Advertisement

Adbox

PARIVISH Episode 13 ( پری وش )

               Parivish

                (پری وش)

# Novel by Parivish

# Writer; Aima Ashfaq

# Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel

# Please Don't Copypaste My Novel

# Episode 13:

            پھر سے پھول آخر یہ شخص ہے کون ؟ 

جو ہر روز مجھے پھول بھیجتا ہے؟ نریم نیچے ذمین سے پھولوں کا بُکے اٹھا کر اسے اِدھر اُدھر گُما کر دیکھتے ہوئے بولی۔ لیکن پھولوں کے اندر پڑے کارڈ کو دیکھ کر اسے بالکل بھی خیرت نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ یہ اس شخص کے روز کا معمول تھا۔ کہ وہ پھولوں کے اندر کارڈ ضرور رکھتا تھا۔ نریم جب سے امریکہ آئی تھی۔ تب سے اسے ایسے بہت سارے پھول اور کارڈز مل رہے تھے۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھی۔ یہ شخص کون ہے۔ جو ہر روز اسے پھول بھیجتا ہے۔ نریم کارڈ کھول کر پڑنے لگی۔ تو اس کے اندر لکھی تحریر پڑھ کر اس کا غصے کے مارے پارہ ہائی ہوا۔

 کھلتے ہوئے پھول خوشبو دیں آپ کو
  نکلتا ہوا سورج روشنی دے آپ کو
 ہم تو کچھ دینے کے قابل نہیں
  دینے والا ہر خوشی دے آپ کو
مجھے اُمید ہے۔ یہ پھول آپ کو پسند آئیں گے۔ میری طرف سے پیاری سى لڑکی کے لیے پیارا سا تحفہ۔ آخر یہ کون ہے ؟ ہوں اِز دِس ؟ اور اس دفعہ بھی اس کا کارڈ پر کوئی نام نہیں لکھا ہوا۔ نریم خیرت سے خود سے بڑبڑائی اور غصے سے پھولوں کا بُکے وہی پھینک کر اندر چلی گئی۔
ابھی نریم فریج سے پانی کی باٹل نکال کر گلاس میں ڈال کر پینے ہی لگی تھی۔ کہ اس کے موبائل پر رنگنگ ہوئی۔اس نے باٹل اور گلاس ٹیبل پر رکھا، اور موبائل اٹھا کر دیکھا۔ تو سامنے سکرین پر کوئی ان نون نمبرجگمگا رہا تھا۔

