# Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel
# Please Don't Copypaste My Nove
# Episode 11:
افشال جو ضوفیرہ سے نظریں نہیں ملا رہی تھی۔ کیونکہ وہ اس ایکسیڈینٹ کا ذمہ دار خود کو سمجھ رہی تھی۔
ہاں افشال تم کھڑی کیوں ہو گئى۔ اس بار ضوفیرہ بولی۔
اگر تم اس بات پر مجھ سے شرمندہ ہو رہی ہو۔ کہ تمہاری وجہ سے میری بہن کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے، تو اس بات پر تمہیں شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ شاید اس کی کیفیت سمجھ گئی تھی۔ تم نے جیسے رامیہ کو اپنا دوست سمجھا ہے۔ مجھے بھی اپنا دوست ہی سمجھو، میں اتنی بھی بری نہیں ہوں، اس بار وہ مسکرا کر بولی۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ افشال نے فوراً نظریں اٹھائی اور اس کی طرف دیکھ کر بولی۔
اگر ایسی بات نہیں ہے۔ تو اب تم آرام سے بیٹھ سکتی ہو۔
مس رامیہ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟
تینوں کی نظریں کمرے میں داخل ہوتے ڈاکٹر پر پڑی۔
اب میں ٹھیک ہوں۔ جب میں اٹھی تھی، تب تھوڑا سا میرے سر میں درد تھا۔ اب میں بیٹر فِیل کر رہی ہوں۔
لیکن ڈاکٹر کیا اب میں گھر جا سکتی ہوں ؟
آج کے دن تو نہیں۔ کیونکہ گرنے کی وجہ سے آپ کے پاؤں پر موچ آئی ہے۔ آپ دو دن چل پھر نہیں سکتی، اور سر پر بھی چوٹ لگی ہے۔ آپ کو مکمل بیڈ ریسٹ کی ضرورت ہے۔ کل کوشش کریں گے۔ آپ کو ڈسچارج کر دیا جائے۔
ڈاکڑ اس کا بلڈ پریشر چیک کرتے ہوئے بولا۔
مگر ڈاکٹر میں یہاں پر ایک دن بھی نہیں رکنا چاہتی۔
آپ نے میڈیسن لی۔ ڈاکٹر اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔
نہیں ڈاکٹر خالہ جانی گھر سے سوپ بنا کر لا رہی انہیں سوپ پلا دیں۔ پھر میڈیسن کھلا دیں گے۔ رامیہ کی بجائے افشال بولی۔
اس کی کیا ضرورت تھی۔ ڈاکٹر کے جاتے ہی رامیہ فوراً بولی۔
کیوں اس کی کیوں ضرورت نہیں تھی۔ تم کچھ کھاؤ گی، میڈیسن لو گی تو ٹھیک ہو گی "نا" صائمہ نے جو اس کی بات سن لی تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔
خالہ جانی آپ آ گئی۔ افشال فوراً ان کی طرف لپکی۔
رامیہ آپی یہ میری خالہ ہے۔۔۔۔۔
اسلام علیکم ! آنٹی اس کے تعارف کرانے پر رامیہ نے فوراً سلام کیا۔
خالہ جانی یہ رامیہ اور یہ ان کی بہن ضوفیرہ۔
اسلام علیکم ! آنٹی اس بار ضوفیرہ نے ادب سے سلام کیا۔
صائمہ جو یک ٹک رامیہ کو ہی دیکھ رہی تھی۔ کہ ضوفیرہ کے سلام کرنے پر چونکی۔
وعلیکم السلام ! ماءشااللہ دونوں بچیاں بہت پیاری ہیں۔ صائمہ افشال والی جگہ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
اوہو میں اپنے بھائی سے تو تعارف کرانا بھول ہی گئی۔ افشال عمیر کے پاس جا کر بولی۔
ضوفیرہ جو کب سے دیکھ رہی تھی۔ کہ جب سے وہ کمرے میں آیا تھا۔ اس سے ہی گھور رہا تھا۔ وہ غصے سے منہ پیچھے کر لیتی ہے۔
یہ میرا بھائی عمیر ہے۔ وہ خوشی سے تعارف کراتے ہوئے بولی۔
ہیلو ! اب آپ کی طبیعت کیسی ہے۔ عمیر ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا۔
