Advertisement

Adbox

PARIVISH Episode 10 ( پری وش)

                  Parivish

                  (پری وش)

# Novel by Parivish

# Writer; Aima Ashfaq

# Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel

# Please Don't Copypaste My Novel

# Episode 10: 

                              ارے آپ ٹھیک ہے۔ آپ کے سر سے تو بہت خون نکل رہا ہے۔ وہ لڑکی فوراً رامیہ کے پاس جا کر پریشانی سے بولی۔

                               نو آئی ایم فائن۔

رامی یہ سب کیا تھا ؟ تم پاگل ہو گئی ہو۔ اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو۔ ضوفیرہ جو دور کھڑی یہ سب منظر دیکھ رہی تھی۔ اس سے خود  سمجھ نہ آئی اچانک یہ سب ہوا کیا تھا۔ وہ بھاگتے ہوئے رامیہ کے پاس آئی اور اسے گلے لگاتے ہوئے بولی۔

ضوفی تم پریشان نہ ہو۔ میں ٹھیک ہوں۔ 

ارے رامی تمہارے سر سے تو خون بھی نکل رہا ہے۔ وہ اسے الگ ہوئی تو اس کے سر سے خون نکلتا دیکھ کر آنکھوں میں آنسو لیے فوراً فکر مند لہجے میں بولی۔ 

ایم سوری یہ سب میری وجہ سے ہوا۔ اگر میں بے دھیانی سے نہ چل رہی ہوتی، تو ایسا نہ ہوتا۔ ایم رئیلی سوری۔ افشال شرمندہ ہوئی۔

نہیں نہیں آپ گِلٹی کیوں فِیل کر رہی ہے۔ میں ٹھیک ہوں۔ اسے شرمندہ دیکھ کر رامیہ فوراً بولی۔ 

رامی فوراً اٹھو ہم ابھی ہاسپیٹل جا رہے ہیں۔ ضوفیرہ جو مسلسل رو رہی تھی۔ اس سے اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔

آں۔۔۔۔۔۔ں نہیں ضوفی مجھ سے نہیں اٹھا جائے گا۔ مجھے لگتا ہے، میرے پاؤں پر بھی موچ آئی ہے۔ وہ جیسے ہی اٹھنے لگی۔ کہ اس کے پاؤں میں درد کی ٹھیس اٹھی تو دوبارہ بیٹھتے ہوئے بولی۔ اس سے پہلے ضوفیرہ اسے کچھ کہتی، ایک گاڑی ان کے پاس آ کر روکی۔

اس میں سے خارب کو نکلتا دیکھ کر افشال فوراً اس کی طرف لپکی، اور اس کے گلے لگ کر رونے لگ پڑی۔

افشال میرا بچہ کیا ہوا۔ تم اس طرح کیوں رو رہی ہو ؟ اور ابھی تک گھر کیوں نہیں گئی۔

وہ خارب بھائی جان میرا چھوٹا سا ایکسیڈینٹ ہو گیا تھا۔ وہ فوراً اس سے الگ ہو کر دونوں ہاتھوں سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔

کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ تم ٹھیک ہو ؟ تمہیں کہیں چوٹ تو نہیں لگی ؟  اور کیسے ہوا ایکسیڈینٹ ؟ وہ پریشانی سے اس کا چہرہ اور دونوں بازو چیک کرتے ہوئے بولا۔ 

خارب بھائی جان میں ٹھیک ہوں۔ مگر جن کی وجہ سے میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ رامیہ کی طرف دیکھ کر ابھی اپنی بات مکمل کرنے ہی لگی تھی۔کہ خارب اس کی نظروں کا زاویہ ایک لڑکی کی طرف دیکھ کر فوراً اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔ تو یہ ہے وہ محترمہ جن کی گاڑی سے تمہارا ایکسیڈینٹ ہونے والا تھا۔ لیکن ان کو دیکھ کرلگ رہا ہے۔ خود ہی اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھی ہے۔ کھولے ہوئے براؤن سلکی بال، جو کافی لمبے تھے۔ سفید چہرہ، ڈارک براؤن بڑی بڑی آنکھیں، لمبی پتلی ناک، گلابی ہونٹ، لائیٹ بلیو جینز، بلیک ٹاپ، اور گلے میں وائٹ سکارف لیے۔ اسے دیکھ کر لگ نہیں رہا تھا۔ وہ یہاں کی ہے۔ خارب غصے سے اس کا مکمل جائزہ لیتے ہوئے بولا۔