پھر سے ان نون نمبر ۔ پہلے وہ پھول اب یہ شخص، یا اللہ یہ دونوں کون ہے ۔جب سے میں امریکہ آئی ہوں، کیوں ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑھ گئے ہیں۔ میں تو ان کو جانتی بھی نہیں ہوں۔ نریم پریشانی سے خود سے بڑابڑائی۔
کہیں پھول بھیجنے والا یہی شخص تو نہیں۔ نہیں نہیں نریم ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ میرے بارے میں اتنا سب کچھ کیسے جان سکتا ہے۔ نریم نے پہلے خیرت سے آنکھیں پھیلائیں پھر فوراً اپنی سوچ کو جھٹکتے ہوئے بولی۔ ایک نظر اپنے بجتے ہوئے موبائل کو دیکھا۔ جو مسلسل رنگنگ کر رہا تھا۔ شاید سامنے والا بھی کوئی ڈیٹھ تھا۔ نریم نے پھر کچھ سوچ کر فوراً فون اٹھا لیا۔
ہیلو ! وہ فون اٹھاتے ہی ترش لہجے میں بولی۔
ہیلو ! زہے نصیب زہے نصیب شکر ہے آپ نے میری کال تو اٹھائی ۔ قسم سے ترس گیا تھا۔ آپ کی آواز سننے کےلیے۔ جب سے آپ کو کال کی ہے۔ صرف ایک دفعہ آپ نے میرى کال اٹھائی تھی، اور تب کا دن ہے اور آج کا دن ہے۔ میں تو آپ کی آواز کا دیوانہ ہو گیا ہوں۔ اتنی خوبصورت ہے، قسم سے دل کرتا ہے سنتا جاؤں سنتا جاؤں، اور میں یہ بھی اچھے طریقے سے جانتا ہوں۔ ابھی تک آپ نے میرے بھیجے ہوئے پھولوں کا کیا خال کیا ہو گا۔ دوسری طرف سے اس کی شوخی سے بھرپور آواز گونجی۔
نریم کا جو اس کی باتوں سے دماغ پھٹ رہا تھا۔ کہ اس کی پھولوں والی بات پر چونکی۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ اس کا مطلب "آپ ہے وہ" جو ہر روز مجھے پھول بھیجتے ہیں ؟ نریم آنکھوں میں خیرت لیے فوراً بولی۔
ہاں میں تھا، کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تم نے کیا سمجھا ؟ کس نے بھیجے ہے ؟ وہ ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ لیے بولا۔
سمجھا تو کچھ نہیں تھا۔ لیکن مجھے پہلے ہی سمجھ جانا چاہیے تھا۔ کہ پھول بھیجنے والے آپ ہی ہو سکتے ہیں۔ وہ غصے سے لب بھینچتے ہوئے بولی۔
چلیں اب تو پتہ چل گیا "نا" آپ کو۔
جی ہاں چل گیا، اور میں آپ کو وارن کر رہی ہوں۔ آئندہ سے خبردار آپ نے مجھے پھول بھیجے۔ نریم نے اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اور اسے سرد لہجے میں تنبہیہ کرتے ہوئے بولی۔
او ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی سے بیویوں والے خکم۔ دوسری طرف سے لہجہ شریر تھا۔
یو جسٹ شٹ آپ زبان سنبھال کر بات کریں۔ آپ کو پتہ ہے آپ کہہ کیا رہے ہیں۔ نریم کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا، اور وہ غصے سے پھٹ پڑی۔ چہرہ شرم کے مارے سرخ ہو گیا تھا۔
جی مجھے پتہ ہے میں کیا کہہ رہا ہوں، اور پورے ہوش و خواس میں کہہ رہا ہوں۔ جہاں تک رہی پھول نہ بھیجنے کی بات۔ تو وہ میری مجبوری ہے۔ دوسری طرف وہ اطمینان سے بولا۔ جیسے اسے اس کے غصے سے رتی برابر بھی فرق نہ پڑا ہو۔
ایسی کیا مجبوری ہے آپ کی ؟ کہ آپ کو مجھے پھول بھیجنے پڑتے ہیں۔ وہ غصے سے دانت چباتے ہوئے بولی۔
پیار کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ آخر محبت جو کر بیٹھا ہوں آپ سے۔
دیکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھ ہی تو نہیں سکتا، میں ابھی آپ کو۔ دوسری طرف سے وہ فوراً اس کی بات اُچکتے ہوئے، شرارت بھرے لہجے میں بولا۔
آئندہ آپ نے پھول بھیجے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ وہ ہٹ دھرم اور بارعب لہجے میں بولی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا۔ وہ سامنے ہوتا تو اس کا سر پھوڑ دیتی۔
ارے اگر آپ بری ہوتی۔ تو مجھے اچھی کیسے لگتی، اور رہی بات پھول نہ بھیجنے کی۔ تو وہ میں آپ کو بھیج کر رہوں گا، کیونکہ میں جانتا ہوں۔ آپ کو ریڈ روزیذ بہت پسند ہے۔
آپ کو کیسے پتہ چلا مجھے ریڈ روزیذ پسند ہے ؟