میں اب ٹھیک ہوں۔ رامیہ بھی ہاتھ ملاتے ہوئے مسکرا کر بولی۔
اس سے پہلے کہ وہ اب ضوفیرہ کے پاس جا کر کچھ بولتا۔ کہ ضوفیرہ کے موبائل پر رنگ ہوئی۔
ایکسکیوزمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سامنے سکرین پر بلال انکل کا نمبر جگمگاتے دیکھ کر ضوفیرہ نے فوراً ان سے ایکسکیوز کیا، اور وہاں سے جانے ہی لگی کہ رامیہ کی آواز پر رکی۔
ضوفی اگر ڈیڈ کی کال ہوئی تو پلیز انہیں میرے ایکسیڈینٹ کے بارے میں نہ بتانا۔
ڈونٹ وری رامی میں ڈیڈ کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولی اور وہاں سے چلی گئی۔
ضوفیرہ کو کمرے سے نکلتے دیکھ کر عمیر بھی وہاں سے چلا گیا۔
رامیہ میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں۔ تم نے افشال کی جان بچا کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔
نہیں نہیں آنٹی یہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہے۔ آپ مجھ سے بڑی ہے۔ پلیز مجھ سے معافی مانگ کر مجھے شرمندہ تو نہ کریں۔ میں بھی تو آپ کی بیٹی جیسی ہوں۔ پھر احسان کیسا۔
رامیہ کی بات سن کر صائمہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ تمہاری ماں بہت خوش قسمت ہوگی۔ جن کی تم بیٹی ہو۔ وہ رامیہ گال پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔ ماں کے ذکر پر رامیہ کے مسکراتے ہونٹ سکڑے۔ جو صائمہ نے باخوبی محسوس کیے۔ لیکن بولی کچھ نہیں۔
اچھا اب یہ سب باتیں چھوڑو اور جلدی سے یہ سوپ پیو، جو میں اپنے ہاتھوں سے تمہارے لیے بنا کر لائی ہوں۔ وہ سوپ کا باؤل ٹیبل سے اٹھاتے ہوئے بولی۔
نہیں آنٹی بالکل بھی دل نہیں کر رہا۔ مجھے بلکل بھوک نہیں ہے۔
مگر سوپ تو تمہیں پینا پڑے گا، پھر میڈیسن بھی تو لینی ہے۔ وہ سوپ سے بھرا چمچ اس کے منہ کے اَگے کرتى ہوئى بولی۔ صائمہ کو یہ لڑکی بہت اچھی لگی تھی، چھوٹے بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے۔
کاش آج میری بیٹی میرے پاس ہوتی۔ تو وہ شاید اس کے جتنی ہی بڑی ہوتی، اور اسی طرح مجھ سے ضد کرتی۔ صائمہ کے دل میں فوراً خواہش ابھری۔ لیکن جلد ہی انہوں نے خود کو سنبھال لیا۔
نہیں آنٹی بالکل بھی دل نہیں کر رہا کچھ بھی کھانے کا۔ وہ انکار میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔
رامیہ اگر اب تم نے یہ سوپ نہ پیا، تو تمہاری آنٹی ناراض ہو کر چلی جائیں گی۔
رامی۔۔۔۔۔۔۔۔رامی یہ کیا کر رہی ہو بیٹا سارا کپڑوں پر گر جائے گا۔ رامیہ نے سوپ سے بھرا چمچ غصے سے پیچھے کیا۔
ماما مجھے سوپ نہیں پینا۔
تو کیا کھائے گی میری رامی ؟ میں اس کے لیے وہ بنا کر لے آتی ہوں۔
ماما مجھے بھوک نہیں ہے۔ وہ منہ بنا کر بولی۔
ماما کی جان تھوڑا سا سوپ پی لو۔ آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔ اگر اب بھی آپ نے میری بات نہ مانی تو آپ کی ماما آپ سے ناراض ہو جائیں گی، اور اتنی دور چلی جائے گی کہ کبھی واپس نہیں آئیں گی۔ ان کی بات پر رامیہ اونچی اونچی آواز میں رونے لگی۔
