Parivish
(پری وش)
# Novel by Parivish
# Writer; Aima Ashfaq
# Family, Funny innocent herion, Rude hero based Novel
# Please Don't Copypaste My Novel
# Episode 14:
دیکھے مسٹر مجھے نہیں پتہ آپ کا نام کیا ہے، اور مجھے جاننا بھی نہیں ہے۔ میں بس اتنا آپ کو بتانا چاہںتی ہوں۔ میری منگنی ہو چکی ہے۔ میرے چاچوں کے بیٹے کے ساتھ۔ تو پلیز آئندہ اِدھر کال مت کرئیے گا۔ نریم غصے سے اسے باور کرواتے ہوئے بولی۔
تو صرف منگنی ہوئی ہے "نا" وہ تو ٹوٹ بھی سکتی ہے۔ تم اسے منگنی کو توڑ کر مجھ سے کر لو۔ دوسری طرف وہی شریر بھرا لہجہ تھا۔ جیسے اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
آپ پاگل تو نہیں ہو گے۔ آپ کا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا۔ آپ نے یہ بات سوچی بھی کیسے۔ ہمارے ہاں ایک بار منگنی ہوجائے پھر توڑی نہیں جاتی۔ اس کی بات سن کر وہ غصے کی شدت سے بھڑک اٹھی۔
دماغ میرا پہلے خراب تھا۔ جب سے تمہیں دیکھا ہے۔ اب ہی تو جا کر ٹھیک ہوا ہے۔ اگر تم چاہںتی ہو، یہ دماغ پورے طریقے سے ٹھیک ہو جائے۔ تو منگنی کی بجائے سیدھا نکاح کر لیتے ہیں۔ وہ ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ لیے اسے مزید تنگ کرتے ہوئے بولا۔
پہلے مجھے لگتا تھا۔ آپ آدھے پاگل ہے۔ لیکن میری یہ بات غلط ثابت ہوئی۔ آپ آدھے نہیں پورے کے پورے پاگل ہے۔ آپ کے سر کا کوئی سکیور ڈھیلا ہے، اسے ٹائٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ چاہںتے ہے، تو میں اپنے منگیتر سے کہتی ہوں۔ وہ بہت اچھے طریقے سے ٹائٹ کریں گے۔ تب آپ کے دماغ میں بات سمجھ میں آئے گی۔ میں نہ آپ کی گرل فرینڈ ہوں، نہ منگیتر اور نہ میں آپ کے ساتھ نکاح کرنا چاہںتی ہوں۔ آئندہ برائے مہربانی مجھے کال مت کیجئیے گا۔ نریم انتہائی غصے میں اسے دھمکی دیتے ہوئے بولی، اور پھر فوراً فون بند کر کے بیڈ پر پھینک دیا۔
یا اللہ یہ کون ہے۔ وہ دونوں ہاتھوں میں اپنا سر گراتے ہوئے پریشانی سے بولی۔
♤ ♤ ♤
ضوفی تم آ گئی۔ ابھی ہم تمہارے بارے میں ہی بات کر رہے تھے۔ ضوفیرہ کو کمرے میں آتے دیکھ کر رامیہ مسکراتے ہوئے بولی۔
رامی میں ابھی بہت تھک گئی ہوں۔ مجھے بہت نیند آ رہی ہے۔ میں ابھی سونا چاہںتی ہوں۔ وہ بنا اس کی طرف دیکھے سنجیدگی سے بولی، اور اس کی سائیڈ پر ہی آ کر بیڈ پر بلینکٹ اڑھ کر لیٹ گئی۔ رامیہ نے خیرت سے اسے دیکھا لیکن پھر اس کی تھکاوٹ کا سوچ کر کچھ نہیں بولی۔
افشال آج تم ہمارے ساتھ ہی کیوں نہیں سو جاتی۔ ویسے بھی مجھے نیند نہیں آ رہی۔ مجھے تم سے بہت ساری باتیں بھی کرنی ہے۔ افشال کو اٹھتے دیکھ کر رامیہ فوراً بولی۔
نہیں رامیہ آپی پہلے ہی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اگر میں آپ کے ساتھ سوئی تو آپ اَن کمفرٹیبل فِیل کریں گی۔
نہیں افشال میں ٹھیک ہوں۔ "تم آ جاؤ" رامیہ اپنے ساتھ ہی اس کے لیے جگہ بناتے ہوئے بولی۔
