائے میں آپ کا شوہر ہوں۔ دوسری طرف وہ بھرپور ہنستے ہوئے بولا۔
او۔۔۔۔۔آپ بات کر رہے ہیں۔ ایم سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ کیسے ہے آپ ؟ نریم شرم اور شرمندگی کے ملے جلے تاثرات سے بولی۔
شکر ہے آپ کو یاد آ گیا، ورنہ میں سوچ رہا تھا۔ کہ کہی میں نے لڑکی چوز کرنے میں غلطی تو نہیں کر دی۔ ویسے تو میں نے صاف صاف لفظوں میں اپنا نام بتایا تھا۔ پھر بھی آپ نے نہیں پہچانا۔ وہ مسلسل اسے تنگ کرتے ہوئے بولا۔
و۔۔۔۔وہ میں نے آپ کا نام نہیں سنا تھا۔ نریم بوکھلائی۔
کیا آپ نے میرا نام نہیں سنا تھا ؟ کیوں کن سوچوں میں گم تھی آپ ؟
کیا سوچ رہی تھی ؟ کیا آپ میرے بارے میں سوچ رہی تھی ؟ تیمور اسے کنفیوز کرتے ہوئے بولا۔
دیکھے آپ میری زرمینے سے بات کرا سکتے ہیں۔ نریم اس کی بات کو نظراندز کرتے ہوئے مدھم لہجے میں بولی۔
کیوں۔۔۔۔۔۔؟ آپ نے جو بات کرنی ہے۔ ہم سے کر لیجئیے۔ اور ویسے بھی ابھی آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ تیمور کو اس کی آواز اور گبھراہٹ سے صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ کہ اس وقت اسکی کیا خالت ہو رہی ہو گی۔ اس لیے اسے مزید تنگ کرتے ہوئے وہ من ہی من میں مسکرایا۔
اچھا ٹھیک ہے۔ میں بعد میں کر لوں گی۔ اس سے پہلے تیمور اسے کال رکھنے سے منع کرتا۔ اس نے فوراً فون کا سلسلہ منتفقع کر دیا۔
تیمور نے کان سے موبائل ہٹا کر مسکراتے ہوئے ٹیبل پر رکھا۔
       ♤            ♤            ♤
دادجی پلیز چلے "نا" آنٹی پلیز مان جائے۔ رامیہ دادجی کے کمرے میں بیٹھے کب سے ان سب کو منانے کی کوشش کر رہی تھی۔
رامیہ بیٹا میرے گھٹنوں میں ہر وقت درد رہںتا ہے۔ اس لیے مجھ سے زیادہ چلا نہیں جائے گا۔ بوڑھا ہو گیا ہوں "نا"۔
اور رامیہ تمہیں پتہ ہے مجھے خویلی میں کتنے کام ہے۔ یہ سب کون دیکھے گا۔ اب ساری خویلی نوکروں پر تو نہیں نہ چھوڑ کر جا سکتے۔ صائمہ بھی معذرتی لہجے میں بولی۔
مجھے  نہیں پتہ میں آپ سب لوگوں کی ایک بات نہیں سنوں گی۔ آپ سب لوگ چل رہے ہیں بس، اور دادجی آپ کوئی بوڑھے وڑھے نہیں ہوئے۔
پر رامیہ بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پر ور کچھ نہیں آپ سب لوگ میرے ساتھ جارہے ہیں۔ یہ میرا فائنل ڈیسیزن ہے۔ ورنہ پھر میں اور ضوفی بھی نہیں جارہی۔ وہ اٹل لہجے میں منہ بناتے ہوئے بولی۔
رامیہ بیٹا پلیز سمجھنے کی کوشش کرو۔ صائمہ نے اسے دوبارہ سمجھانا چاہا۔
نہیں آنٹی میں نے کہہ دیا "نا" آپ لوگ نہیں جارہے تو پھر ہم بھی نہیں جا رہیں۔ وہ بضد ہوئی۔
اچھا ٹھیک ہے اس کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر دادجی فورا ہار مانتے ہوئے بولے۔
سچ دادجی یو آر گریٹ۔ وہ ان کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے خوشی سے بولی۔
صائمہ اور مشعال نے خیران نظروں سے دادجی کی طرف دیکھا۔ پری وش کے جانے کے بعد وہ صرف اپنے کمرے تک ہی محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ لیکن آج رامیہ کے کہنے پر وہ اس کے ساتھ باہر جانے کے لیے مان گئے تھے۔ یہ بات ان کے لیے کسی شاکڈ سے کم نہ تھی۔ وہ دونوں سچ میں بہت خوش تھی۔
اس لڑکی کے اس خویلی میں آتے ہی خویلی کا ماحول کتنا بدل گیا ہے۔ اس نے آ کر ہماری خویلی میں خوشیاں ہی بکھیر دی ہے۔ صائمہ نے دل ہی دل میں سوچا تھا، اور ان کی آنکھوں میں آنسو نکل آئے تھے۔
پر رامیہ ہماری ایک شرط ہے۔ صائمہ فوراً اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے مسکرا کر بولی۔
وہ کیا آنٹی۔۔۔۔۔ ؟ رامیہ نے آنکھوں میں خیرت لیے ان کی طرف دیکھا۔
وہ یہ کہ ابھی صرف تم دونوں کے ساتھ اذان اور مشعال جائیں گے۔ افشال اور عمیر تو پہلے ہی جا رہے ہیں۔ ہم لوگ بعد میں مری آئیں گے۔ وہاں پر خارب کے دوست علی کا گھر ہے۔ بہت اچھی فیملی ہے۔ ہم وہاں ہی ہو نگے۔ جب اذان تم لوگوں کو ہر جگہ گما لے گا۔ تو تم لوگوں کو واپسی پر وہاں ہی لے آئے گا۔ صائمہ وضاخت دیتے ہوئے بولی۔

