# Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel
# Please Don't Copypaste My Novel
# Episode: 9
نہیں رامی ایسی بات نہیں ہے۔ اصل میں میرے چاچو اور ان کی فیملی سپین میں ہوتی ہے۔ اس لیے ماما پاپا وہاں گئے ہوئے ہیں۔ اور گھر میں سوائے ملازموں کے کوئی بھی نہیں ہیں۔ اسے ناراض ہوتے دیکھ کر نریم نے فوراً وضاحت دی۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔نریم یہ تم کیا کہ رہی ہو۔ پلیز ایسے تو مت کہو۔ اتنی مشکل سے ڈیڈ نے پاکستان جانے کی اجازت دی ہے۔ وہ منہ لٹکا کر رونے والے انداز میں بولی۔
رامی یہ تم نے کَیاکِیا۔انکل سے یہ سب کہنے سے پہلے ایک دفعہ نریم سے پوچھ تو لیتی۔ اب تمہاری سزا یہ ہے۔ کہ تم سب کچھ جا کر بلال انکل کو بتا دو۔ اس بار ضوفیرہ کی غصے بھری آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
نہیں ضوفی میں ڈیڈ کوکچھ نہیں بتاؤ گی۔ اتنی مشکل سے تو پاکستان جانے کی اجازت ملی ہے۔ میں یہ موقع نہیں گنواؤں گی۔ جب ہم پاکستان جائیں گے۔ خود ہی کوئی نہ کوئی حل نکال لیں گے۔
رامی تم پاگل ہوگئی ہو۔ سوچنا بھی مت میں تمہارے ساتھ ایسے جاؤں گی۔ ہم وہاں کسی کو جانتے بھی نہیں ہیں۔ ہم رہیں گے کہاں ۔ وہ اسے وارن کرتے ہوئے بولی۔
گائز سٹاپ میرے پاس ایک حل ہے۔ ان کو لڑتے دیکھ کر نریم فوراً چیخ کر بولی۔
کیا سچ۔۔۔۔۔۔نمی پھر جلدی سے بتاو"نا"، رامیہ خوش ہوتے ہوئے بولی۔
میرے پاس میری ملازمہ کا نمبر ہے۔ میں اسے کال کر کے کہتی ہوں۔ میرے کچھ مہمان آرہے ہیں۔ کچھ دن رہنے کے لیے۔ میں تم دونوں کو اپنے گھر کا اڈریس بتا دونگی۔
ہائے نمی تم کتنی اچھی ہو۔ تم نے تو ہماری مشکل ہی حل کر دی۔ یو آر مائے ٹرو فرینڈ۔ رامیہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی۔ اسے خوش دیکھ کر نریم اور ضوفیرہ کے ہونٹوں پر بھی مسکرہٹ پھیل گئی۔
♤ ♤ ♤
نریم سے ان کی ملاقات کالج میں ہوئی تھی۔
رامی تم کل کالج نہیں نہ آئی تھی۔ ہماری کلاس میں ایک نیو لڑکی آئی ہے۔
نیو لڑکی آئی ہے۔ تو اس میں، میں کیا کروں۔ رامیہ اس کی بات ہوا میں اڑاتے ہوئے بولی۔
تو یہ کہ ابھی جو خبر میں تم کو سناؤں گی۔ تو تم خوشی سے شاکڈ رہ جاؤ گی۔
وہ کیا۔۔۔۔۔۔؟ وہ چلتے چلتے روکی اور خیرت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
وہ یہ کہ وہ پاکستان سے ہے۔ اس نے اونچی آواز میں بول کر انکشاف کیا۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رامیہ خوشی اور خیرت کے مارے اتنی زور سے چیخی، کہ اردگرد بیٹھے سٹوڈینٹ فوراً ان کی طرف متوجہ ہوئے۔
ارے رامی آہستہ سب ہماری طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔
اُوپس سوری۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اردگرد دیکھا تو اسے فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
ضوفی کہاں ہے وہ مجھے ابھی اس سے ملنا ہے۔ اس بار وہ مدھم آواز میں بولی۔
وہ اس وقت لائبریری میں ہو گی۔ مگر ہم ابھی نہیں اس سے ملنے جائیں گے۔ تم بعد میں اس سے مل لینا۔
نہیں ضوفی ہم ابھی اس سے ملنے جا رہے ہیں۔ وہ اسے کھینچتی ہوئی وہاں سے لے گی۔ جبکہ وہ اسے نہ نہ کرتی رہ گئ۔
کہاں ہے وہ ؟ رامیہ اِردگِرد دیکھتے ہوئے بولی۔
وہ سامنے، اس نے سامنے کی طرف اشارہ کیا۔
