Advertisement

Adbox

PARIVISH Episode 15 ( پری وش)

                Parivish

               (پرى وش)


# Novel by Parivish

# Writer; Aima Ashfaq

# Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel

# Please Don't Copypیaste My Novel

# Episode 15: 

                     زہرہ بھابھی آپ کو تو کوئی اعتراض نہیں "نا"۔

نہیں سکندر مجھے کیوں اعتراض ہو گا۔ منگنی تو ویسے بھی ان دونوں کی ہو چکی ہے۔ وہ مسکرا کر بولی۔
پھر اس خوشی میں کیوں نہ منہ میٹھا کیا جائے۔ زائریہ ہاتھ میں پکڑی میٹھائی کی پلیٹ اندر لاتے ہوئے بولی، اور پلیٹ میں سے میٹھائی کا ایک پیس اٹھا کر زہرہ کے منہ میں ڈال دیا۔
سچی زہرہ آپی آپ نے مجھے خوش کر دیا۔ آپ کو پتہ ہے ہم دیورانی جیٹھانی سے پہلے بہنیں ہیں۔ وہ خوشی سے بولی۔
ہاں زائریہ میں بھی بہت خوش ہوں، اور میں یہ بھی جانتی ہوں۔ میری بیٹی تمہارے گھر جا کر بہت خوش رہے گی۔ زہرہ اسے گلے لگاتے ہوئے بولی۔
                                                          ♤        ♤        ♤
رامی کہا جا رہی ہو۔ ضوفیرہ جو کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔ کہ اسے بیڈ سے اٹھتے اور جوتے پہنتے دیکھ کر فوراً بولی۔
وہ رات کو افشال کہہ رہی تھی۔ کہ اس کے دادجی میرا بہت پوچھ رہے تھے۔ اس لیے میں نے سوچا کیوں نہ ان سے مل آتی ہوں۔
رامی جب تم ٹھیک ہو جاؤ گی۔ تو جا کر مل آنا ان سے۔ ابھی ڈاکٹر نے تمہیں چلنے پھرنے سے منع کیا ہے۔ دیکھو تم سے ٹھیک سے چلا بھی نہیں جا رہا۔ وہ اسے لنگڑا کر چلتے دیکھ کر فوراً بولی۔
کچھ نہیں ہوتا ضوفی تمہیں پتہ ہے۔ میں ایک جگہ ٹِک کر نہیں بیٹھ سکتی۔ وہ جنجھلا کر بولی۔
اسی لیے میں تمہیں ہاسپیٹل سے نہیں لا رہی تھی۔ ضوفیرہ ناراض ہوئی۔
ضوفی تم بھی آ کر مل لینا دادجی سے۔ رامیہ اس کی ایک بھی نہ سنتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
وہ ابھی سیڑھیاں اتر ہی رہی تھی۔ کہ ایک سیڑھی پر اس کا پاؤں پھسلا۔ اس سے پہلے کہ وہ نیچے گرتی۔ اوپر سے آتے خارب نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک جھٹکے سے سیدھا کیا۔
جب تمہیں پتہ ہے تمہارے پاؤں پر چوٹ لگی ہے، اور تم سے ٹھیک سے چلا بھی نہیں جا رہا۔ پھر کمرے سے نکلی کیوں ؟ خارب اس کی طرف دیکھ کر غصے سے بولا۔
رامیہ جو ابھی بھی ڈر اور خوف کے مارے لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔ اسے ایک پل کے لیے سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔ اس کے ساتھ ہوا کیا تھا۔ کہ وہ خارب کی بات پر سلگ کر رہ گئی، اور نظریں اٹھا کر اوپر دیکھا۔
تیکھے نقش، نفاست سے بنائے گے کالے بال، پاؤں میں کھیڑی، وائیٹ شلوار قمیض میں مبلوس، کندھوں پر براؤن شال اڑھے۔ وہ اس دن سے بہت مختلف لگ رہا تھا۔
میری مرضی میں کمرے سے باہر نکلوں یا نہ نکلوں۔ چوٹ تو میرے پاؤں پر آئی ہے "نا" درد تو مجھے ہو رہا ہے۔ تمہیں کیا تکلیف ہے۔ تم سے کس نے کہا تھا۔ میری جان بچاؤ۔ رامیہ جو پہلے ہی اس پر اس دن والی بات پر غصہ تھی۔ آج تو اسے موقع بھی مل گیا تھا۔ اپنا غصہ نکالنے کا۔ اس لیے زہر خند لہجے میں بولی۔
مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے۔ تمہیں گرنے سے بچانے کا۔ اگر تم نے میری بہن کی جان بچا کر مجھ پر احسان نہ کیا ہوتا تو، اور آئندہ مجھ سے تمیز سے بات کرنا۔ میں اس لہجے کا عادی نہیں ہوں۔ خارب اس کی زبان درازی پر دنگ رہ گیا، اور غصے سے اسے تنبہیہ کرتے ہوئے بولا۔
میں بھی اس لہجے کی عادی نہیں ہوں۔ وہ بھی تابڑ توڑ غصے سے بولی۔
اس کی بات پر خارب کا پارہ ہائی ہوا۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے غصے میں کچھ کہتا۔ رامیہ سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے چلی گئی۔ پیچھے سے وہ پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔
           ♤          ♤         ♤
ہیلو ! اسلام و علیکم پاپا۔
نریم جو ضوفیرہ سے میسج پر بات کر رہی تھی۔ کہ بیچ میں اپنے پاپا کی کال آتی دیکھ کر اس نے فوراً فون اٹھایا۔
وعلیکم اسلام ! کیسی ہے ہماری بیٹی۔
پاپا میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ سب لوگ کیسے ہے۔ ماما، چاچو، چچی جان۔ سب لوگ ٹھیک ہیں ؟
   یہاں پر سب لوگ ٹھیک ہے۔ لیکن تمہیں بہت مس کرتے ہیں۔ خاص طور پر زرمینے۔
میں بھی پاپا آپ لوگوں کو بہت مس کرتی ہوں۔ وہ غمگین لہجے میں بولی۔
اچھا نریم یہ لو۔ زرمینے سے بات کرو۔ کب سے تم سے بات کرنا چاہںتی تھی۔ فاروق احمد نے یہ کہتے ہی موبائل زرمینے کو پکڑا دیا۔ جو کب سے نریم سے بات کرنے کے لیے ضد کر کے فون مانگ رہی تھی۔
ہیلو ! نریم آپی آپ کیسی ہے ؟ دوسری طرف اس کی چہکتی ہوئی آواز نریم کے کانوں میں گونجی۔ جسے سن کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
میں بالکل ٹھیک میری جان۔ تم کیسی ہو ؟
میں بھی ٹھیک ہوں نریم آپی۔ بس آپ کو بہت مس کرتی ہوں۔ آپ کب آرہی ہیں۔ وہ اداسی بھرے لہجے میں بولی۔
بہت جلد آؤں گی زرمینے۔
نریم آپی جب آپ ہمیشہ کے لیے ہمارے گھر آ جائے گی۔ پھر میں آپ کو کہیں بھی جانے نہیں دوں گی۔ وہ معصومیت بھرے لہجے میں اسے تنبہیہ کرتے ہوئے بولی۔
اچھا زرمینے میری جان۔ میں ابھی پڑھ رہی ہوں۔ بعد میں تم سے بات کروں گی۔ اپنا بہت سارا خیال رکھنا اوکے بائے۔ نریم جو اس کی بات کا مطلب سمجھ گئی تھی۔ اس کا چہرہ شرم کے مارے سرخ پڑھ گیا۔ اس لیے اسے پیار سے سمجھاتے اور ہدایت کرتے فوراً فون رکھ دیا۔
          ♤         ♤        ♤
رامیہ آپ کسی کو ڈھونڈ رہی ہے۔ دیکھے آپ کا پاؤں ابھی پورے طریقے سے ٹھیک نہیں ہوا ۔اگر آپ ایسے ہی زیادہ دیر کھڑی رہی۔ تو آپ کے پاؤں میں درد شرع ہو جائے گا۔