ارے رامی میں مذاق کر رہی تھی۔ پلیز آپ رؤ نہیں۔ میں کہی نہیں جا رہی۔ اسے اس طرح روتے دیکھ کر عالیہ کے دل کو فوراً کچھ ہوا، اور اسے اپنی گود میں بیٹھاتے ہوئے بولی۔
ماما رامیہ کو چھوڑ کر کہی نہیں جائیں گی"نا" میں یہ سارا سوپ ختم کر لوں گی۔ پھر تو آپ رامیہ کو چھوڑ کر نہیں جائیں گی "نا"۔ اس نے آنکھوں میں آنسو لیے عالیہ کی طرف دیکھ کر یقین کرنا چاہا۔
نہیں ماما اپنی رامیہ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گی۔ یہ ماما کا وعدہ آپ سے۔
کیا ہوا رامیہ تمہاری آنکھوں میں آنسو۔ صائمہ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر فکر مند لہجے میں بولی۔
صائمہ کے بلانے پر وہ فوراً چونکی، اور جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے۔
کیا ہوا رامیہ ؟ تمہیں میری کوئی بات بری لگی ہے؟اس کا جواب نہ پاکر وه فوراً بولی۔
نہیں آنٹی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ مجھے آپ کی کوئی بات بری نہیں لگی۔ بلکہ آپ تو اتنی اچھی ہے۔ بس آپ کو دیکھ کر مجھے ماما کی یاد آگئی۔ دراصل آنٹی جب آپ نے بولا، اگر میں نے سوپ نہ پیا۔ تو آپ مجھ سے ناراض ہو جائیں گی۔ ایک دن میری ماما نے بھی مجھے ایسے ہی بولا تھا۔ میں اس دن میں بہت بیمار تھی۔ میرا کچھ بھی کھانے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ ماما میرے لیے سوپ بنا کر لائی تھی۔ لیکن میں نے بہت ضد کی، کہ میں نے نہیں پینا ، مجھے بھوک نہیں۔ پھر اس دن ماما نے مجھ سے کہا، اگر میں نے یہ سوپ ختم نہ کیا۔ تو وہ مجھ سے ناراض ہو جائیں گی، اور اتنی دور چلی جائے گی۔ کہ کبھی واپس نہیں آئیں گی، اور یہ بات سن کر میں بہت روئی تھی۔ تب ماما نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ وہ مجھے چھوڑ کر کبھی نہیں جائیں گی۔ وہ جو کب سے اپنے آنسوؤں پر ضبط کرنے کی کوششں کر رہی تھی آخر کار روتے ہوئے بولی۔
اسے روتے دیکھ کر صائمہ نے فوراً سوپ کا باؤل ٹیبل پر رکھا، اور اسے گلے سے لگایا۔ پتہ نہیں کیوں لیکن صائمہ سے اس کا رونا دیکھا نہیں گیا۔ ان کا دل کٹ کر رہ گیا۔ رامیہ کو گلے لگاتے ہی صائمہ کو اپنے اندر ایک عجیب سی ٹھنڈک ایک عجیب سا احساس پیدا ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ جس سے وہ سمجھنے سے نہ قاصر تھی۔
نہیں رامیہ بیٹا روتے نہیں پلیز چپ ہو جاؤ۔ وہ اس کے سر کو سہلاتے ہوئے پیار سے بولی۔ پتہ نہیں کیوں اسے صائمہ کی پناہ میں اپنی ماں کی آغوش کا احساس ہوا، وہ اور شدت سے روئی۔
بس بس رامیہ چپ ہو جاؤ، ایسے روتے نہیں۔ وہ اسے اپنے سے الگ کر کے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
آنٹی ماما نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ وہ مجھے چھوڑ کر نہیں جائیں گی۔ پھر انہوں نے اپنا وعدہ کیوں نہیں پورا کیا۔ وہ اسی طرح روتے ہوئے بولی۔
