Advertisement

Adbox

PARIVISH Episode 25 ( پری وش )

             Parivish 

               (پری وش)

#Novel by Parivish

#Writer; Aima Ashfaq

#Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel

#Please Don't CopyPaste My Novel

#Episode 25:

عمیر پلیز اس وقت میں مارکیٹ میں کھڑی ہوں۔ اس نے التجا کی۔
اچھا ٹھیک ہے ابھی تو میں فون بند کر رہا ہوں۔ لیکن دوبارہ کرونگا۔
پتہ ہے تم ڈھیٹ انسان دوبارہ کرو گے۔ وہ دانت چبا کر غصے سے بولی۔ پھر فوراً فون کاٹ دیا۔
                                                    *****************
لگتا ہے تمہارا باپ بھی بزدل ہے اس لیے تو تم بزدل باپ کی بزدل بیٹی ہو۔ اس لڑکی کے قہقہے ابھی بھی رامیہ کے کان میں گونج رہے تھے۔ وہ باہر وینڈو پر نظریں جمائے مسلسل رونے میں مصروف تھی۔ خارب جو گاڑی چلا رہا تھا۔ لیکن سارا دھیان اس کا اسی کی طرف تھا۔
رامیہ تم ٹھیک ہو۔ وہ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
ہاں خارب میں ٹھیک ہوں۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
رامیہ اِدھر دیکھو میری طرف۔
جونہی رامیہ نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کا آنسوؤں سے تر چہرہ دیکھ کر خارب کا دل کٹ کر رہ گیا۔
رامیہ پلیز تم اس طرح نہ رُو, تمہارے اس طرح رونے سے مجھے تکلیف ہو رہی ہیں۔ وہ اپنی ہتھیلی سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔
خارب اس نے میرے ڈیڈ کو بزدل کہا۔ وہ میرے ڈیڈ کو بزدل کیسے کہہ سکتی ہے۔ اگر وہ میرے بارے میں کچھ بھی بولتی۔ تو میں اس سے کچھ بھی نہ کہتی۔ لیکن اس نے میرے ڈیڈ کو بزدل کہا۔ خارب میں اپنے ڈیڈ کے خلاف کچھ بھی نہیں سن سکتی۔ وہ ہچکچیوں سے روتے ہوئے بولی۔
رامیہ پلیز چُپ کر جاؤ, دیکھو تم نے اسے سزا بھی تو دے دی۔
نہیں خارب یہ سزا تو اس کے لیے بہت کم تھی۔ میرا بس چلتا تو میں اسے۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے جان سے مار دیتی۔ یہی کہنے والی تھی "نا"۔ اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی خارب مسکرا کر بولا۔ جبکہ رامیہ مسکرا بھی نہ سکی۔
رامیہ پلیز ایسے نہ کرو, تم ایسے اداس بلکل بھی اچھی نہیں لگ رہی۔ تم ہنستے, شرارت کرتے ہوئے اچھی لگتی ہو۔ وہ فکر مند لہجے میں بولا۔
خارب پلیز ابھی خویلی چلو, میں کچھ دیر اکیلے رہںنا چاہںتی ہوں۔
رامیہ اس وقت ہم خویلی میں ہیں۔ وہ اس کی نہ اہلی پر مسکرایا۔
رامیہ نے اِردگِرد دیکھا, تو گاڑی اس وقت واقع خویلی میں کھڑی تھی۔ اس نے فوراً اپنی طرف کا دروازہ کھولا اور بھاگتے ہوئے اندر کی طرف چلی گئی۔
جبکہ خارب نے بے بسی سے اسے جاتے دیکھا۔ خود اپنی طرف کا دروازہ کھول کر خویلی کے اندر چلا گیا۔