دوسری طرف اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ نریم مجھے تمہارے بارے میں بہت کچھ معلوم ہے۔ وہ جلد ہی آپ سے تم پر آیا۔
آپ کو تو میرا نام بھی معلوم ہے۔ اس دفعہ اس کے لہجے میں ڈر اور خوف صاف واضح تھا۔ لیکن اسے اگے سے کوئی جواب نہیں ملا۔ شاید لائن کٹ چکی تھی۔لیکن اس کی باتوں نے نریم کو خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔
         ♤          ♤           ♤
واؤ آنٹی اٹس سو بیوٹیفل یہ خویلی باہر سے جتنی خوبصورت ہے، اندر سے اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ رامیہ جونہی خویلی میں داخل ہوئی۔ اس کی آنکھیں کھولی کی کھولی رہ گئی۔ اس لیے ان کی طرف دیکھ کر خوشی سے چہکتے ہوئے بولی۔
اس کی بات پر صائمہ اور افشال کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
اچھا افشال جاؤ۔ رامیہ کو اوپر کمرے میں لے جاؤ، اگر یہ زیادہ دیر کھڑی رہی تو اس کے پاؤں میں درد شروع ہو جائے گا۔ میں ابھی تھوڑی دیر میں سوپ بنا کر لاتی ہوں۔ صائمہ اسے بامشکل کھڑے ہوتے دیکھ کر فوراً فکرمند لہجے میں افشال سے بولی۔
نہیں آنٹی اس کی ضرورت نہیں۔ سچی مجھے بھوک نہیں ہے۔ میرا بالکل بھی دل نہیں کر رہا ابھی کچھ  بھی کھانے کو۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیوں دل نہیں کر رہا۔ دوپہر کو بھی، میں تمہارے لیے فروٹس لے کر آئی تھی۔ تم اس وقت سو رہی تھی۔ صبح بھی تم نے ایک سوپ کا پیالہ پیا تھا۔ ابھی بھی تم کہہ رہی ہو۔ تمہیں بھوک نہیں۔ اس معاملے میں' میں تمہاری ایک بات نہیں سنوں گی۔ میں سوپ بنانے جارہی ہوں۔ چپ چاپ پی لینا۔ پھر تم نے میڈیسن بھی لینی ہے۔ صائمہ اسے بارعب لہجے میں تنبہیہ کرتے ہوئے بولی۔
آنٹی کتنی اچھی ہے۔ بالکل میری ماما کی طرح میرا خیال رکھتی ہے۔ رامیہ دل ہی دل میں بولی۔ ان کی پیار بھری ڈانٹ سن کر رامیہ کو شدت سے اپنی ماما کی یاد آئی تھى۔
ماما آپ لوگ آ گئے۔
اس سے پہلے رامیہ آواز کی سمت دیکھتی، کہ اتنی دیر میں ،مشعال ان کے پاس آ گئی۔
رامیہ آپی یہ میری بڑی بہن مشعال آپی ہے۔ افشال نے فوراً تعارف کرایا۔
اسلام علیکم ! رامیہ نے فورا سلام کیا۔
وعلیکم اسلام ! اب کیسی طبیعت ہے تمہاری ؟
میں اب پہلے سے بہتر فیل کر رہی ہوں۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
صائمہ انہیں باتوں میں مگن دیکھ کر مسکرا کر کچن کی طرف چلی گئی۔
رامیہ میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں۔ تم نے میری بہن کی جان بچا کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ آپ سب لوگ اب بار بار میرا شکریہ ادا کر کے مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ ایک طرف آپ مجھے اپنا سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف مجھے پرایا بھی کر دیتے ہیں۔ مشعال کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی وہ فوراً شکوہ کن لہجے میں بولی۔