رامیہ اوپر میری طرف دیکھو۔ صائمہ اس کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے بولی۔
اگر تم اس طرح رؤ گی، تو تمہاری ماما کی روح کو تکلیف ہو گی۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی، لیکن تمہارے اس طرح رونے سے وہ واپس تو نہیں آ جائیں گی۔ تم نماز پڑھ کر ان کے لیے دعا کیا کرؤ۔ وہ اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولی۔
چلو اب چپ ہو جاؤ، اور یہ سوپ پیو۔ صائمہ اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی، اور سوپ کا باؤل ٹیبل سے اٹھا کر دوبارہ سوپ سے بھرا چمچ اس کے منہ کے اَگے کیا۔ جو رامیہ نے اس دفعہ خاموشی سے پی لیا۔
♤ ♤ ♤
ضوفیرہ کال بند کر کے پیچھے مڑی تو اپنے سامنے عمیر کو دیکھ کر ایک پل کے لیے خیران ہوئی۔
اس نا چیز بندے کو عمیر کہتے ہیں۔ وہ وہاں سے جانے ہی لگی، کہ عمیر اس کے راستے میں خائل ہوا، اور ایک ہاتھ سینے پر رکھ کر تھوڑا سا جھک کر بولا۔
ضوفی میں تم سے بات کر رہا ہوں۔ وہ پھر سائیڈ سے ہو کر جانے لگی۔ کہ عمیر دوبارہ اس کے راستے میں آ کر بولا۔
اؤں میں سمجھی آپ ان دیواروں سے باتیں کر رہے ہیں۔ بائے دا وے آپ کو کس نے حق دیا۔ کہ آپ مجھے ضوفی بلائے۔ اس نام سے مجھے صرف میرے دوست بلا سکتے ہیں۔ ضوفیرہ نے غصے سے دانت پیستے اسے باور کرایا۔
میں پاگل نہیں ہوں۔ جو ان دیواروں سے باتیں کروں، اور ویسے بھی تم چاہو' تو مجھے اپنا دوست بنا سکتی ہو۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
مجھے تو آپ پاگل ہی لگ رہے ہیں۔ جہاں تک رہی بات دوستی کی۔ تو مجھے آپ سے دوستی کرنے میں کوئی انٹرسٹ نہیں۔ ضوفیرہ کو اس کا راستہ روکنا، اوپر سے ضوفی نام سے بلانا۔ اس کے غصے کو اور بڑھا گیا۔ لیکن وہ اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے بولی۔
لیکن مجھے تو انٹرسٹ ہے۔ تم سے دوستی کرنے میں۔ وہ جانے ہی لگی، کہ عمیر دوبارہ اس کے راستے میں آ کر شوخی سے بولا۔
اگر آپ کو انٹرسٹ ہے تو میں کیا کروں، اور کیوں بار بار میرا راستہ روک کر مجھے تنگ کر رہے ہیں۔ اگر اب آپ میرے راستے میں آئے۔ تو میں جا کر آپ کی خالہ سے شکایت کروں گی، اور ویسے بھی میں کیوں کروں آپ سے دوستی؟ آپ لگتے کیا ہے میرے ؟ نہ میں آپ کو سہی سے جانتی ہوں اور نہ آپ مجھے۔ ہم ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہے۔ وہ تابڑ توڑ غصے سے بولی اور وہاں سے چلی گی۔ پیچھے سے عمیر نے مسکراتے ہوئے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔
افشال آنٹی چلی گی۔ ضوفیرہ کمرے میں آئی، تو آنٹی کو نہ پاکر فوراً بولی۔
جی ضوفیرہ آپی خالہ جانی کو گھر پر ضروری کام تھا۔ نیچے خارب بھائی جان آئے تھے۔ ان کے ساتھ چلی گئی۔ اس نے وضاحت دی۔
کیا میں آپ دونوں کو آپی بلا سکتی ہوں ؟
یا شیور کیوں نہیں۔ ضوفیرہ کی بجائے رامیہ بولی۔
اوں ہاں یاد آیا، ضوفیرہ آپی خالہ جانی کہہ رہی تھی۔ آپ یہ ناشتہ ضرور کر لیجئیے گا۔ افشال یاد آنے پر فوراً بولی۔
اس کی کیا ضرورت تھی۔