ارے یہ کیا۔۔۔۔۔۔؟ ضوفیرہ تو سو گئی۔ اس نے تو ابھی کھانا بھی نہیں کھایا۔ مشعال کمرے میں آئی تو اسے سوتے دیکھ کر افشال سے بولی۔
مشعال آپی وہ کہہ رہی تھی۔ میں بہت تھک گئی ہوں۔ "سونا چاہںتی ہوں "
مگر افشال ماما بہت ناراض ہو گی۔ اگر وہ ہوتی، تو ضوفیرہ کو کھانا کھلائے بغیر کبھی نہ سونے دیتی۔ مشعال پریشانی سے بولی۔
اچھا چلو اب کَیا کِیا جا سکتا ہے۔ رامیہ تم بتاؤ تم نے میڈیسن لی ؟
جی میں نے میڈیسن لے لیں ہیں۔ ابھی آنٹی دے کر گئی ہے۔ وہ مسکرا کر بولی۔
چلو ٹھیک ہے اب تم دونوں بھی آرام کرو۔ میں چلتی ہوں۔ مشعال انہیں ہدایت دیتے ہوئے وہاں سے چلی گی۔
افشال تم اس دن آنٹی کے بیٹی کے بارے میں بتا رہی تھی۔ اس کے بارے میں بتاؤ "نا" مشعال کے کمرے سے جاتے ہی رامیہ فوراً افشال سے بولی۔
محمد علی الدین جو اذان بھائی جان اور خارب بھائی جان کے دادجی ہے۔ لیکن جب سے ہم اس گھر میں آئے ہیں۔ ہم بھی انہیں دادجی ہی بلاتے ہیں۔ ان کے دو بیٹے تھے، ایک جاوید انکل جن کی شادی معصومہ آنٹی سے ہوئی، اور دوسرے بیٹے کا نام ذُفیان جو میرے خالو تھے۔ ان کی شادی میری خالہ صائمہ سے ہوئی تھی، اور ایک بیٹی تھی "عالیہ" جن کی شادی میرے ماموں بلال سے ہوئی تھی۔
ارے واں ں۔۔۔۔۔۔۔۔میرے پ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے رامیہ خیرت اور خوشی کے مارے یہ بولتی، اس کے ڈیڈ کا نام بھی بلال ہے۔ کہ اپنے ڈیڈ کا وعدہ یاد آتے ہی فوراً بولتے بولتے رکی۔
کیا ہوا رامیہ آپی ؟ آپ کچھ کہنے والی تھی۔
نہیں نہیں میں بس یہی پوچھنے والی تھی۔ اَگے بتاؤ "نا" کیا ہوا تھا۔ اسے سوالیہ نظروں سے اپنی طرف دیکھتا پا کر رامیہ فوراً بات سنبھالتے ہوئے بولی۔
افشال نے مطمئن ہوتے ہی دوبارہ بات کا آغاز کرنا شروع کیا۔
جاوید انکل اور آنٹی معصومہ کا ایک ہی بیٹا ہے "خارب بھائی جان" ذُفیان خالو اور صائمہ خالہ کا بیٹا ہے "اذان بھائی جان" اور ایک بیٹی تھی "پری وش" سب اسے پیار سے پری بلاتے تھے۔ سب کی اس میں جان تھی۔ خالو اور خالہ جانی اس سے اتنا پیار کرتے تھے۔ کہ روزانہ اس کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آتے کبھی کپڑے کبھی کھلونے اور ایسی بہت ساری چیزیں ہیں۔ جو وہ اس کے لیے لاتے تھے۔ دادجی کی تو جیسے اس میں جان تھی۔ ایک منٹ کے لیے بھی اسے خود سے دور نہ کرتے، اور ہمیشہ اسے اس گھر میں رکھنے کے لیے دادجی نے پری وش اور خارب بھائی جان کا رشتہ بچپن میں ہی طے کر دیا تھا۔ ایک دن پری کے برتھ ڈے والے دن ماموں جان اور ممانی جان دادجی کے پاس آئے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ انہوں نے دادجی سے پری وش کو گود لینے کا اظہار کیا۔ خالہ جانی اپنی بیٹی دینے کو تیار نہیں تھی، اور دادجی جنہوں نے یہ سوچ کر پری وش اور خارب کا رشتہ طے کر دیا تھا۔ کہ ان کی پری کبھی ان سے دور نہ ہو۔ وہ کیسے پری کو دے دیتے۔ انہوں نے صاف انکار کر دیا، اور دادجی کے فیصلے ہمیشہ اٹل ہوتے ہیں۔ کوئی بھی ان کے فیصلے کے خلاف نہیں جاسکتا۔