اچھا ٹھیک ہے اب نہیں بولتی۔ اسے ناراض ہوتے دیکھ کر مشعال فوراً بولی۔
رامیہ میں نے افشال کے منہ سے تمہاری اور ضوفیرہ کی اتنی تعریفیں سنیں ہیں۔ کہ میرا تو کب سے شدت سے دل کر رہا تھا۔ تم دونوں سے ملنے کا۔ رامیہ جتنی تم خوبصورت ہو۔ اتنی تم باتیں بھی بہت اچھی کرتی ہو۔ وہ پیار سے اس کے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
ویسے ضوفیرہ کہاں ہے ؟ وہ نظر نہیں آ رہی۔
مشعال آپی وہ عمیر بھائی جان کے ساتھ آرہی ہیں۔ رامیہ کی بجائے افشال فوراً بولی۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔ ؟ افشال تمہیں پتہ تو ہے اس کی عادت کا، اب وہ سارے راستے اس بیچاری کو تنگ کرتے ہوئے آئے گا۔ مشعال فکر مند لہجے میں بولی۔
مشعال آپی آپ پریشان نہ ہو۔ خالہ جانی نے اسے سمجھا دیا تھا۔ وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔ وہ مشعال کو اطمینان دلاتے ہوئے بولی۔
اللہ کریں ایسا ہی ہو۔ اچھا تم جاؤ، رامیہ کو اوپر روم میں لے جاؤ۔ مشعال نے ان دونوں کو تو اوپر بھیج دیا تھا۔ لیکن خود دل ہی دل میں پریشان تھی، کیونکہ وہ عمیر کی عادت کو اچھے سے جانتی تھی۔ آخر کار اس کا بھائی جو تھا۔ جب تک وہ کسی کو تنگ نہ کر لے۔ اس کاکھانا کہاں ہضم ہوتا تھا۔
                                                ♤           ♤         ♤ 
ضوفی میں کافی دیر سے تم سے بات کر رہا ہوں۔ تم ہو کہ میری کسی بات کا جواب ہی نہیں دے رہی۔ وہ جو کب سے سیٹ سے ٹیک لگائے آنکھیں موندھے لیٹی ہوئی تھی، اور مسلسل اس کی باتوں کو اگنور کر رہی تھی۔ کہ اب بھی عمیر کے بلانے پر دھیان نہ دیا۔ وہ جنجھلا کر رہ گیا، کہ فوراً اسی وقت اس کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا۔ اس کی آنکھیں خوشی کے مارے چمکیں۔
ضوفی اگر میں کہوں کہ میں نے تمہیں کڈنیپ کر لیا ہے۔ تم اس وقت کڈنیپ ہو چکی ہو تو ؟
کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ جو آنکھیں بند کر کے سکون سے لیٹی ہوئی تھی۔ کہ اس کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکلی۔ اس کی بات سن کر' اس نے فوراً ڈر کے مارے اپنی آنکھیں کھولی۔
اس کے ری ایکشن پر عمیر کو اندر ہی اندر  بہت ہنسی آئی۔ کیونکہ افشال نے  پہلے ہی گھر میں ان دونوں بہنوں کے  بارے  سب کو بتایا ہوا تھا۔ کہ وہ پاکستان میں فرسٹ ٹائم آوٹنگ پر آئی ہے، اور عمیر یہ بات اچھے سے جانتا تھا۔ ضوفیرہ کو راستوں کا بھی اتنا علم نہیں ہوگا۔ اسی بات کا اس نے فائدہ اٹھایا تھا۔ جس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو گیا تھا۔