رامیہ نے سامنے دیکھا، بلیو جینز، گارین کلر کا گھٹنوں تک آتا لمبا کرتا اور وائٹ حجاب میں وہ لڑکی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔
!ہائے نریم۔۔۔۔۔۔
ارے ضوفیرا تم، بیٹھو "نا"، کیسی ہو ؟
میں ٹھیک، تم کیسی ہو ؟
میں بھی ٹھیک، وہ مسکرا کر بولی۔
نریم اس سے ملو یہ میری فرینڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رامیہ ایم رئیٹ ؟ اس کے بولنے سے پہلے ہی نریم بولی۔
یس یو آر رئیٹ۔ رامیہ آنکھوں میں خیرت لیے مسکرا کر بولی۔
ضوفیرا نے آپ کے بارے میں اتنا کچھ بتایا ہے۔ اس لیے آپ کو دیکھتے ہی پہچان گئی۔ نریم اس کی آنکھوں میں خیرت دیکھ کر خوشی سے بولی۔
بائے داوے میرا نام نریم ہے۔ وہ مصافحے کے لیے ہاتھ بڑاتے ہوئے گرمجوشی سے بولی۔
ہیلو ! مجھے آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔ رامیہ بھی فوراً خوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولی۔
مجھے ضوفی نے بتایا آپ پاکستان سے ہے۔ اس لیے میں نے اور ضوفی نے سوچا ہے۔ آج سے تم بھی ہماری فرینڈ شپ گروپ میں شامل ہو سکتی ہو۔
ضوفیرا نے شاکڈ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ جیسے کہہ رہی ہو۔ میں نے تمہیں یہ سب کب کہا۔جبکہ رامیہ اسے نظر انداز کر کے دوبارہ نریم کی طرف متوجہ ہوئی۔
ویسے تو ضوفی اور میں ہی بیسٹ فرینڈ ہے۔ لیکن آج سے تم بھی ہو۔ تم سوچ رہی ہو گی۔ میں سیدھا آپ سے تم پر آ گئی ہوں۔ تو میرا سینس آف ہیومر ہے۔ کہ فرینڈز میں نو آپ واپ۔ رامیہ جوکب سے نان سٹاپ بول رہی تھی۔ ضوفیرہ اسے اشاروں ہی اشاروں میں منع کر رہی تھی۔ لیکن آج تک اس نے کبھی کسی کی سنی تھی۔ جو اب سنتی۔ جبکہ نریم جو کب سے اس کی مسکراتے ہوئے باتیں سن رہی تھی۔ اس سے بھی یہ نٹ کھٹ سی رامیہ بہت پسند آئی تھی۔
تو پھر آج سے یہ دوستی پکی۔ رامیہ فوراً اپنا ہاتھ اَگے کرتی ہوئی بولی۔ جس سے نریم نے ایک بھی لمحے کی تاخیر کیے بغیر اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ اب کی بار رامیہ نے ضوفیرہ کی طرف دیکھا۔ تو اس نے بھی مسکراتے ہوئے، ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
ویسے نریم تم اس وقت رہ کہا پر رہی ہو ؟
میں مجھے ابھی یہاں آئے ہوئے ایک ماہ ہی ہوا ہے۔ میں فرسٹ ٹائم یہاں آئی ہوں۔ تو میں یہاں کے بارے میں اتنا کچھ جانتی نہیں ہوں۔ میں ایک فلیٹ میں رہ رہی ہوں۔
او تو تم ایک فلیٹ میں رہ رہی ہو۔ تو تم ضوفی کے ساتھ فلیٹ کیوں نہیں شئیر کرتی۔ دیکھو وہ بھی اکیلے رہ رہی ہے فلیٹ میں، اگر تم بھی ساتھ ہوئی، ایسے تم دونوں کو ایک دوسرے کی کمپنی بھی مل جائے گی۔ رامیہ نے فوراً مشورہ دیا۔
اوکے اگر ضوفیرا کو برا نہ لگے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ بلکہ میرا تو سب سے بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ میں اپنی ماما کی ڈانٹ سے بچ جاؤں گی۔ وہ روزانہ مجھے فون کر کے کہتی ہے۔ واپس آ جاؤ، وہاں انجان لوگوں میں اکیلی کیسے رہ رہی ہو گی۔ نریم آنکھوں میں چمک لیے مسکرا کربولی۔
ارے نریم تم کیسی بات کر رہی ہو ۔ مجھے کیوں برا لگے گا۔ بلکہ مجھے تو خوشی ہو گی۔ ضوفیرا نے فوراً اس کی غلط فہمی دور کی۔
♤ ♤ ♤