اس دن ماموں جان روتی ہوئی ممانی جان کو زبردستی وہاں سے لے گے۔ لیکن پھر اسی شام کوماموں اور ممانی جان نے پری وش کو کڈنیپ کر لیا، اور ایک خط چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے۔ اس دن خالہ جانی بہت روئی۔ ذُفیان خالو، جاوید انکل اور معصومہ آنٹی۔ انہیں ڈھونڈنے کے لیے نکلے۔ تو ایک کار ایکسیڈینٹ میں ان کا اِنتقال ہو گیا۔ دادجی جن کے دو بیٹے اور ان کی بہو اس دنیا میں نہیں رہے، اور ان کی جان سب سے لاڈلی پری وش ان سے چھین گئی۔ ان کو جیسے سکتا ہی ہو گیا تھا۔ ان کی تو پوری دنیا ہی ختم ہو گئی تھی۔ اس دن کے بعد وہ بیمار رہںنے لگ پڑے نہ کسی سے بات کرتے، نہ کچھ کھاتے۔ لیکن پھر وہ آہستہ آہستہ اپنی پہلے والی زندگی میں آنے لگے۔ لیکن یہ نہیں کہ وہ پری وش کو بھول گئے تھے۔ وہ ابھی بھی پری وش کو بہت مس کرتے ہیں۔ لیکن اب وہ صرف اپنے کمرے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ میں اس وقت بہت چھوٹی تھی۔ مجھے ان سب باتوں کا نہیں پتہ تھا۔ مجھے مشعال آپی نے یہ سب کچھ بتایا۔ انہیں پاپا نے بتایا تھا۔
اس وجہ سے آنٹی اتنی اَپ سیٹ رہںتی ہے۔ اس کی باتیں سن کر رامیہ کی آنکھوں میں بھی آنسوں آگئے، اور اس نے افشال کی طرف دیکھ کر اِستفسار کیا۔
جی رامیہ آپی خالہ جانی پری وش کو بہت مس کرتی ہے، اور کبھی کبھی اکیلے بیٹھ کر بہت روتی بھی ہے۔
♤ ♤ ♤
رات کو باتیں کرتے ہوئے انہیں پتہ ہی نہیں چلا۔ کب ان کی آنکھ لگ گئی تھی۔ افشال تو صبح صبح ہی اٹھ کر کالج کے لیے ریڈی ہو کر چلی گئی تھی۔ صائمہ ان کے کمرے میں آئی۔ تو وہ دونوں ابھی تک سو رہی تھی۔
صائمہ رامیہ کے بیڈ والی سائیڈ پر جا کر کھڑی ہو گئی، اور اس کی طرف دیکھنے لگی۔ پتہ نہیں تمہیں دیکھتے ہی مجھے ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے، جیسے میں تمہیں جانتی ہوں۔ تم میری اپنی سی ہو۔ صائمہ اس کے سر پر بوسہ دے کر پیار سے اس کے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دل ہی دل میں بولی۔
رامیہ نے اپنے چہرے پر کسی کے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا، تو اس نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولی۔ اپنے سامنے آنٹی کو کھڑا دیکھ کر اپنی آنکھیں مسلتے ہوئے فوراً اٹھ کر بیٹھی۔
آنٹی آپ۔۔۔۔۔۔۔آپ کھڑی کیوں ہے بیٹھے "نا" وہ ان کے بیٹھنے کی جگہ بناتے ہوئے بولی۔
میں تمہیں ہی اٹھانے آئی تھی۔ اب کیسی طبیعت ہے تمہاری ؟ صائمہ نے اس کے پاس ہی بیٹھتے مسکراتے ہوئے اِستفسار کیا۔
اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔ بس یہ سر کی بینڈیج سے بہت الجھن ہو رہی ہے۔ وہ سر پر ہاتھ رکھ کر منہ بناتے ہوئے بولی۔
کوئی بات نہیں میں ابھی اتار دیتی ہوں۔
آنٹی میں آپ سے ایک بات پوچھوں ؟ اس سے پہلے وہ اٹھتی رامیہ فوراً ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی۔