ضوفیرہ آپی اب آپ رامیہ آپی والی تو بات نہ کریں۔ وہ ناراض ہوئی۔
اچھا شکریہ' لیکن میرا ابھی بالکل موڈ نہیں۔ میں بعد میں کر لوں گی۔ اس کا پھولا ہوا چہرہ دیکھ کر ضوفیرہ مسکرا کر بولی۔
افشال میں نے تو تمہیں اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ اب تم اپنے بارے میں بھی تو کچھ بتاؤ. تمہارے گھر میں کون کون ہوتا ہے۔ رامیہ اس کی طرف دیکھ کر بولی۔
رامیہ آپی ہم تین بہن بھائی ہے۔ سب سے بڑی مشعال آپی، دوسرے نمبر پر عمیر بھائی جان تیسرے نمبر پر میں۔ میں دس سال کی تھی جب پاپا کی دیتھ ہو گئی، اور ماما میرے پیدا ہوتے ہی اس دنیا سے چلی گئی۔ پاپا کی دیتھ کے بعد خالہ جانی ہمیں اپنے پاس لے آئیں۔ خویلی میں سب بہت اچھے ہیں۔ مشعال آپی کی پڑھائی مکمل ہوئی، تو خالہ جانی نے اپنے بیٹے اذان کے ساتھ مشعال آپی کی شادی کر دی۔ محمد علی الدین جو اذان بھائی جان کے دادجی ہے۔ ہم بھی انہیں دادجی ہی بلاتے ہیں۔ ہم سب سے بہت پیار کرتے ہیں۔ لیکن اپنے اصولوں کے بہت سخت ہیں، اور خارب جان کے بارے میں' تو میں بتانا بھول گئی۔ وہ بھی داد جی کے ہی پوتے ہے۔ دادجی کو ان سے بہت لگاؤ ہے۔ دادجى کے بعد خویلی میں سب سے ذیاده رعب انہیں کا چلتا ہے۔ کل خارب بھائی جان نے آپ سے بہت روڈلی بات کی تھی۔ مجھے بہت برا لگا۔ وہ شرمندگی سے بولی۔
افشال تمہاری خالہ کی کوئی بیٹی نہیں ؟ خارب کا نام سنتے ہی رامیہ کو فوراً کل والا واقعہ یاد آیا۔ چہرے پر غصے کے تاثرات چھائے، لیکن افشال کے سامنے اس نے فوراً خود کو سنبھالا ، اور بات کا رخ بدلتے ہوئے بولی۔
خالہ جانی کی ایک بیٹی تھی۔
تھى کا کیا مطلب ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا اب نہیں ہے ؟ وہ خیرانی سے بولی۔
یہ لمبی کہانی ہے۔ آپ کو پھر کسی دن بتاؤں گی۔ افشال موبائل پر عمیر کا میسج آتے دیکھ کر فوراً کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
تم جا رہی ہو۔ اسے کھڑے ہوتے دیکھ کر رامیہ فوراً بولی۔
جی رامیہ آپی مجھے مشعال آپی کے ساتھ کہیں جانا ہے۔ ایم سوری میں آپ کو ٹائم نہیں دے سکی۔ شام کو میں آؤں گی خالہ جانی کے ساتھ۔
نہیں نہیں افشال کوئی بات نہیں اٹس اوکے تم جاؤ۔ رامیہ مسکرا کر بولی۔
♤ ♤ ♤
ماما آپ ٹھیک ہے۔ اذان گھر میں داخل ہوا۔ تو سامنے ہال میں پڑے صوفے پر صائمہ کو کسی سوچ میں گم بیٹھا دیکھا۔ تو فوراً ان کے پاس گیا، اور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فکرمند لہجے میں اِستفسار کیا۔
ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں اذان میں ٹھیک ہوں۔ اذان کے بلانے پر وہ ایک دم چونکی۔
کیا ہوا ماما ؟ آپ کیا سوچ رہی تھی ؟ اذان ان کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔
نہیں بیٹا میں کچھ بھی نہیں سوچ رہی تھی۔ تم پریشان نہ ہو۔ صائمہ پیار سے اس کے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
نہیں ماما آپ ضرور مجھ سے کچھ نہ کچھ چھپا رہی ہے۔ مجھے آپ کسی بات کو لے کر پریشان لگ رہی ہے۔ کیا آپ اپنے بیٹے کو بھی نہیں بتائیں گی۔