عمیر جو ابھی ابھی اپنے کمرے سے نکلا تھا۔ کہ ہال میں رامیہ کو کھڑا دیکھ کر فوراً اس کے پاس جا کر متفکر لہجے میں بولا۔ شاید وہ کسی کو ڈھونڈ رہی تھی۔
رامیہ اس کے سوال کا جواب دیئے بغیر دوبارہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔
رامیہ آپ ابھی بھی مجھ سے ناراض ہے۔ بلکہ میں آپ کی بہن کو سوری بھی بول چکا ہوں۔ میں نے مخض صرف اس سے مذاق کیا تھا۔ اگر آپ چاہںتی ہے تو میں آپ سے بھی سوری کر لیتا ہوں۔ عمیر جو اس کی ناراضگی کی وجہ سمجھ گیا تھا۔ اپنے سوالوں کا جواب نہ پا کر فوراً بولا۔
دراصل مجھے نہیں پتہ دادجی کا کمرا کون سا ہے۔ اس لیے میں آنٹی کو ڈھونڈ رہی تھی۔ اسے شرمندہ دیکھ کر رامیہ فوراً اپنی ناراضگی بھولتے ہوئے بولی۔
وہ سامنے ہی ہے۔ اگر آپ چاہںتی ہے تو میں اپ کو چھوڑ آتا ہوں۔
نہیں نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ میں چلی جاؤں گی۔ بتانے کے لیے تھینکس۔ وہ مسکرا کر بولی۔
             ♤        ♤       ♤
تیری صورت نگاہوں میں رہںنے لگی
سوچتا ہوں تو ہے میری زندگی
                  میں تو بھٹھکا ہوا اک مسافر تھا   تیری صورت میں مجھے میری زندگی ملی