ہاں ضرور پوچھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی اس حرکت پر صائمہ دوبارہ بیٹھتے ہوئے مسکرا کر بولی۔
آنٹی کیا آپ پری وش کو ابھی بھی مس کرتی ہے۔ رات کو افشال نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا۔ آپ کی بیٹی کے بارے میں۔
آنٹی ایم سوری مجھے آپ سے یہ سوال نہیں پوچھنا چاہیںے تھا۔ اَگے سے کوئی جواب نہ پاکر وہ فوراً شرمندگی سے بولی۔ کہیں انہیں بات بری نہ لگ گئی ہو۔
نہیں رامیہ بیٹا ایسی بات نہیں ہے۔ ہاں میں ابھی بھی اپنی بیٹی کو بہت مس کرتی ہوں۔ بھلا ماں بھی اپنی اولاد کو کبھی بھولتی ہے۔ وه نیچے منہ کیے غمگین لہجے میں بولی۔
آنٹی میں دعا کرتی ہوں۔ آپ کی بیٹی آپ کو جلدی مل جائے، اور ویسے بھی میں بھی تو آپ کی بیٹی کی طرح ہی ہوں۔ آپ سمجھ لے میری شکل میں آپ کو آپ کی پری وش مل گئی۔ رامیہ انہیں اداس دیکھا، تو ان کے دونوں ہاتھ پکڑ کر مسکرا کر بولی۔
کاش کے تم میری پری ہوتی۔ پتہ نہیں میری پری کیسی ہو گی۔ شاید تمہاری ہی طرح اتنی ہی بڑی اور اچھی ہوگی، بڑوں کی عزت کرنے والی۔ صائمہ نے اس کی طرف دیکھ کر دل ہی دل میں سوچا۔
آنٹی کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔؟ آپ کیا سوچ رہی ہے ؟ اس نے انہیں کسی سوچ میں ڈوبا دیکھ کر اِستفسار کیا۔
صائمہ فوراً چونکی۔
آں ں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں۔ بس یہی سوچ رہی تھی۔ تم امریکہ جیسے ماحول میں پلی بڑھی ہوئی ہو۔ پھر بھی تمہارے والدین نے تمہاری تربیت کتنی اچھی کی ہے، اور تو اور تم اردو بھی کافی اچھی بول لیتی ہو۔ جہاں تک میں نے سنا ہے کہ وہاں کی لڑکیاں تو اپنے بال بھی کٹوا دیتی ہے۔ تمہارے بال تو کافی لمبے اور خوبصورت ہے۔ وہ پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
ٹھیک کہا آنٹی آپ نے۔ میں بیشک امریکہ جیسے ماحول میں پلی بڑھی ہوں۔ لیکن ماما اورڈیڈ نے میری تربیت بہت اچھی کی ہیں۔ جب ہم پہلی دفعہ امریکہ گئے تھے۔ اس وقت میں دس سال کی تھی۔ میری ماما نے اسی دن مجھے سمجھا دیا تھا۔ کہ بیٹا ہمارے اور ان کے ماحول میں بہت فرق ہے۔ بیشک ہم یہاں آگئے ہیں، لیکن ہمیں اپنا کلچر، اپنا اسلام نہیں بھولنا۔ کہ ہم مسلمان ہیں، اور رہی بات لمبے بالوں کی تو میری ماما کو لمبے بال بہت پسند تھے۔ اس لیے انہوں نے کبھی کٹوانے ہی نہیں دئیے۔ رامیہ انہیں وضاحت دیتے ہوئے بولی۔
اچھا اب یہ سب چھوڑو۔ میں پہلے تمہاری بینڈیج اتار دوں۔ پھر تمہارے لیے ناشتہ لے کر آتی ہوں۔ صائمہ نے اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو فوراً بات کا رخ بدلتے ہوئے بولی۔
آنٹی بہت درد ہو گا "نا " ؟ اس سے پہلے صائمہ اس کی بینڈیج اتارتی، رامیہ فوراً ڈر کے مارے اپنا سر پیچھے کرتے ہوئے بولی۔ اس کی اس حرکت پر صائمہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
نہیں بلکل بھی نہیں ہوگا۔ میں اپنی بیٹی کو بالکل بھی درد نہیں کروں گی۔ آرام سے اُتاروں گی۔ وہ اسے پیار سے پچکارتے ہوئے بولی۔