نہیں اذان ایسی بات نہیں ہے۔ میں بس اس لڑکی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
کس لڑکی کے بارے میں ماما۔ وہ آنکھوں می خیرت لیے بولا۔
اسی لڑکی کے بارے میں جس نے افشال کی جان بچائی تھی۔ آج میں اس سے ملنے گئی تھی۔
کیوں کیا ہوا اسے ؟ وہ ٹھیک تو ہے۔ وہ پریشانی سے بولا۔
ہاں اذان وہ ٹھیک ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کیا ماما۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اگر وہ ٹھیک ہے۔ تو پھر آپ کیوں پریشان ہے ؟
اذان پتہ نہیں کیوں۔ آج جب میں نے اس لڑکی کو دیکھا، تو ایک پل کے لیے دیکھتی رہ گئی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں نے اسے کہی دیکھا ہے، جیسے میں اسے جانتی ہوں، اور اذان تمہیں پتہ ہے جب میں نے اسے گلے لگایا۔ میرے دل میں ایک سکون کی لہر دوڑی، ایک عجیب سا احساس پیدا ہوا۔ جس سے میں خود بھی سمجھ نہیں سکی۔ صائمہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔
ماما آپ اس لڑکی کے بارے میں زیادہ ہی سوچ رہی ہے۔ کیا پتہ آپ کا یہ وہم ہو۔ بس آپ پریشان نہ ہو۔ اذان ان کے دونوں ہاتھ پکڑتے ان کی طرف دیکھ کر بولا۔
شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو اذان۔ کیا پتہ یہ میرا وہم ہو۔ اچھا تم یہ سب باتیں چھوڑو، تم جاؤ جا کر ریسٹ کرو۔ ابھی آفس سے تھکے ہوئے آئے ہو۔ اذان کو اپنی وجہ سے پریشان دیکھ کر صائمہ نے فوراً بات بدلی اور مسکراتے ہوئے بولی۔
اوکے ماما مگر اب آپ بھی ٹیشن نہ لیجئیے گا۔ اذان ان کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے مسکرا کر بولا، اور کھڑے ہوتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔
♤ ♤ ♤
رامیہ کی جب آنکھ کھولی تو اس وقت شام کے چھے بج رہے تھے۔ اس نے اِرد گِرد دیکھا تو اچانک اس کی نظر سامنے کھڑکی پر پڑی۔ اس وقت تھوڑا تھوڑا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ رامیہ فوراً بیڈ سے اٹھی اور سائیڈ ٹیبل سے موبائل اُٹھا کر ٹائم دیکھا۔
اؤں نو اتنا ٹائم ہو گیا، اور میں اتنی دیر تک سوتی رہی۔ رامیہ ٹائم دیکھتے ہی آنکھوں میں خیرت لیے خود سے بڑبڑائی۔
ضوفیرہ سے باتیں کرتے ، اسے پتہ ہی نہیں چلا کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ شاید یہ دوائیوں کا ہی اثر تھا۔ کہ وہ اتنی دیر سوتی رہی۔
یہ رہی میری آج کی ایپیسوڈ اُمید ہے آپ لوگوں کو پسند آئی ہو گی۔ تو بتائیے پھر کیا صائمہ کو پتہ چل جائے گا کہ رامیہ ہی پری وش ہے یا ابھی بھی وہ اس حقیقت سے انجان رہے گی۔ جاننے کے لیے ملتے ہے نیکسٹ ایپیسوڈ میں۔ تب تک کے لیے آپ اس ایپیسوڈ کو انجوائے کریں، اور مجھے کمینٹ میں ضرور بتائیے گا۔ آپ کو میری یہ ایپیسوڈ کیسی لگی۔
1 Commenti
Fantastico episodio .
RispondiEliminaVery intetesting episode 👌🏻👌🏻👌🏻
Keep it i can't waiting this next episode 👆🏻❣
Commento