تو ہی میرا چاند اور تو ہی میری چاندنی
زندگی میں تھی بس ایک تیری کمی !
                  تجھ کو پا لینا دشوار سا ہے بہت
                    ایک انساں ہیں ہم اور تو ہے پری
خود سے باتیں کرنا' کچھ سوچتے رہںنا
یہ بھی عمیر کی شاید ہے دیوانگی
عمیر نے ضوفیرہ کو زینے اترتے دیکھا۔ تو اونچی اونچی آواز میں غزل پڑھنے لگا۔
ذلیل انسان پتہ نہیں خود کو سمجھتا کیا ہے۔ مجھے لگا تھا آنٹی کی ڈانٹ کا اس پر کچھ تو اثر ہوا ہو گا، اور اس کی انا پر بھی چوٹ لگی ہو گی۔ کہ یہ غصے میں آ کر پھر مجھ سے بات نہیں کرے گا۔ لیکن مجھے کیا پتہ تھا۔ اس ڈھیٹ انسان پر آنٹی کی ڈانٹ کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ عمیر کا اسے دیکھتے ہی اونچی اونچی آواز میں غزل پڑھنا۔ ضوفیرہ کو اندر تک سلگا کر رکھ دیا تھا۔ اس لیے اپنے آپ سے ہی بڑبڑاتے زینے اترتے ہی کچن میں چلی گئی۔

پیچھے سے عمیر نے مسکراتے ہوئے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔
ضوفیرہ تم یہاں۔۔۔۔۔۔؟ تمہیں کچھ چاہیںے تھا ؟ مشعال اسے کچن میں دیکھ کر خیرانی سے بولی۔
نہیں مجھے کچھ نہیں چاہیںے۔ میں نے سوچا کیوں نہ آپ کی ہیلپ کرا دیتی ہوں۔
اس کی ضرورت نہیں۔ میں کر لوں گی۔ ویسے تو یہ سب کام صغریٰ بی کرتی ہے۔ میں کبھی کبھی ان کی ہیلپ کرا دیا کرتی تھی۔ لیکن ان کی بیٹی کی طبیعت تھوڑی خراب تھی۔ اس لیے ہم نے ان کو چھوٹی دے دی۔ مشعال نے مسکرا اسے وضاخت دی۔
او اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔
ضوفیرہ تم اپنے بارے میں کچھ بتاؤ۔ تم پڑھتی ہو ؟ اَگے سے اسے مسلسل خاموش دیکھ کر مشعال نے ہی بات کا آغاز کیا۔
جی میں اور رامیہ فورتھ ائیر میں پڑھتی ہیں۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
ماءشااللہ تو تم دونوں یہاں چھٹیوں پر آئی ہو ؟
نہیں ہم خود چھٹیاں لے کر آئیں ہیں۔
اس طرح تم دونوں کی پڑھائی کا خرج نہیں ہوگا۔ مشعال چائے میں پتی ڈالتے ہوئے بولی۔
پڑھائی کا خرج تو ہوگا۔ لیکن ہم مینیج کر لے گی۔ وہ مسکرا کر بولی۔
ضوفیرہ اگر تم برا نہ مانو۔ تو میرا ایک کام کرو گی۔ مشعال نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
نہیں میں برا کیوں مانوں گی۔ آپ مجھے بتائے ابھی کر دیتی ہوں۔ ضوفیرہ فوراً خوش اخلاقی سے بولی۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی۔ یہ کام اسے اپنے آپ پر بہت بھاری پڑنے والا تھا۔
تھینک یو سو مچ ضوفیرہ۔ پلیز یہ باہر عمیر کو ناشتہ دے آؤ۔ اگر میں چائے نہ بنا رہی ہوتی۔ تو تم سے کبھی بھی نہیں کہتی، اور یہ لڑکا اتنا پاگل ہے۔ باہر بیٹھ کر میسج پر مجھ سے ناشتہ منگوا رہا ہے۔ مشعال اسے ناشتے کی ٹرے پکڑاتے ہوئے بولی، اور ساتھ ہی عمیر کی عقل پر ماتم بھی کیا۔
عمیر کا نام سنتے ہی اس کے چہرے پر فوراً سنجیدگی کے تصورات چھائے۔ لیکن وہ مشعال کو انکار بھی نہیں کرنا چاہںتی تھی۔ اس لیے مجبوراً ان کے ہاتھ سے کھانے کی ٹرے پکڑ لی۔ لیکن ان کی اگلی بات سن کر اس نے خیرت سے مشعال کی طرف دیکھا۔
آخر یہ لڑکا چیز کیا ہے ؟ گھر بیٹھ کر بھی کبھی کوئی میسج پر ناشتہ منگواتا ہے۔ ضوفیرہ دل ہی دل میں بولی۔
ارے واہ ناشتہ میرے لیے، اور وہ بھی تم لے کر آئی ہو۔ بڑی بات ہے آج سورج کہاں سے نکلا ہے۔ اس کا مطلب تم نے میرے سے دوستی کر ہی لی، اور یہاں اپنی غلطی کا ازالہ کرنے آئی ہو "نا" عمیر جو اپنے موبائل پر گیم کھیل رہا تھا۔ کہ ضوفیرہ کو ڈائنینگ ٹیبل پر ناشتہ رکھتے دیکھ کر فوراً خوشی سے مسکراتے ہوئے بولا۔
میں نے تم سے دوستی کب کی، اور کس بات کا ازالہ کروں میں ؟ میں نے کِیا کَیا ہے۔ وہ آنکھوں میں خیرت لیے بولی۔
ارے تم اتنی جلدی بھول گئی۔ صبح جو خالہ جانی سے میری شکایت لگائی تھى۔ اس نے یاد دلایا۔