صائمہ اس کی آرام سے بینڈیج اتار رہی تھی۔ کہ اینڈ میں پٹی جلد کے ساتھ چپکی ہونے کی وجہ سے رامیہ کی چیخ نکل گئی۔
آں ں۔۔۔۔۔ں ماما درد کی وجہ سے غلطی سے اس کے منہ سے ماما کا لفظ نکل گیا۔ صائمہ ایک پل کے لیے ساکت رہ گئی۔ ان کا ہاتھ وہی رک گیا۔ اس کے ماما کہتے ہی صائمہ کو اپنے اندر ایک سکون کی لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔ جس سے وہ خود بھی سمجھنےسے نہ قاصر تھی۔ بہت سارے آنسو ان کی آنکھوں میں جمع ہوئے۔
ایم سوری آنٹی غلطی سے میرے منہ سے نکل گیا۔ وہ سر نیچے کیے شرمندگی سے بولی۔
اس کی آواز پر صائمہ فوراً چونکی، اور اس کی طرف دیکھا۔
کوئی بات نہیں رامیہ بیٹا۔ انہوں نے بامشکل اندر ہی اندر اپنے آنسو اتارتے خود کو سنبھالا، اور روئی سے اس کا زخم صاف کرتے ہوئے بولی۔
چلو اب تم جاؤ، جلدی سے فریش ہو کر آو۔ اتنی دیر میں، میں تمہارے لیے ناشتہ لے کر آتی ہوں۔ صائمہ بنا اس کی طرف دیکھے بولی، اور وہاں سے چلی گئی۔
ان کے جاتے ہی رامیہ بھی فریش ہونے کے لیے واش روم چلی گی۔ جب تھوڑی دیر بعد وہ فریش ہو کر واش روم سے نکلی۔ تو ضوفیرہ اس وقت جاگ رہی تھی۔
ضوفی تم اٹھ گئی۔ اچھا ہوا تم اٹھ گی۔ میں نے تمہیں رات کے بارے میں بہت ساری باتیں بتانی ہے۔ رامیہ لنگڑا کر چلتے ہوئے، اس کے پاس آکر بولی۔
لیکن ضوفیرہ جیسے اس کی باتیں سن ہی کہاں رہی تھی۔
ضوفی کن سوچوں میں گم ہو۔ رامیہ نے اسے ایک ہی جگہ ساکت بیٹھے دیکھا۔ تو اس کا کندھا ہلا کر متفکر لہجے میں بولی۔
ہاں ں ں۔۔۔۔۔۔۔۔تم نے کچھ کہا۔ وہ ایک دم ہڑبڑائی اور اس کی طرف دیکھ کر فوراً پوچھا۔
ضوفی تم ٹھیک ہو "نا" ؟
رامی میں ٹھیک ہوں۔ تم بتاؤ تمہارے پاؤں میں اب زیادہ درد تو نہیں ہو رہا۔ اپنی وجہ سے اسے پریشان دیکھ کر ضوفیرہ فوراً ہونٹوں پر زبردستی مسکراہٹ سجا کر بات کا رخ بدلتے ہوئے بولی۔
ہاں ضوفی بس تھوڑا سا درد ہے۔ جس کی وجہ سے چلنے میں تھوڑی تکلیف ہوتی ہے۔
درد تو ہو گا۔ ڈاکٹر نے تمہیں۔۔۔۔۔۔۔دو تین دن چلنے سے منع کیا ہے، "اور تم ہوکہ" تمہارے پاؤں کہی ٹکتے ہی نہیں ہے۔ ضوفیرہ اسے زبردست ڈانٹتے ہوئے بولی۔
اچھا یہ سب چھوڑو۔ میں تمہیں اِمپارٹینٹ بات بتانا تو بھول ہی گئی۔ رات کو افشال نے مجھے آنٹی کی بیٹی کے بارے میں بتایا تھا۔ رامیہ اس کی ڈانٹ کو سیرئس نہ لیتے ہوئے۔ اس کی بات ہوا میں اڑاتی ہوئی بولی۔ پھر وہ اسے افشال نے جو کچھ بھی بتایا تھا۔ سب بتاتی چلی گئی۔
ضوفی تم ٹھیک ہو۔۔۔۔۔ ؟
رامیہ جو کب سے دیکھ رہی تھی۔ کہ وہ اس کی باتیں تو سن رہی تھی۔ لیکن اس کا دھیان کہی اور تھا۔ وہ اسے کھوئی کھوئی سی پریشان سی لگی۔ اس لیے اس کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر اِستفسار کیا۔
ہاں رامی میں ٹھیک ہوں۔ مجھے کیا ہوگا۔ رامیہ کے بلانے پر وہ فوراً چونکی اور مسکراتے ہوئے بولی۔
نہیں ضوفی کوئی بات تو ہے جو تم مجھ سے چھپا رہی ہو۔ بتاؤ کیا بات ہے جو تمہیں پریشان کر رہی ہیں ؟ کیا ہوا ہے ؟ اسے زبردستی مسکراتے دیکھ کر رامیہ پھر بھی سنجیدگی سے بولی۔