کیونکہ ضوفیرہ کو واقع ہی نہیں پتہ تھا۔ کہ وہ جس راستے سے جا رہا تھا۔ وہ خویلی کی طرف ہی جاتا ہے۔
دیکھے عمیر آپ مجھے کڈنیپ نہیں کر سکتے۔ وہ آنکھوں میں خوف لیے اسے تنبہیہ کرتے ہوئے۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟ کیوں نہیں کر سکتا ؟ وہ خیرت اور شوخ بھری مسکراہٹ لیے بولا۔
اگر آپ نے ایسا کیا تو میں ابھی رامی کو کال کروں گی، اور وہ آپ کی خالہ کو ساری سچائی بتا دیں گی۔ وہ جو اندر ہی اندر ڈر رہی تھی۔ اس کے سامنے خود کو مضبوط بناتے ہوئے غصے سے دھمکی دیتے ہوئے بولی۔
عمیر نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ لیکن اسے کسی کو فون ملاتے دیکھ کر فوراً اس کے ہاتھ سے موبائل چھینا۔ تم نے کیا سوچا' میں تمہیں اتنی آسانی سے فون کرنے دوں گا۔ وہ اس کا موبائل ہاتھ میں گماتے ہوئے شرارت بھری مسکراہٹ سے بولا۔
عمیر میرا موبائل واپس کریں۔ مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ۔ وہ ڈر اور خوف سے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے سخت لہجے میں بولی، اور اس کے ہاتھ سے اپنا موبائل لینے ہی لگی۔ کہ عمیر نے وہ ہاتھ فورا پیچھے کیا۔
موبائل تو تمہیں نہیں ملے گا۔ جہاں تک میرے ساتھ نہ جانے کی بات ہے۔ اب تو تمہیں میرے ساتھ ہی جانا ہو گا۔ آخر تمہیں کڈنیپ کر کے اتنی آسانی سے تو نہیں نہ چھوڑوں گا۔ عمیر اس کے چہرے پر ڈر اور خوف کے ملے جلے تصورات دیکھ کر اسے اور ڈراتے ہوئے بولا۔
پلیز سٹاپ دا کار، مجھے نہیں جانا "آپ کے ساتھ "اس بار ضوفیرہ کی ہمت نے جواب دے دیا تھا۔ اس لیے وہ دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر روتے ہوئے بولی۔
اسے روتے دیکھ کر عمیر ایک دم بوکھلایا۔ اسے بالکل اُمید نہیں تھی۔ کہ ایک چھوٹے سے مذاق سے وہ اس طرح ری ایکٹ کرے گی۔ گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔
ضوفی میں مذاق کر رہا تھا۔ محض صرف تمہیں تنگ کرنے کے لیے۔ دیکھو ہم اس وقت خویلی میں ہی ہے۔ عمیر مکمل اس کی طرف رخ کر کے بیٹھتے ہوئے نہایت سنجیدگی سے بولا۔
ضوفیرہ جو مسلسل رونے میں مصروف تھی۔ کہ اس کی بات سن کر فوراً چہرے سے ہاتھ اٹھا کر اوپر دیکھا، تو واقع ہی گاڑی ایک بڑی سی خویلی کے باہر کھڑی تھی۔ لیکن پھر بھی اس نے آنکھوں میں آنسوں لیے تشویش بھری نظروں سے عمیر کی طرف دیکھا۔ 
ارے اب ایسے تو مت دیکھو۔ میں سچ بول رہا ہوں۔ اگر تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے۔ تو یہ لو اپنا موبائل پکڑو اور میری خالہ کو فون لگا کر کہو۔ تمہیں خویلی کے باہر ہی آ کر لے جائے۔ اسے اپنی طرف شک بھری نظروں سے دیکھتا پا کر عمیر فوراً اپنی بے گناہی کا ثبوت دیتے ہوئے بولا۔