تو آپ کا مطلب ہے۔ کہ میں نے آپ کی خالہ سے، آپ کی شکایت لگا کر غلطی کی ہے ؟
جی ہاں بالکل غلطی کی ہے۔ اس نے باور کرایا۔ لیکن اسے تنگ کرتے ہوئے وہ دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔
تو میں آپ کی یہ غلط فہمی دور کر دیتی ہوں۔ کہ میں نے آپ کی شکایت لگا کر کوئی غلطی نہیں کی، اور میں نے کوئی شکایت نہیں لگائی تھی۔ جو سچ تھا وہی بتایا تھا۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں اس بات پر آپ سے معافی مانگوں گی۔ تو میں آپ کو بتا دوں۔ میں ایسا کچھ نہیں کروں گی۔ غلطی سراسر آپ کی تھی، اور آپ نے مجھ سے معافی بھی مانگی تھی۔ ضوفیرہ اسے طنزیہ مسکراہٹ سے جتاتے ہوئے بولی۔ جیسے اسے چڑا کر اس نے بہت بڑا تیر مار لیا تھا۔ لیکن وہ کہاں جانتی تھی۔ عمیر کے اَگے آج تک کوئی جیت پایا تھا۔ جو وہ جیت جاتی۔
ہاں مانگی تھی معافی۔ وہ اس لیے کہ میری خالہ جانی نے مجھ سے کہا تھا، اور میں ان کی بات نہیں ٹال سکتا تھا۔
آپ کو اپنی غلطی پر زرہ بھی پچھتاوا نہیں ہے۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھتے ہوئے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔
پچھتاوا کس بات کا۔ میں نے کونسا غلطی کی ہے۔ میں نے تو مخض ایک چھوٹا سا مذاق کیا تھا۔ جس سے تم نے بڑھا چڑھا کر میری خالہ سے شکایت لگا دی تھی۔ عمیر سکون سے پراٹھا کھاتے ہوئے بولا۔
او تو اگر آپ کسی لڑکی کو کہے گے۔ میں نے تمہارا کیڈنیپ کر لیا ہے۔ وہ تو جیسے خوشی سے پاگل ہو جائے گی "نا" اور یہ ابھی آپ کی نظر میں چھوٹی سی غلطی ہے۔ ضوفیرہ اس پر طنز کے تیر چلاتے ہوئے بولی۔
ہاں کہا تھا میں نے تم سے۔ کہ میں نے تمہیں کیڈنیپ کر لیا ہے۔ لیکن وہ مذاق تھا۔
کیا میں نے تمہارا کیڈنیپ کیا۔۔۔۔۔۔؟ بولو کیا ؟
وہ۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ضوفیرہ اس بات پر بوکھلائی۔