نریم اپنے والدین کی اکلوتی ہے۔ اس کا رشتہ بچپن سے اپنے چچا زاد بیٹے سے طہ ہے ۔ اس سے شروع سے امریکہ آ کر پڑھنے کا شوق تھا۔ لیکن اس کی ماما نے اسے کبھی اس بات کی اجازت نہیں دی۔ لیکن اس کے پاپا نے اس کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ اس سے امریکہ پڑھنے کے لیے بھیج دیا۔ اس کی ماما نے بہت اعتراض کیا۔ لیکن نریم کے پاپا کے سمجھانے پر وہ خاموش ہو گئی۔ مگر روزانہ نریم کو کال کر کے نصیحتیں کرنا نہیں بھولتى۔
یہاں آ کر اس کی ملاقات ضوفیرا اور رامیہ سے ہوئی۔ نریم کو نٹ کھٹ سی رامیہ بہت اچھی لگی تھی اور سنجیدہ سی ضوفیرا بھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دوستی گہری ہوتی گئی، اور وہ تینوں دوستیں اب ایک دوسرے پر جان چھڑکتی ہیں۔
♤ ♤ ♤
ضوفی مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا۔ ہم پاکستان میں ہے۔ رامیہ اپنا بازو اور سر گاڑى کى ونڈو سے باہر نکال کر یہاں کی ہوا کو اپنے اندر محسوس کرتے ہوئے بولی۔
رامی پاگل ہو گی ہو۔ اپنا سر اندر کرو۔ ضوفیرہ اس کی طرف دیکھ کر سرد لہجے میں بولی۔
ہاں ضوفی میں پاگل ہوگئی ہوں۔ آج میں اتنی اتنی خوش ہوں تمہیں میں بتانہیں سکتی۔ وہ اسکے غصے کو نظر انداز کر کے خوشی سے بولی۔
وہ تمہیں دیکھ کر مجھے لگ رہا ہے۔
رامیہ مسکرا کر دوبارہ ونڈو کے باہر دیکھنے لگ پڑی۔ لیکن اس بار اپنا سر باہر نہیں نکالا تھا۔ اس کی نظر کالج پر پڑی، جہاں سے وائیٹ یونی فارم میں لڑکیاں کالج کے گیٹ سے باہر نکل رہی تھی۔ شاید یہ اس وقت چھوٹی کا ٹائم تھا۔ رامیہ کی نظر دو لڑکیوں پر پڑی، جو کالج سے تھوڑی اَگے اِردگِرد سے بے نیاز ہنستے ہوئے باتیں کرتی جا رہی تھی۔ ایک لڑکی کالج والی سائیڈ جبکہ دوسری روڈ پر چل رہی تھی۔ اچانک اس کی نظر اس لڑکی کے پیچھے آتے ٹرک پر پڑی ، جو ابھی تو بہت دور تھا۔ لیکن ایسا لگ رہا تھا۔ جلد ہی نزدیک آجائے گا۔
ڈرائیور۔۔۔۔۔۔۔ڈرائیور سٹاپ دا کار۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا رامی۔۔۔۔۔۔۔اسے خواص باختہ دیکھ کر ضوفیرا فکر مند لہجے میں بولی۔
رامیہ کے کہنے پر ڈرائیور نے فوراً گاڑی روکی۔ اس سے پہلے کہ وہ ضوفیرہ کے سوال کا کوئی جواب دیتی۔ وہ فوراً گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتری۔
ایکسکیوزمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایکسکیوزمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔او ہیلو پیچھے ہٹے۔ رامیہ بھاگتے ہوئے اس لڑکی کو آوازیں دے رہی تھی، اور ساتھ ساتھ ٹریفک بھی دیکھ رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ ٹرک اسے کچل دیتا۔ رامیہ نے اسے پیچھے کی طرف دکا دیا، اور خود بھی اس کے ساتھ ہی منہ کے بل نیچے گری، اور نیچے پڑا لوہے کا راڈ اس کے سر پر جا لگا۔ جس کی وجہ سے اس کے سر سے تھوڑا سا خون نکلنے لگا۔ گرنے کی وجہ سے اس کے پاؤں پر بھی کافی چوٹیں آئیں تھیں۔ وہ چکراتے سر کے ساتھ بمشکل اٹھ کر بیٹھی۔
افشال تم ٹھیک ہو ؟ اس لڑکی کی فرینڈ اسے اٹھاتے ہوئے بولی۔
افشال جو ابھی بھی ڈری ہوئی خوفناک کیفیت کی منظر میں تھی۔ کہ اپنی فرینڈ کے بلانے پر فوراً چونکی۔
ہاں۔۔۔۔۔۔ہاں میں ٹھیک ہوں۔ وہ کھڑے ہوتے ہوئی بولی۔
یہ رہی میری آج کی ایپیسوڈ اُمید ہے آپ سب لوگوں کو پسند آئے گی۔ پلز کمینٹ میں ضرور بتائیے گا۔
1 Commenti
Good and very interesting episode 🧚🏻♀👍🏻👌🏻
RispondiEliminaCommento