رامی کون سی بات ؟ کوئی بات ہو گی تو بتاؤں گی "نا" اس نے فوراً نظریں چرائی۔
ضوفی تم کسے بے وقوف بنا رہی ہو۔ "مجھے" جب تم اچھے سے جانتی ہو۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں چھپا سکتیں۔ تو پھر کیوں جھوٹ بول رہی ہو۔ اس دفعہ رامیہ اسے غصے سے باور کراتے ہوئے بولی۔
وہ جو کب سے اپنے آنسوؤں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ کہ رامیہ کے بار بار پوچھنے پر اب اس کا ضبط جواب دے گیا تھا۔ اس لیے وہ فورا اس کے گلے لگ کر رو پڑی۔
ضوفی کیا ہوا۔۔۔۔۔؟ تم رو کیوں رہی ہو ؟
کسی نے کچھ کہا ہے؟
ضوفی آخر کیا بات ہے ؟ جو تم اس طرح رو رہی ہو۔ تم مجھے کچھ بتاؤ گی تو پتہ چلے گا "نا" رامیہ نے جو بچپن سے لے کر آج تک اسے ہر معاملے میں مضبوط دیکھا تھا۔ آج اسے اس طرح روتے دیکھ کر فوراً پریشان ہوئی، اور اس کی کمر سہلا کر اسے چپ کرانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔
ضوفی آخر کیا بات ہے ؟ جو تم اس طرح رو رہی ہو۔ تم مجھے کچھ بتاؤ گی تو پتہ چلے گا "نا" رامیہ اسے اپنے سے الگ کر کے اپنے ہاتھوں سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
رامیہ بس مجھے یہاں پر نہیں رہںنا۔ ہم ابھی اور اسی وقت نریم کے گھر جارہے ہیں۔ بس تم یہاں سے چلو۔ ضوفیرہ روتے ہوئے اٹل لہجے میں بولی۔
کیوں یہاں نہیں رہںنا ضوفیرہ بیٹا ؟ اس سے پہلے رامیہ کچھ کہتی، صائمہ نے جو اس کی بات سن لی تھی اندر آتے ہوئے بولی۔
آنٹی کو اندر آتے دیکھ کر ضوفیرہ نے فوراً اپنے آنسو صاف کیے۔
ضوفیرہ کیا ہوا ؟ صائمہ ناشتے کی ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
ضوفیرہ کے خلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ آنسو ابھی بھی رواں تھے۔ جنہیں اس نے ضبط کرنے کی بڑی کوشش کی تھی۔ جو پلکوں کی باڑ توڑتے نکلتے چلے جارہے تھے۔
اوپر میری طرف دیکھو۔ صائمہ نے اس کا چہرہ اوپر کیا۔ جو آنسوؤں سے تر تھا۔ کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔؟ تم رو کیوں رہی ہو۔ یہاں پر کسی نے تمہیں کچھ کہا ہے ؟
بتاؤ مجھے کس نے تمہیں کچھ کہا ؟ اسے اس طرح روتے دیکھ کر صائمہ نے پریشانی سے اِستفسار کیا۔
ضوفیرہ نے پھر روتے ہوئے انہیں، شام کو ان کے ہاسپیٹل سے چلے جانے کے بعد جو کچھ بھی ہوا۔ عمیر کے بارے میں بتاتی چلی گئی۔ جسے سن کر صائمہ نے خیرت اور صدمے سے اس کی طرف دیکھا۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ عمیر نے ایسی شرارت کی۔ مجھے بالکل بھی اُمید نہیں تھی۔ کہ عمیر ایسا گھٹیا مذاق کرے گا۔ ضوفیرہ اس کی طرف سے میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔ وہ شرمندگی سے بولیں۔
نہیں آنٹی یہ آپ کیا کر رہی ہے۔ آپ مجھ سے بڑی ہے۔ کیا آپ معافی مانگتے ہوئے اچھی لگیں گی، اور مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگے گا۔ کہ آپ مجھ سے معافی مانگے۔ ضوفیرہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولی۔