مگر آنٹی یہ تو چیٹنگ ہوئی "نا" جب ہم لوگ ہر جگہ گم لے گے۔ تب آپ لوگ آئے گے۔ وہ منہ بسورتے ہوئے بولی۔
رامیہ بیٹا ہم نے تمہاری بات مانی "نا" اب تمہیں بھی ہماری شرط ماننی ہو گی۔ ادھر دیکھو میری طرف۔ صائمہ اپنی چیر سے اٹھ کر اس کے پاس ہی آ کر بیٹھ گئی، اور اپنے ہاتھوں سے اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے پیار سے بولی۔
دیکھو رامیہ تمہارے دادجی اتنا لمبا سفر نہیں کر سکتے۔ ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہںتی، اور تم یہ کبھی بھی نہیں چاہو گی۔ کہ ان کی طبیعت تمہاری وجہ سے خراب ہو۔
تم جاؤ اور خوب سارا انجوائے کر کے آؤ۔ اور رہی بات میری تو تمہارے دادجی کے ساتھ بھی کسی نے رہںنا ہے "نا" جو ان کی دیکھ بھال کر سکے۔ صائمہ نے اسے پیار سے سمجھایا۔
اوکے لیکن آپ مری ضرور آئے گے۔ ان کے پیار سے سمجھانے پر رامیہ فوراً مان گئی۔
ہاں ہم ضرور آئے گے۔ صائمہ پیار سے اس کے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی
اچھا اب جلدی سے اوپر اپنے کمرے میں جاؤ۔ میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں، اور تمہاری پیکنگ کرنے میں تمہاری مدد کروں گی۔
اوکے آنٹی رامیہ مسکراتے ہوئے بولی اور وہاں سے چلی گئی۔
بہت اچھی بچی ہے۔ اس کے جاتے ہی محمد علی الدین بولے۔
جی بابا جان آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔ جب سے یہ خویلی آئی ہے ایسا لگتا ہے ہماری پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صائمہ کہتے کہتے فوراً رکی۔ آنکھوں سے بہت سارے آنسو جمع ہوئے۔ جنہیں انہوں نے اندر ہی دھکیل دیا، اور فوراً خود کو سنبھالا۔
               ♤           ♤            ♤
رامیہ جونہی دادجی کے کمرے سے نکلی خارب سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔
دیکھ کر نہیں چل سکتی تم۔ آنکھیں اللہ نے دیکھنے کے لیے دی ہے۔ ان کا استعمال کرنا سیکھو، ہر وقت گرتی پڑتی رہںتی ہو۔ میں نے تمہاری مدد کرنے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔ خارب بمشکل خود کو ٹکرانے سے بچاتے غصے سے بولا۔
سیم ٹو یو۔۔۔۔۔۔۔رامیہ کو اس کی بات پر غصہ تو بہت آیا تھا۔ لیکن پھر اس کی طرف دیکھ کر پرسکون لہجے میں بولی۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا مطلب ہے تمہارا اس بات کا ؟ وہ غصے اور خیرانگی کے ملے جلے تصورات سے بولا۔
مطلب یہ کہ اگر میں دیکھ کر نہیں چل رہی تھی۔ تو تمہیں بھی تو اللہ نے آنکھیں دی ہے۔ تم بھی تو دیکھ کر چل سکتے تھے۔ تم صرف مجھے بلیم نہیں کر سکتے۔ یو انڈر سٹینڈ۔ وہ آنکھوں میں غصہ لیے زہر خند لہجے میں بولی۔
میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا۔ مجھ سے اس لہجے میں بات مت کرنا۔ خارب اس کی بات پر سلگ کر رہ گیا، اور اس کا بازو پکڑ کر اپنے برابر کھڑا کرتے ہوئے بولا۔
سی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی انگلیاں رامیہ کی بازو میں پیوست ہو کر رہ گئی تھی۔ درد کی وجہ سے اس کے منہ سے ہلکی سی، سی کی آواز نکلی تھی۔
اگر تم اس لہجےکی عادی نہیں ہو، تو میں بھی یہ بدتمیزی قطع برداشت نہیں کروں گی۔ اگر آئندہ آپ نے میرا بازو پکڑا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ وہ اپنا بازو چھڑاتے ہوئے شعلے برساتی آواز میں بولی۔
اس سے پہلے خارب اسے کچھ سخت سناتا۔ کہ دادجی کے کمرے سے صائمہ کو نکلتا دیکھ کر فوراً چپ ہوا۔
آپ دونوں یہاں کیا کر رہے ہیں، اور رامیہ تم ابھی تک گئی نہیں اپنے کمرے میں۔ صائمہ ان کو دروازے کے باہر کھڑا دیکھ کر خیرانی سے بولی۔
آنٹی میں جا ہی رہی تھی۔ کہ راستے میں بڑا سا پتھر آگیا تھا۔ بس اسی کو ہٹا رہی تھی۔ وہ خارب کی طرف دیکھ کر غصے سے دانت چباتے ہوئے بولی۔
رامیہ تم کیا کہہ رہی ہو۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
کچھ نہیں آنٹی، اچھا اب میں چلتی ہوں۔ وہ ان کی طرف دیکھ کر مسکرا کر بولی، اور وہاں سے چلی گئی۔
خارب تمہیں کچھ کام تھا۔ رامیہ کے جاتے ہی صائمہ اسے بولی۔
نہیں چچی جان ویسے ہی دادجی سے ملنے آیا تھا۔ وہ جو رامیہ کی پتھر والی بات پر اندر ہی اندر طلملا رہا تھا۔ کہ صائمہ کے بلانے پر فوراً بولا۔
اچھا ٹھیک ہے۔ وہ مسکرا کر بولی۔
         ♤           ♤           ♤
بدتمیز انسان مجھے اس پر اتنا غصہ آرہا ہے۔ کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا کس کی بات کر رہی ہو ؟ ضوفیرہ اسے غصے میں کمرے میں آتے دیکھ کر بولی۔
اسی خارب کی بات کر رہی ہوں۔ ضوفی اگر مجھے ایک خون معاف ہوا "نا" تو سب سے پہلے میں اسی کا قتل کروں گی۔ غصہ تو ہر وقت اس کی ناک پر رہںتا ہے۔ وہ کمرے میں اِدھر سے اُدھر چکر لگاتے ہوئے غصے سے بولی۔
رامی تم کیوں ہر وقت اس کے پیچھے پڑی رہںتی ہو۔
کیا میں اس کے پیچھے پڑی رہںتی ہوں یا وہ ہر وقت میرے پیچھے پڑا رہںتا ہے۔ رامیہ نے شاکڈ بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا، اور غصے سے اسے باور کرایا۔
اب کیا کیا اس بیچارے نے۔۔۔۔۔۔۔؟ ضوفیرہ نے افسوس بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر اِستفسار کیا۔ 