کیاوہ۔۔۔۔۔۔۔وہ ؟ اس کی خالت پر عمیر نے بامشکل اپنی ہنسی روکی۔
اچھا چھوڑو اس بات کو۔ اگر تم مجھ سے معافی نہیں مانگنا چاہںتی، مت مانگو۔ لیکن آج میں بہت خوش ہوں۔ تم نے میری ایک بات تو مانی۔
کونسی بات۔۔۔۔۔۔۔؟ ضوفیرہ نے خیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
دوستی والی۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا مطلب دوستی والی ؟
ارے تم نے مجھ سے دوستی جو کر لی۔ عمیر نے اسے مسکراتے ہوئے باور کرایا۔
میں نے تم سے دوستی کب کی۔ ضوفیرہ کو اس کی دماغی خالت پر شبعہ ہوا۔

ابھی اور اس وقت۔ عمیر ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ لیے، پرسکون لہجے میں بولا۔

ابھی کب۔۔۔۔۔۔؟
ارے تم میرے لیے اتنے پیار سے ناشتہ بنا کر لے کر آئی۔ اس کا مطلب یہی ہوا "نا"۔ کہ تم مجھ سے دوستی کرنا چاہںتی ہو۔ عمیر کو اسے تنگ کرتے ہوئے لطف آ رہا تھا۔
مسڑ عمیر صاحب اگر مجھے پتہ ہوتا۔ کہ آپ کی نظر میں کسی کے لیے ناشتہ لے کر جانا۔ اسے دوستی کرنا کہتے ہیں۔ تو میں آپ کے لیے ناشتہ کبھی نہ لے کر آتی۔ بنانا تو بہت دور کی بات تھی۔ بائے دا وے یہ ناشتہ میں نے نہیں مشعال آپی نے بنایا ہے، اور انہوں نے ہی مجھے آپ کو دینے کے لیے کہا تھا۔ ضوفیرہ دانت چباتے سخت لہجے میں اسے باور کرواتے ہوئے بولی۔
چلو کوئی بات نہیں۔ آج نہیں تو کبھی نہ کبھی تو مجھ سے دوستی کرو گی "نا" وہ چیر سے اٹھا، اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر مسکرا کر بولا۔
اور وہ دن کبھی بھی نہیں آئے گا۔ وہ غصے سے بول کر وہاں سے جانے ہی لگی۔ کہ پھر اس کی بات پر رکی۔
آج صبح جو تم نے حرکت کی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ تم مجھ سے ڈرتی ہو۔ اس کا صاف مطلب خالہ کو شکایت لگانے کی طرف تھا۔ ضوفیرہ غصے سے پیچھے مڑی۔ خواب میں بھی نہ سوچنا۔ کہ میں تم سے کبھی ڈروں گی۔ وہ آنکھوں میں غصہ لیے سرد لہجے میں بولی۔
اب تم مانو یا نہ مانو۔ ڈرتی تو تم مجھ سے ہو۔
نہیں ڈرتی۔۔۔۔۔۔۔
ڈرتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ڈرتی۔۔۔۔۔۔
نہیں ڈرتی۔۔۔۔۔۔۔
ڈرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
دیکھ لو اب تم نے خود ہی تسلیم کر لیا ہے۔ میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ کھڑے کرتے ہونٹوں پر چڑانے والی مسکراہٹ لیے بولا۔
عمیر نے اسے ایسا باتوں میں گمایا تھا۔ کہ اسے خود بھی سمجھ نہ آئی تھی۔ کہ وہ کیا بول گئ تھی۔ پھر فوراً اپنی بات پر پچھتائی، اور غصے سے اس کی طرف دیکھا۔
میں تم سے نہیں ڈرتی سنا تم نے، نہیں ڈرتی۔ ضوفیرہ نے غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے اسے باور کرایا، اور پیر پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ لیکن پیچھے سے عمیر کے قہقہے کی آواز بخوبی اس کے کانوں تک پہنچی۔
                                   ♤           ♤         ♤
اسلام و علیکم ! دادجی رامیہ کمرے میں آتے ہی بولی۔
وعلیکم اسلام ! محمد علی الدین جو کوئی کتاب ہاتھ میں لیے بیٹھے تھے۔ کہ رامیہ کی آواز کی سمت دیکھا، اور خیران نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر سلام کا جواب دیا۔
دادجی "میں رامیہ"۔ انہیں اپنی طرف تشویش زدہ نظروں سے دیکھتا پا کر رامیہ نے اپنا تعارف کرانا مناسب سمجھا۔
ارے رامیہ بیٹاتم۔ آؤ "نا" کھڑی کیوں ہو بیٹھو۔ افشال نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا تھا۔ لیکن میں تم سے معافی چاہںتا ہوں۔ پہلے میں نے تمہیں پہچانا نہیں تھا۔