لیکن آنٹی میں اب یہاں نہیں رہںنا چاہںتی۔
ضوفیرہ میں عمیر کو سمجھاؤں گی۔ وہ اب ایسا نہیں کریں گا۔ میں تم سے وعدہ کرتی ہوں۔ اگر اس کے باوجود تم دونوں یہاں سے چلی گئی۔ تو میں سمجھوں گی تم نے مجھے معاف نہیں کیا۔
اوکے آنٹی میں آپ کی بات مان لیتی ہوں۔ لیکن میری بھی ایک شرط ہے۔ آپ ہم دونوں سے کبھی معافی نہیں مانگیں گی۔ بڑے ڈانٹتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔ معافی مانگتے ہوئے نہیں۔
مجھے تمہاری یہ شرط منظور ہے۔ صائمہ مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔
خالہ جانی آپ یہاں پر ہے۔ میں کب سے آپ کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ عمیر ان کے کمرے میں آتے ہی بولا۔ لیکن سامنے رامیہ پر نظر پڑتے ہی اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ ہیلو ! کیسی ہے آپ ؟
رامیہ نے بنا جواب دئیے غصے سے منہ موڑ لیا۔ اس کی اس حرکت پر عمیر کی آنکھوں میں فوراً خیرت کے تصورات چھائے۔ اس سے پہلے کہ وہ رامیہ سے کچھ پوچھتا۔ کہ صائمہ کی آواز پر وہ فوراً ان کی طرف متوجہ ہوا۔
عمیر مجھے تم سے یہ اُمید نہیں تھی۔ کہ تم ایسی کوئی شرارت کرو گے۔ اس دفعہ واقع ہی تم نے بہت گھٹیا مذاق کیا ہے۔ صائمہ اسے ڈانٹتے ہوئے بولی۔
خالہ جانی میں نے کَیا کِیا ہے۔ عمیر انہیں غصے میں دیکھ کر خیرت اور سنجیدگی سے بولا۔
اتنے بھولے نہیں ہو تم۔ کہ تمہیں پتہ ہی نہیں ہے۔ تم نے کَیا کِیا ہے۔ کل میں نے تمہیں وارن بھی کیا تھا۔ کہ وہ ہماری مہمان ہے تم اس کے ساتھ کوئی شرارت، کوئی مذاق نہیں کرو گے۔ لیکن تم نے کل جو ضوفیرہ کے ساتھ مذاق کیا تھا۔ وہ بہت گھٹیا مذاق تھا۔ تمہیں پتہ ہے تمہارے اس مذاق کی وجہ سے وہ یہاں رہںنا ہی نہیں چاہںتی تھی۔ صائمہ اسے غصے سے ڈانٹتے ہوئے بولی۔
او اچھا تو اس نے آپ سے میری شکایت لگائی ہے۔ عمیر سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ جس کی آنکھیں ابھی بھی رونے کی وجہ سے سوجھی ہوئی تھی۔
عمیر جو بھی ہے تمہیں ابھی ضوفیرہ سے معافی مانگنی ہو گی۔
ایم سوری کل میں نے صرف ایک چھوٹا سا مذاق کیا تھا۔ جسے آپ نے سیرئس سمجھ لیا۔ اگر آپ کو برا لگا تو میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ وہ اسے یہ سب کہہ کر جانے ہی لگا۔ کہ پھر کچھ یاد آنے پر وہ فوراً رکا، اور صائمہ کی طرف دیکھا۔
خالہ جانی آپ کو دادجی بلا رہے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہی تیزی سے کمرے سے نکلتا چلا گیا۔
اچھا اب تم دونوں ناشتہ کرو۔ میں ابھی آتی ہوں، اور ہاں یاد آیا۔ ضوفیرہ تم رات کو کھانا کھائے بغیر سو گئی تھی۔ صائمہ جانے ہی لگی کہ پھر رکتے ہی سوالیہ نظروں سے ضوفیرہ کی طرف دیکھ کر بولی۔
سوری آنٹی وہ میں بہت تھک گئی تھی۔ اس لیے جلدی سو گئی۔ وہ شرمندگی سے بولی۔