      رامیہ نے فوراً نظریں اٹھا کر دیکھا۔

رعب دار آواز۔۔۔۔۔۔۔۔بڑی نفاست سے بنائے گے کالے بال، بلیک پینٹ کوٹ میں مبلوس، وہ شاندار پرسنیلٹی کا مالک آنکھوں میں غرور اور غصہ لیے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔

نہیں خارب بھائی جان میری بات سنیں۔ افشال اسے غلط فہمی میں مبتلا دیکھ کر فوراً بولی۔

نہیں افشال ان کے ساتھ ایسے ہی ہونا چاہیے تھا۔ اگر ان محترمہ کو گاڑی چلانی نہیں آتی، تو پھر چلائی کیوں۔ میرا تو دل کر رہا ہے۔ کہ ابھی پولیس کو کال کرکے ان کو ان کے حوالے کروں۔ لیکن ان کو دیکھ کر لگ رہا ہے۔ خود ہی سزا مل گئی۔ اس کا اشارہ رامیہ کے سر پر لگی چوٹ کی طرف تھا۔

چلو ! وہ افشال کا ہاتھ پکڑ کر اسے گاڑی میں بیٹھانے ہی لگا تھا کہ رامیہ کی آواز پر رکا۔

اے مسٹر ! ت۔۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔خو۔۔۔۔۔۔خود کو سمجھتے کیا ہو۔ وہ ایک ہاتھ سے اپنا سر پکڑے بمشکل اپنی آنکھیں کھولتی، اٹکتی ہوئی آواز میں بولی۔ اپنی بہن کی پوری بات۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے پہلے اس کا جملہ مکمل ہوتا۔ کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرہ چھا گیا، اور وہ بے ہوش ہو گى۔

رامی۔۔۔۔۔۔رامی۔۔۔۔۔۔رامی پلیز اوپن یور آئز۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز رامی اسے بے ہوش ہوتے دیکھ کر  ضوفیرہ روتے ہوئے اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے بولی۔

    ہیلپ می۔۔۔۔۔پلیز  ہیلپ می۔۔۔۔۔۔۔

خارب بھائی جان آپ کو کیا ہو گیا۔ یہ آپ کیا کر رہے ہے۔ افشال جو کھڑی یہ ساری کاروائی دیکھ رہی تھی۔ فوراً خارب کےہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے بولی۔

آپ اتنے خود غرض کیسے ہو سکتے ہے۔ آپ اسی لڑکی کو زخمی خالت میں چھوڑ کرجا رہے ہے۔ جس نے آپ کی بہن کی جان بچائی۔ اس کی یہ جو حالت ہے۔ صرف میری وجہ سے ہے۔ یہ چوٹیں اسے صرف میری وجہ سے لگی ہے۔ آج یہ لڑکی نہ ہوتی، تو آپ کی بہن آپ کے سامنے زندہ سلامت نہ کھڑی ہوتی۔ 

یہ کیا کہہ رہی ہو افشال تم ؟ وہ ایک پل کے لیے ساکت رہ گیا، اور خیرت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ 

میں سچ کہہ رہی ہوں خارب بھائی جان۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی۔ وہ روتے ہوئے بولی۔ 

       یہ کیا ہوگیا مجھ سے ؟

                   یہ میں نے کیا کیا ؟

وہ پریشانی سے اپنے بالوں پر ہاتھ پھرتے ہوئے خود سے ہی بڑبڑایا۔

خارب فوراً رامیہ کی طرف لپکا اور اس کے بے ہوش وجود کو اٹھا کر گاڑی کی طرف بڑھا اور پچھلی سیٹ پر لٹا دیا۔ ضوفیرہ بھی فوراً پچھلی سیٹ پر بیٹھی اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ 

جبکہ افشال خارب کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی۔ سارے راستے افشال پیچھے مڑ کر دیکھتی تو ضوفیرہ کو روتے دیکھ کر شرمندگی کے مارے چہرہ اَگے کر لیتی۔ 

          ♤        ♤        ♤

آں۔۔۔۔۔۔۔ں رامیہ نے جب اپنی آنکھیں کھولی تو خود کو ہاسپیٹل میں پایا۔

رامی تم ٹھیک ہو۔ ضوفیرہ جو اس کے بیڈ کے پاس ہی چیر پر بیٹھی فون پر کسی سے بات کر رہی تھی۔ کہ اسے اٹھتا دیکھ کر فوراً کھڑی ہو کر بولی۔