نہیں دادجی کوئی بات نہیں آپ معافی کیوں مانگ رہے ہیں۔

بیٹا تمہیں ابھی آرام کرنا چاہیںے تھا۔ تمہارے پاؤں پر چوٹ لگی تھی۔ تمہیں نہیں آنا چاہیںے تھا۔ وہ اسے لنگڑا کر چلتے دیکھ کر متفکر لہجے میں بولے۔
نہیں دادجی اب میں ٹھیک ہوں۔ میرے پاؤں میں زیادہ درد نہیں ہے۔ آپ پریشان نہ ہو۔ میں آپ سے ملنا چاہںتی تھی اس لیے آگئی۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔ ویسے آپ کو برا تو نہیں لگا۔ میں نے آپ کو دادجی بلایا۔
ارے نہیں مجھے بالکل بھی برا نہیں لگا۔ بلکہ مجھے تو اچھا لگا۔ تم نے مجھے داد جی بلایا۔ اَگے سے وہ بھی مسکرا کر بولے۔
رامیہ بیٹا میں تم سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ سنجیدہ ہو کر کچھ کہنے ہی لگے تھے۔ کہ رامیہ نے انہیں وہی روک دیا۔
ایک منٹ دادجی۔ مجھے پتہ ہے۔ آپ کیا کہنے والے ہیں۔ "یہی نا" رامیہ میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں۔ تم نے افشال کی جان بچائی۔ تو میں آپ کو ایک بات بتا دوں۔ میں نے افشال کی جان بچا کر آپ سب پر کوئی احسان نہیں کیا۔ اگر اس کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو میں یہی کرتی۔ اس لیے آپ کو شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ پر خلوص لہجے میں بولی۔
داد جی نے محبت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
اسلام علیکم ! اس سے پہلے دادجی کچھ بولتے۔ ضوفیرہ نے اندر آتے ہی سلام کیا۔
دادجی یہ میری بہن ضوفیرہ۔ ضوفیرہ کو اندر آتے دیکھ کر رامیہ نے فوراً تعارف کرایا۔
وعلیکم اسلام ! دادجی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے سلام کا جواب دیا۔
اور بتاؤ گھر میں کون کون ہوتا ہے ؟ کمرے میں مکمل خاموشی دیکھ کر پھر دادجی نے ہی بات کا آغاز کیا۔
میں، ضوفیرہ اور ڈیڈی۔ بس ہم تین افراد۔ لیکن داد جی آپ کو پتہ ہے کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے۔ ہماری بھی آپ لوگوں کی طرح بڑی سی فیملی ہوتی، اور میری تو سب سے بڑی خواہش یہ ہے۔ کاش کہ میرا کوئی بھائی ہوتا۔ میں انہیں تنگ کرتی، لمبی لمبی فرمائشیں کرتی اور جب میں انہیں اپنی چیزوں کی لمبی سی لیسٹ دیتی۔ اگر وہ نہ لاتے تو میں ناراض ہو کر بیٹھ جاتی۔ پھر وہ مجھے مناتے۔ لیکن ہمارا کوئی بھائی ہی نہیں۔ رامیہ انہوں اپنی خواہشیں بتاتے ہوئے غمگین لہجے میں بولی۔
کس نے کہا تم لوگوں کا کوئی بھائی نہیں ہے۔ میں ہوں "نا" تم دونوں کا بھائی۔ مجھ سے اپنی لمبی لمبی فرمائشیں کرنا۔ اذان نے جو کمرے میں آتے ہی رامیہ کی ساری باتیں سن لی تھی۔ وہ فوراً ان کے پاس جا کر ان دونوں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
آپ یقیناً اذان بھائی جان ہے۔ رامیہ، اذان کو اپنے سامنے دیکھ کر فوراً خوشی سے کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
مجھے بھائی جان بھی کہتی ہو، اور یہ بھی کہتی ہو۔ تمہارا کوئی بھائی نہیں۔ اذان نے شکوہ کیا۔
ویسے تم دنوں بلا جھجک میرے سے کچھ بھی مانگ سکتی ہو، لمبی لمبی فرمائشیں کر سکتی ہو۔ مجھے اچھا لگے گا۔ مجھے لگے گا میری گڑ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اذان گڑیا کہتے کہتے فوراً رکا، اور بہت سارے آنسو اپنے اندر ہی ضبط کر لیے۔