اچھا ٹھیک ہے لیکن اب ناشتہ ضرور کرنا۔ وہ اسے تنبہیہ کرتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
♤ ♤ ♤
تایا ابو، تائی امی یہ آپ کی چائے۔ زرمینے ٹرے میں سے چائے کے کپ اٹھا کر انہیں پکڑاتے ہوئے بولی۔
بیٹا تم نے کیوں اتنی تکلیف کی۔ فاروق احمد چائے کا کپ پکڑتے ہوئے بولے۔
تایا ابو تکلیف کیسی میں بھی تو آپ کی بیٹی ہوں۔ وہ ان کے پاس ہی بیٹھتے ہوئے بولی۔
وہ تو ہے۔ فاروق احمد اسے اپنے ساتھ لگا کر مسکراتے ہوئے بولے۔
تایا ابو آپ نے نریم آپی کو امریکہ کیوں پڑھنے بھیجا وہ یہاں پر بھی تو آ کر پڑھ سکتی تھی۔ وہ ان کی طرف دیکھ کر ناراض لہجے میں بولی۔
یہ بات تو آپ کو اپنی نریم آپی سے پوچھنی چاہںیے تھی۔ وہ چائے پیتے ہوئے بولے۔
تایا ابو میں نے بولا تھا انہیں۔ کہ یہاں آ کر ایڈمیشن لے لیں۔ لیکن وہ نہیں مانی۔
کوئی بات نہیں بیٹا۔ ویسے بھی آپ سب لوگ پاکستان تو شفٹ ہونے ہی والے ہو۔ تب تک نریم بھی پاکستان آ جائے گی۔ پھر جتنا چاہے مرضی اسے لڑنا۔ وہ اس کا اداس چہرہ دیکھ کر پیار سے اسے سمجھاتے ہوئے بولے۔
زہرہ ان کی باتیں سن کر مسکرا رہی تھی۔
ارے کیا باتیں ہورہی ہیں باپ بیٹی میں۔ سکندر احمد کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے۔
اسلام علیکم ! پاپا
وعلیکم اسلام ! وہ اپنی بیٹی کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔
پاپا میں آپ کے لیے بھی ابھی چائے بنا کر لاتی ہوں۔
پھر کیا سوچا ہے آپ نے فاروق بھائی جان۔ زرمینے کے کمرے سے جاتے ہی سکندر چیر پر بیٹھتے ہوئے اپنے بھائی سے بولے۔
سکندر تم کس بارے میں بات کر رہے ہو۔ وہ آنکھوں میں خیرت لیے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولے۔
تیمور اور نریم کے نکاح کے بارے میں۔
دیکھو سکندر ویسے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن وہ ابھی پڑھ رہی ہے۔
فاروق بھائی جان پڑھائی تو ہوتی رہے گی۔ ہم کون سا اسے پڑھنے سے روکیں گے۔ ایسا کرتے ہیں۔ جیسے ہی ہم پاکستان شفٹ ہونگے۔ ہم ان دونوں کے نکاح کی تیاریاں شروع کر دیں گے۔ پھر جب نریم کی پڑھائی مکلمل ہو جائے گی۔ تو رخصتی کر دیں گے۔ اب تو فاروق بھائی آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیںے۔ وہ تفصیل سے اسے وضاخت دیتے ہوئے بولے۔
ٹھیک ہے جیسا تم چاہو۔
یہ رہی میری آج کی ایپیسوڈ اُمید ہے آپ سب لوگوں کو پسند آئے گی۔😇 مجھے کمینٹ میں ضرور بتائیے گا۔ مجھے پتہ ہے آپ کو میری ایپیسوڈ کا بے صبری سے انتظار ہوتا ہے۔ مجھے بھی آپ سب لوگوں کو انتظار کروانا اچھا نہیں لگتا😕😔۔ بس میں ان دنوں پڑھائی میں تھوڑا بزی ہوں۔ لیکن پھر بھی میں ایپیسوڈ جلدی دینے کی کوشش کروں گی😍۔ لیکن میری ایک شرط ہے۔ آپ کو بھی پھر میری ایپیسوڈ پر اچھا رسپونس دینا ہو گا😁، اور پلیز پلیز میرے چینل کو سبسکرائب، لائک اور شئیر ضرور کیجئیے گا😇۔👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻
1 Commenti
Fantastic episode mind blow🥰👌🏻❣❤🥰Always best
RispondiEliminaCommento