خارب یہ رامیہ کو کیا ہوا ؟ وہ رُو کیوں رہی تھی ؟ اور ایسے بھاگتے ہوئے اُوپر کیوں گئی۔ صائمہ اندر آتے خارب سے متفکر لہجے میں بولی۔
صائمہ جو ابھی ابھی کمرے سے نکلی تھی کہ سامنے رامیہ کو روتے اور ایسے  بھاگتے ہوئے اُوپر جاتے دیکھ کر پریشان ہو گئی تھی۔
چچی آپ اِدھر آ کر بیٹھے, میں آپ کو سب کچھ بتاتا ہوں۔ وہ انہیں صوفے پر بیٹھا کر بولا اور خود بھی ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ پھر اس نے  مارکیٹ کے باہر جو کچھ بھی ہوا۔ سب کچھ تفصیل سے صائمہ کو بتا دیا۔
خارب مجھے ابھی اور اسی وقت اس لڑکی کی ساری انفارمیشن اکٹھی کر کے دو۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی میری گڑیا کے بارے میں اتنی گھٹیا باتیں کرنے کی اور اسے رُلانے کی۔ میں چھوڑوں گا نہیں اسے۔ اذان جو کب سے صوفے کے پیچھے کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا۔ کہ ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتے غصے سے دانت چباتے ہوئے خارب سے بولا۔
خارب نے پیچھے مُڑ کر اذان کو دیکھا تو ایک دم بوکھلا کر رہ گیا۔
اذان بھائی آپ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس نے ایک نظر اذان اور دوسری نظر اپنی چچی کی طرف دیکھا۔ جنہوں نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دی۔
اذان تمہیں اس لڑکی کی بجائے رامیہ کی فکر ہونی چاہںیے۔ جو اس وقت کمرے میں بیٹھی رُو رہی ہے۔ صائمہ منصوعی غصے سے بولی۔ ان کا ارادہ صرف اذان کا اس لڑکی سے دھیان بٹانا تھا۔
کیا ماما گڑیا رُو رہی ہے ؟
جی اذان بھائی چچی جان بلکل ٹھیک کہہ رہی ہے, اور ویسے بھی رامیہ نے اس لڑکی کی اتنی بُری حالت کی ہے۔ کہ میرے خیال میں وہ اس وقت ہاسپیٹل میں ہی ہو گی۔ اس نے بھی اپنی چچی کی تائید کرتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کی۔
ماما اس وقت گڑیا کہاں۔۔۔۔۔۔ ؟ وہ فکرمند ہوا۔
وہ اپنے کمرے میں ہے۔ اس لڑکی سے دھیان ہٹتے دیکھ کر صاعمہ نے سکون بھرا سانس خارج کیا۔
اذان فوراً زینے چڑتے ہوئے اُوپر کی طرف بھاگا۔
                                        ****************
گڑیا میں اندر آسکتا ہوں۔ اذان دروازہ ناک کرتے ہوئے بولا۔
جی اذان بھائی جان آ جائیں, دروازے پر اذان کی آواز سن کر وہ فوراً اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔ وہ دروازہ کھول کر اندر آیا تو اس کی یہ حرکت اذان سے منفی نہ رہ سکی تھی۔
اچھا تو پھر کیا کر رہی تھی میری گڑیا۔ وہ اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر بولا۔
کچھ نہیں اس نے نظریں چرائی۔
گڑیا یہ تمہاری نوز اور آئز اتنی ریڈ کیوں ہو رہی ہے۔ وہ اس کی لمبی پتلی ناک دباتے ہوئے بولا۔
وہ شاید سردی کی وجہ سے۔ اس نے جھوٹ کا سہارا لیا۔
اچھا چلو اُٹھو ہم آئس کریم کھانے چلتے ہیں۔