ضوفیرہ نے فوراً اس کے ہاتھ سے اپنا موبائل چھینا، اور گاڑی کا دروازہ کھول کر نکلنے ہی لگی تھی۔ کہ عمیر نے فوراً اس کا ہاتھ اپنی آہنی گرفت میں لیا۔
اگر تم ایسے روتے ہوئے اندرگئی۔ تو میری شامت آ جائے گی۔ اس لیے یہ لو اپنے آنسو صاف کرو۔ اسے اپنی طرف خیرت سے دیکھتا پا کر۔ عمیر دوسرے ہاتھ سے اپنی پاکٹ سے رومال نکال کر اسے دیتے ہوئے بولا۔
میرا ہاتھ چھوڑیں، مجھے آپ کی کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ ضوفیرہ اپنا ہاتھ چھڑانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے غصے سے بولی۔ لیکن آنکھوں میں آنسو اب بھی رواں تھے۔
میں بھی اس وقت تک تمہارا ہاتھ نہیں چھوڑوں گا۔ جب تک تم رونا بند نہیں کرتی، اور اس رومال سے اپنے آنسو صاف نہیں کر لیتی۔ وہ بھی اس کی طرف دیکھ کر اٹل لہجے میں بولا۔
ضوفیرہ نے روتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑانے کی ایک آخری بار کوشش کی۔ لیکن گرفت مضبوط تھی۔ آخرکار ہار مانتے ہوئے۔ اس نے فوراً  اس کے ہاتھ سے رومال لیا، اور اپنے آنسوں صاف کرتے ہوئے غصے سے دوبارہ اس کی جھولی میں پھینک دیا۔
عمیر جو بڑی دلچسپی سے یہ ساری کروائی دیکھ رہا تھا۔ کہ اس کے ایسا کرنے سے ایک پل کے لیے چونکا۔ اس کی گرفت ہاتھ پر ہلکی ہوئی۔
ضوفیرہ اپنے ہاتھ پر اس کی گرفت ہلکی ہوتے دیکھی۔ تو اس نے فوراً اس بات کا فائدہ اٹھایا، اور اپنا ہاتھ چھڑاتے ہی گاڑی کا دروازہ کھول کر فوراً وہاں سے بھاگی۔
اسے اس طرح بھاگتے دیکھ کر عمیر نے مسکراتے ہوئے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا، اور رومال اپنی پاکٹ میں رکھ لیا۔
                                      ♤          ♤           ♤
ضوفیرہ بھاگتے ہوئے اندر آئی تو اس کا پہلا ٹکراؤ مشعال سے ہی ہوا۔
ارے ضوفیرہ تم آ گئی۔
ضوفیرہ نے آنکھوں میں خیرت لیے، ان کی طرف دیکھا۔
ضوفیرہ اتنا خیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ "میں مشعال" افشال کی بڑی بہن۔ وہ شاید ضوفیرہ کی پریشانی بھانپ گئی تھی۔ اس لیے فوراً بولی۔
اوں ایم سو سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ ضوفیرہ ہونٹوں پر زبردستی مسکراہٹ سجا کر معذرت کرتے ہوئے بولی۔
اس میں سوری کہنے والی کیا بات ہے۔ ظاہر ہے فرسٹ ٹائم ملی ہو، پہچانو گی کیسے۔ اسے شرمندہ دیکھ کر مشعال مسکرا کر بولی، اور ویسے بھی تم اتنی گبھرائی ہوئی کیوں لگ رہی ہو ؟
تمہاری آنکھیں بھی سوجھی ہوئی ہے۔ کیا تم روئی ہو ؟
نہیں تو وہ میں ابھی باہر سے آئی ہوں "نا" اس لیے آنکھوں میں کچھ چلا گیا ہو گا۔ وہ اپنی چوری پکڑی جانے پر ایک دم گبھرائی، اور فوراً بہانہ بناتے ہوئے بولی۔