اذان بھائی جان پھر تیار رہیئے گا۔ میں اتنی آسانی سے آپ کو چھوڑنے والی نہیں ہوں۔ میری چیزوں کی لیسٹ بہت لمبی ہے۔ ضوفیرہ تو آپ سے کچھ نہیں مانگے گی۔ لیکن میں آپ کو چھوڑنے والی نہیں ہوں۔ رامیہ نے ان کے چہرے پر اداسی دیکھی تو پھر فوراً بات کر رخ بدلتے ہوئے مسکرا کر بولی۔
اس کی بات پر اذان کھلکھلا کر ہنسا۔ اوکے میڈم میں تیار ہوں۔ وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر ذرا جھک کر بولا۔
اوکے اذان بھائی جان مجھے لگتا ہے۔ آپ دادجی سے بہت ضروری بات کرنے آئے تھے۔ اس لیے میں بعد میں آ جاؤں گی۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
نہیں بلکل بھی نہیں اب تمہیں آنے کی کوئی ضرورت نہیں اور خبر دار اب تم کمرے سے باہر نکلی۔ اذان نے جب دیکھا کہ اسے سہی طریقے سے کھڑے بھی نہیں ہوئے جا رہا تھا۔ اس لیے تحکم بھرے لہجے میں بولا۔
پر اذان بھائی جان میں ایک ہی جگہ پر ٹِک کر نہیں بیٹھ سکتی۔ وہ معصوم سی شکل بناتے ہوئے بولی۔
اس میں، میں تمہاری ایک بات بھی نہیں سنوں گا۔ میں نے تمہیں کہہ دیا "نا" تم کمرے سے باہر نہیں نکلو گی۔ تو بس نہیں نکلو گی۔ جب تک تم بالکل ٹھیک نہیں ہو جاتی۔ تم نے مجھے بڑا بھائی کہا ہے "نا" تو اب اپنے بھائی کی یہ چھوٹی سی بات بھی نہیں مانو گی۔
اوکے ٹھیک ہے جیسا آپ چاہے۔ وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔ اس کے ایسا کرنے سے اذان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
بالکل ٹھیک کہا اذان آپ نے۔ مشعال چائے کی ٹرے اندر لاتے ہوئے بولی۔
مشعال بھابھی آپ بھی۔
بھابھی، اس کے بھابھی کہنے پر مشعال نے خیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
جی ہاں بھابھی۔ اذان بھائی جان ہمارے بھائی ہوئے تو اس ناطے آپ ہماری بھابھی ہوئی "نا" وہ دلکش مسکان کے ساتھ بولی۔
آف کورس۔ مشعال خوشی سے مسکراتے ہوئے بولی۔
اچھا اب بہت ہو گئی باتیں۔ چلو جا کر آرام کرو۔ اذان فوراً اپنے چہرے پر سنجیدگی کے تصورات چھا کر بولا۔
اوکے رامیہ منہ بناتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
                                                           ♤       ♤       ♤
ضوفی یہ سب لوگ کتنے اچھے ہیں۔ لیکن یار جب میں ان لوگوں کے چہرے پر اداسی دیکھتی ہوں۔ تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ یہ سب لوگ پری وش کو کتنا مس کرتے ہیں۔ کتنا چاہںتے ہیں اسے، ہر وقت اسے یاد کرتے رہںتے ہیں۔ اللہ کریں آنٹی کی بیٹی جلدی مل جائے (آمین)۔ اور ضوفی اذان بھائی بھی کتنے اچھے ہیں۔ کتنی خوش اخلاقی سے ملے۔ مجھے ایک پَل کے لیے ایسا لگا کہ یہ سچ میں میرے بھائی ہے۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی۔ وہ خارب پتہ نہیں کس پر گیا ہے۔ انتہائی بدتمیز، اکھڑو کہی کا، ہر وقت اس کے ناک پر غصہ رہںتا ہے۔ اپنے آپ کو پتہ نہیں کَیا سمجھتا ہے۔ ایسے جیسے کسی ریاست کا شہزادہ ہو۔ میرا دل کرتا ہے۔ میں اس کا کچومڑ بنا دوں۔ رامیہ جو زینے چڑتے ہوئے ضوفیرہ سے نان سٹاپ بولتی جا رہی تھی۔ کہ اوپر سے خارب کو اترتے دیکھ کر اس کے باقی کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔

لیکن وہ اسے نظر انداز کرتے، زینے اترتے ہوئے نیچے چلا گیا۔
اس کے جاتے ہی اس نے سکون بھرا سانس خارج کیا۔
رامیہ تم بہت بولتی ہو۔ اگر اس نے تمہاری باتیں سن لی ہوئی تو۔ ضوفیرہ رکتے ہی اسے بولی۔
تو۔۔۔۔۔۔۔تو کیا سن لی ہے تو سن لے۔ میں کون سا اسے ڈرتی ہوں۔ رامیہ اس کی بات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے بولی اور اوپر چلی گئی۔
پتہ نہیں کیا بنے گا اس لڑکی کا۔ ضوفیرہ بھی اس کے پیچھے ہی اوپر جاتے من ہی من میں بولی۔
             ♤        ♤       ♤
نریم ابھی کلاس لے کر باہر نکلی ہی تھی۔ کہ اس کے موبائل پر رنگ ہونے لگ پڑی۔
ہیلو ! کیا تکلیف ہے کیوں پریشان کر رکھا ہے مجھے ؟ میں اس وقت کلاس لے رہی ہوں۔ وہ کال اٹھاتے ہی غصے سے بولی۔
میں جانتا ہوں نریم تمہاری اس وقت کوئی کلاس نہیں۔ بلکہ تم ابھی ابھی اپنی کلاس اٹینڈ کر کے ہی آرہی ہو۔ دوسری طرف وہ اسے باور کراتے ہوئے بولا۔
آپ کو میرے بارے میں اتنی انفارمیشن کیسے پتہ ؟ کیا آپ میرا پیچھا کر رہے ہے۔ نریم نے ڈرتے ہوئے اپنے اِرد گِرد دیکھا، اور خیرانی سے بولی۔
کاش کے میں تمہارا پیچھا کر سکتا۔ اگر اتنا دور نہ بیٹھا ہوتا تو، اور تمہیں اِدھر اُدھر دیکھنے کی کوئی صرورت نہیں۔ ابھی میں تمہاری پہنچ سے فلحال دور ہی ہوں۔ دوسری طرف اس کے ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ تھی، اور وہ اسے مزید زچ کرتے ہوئے شوخی سے بولا۔
اور ویسے بھی کافی دن ہو گے۔ ہمیں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے۔ تم مجھے ابھی تک جان ہی نہیں سکی۔ مجھے تمہارے بارے میں سب کچھ پتہ ہے۔ تمہارے پَل پَل کی خبر ہے میرے پاس۔
میں اس وقت آپ سے بخث نہیں کرنا چاہںتی۔ پلیز برائے مہربانی فون بند کر دیجئیے، اور دوبارہ مت کیجئیے گا۔ اس کی باتوں سے نریم کی آنکھیں ایک پَل کے لیے کھلی کی کھلی رہ گئی تھى۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ کہ اس شخص سے اپنا پیچھا کیسے چھڑائے۔ اس لیے اپنے اندر ہمت مجتمع کرتے ہوئے اس نے اَکتائے ہوئے لہجے میں اسے ریکویسٹ کی۔ کیونکہ وہ جانتی تھی یہ شخص اتنی آسانی سے فون بند نہیں کرے گا اور نہ اسے کرنے دے گا۔ اس لیے نریم کے پاس اسے ریکویسٹ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن اندر ہی اندر اسے اس شخص پر غصہ بھی آرہا تھا، اور سہی مینو میں وہ اسے ڈر بھی بہت گئی تھی۔
اچھا ٹھیک ہے میری ایک شرط ہے۔ آخر کار دوسری طرف اسے اس پر ترس آ ہی گیا تھا۔
وہ کیا ؟
وہ یہ کہ گھر جاتے ساتھ ہی تم مجھے کال کرو گی۔ وہ تحکم بھرے لہجے میں بولا۔ لیکن نریم نے اس کی کسی بھی بات کا جواب دئیے بغیر فون کا سلسلہ منتفقع کر دیا، اور کنٹین کی طرف چلی گئی۔  


اسلام علیکم ! یہ رہی میری آج کی ایپیسوڈ اُمید ہے۔ آپ سب لوگوں کو پسند آئے گی😍۔ پلیز مجھے کمینٹ میں ضرور بتائیے🤭۔ تاکہ مجھے پتہ لگ سکے آپ کو میری ایپسوڈ کیسی لگی😊۔ ویسے تو میں ایپیسوڈ سنڈے کو لکھتی ہوں۔ آپ لوگوں کو بتایا تھا"نا" پڑھائی میں تھوڑا بزی ہوں😔۔ لیکن پچھلی ایپیسوڈ میں مجھے آپ سب لوگوں کا بہت اچھا رسپونس ملا تھا۔ اس لیے میں نے سوچا کیوں نہ سرپرائز ایپیسوڈ دے دوں😎۔ اس لیے مجھے اُمید ہے آپ سب لوگ مجھے اس ایپیسوڈ پر بھی بہت اچھا رسپونس دے گے😍۔ اینڈ تھینک یو سو مچ میرے ناول اتنا پسند کرنے کے لیے، اور پلیز پلیز بلاگ کو فالو اور نیچ
ے دئیے ہوئے میرے چینل کو سبسکرائب، لائک اور شئیر ضرور کیجئیے گا😁۔




                                   
  


Posta un commento

1 Commenti

  1. Always nice episode ❤👌🏻👌🏻mery pass alfaz nahi hain tareef kay liya ❤👌🏻❣outstanding episode😘😘😘

    RispondiElimina

Commento

Parvish novel

PARIVISH Episode 31 (پری وش)