کیا بیچارہ۔۔۔۔۔۔؟ تم اسے بیچارا کہہ رہی ہو۔ ویسے تم میری بہن ہو یا اس کی۔ جو اس کی سائیڈ لے رہی ہو۔ وہ تمہیں اتنا ہی بیچارہ لگ رہا ہے تو جاؤ جا کر اسے دوستی کر لو۔ رامیہ نے غصے اور ناراضگی سے منہ پھیرا۔
رامی کیا ہو گیا ہے تمہیں، پلیز اس وقت میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔ وہ نہایت سنجیدگی سے بولی۔
کیوں کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔اور تمہارا چہرہ کیوں اتنا بجھا بجھا ہے؟ وہ فوراً اپنا غصہ اور ناراضگی بھول کر اس کے پاس بیٹھتے ہوئے اِستفسار کیا۔
رامی مجھے یہ بات بار بار پریشان کر رہی ہے۔ کہ بلال انکل کے ڈرئیور نے اگر انہیں سب کچھ بتا دیا تو۔ کہ ہم نریم کے گھر نہیں رہ رہے۔ وہ متفکر لہجے میں بولی۔
اسکی بات سن کر رامیہ نے سکون بھری سانس ہوا میں خارج کی۔
بس اتنی سی بات۔۔۔۔۔ضوفی یار میں تمہیں کتنی بار کہہ چکی ہوں۔ وہ ایسا کچھ نہیں کرے گا۔ وہ ڈیڈ کو کچھ نہیں بتائے گا۔ تم بس پریشان نہ ہو۔ وہ پرسکون لہجے میں بولی۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ ایسا کیوں نہیں کرے گا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
کیونکہ میں نے اسے سمجھا دیا ہے۔
کیا سمجھا دیا ہے رامی پلیز صاف صاف لفظوں میں بتاؤ "نا" تم نے اسے کیا کہا۔ ضوفیرہ مسلسل اس کی باتوں سے الجھن کا شکار تھی۔ اس لیے اس کی طرف دیکھ کر اِستفسار کیا۔
میں نے اسے صرف اتنا ہی کہا۔ کہ یہی نریم کا گھر ہے۔ جب ہمیں تم سے کوئی کام ہوا۔ تو ہم تمہیں بلا لے گے۔
کیا رامی تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا۔ تم نے جھوٹ کیوں بولا۔ اگر یہ جھوٹ پکڑا گیا تو۔ ضوفیرہ اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر غصہ ہوئی۔
ارے کچھ نہیں ہو گا، ضوفی تم ٹیشن نہ لو۔ وہ کچھ نہیں بتائے گا۔ رامیہ اسے یقین دلاتے ہوئے اطمینان سے بولی۔
ضوفیرہ نے اس کی طرف دیکھ کر افسوس سے نفی میں سر ہلایا۔
         ♤          ♤           ♤
ہیلو ! نریم فون اٹھاتے ہی روکھے لہجے میں بولی۔
ہیلو ! نریم کہاں تھی تم۔۔۔۔۔۔۔؟
ایک ہفتے سے تمہارا نمبر ڈائل کر رہا ہوں۔ تمہارا نمبر ہے۔ کہ مسلسل بند جا رہا تھا۔ اس دن میں نے تمہیں گھر جا کر فون کرنے کو کہا تھا۔ یہ نہیں کہا تھا، کہ تم اپنا نمبر ہی بند کر دو۔ دوسری طرف اس کی بے چینی بھری آواز نریم کے کانوں میں گونجی۔
پھر بھی آپ نے پھول بھیجنا کون سا بند کیے ہیں۔ نریم طنزیہ لہجے میں بولی۔
کیا کروں، کہا تو تھا۔ عادت سے مجبور ہوں۔
نریم کچھ تو بولو۔۔۔۔۔۔۔ اتنے دن بعد تم نے کال اٹھائی ہے۔ وہ بے تابی سے بولا۔
کیا بولوں۔۔۔۔۔۔؟ جب میں آپ سے بات ہی نہیں کرنا چاہںتی۔ وہ بے رخی سے بولی۔
کیوں تم مجھ سے بات نہیں کرنا چاہںتی تھی۔ اپنے کزن سے تو فون پر بات کر لی تھی۔ دوسری طرف اس نے سرد لہجے میں میں طنز کیا۔
کیا مطلب ہے آپ کا اس بات سے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ دماغ ٹھیک ہے آپ کا ؟ تمیز سے بات کریں، میں نے اپنے منگیتر سے بات کی تھی، کسی غیر سے نہیں، اور منگیتر بننے سے پہلے وہ میرے کزن ہے۔ اس کی بات کا مطلب سمجھ آتے ہی نریم غصے سے بولی۔

جاری ہے





Posta un commento

1 Commenti

  1. Nice episode always amazing and out standing🥰😘👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻

    RispondiElimina

Commento

Parvish novel

PARIVISH Episode 31 (پری وش)