ہاں ضوفی میں ٹھیک ہوں۔ بس تھوڑا سا سر میں درد ہے۔ وہ سر پر ہاتھ رکھے، اٹھنے کی کوشش کرتی ہوئی بولی۔

رامی لیٹی رہو۔ ابھی تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اسے لیٹے رہنے کی تلقین کرتی فکر مند  لہجے میں بولی۔ 

ضوفی میں اب ٹھیک ہوں۔ پریشان نہ ہو۔ میں بس تھوڑی دیر بیٹھنا چاہتی ہوں۔

ضوفی کیا تم روتی رہی ہو ؟ اس کی سوجھی ہوئی آنکھیں دیکھ کر وہ فورًا بولی۔ 

رامی یہ لو نمی سے بات کرو۔ وہ تمہاری وجہ سے بہت پریشان ہے۔ میں ابھی ڈاکڑ کو بلا کر آئی۔ وہ اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولی۔

پر ضوفی اب میں ٹھیک ہوں۔ لیکن وہ اس کی کوئی بھی بات سنے بغیر موبائل پکڑا کر کمرے سے چلی گئی۔

ہیلو ! اس کے جاتے ہی رامیہ نے موبائل کان سے لگایا۔

ہیلو ! رامی اب کیسی طبیعت ہے تمہاری ؟ تم نے تو ہمیں ڈرا کر ہی رکھ دیا تھا۔ اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو ؟ لیکن تمہیں اس سے کیا ؟

ارے۔۔۔۔۔۔۔ارے۔۔۔۔۔۔۔ بس بس اب میں ٹھیک ہوں۔

رامی ابھی تم پاکستان پہنچی ہی ہو۔ تو تم نے اپنا ایکسیڈینٹ کروا لیا۔ اگے پتہ نہیں کَیاکَیا ہو گا۔ بلال انکل بلکل ٹھیک کرتے تھے۔ کہ تمہیں پاکستان جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ وہ اسے زبردست ڈپٹتے ہوئے بولی۔

نمی اب بس بھی کرو اور کتنا ڈانٹو گی۔ 

رامی اگر تم میرے سامنے ہوتی۔ تو میں تمہیں تھپڑ لگانے سے بھی گریز نہ کرتی۔

اچھا ناں سوری۔ وہ ابھی بول ہی رہی تھی۔ کہ اس کی نظر دروازے میں کھڑی افشال پر گئی۔

افشال تم وہاں کیوں کھڑی ہو۔ اندر آؤ "نا" نمی میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں۔ افشال کو اندر آنے کا کہہ کر وہ فوراً نریم سے بولی۔

اچھا ٹھیک ہے۔ لیکن اب اپنا خیال رکھنا۔ خداخافظ۔

اب آپ کی طبیعت کیسی ہے۔ فون بند ہوتے ہی افشال نے فوراً پوچھا۔

اب میں ٹھیک ہوں۔ بس سر میں تھوڑا درد ہے۔ لیکن وہ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ خوش اخلاقی سے بولی۔

ایم سوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ چہرہ نیچے کیے شرمندگی سے بولی۔

دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔بار بار سوری بول کر اب تم مجھے شرمندہ کر رہی ہو۔ اس طرح تو میری نیکی بھی ضائع ہو جائے گی۔

کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں۔ وہ چیر کی طرف اشارہ کر کے بولی۔

او سو سوری باتوں باتوں میں ، میں نے تمہیں بیٹھنے کا تو کہا ہی نہیں۔ یا شیور بیٹھو"نا" 

     آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہے ؟ وہ آنکھوں میں خیرت لیے بیٹھتے ہوئے بولی رامیہ اس کی بات پر مسکرائی۔

ایکسیڈینٹ کے وقت تمہاری فرینڈ نے تمہارا نام لیا تھا۔ بس تب سے میرے ذہن میں رہ گیا۔ 

اگر میں آپ سے ایک اور سوال پوچھوں تو آپ کو برا تو نہیں لگے گا۔

    ہاں پوچھو ! لیکن میری ایک شرط ہے۔

     وہ کیا ؟ وہ خیرانی سے بولی۔

وہ یہ کہ تم ایسے ڈر ڈر کر میرے سے کوئی سوال نہیں پوچھو گی، اور پوچھنے سے پہلے یہ نہیں کہو گی۔ کیا میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتی ہوں۔ تم مجھے اپنی دوست یا اپنی بہن سمجھ کر بلا جھجک کوئی بھی سوال کر سکتی ہو۔ رامیہ اسے تنبہیہ کرتے ہوئے بولی۔