اچھا ٹھیک ہے تم تھک گئی ہو گی۔ جاؤ جا کر آرام کرو۔ میں اتنی دیر میں تمہارے لیے کھانا لے کر آتی ہوں۔ مشعال کو اس کی بات پر یقین تو نہیں آیا۔ لیکن پھر  بھی اس سے پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔
وہ کمرہ کون سا ہوگا ؟
مشعال جانے ہی لگی، کہ اس کی آواز پر رکی۔
اوں ایم سوری میں نے تمہیں کمرا تو بتایا ہی نہیں۔ آؤ تمہیں چھوڑ آتی ہوں۔
نہیں نہیں آپ زخمت نہ کریں۔ آپ مجھے بتا دے، میں چلی جاؤں گی۔
مشعال اس کی بات پر مسکرائی، اور اسے کمرے کا بتا کر وہاں سے چلی گئی۔
                                      ♤            ♤           ♤
ٹرن۔۔۔۔۔۔ٹرن۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنی رات کو اب کس کی کال ہے۔ سکون سے سونے بھی نہیں دیتے۔ نریم نیند میں ہی بربڑائی۔ پھر پاس ہی ٹیبل پر پڑا موبائل اٹھا کر بنا دیکھے پش کا بٹن دبا کر کان سے لگایا۔ یہ بھی نہ دیکھا کس کی کال تھی۔
ہیلو ! وہ اکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔
شکر ہے تم نے میری کال تو اٹھائی۔ تمہیں پتہ ہے تمہاری کال اٹھانے سے پہلے میں یہی دعا مانگ رہا تھا۔ لیکن مجھے کیا پتہ تھا۔ میری دعا اتنی جلدی قبول ہو جائے گی، اور یہ کیا میری نیند اڑا کر تم خود سکون سے سو رہی ہو۔
آپ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ جو آرام و سکون سے لیٹی ہوئی تھی۔ دوسری طرف اسی شخص کی آواز سنتے ہی، فوراً اس کی آنکھیں خیرت کے مارے کھولی اور وہ اٹھ کر بیٹھی، اور اپنی عقل پر ماتم بھی کیا۔ آخر اس نے کیوں بنا دیکھے کال اٹھائی۔
دیکھیں آپ کیوں ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑھ گئے ہیں ؟ میں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے ؟ شرم آنی چاہیںے آپ کو اتنی رات کو شریف لڑکیوں کو تنگ کرتے ہوئے۔ وہ بے بسی اور زہر خند لہجے میں بولی۔
مجھے پتہ ہے تم شریف لڑکى ہو۔ لیکن نریم میرا بھی شریف گھرانے سے تعلق ہے، اور میں بھی ایک شریف لڑکا ہوں۔ وہ خوشگوار لہجے میں اسے باور کراتے ہوئے بولا۔
اگر آپ اتنے شریف ہے تو آپ کو شرم آنی چاہںیے۔ اتنی رات کو انجان لڑکی کو تنگ کرتے ہوئے۔ وہ  غصے سے لب بھینچتے ہوئے بولی۔
تم میرے لیے انجان تو نہیں ہو۔
اگر میں آپ کے لیے انجان نہیں ہوں، تو کیا لگتی ہوں"آپ کی" نریم نے طنزیہ بھرے لہجے میں استفسار کیا۔
تم میری گرل فرینڈ ہو !
ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ں میں آپ کی گرل فرینڈ کب بنی ؟ وہ کچھ معصومیت اور کچھ غصے کے ملے جلے تصورات سے بولی۔
نریم کے لمبا سا ہاں بولنے پر دوسری طرف اس شخص کا بھرپور قہقہہ گونجا۔ تو بن جاؤ "نا" وہ آس بھرے لہجے میں بولا۔
اس کی باتوں سے نریم کا پارہ ہائی ہو رہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا۔ کہ اس کا دماغ غصے سے پھٹ جائے گا۔ اس کا دل کر رہا تھا اگر وہ سامنے ہوتا، تو وہ اس کا کچومڑ بنا دیتی۔


تو یہ رہی میری آج کی ایپیسوڈ اُمید ہے آپ سب لوگوں کو پسند آئیں گی😊۔ پلیز مجھے کمینٹ میں ضرور بتائیے گا😁،اور نیچے میں نے یوٹوب چینل کا لینک دیا ہے👇٠

        پلیز میرے چینل کو بھی   سبسکرائب اور میری ویڈیو کو لائیک ضرور کیجئیے گا😁۔


Posta un commento

3 Commenti

Commento

Parvish novel

PARIVISH Episode 31 (پری وش)