اوکے اب نہیں بولوں گی۔ لیکن آپ پاکستان کی تو نہیں لگتی ؟

اچھا۔۔۔۔۔۔۔؟ اس کی بات پر رامیہ کھل کر مسکرائی۔

مگر ہے میں پاکستانی۔ لیکن رہتی میں امریکہ ہوں۔

آپ پاکستان پہلی دفعہ آئی ہیں۔ اس نے ایک اور سوال کیا۔

نہیں پہلی دفعہ تو نہیں۔ لیکن پہلی دفعہ دیکھوں گی ضرور۔

کیا مطلب۔۔۔۔۔؟ مجھے سمجھ نہیں آئی۔ افشال نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔

میرا مطلب یہ ہے۔ کہ میں پاکستان میں رہتی تھی۔مگر صرف مری میں ، مری کے علاوہ میں نے کوئی اور سِٹی دیکھی ہی نہیں۔ مری میں بھی ہم تھوڑا عرصہ ہی رہے۔ کہ پھر ہم امریکہ چلے گے۔ اس لیے ہم نے زیادہ وقت امریکہ میں ہی گزاره ہے۔ مگر بچپن سے میرا بڑا دل کرتا تھا۔ کہ مری کے علاوہ بھی پاکستان کی ہر ایک ایک جگہ دیکھوں۔ ابھی بھی میں ڈیڈ سے ضد کر کے پاکستان آئی ہوں۔ کل ہم ایئر پورٹ سے ہی آ رہے تھے۔ رامیہ اسے وضاحت دیتے ہوئی بولی۔

آپ امریکہ میں رہتی ہے پھر بھی آپ نے اپنے بال نہیں کٹوائے۔ آپ کے بال کتنے لمبے اور خوبصورت ہے۔

تھینک یو سو مچ افشال۔ میں نے امریکہ میں رہ کر بھی، اس لیے اپنے بال نہیں کٹوائے۔ کیونکہ میری ماما کو میرے لمبے بال بہت پسند تھے۔ رامیہ مسکرا کر بولی۔

یہ جونسی آپ کے ساتھ لڑکی تھی۔ یہ آپ کی سسٹر ہے ؟

            یس شی از مائے سسٹر۔

         ان کا نام کیا ہے ؟

ضوفیرہ لیکن میں اسے پیار سے ضوفی بلاتی ہوں۔ رامیہ اس کے چھوٹے چھوٹے سوالوں کا مسکرا کر جواب دے رہی تھی۔

            اور آپ کا نام کیا ہے ؟

          میرا نام رامیہ ہے۔ 

او سوری میں آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کر رہی۔ وہ خیال آتے ہی فوراً بولی۔

ارے نہیں بلکہ مجھے تو اچھا لگ رہا ہے۔ تم سے بات کر کے۔ رامیہ اسے شرمندہ دیکھ کر فوراً بولی۔ 

افشال تم کالج میں کون سے ائیر میں پڑتی ہو۔ اس بار سوال رامیہ کی طرف سے تھا۔ 

میں فرسٹ ائیر میں پڑتی ہوں، اور آپ ؟

        میں اور ضوفی فورتھ ائیر میں ہے۔

رامیہ ڈاکٹر صاحب آ رہے ہیں۔ ضوفیرہ کمرے آتے ہوئے بولی۔ لیکن رامیہ اور افشال کو ہنستے ہوئے باتیں کرتی دیکھ کر وہی رک گئی۔

ضوفی میں نے تمہیں بولا بھی تھا۔ اب میں ٹھیک ہوں، اور گھر جانا چاہتی ہوں۔

ارے افشال تم کھڑی کیوں ہو گی۔ ابھی وہ ضوفیرہ سے بات کر ہی رہی تھی، کہ افشال کو کھڑے ہوتے دیکھ کر فوراً بولی۔


یہ رہی میری آج کی ایپیسوڈ اُمید ہے۔ آپ سب لوگوں کو پسند آئے گی۔ پلیز مجھے کمینٹ میں ضرور بتائیے گا۔









Posta un commento

1 Commenti

Commento

Parvish novel

PARIVISH Episode 31 (پری وش)