نہیں اذان بھائی جان ابھی میرا کہیں بھی جانے کا دل نہیں کر رہا۔ اس نے انکار کیا۔
گڑیا یہ تم ہی ہو "نا" یا پھر کوئی اور۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں نہیں یہ تم نہیں ہو سکتی۔
جی اذان بھائی جان یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ خیرت سے بولی, اذان کی ذومعنی باتیں اس کے سر کے اُوپر سے گزر رہی تھی۔
صیح کہہ رہا ہوں, تم میری گڑیا ہو ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ جہاں تک مجھے پتہ ہے۔ میری گڑیا کو آئس کریم اتنی پسند ہے۔ وہ اس کے لیے منع کر ہی نہیں سکتی۔ اب جلدی سے بتاؤ میری گڑیا کہاں ہے۔ تم نے کہاں میری گڑیا کو چھپایا ہے۔ وہ آنکھوں میں شرارت اور چہرے پر سنجیدگی لیے بولا۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی بات سمجھ آتے ہی رامیہ کھلکھلا کر ہنسی۔ اذان بھائی جان میں ہی آپ کی گڑیا ہوں۔ آپ نیچے چلے میں پانچ منٹ میں ریڈی ہو کر آئی۔ وہ بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے بولی۔
اسے کُھل کر ہنستے دیکھ کر اذان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
اچھا ٹھیک ہے جلدی آنا۔ میں نیچے تمہارا ویٹ کر رہا ہوں۔ وہ پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
                                         ***************
ضوفیرہ نے اسے اپنے ساتھ مارکیٹ چلنے کے لیے کہا۔ تو نریم سرے سے ہی یہ کہہ کر انکار کر دیا۔ کہ میں نہیں جا رہی تم جاؤ۔ اس کے اتنا اصرار کرنے پر بھی جب وہ نہیں مانی تو ضوفیرہ منہ بناتے ہوئے اکیلے ہی چلی گئی۔
اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد نریم اپنے لیے چائے بنانے کے لیے کچن میں آ گئی۔ اپنے لیے چائے بنا کر وہ باہر لانچ میں آ کر بیٹھی اور ابھی وہ ٹی وی لگانے ہی لگی تھی۔ کہ اس کے موبائل پر کال آنے لگی۔
ہیلو ! کیوں آپ مجھے فون کر کے تنگ کرتے ہیں۔ پلیز مجھے فون مت کیا کریں۔ نریم اپنے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ کر کال پِک کرتے ہی کوفت بھرے لہجے میں بولی۔
تم فکر نہ کرو نریم اب میں تمہیں تنگ نہیں کروں گا, اور نہ ہی اب تمہیں میرا فون آئے گا۔ دوسری طرف وہ اطمینان سے بولا۔
کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
مطلب صاف ہے میں تمہیں اب فون نہیں کروں گا اور نہ ہی اب تمہیں منگنی توڑنے کے لیے بولوں گا۔
پپ۔۔۔۔۔۔پَر کیوں ؟ آپ ایسا کک۔۔۔۔۔۔کیوں کک۔۔۔۔۔۔کرے گے ؟ وہ اس کا جواب سننے کے لیے بے قرار تھی۔ پتہ نہیں کیوں اس کا من کہہ رہا تھا۔ کہ جیسا وہ سوچ رہی ہے ویسا کچھ بھی نہ ہو۔
کیونکہ میرے دل کو کوئی اور لڑکی بھا گئی ہے۔ میں اب کسی اور کو پسند کرنے لگا ہوں۔ اس نے انکشاف کیا۔
کک۔۔۔۔۔۔کیا ؟ آپ یہ کک۔۔۔۔۔۔۔کیا کہہ رہے ہیں ؟ نریم کو اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ اسے ایسا لگا وہ سانس نہیں لے پائے گی۔ لیکن اسے تکلیف کیوں ہو رہی تھی۔ وہ یہی تو چاہںتی تھی۔
سچ کہہ رہا ہوں, میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔
نہیں آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ وہ فوراً بولی۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟ میں ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔ تم یہی تو چاہںتی تھی۔ دوسری طرف وہ ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے بولا۔
ہاں میں یہی چاہںتی تھی, لیکن آپ تو مجھ سے محبت کرتے تھے "نا"۔ اس نے باور کرایا۔
ہاں کرتا تھا لیکن اب نہیں۔ اس کے لہجے میں سکون ہی سکون تھا۔
کیوں یہ کیسی محبت تھی آپ کی۔ جو اب ختم بھی ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جمع ہونے لگے۔
میں تم سے محبت نہیں کرتا تھا۔ وہ اسے مزید تنگ کرتے ہوئے بولا۔
نریم کو اپنے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔
تو پھر وہ سب کیا تھا۔ جو آپ نے مجھ سے کہا تھا۔ کہ میں تم سے فلرٹ نہیں کر رہا۔ میں تم سے سچی محبت کرتا ہوں, اور وہ پھولز اور کارڈز۔ وہ اپنے آنسوؤں پر بند باندھتے ہوئے بولی۔
وہ سب جھوٹ تھا میں تو صرف ٹائم پاس کر رہا تھا۔
آپ میرے ساتھ ایسے کیسے کر سکتے ہیں۔ نریم کا دل کیا وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ لیکن اس نے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی بھرپور کوشش کی۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔کیوں نہیں میں ایسا کر سکتا۔ میں کون سا تم سے سچی محبت کرتا ہوں۔ وہ سکون سے بولا۔
لیکن میں تو آپ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا تم مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔؟ اسے چپ ہوتے دیکھ کر اس نے جاننا چاہا۔
کچھ نہیں میرا مطلب ہے کہ میں آپ کو ایک اور لڑکی کی زندگی برباد نہیں کرنے دوں گی۔ اس سے پہلے اس کی زبان پھسلتی, اس نے جلدی سے بات سنبھالی۔
اچھا ایسا کیا کرو گی تم۔۔۔۔۔۔۔۔؟ دوسری طرف اس کے ہونٹوں پر مسکرہٹ گہری ہو گی۔
نریم میں جانتا ہوں, تم اتنی آسانی سے نہیں مانو گی۔ تم وہ نہیں بولو گی, جو میں سننا چاہںتا ہوں۔ کوئی بات نہیں میں بھی دیکھتا ہوں۔ تم کب تک نہیں مانو گی۔ اس کے بات پلٹنے پر وہ دل ہی دل میں بولا۔
مم۔۔۔۔۔۔۔۔میں آپ کی سس۔۔۔۔۔۔۔سچائی اس لڑکی کو بتا دوں گی۔
اچھا کیا بتاؤ گی, تم اس کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
یہی کہ آپ نہایت ہی دھوکے باز انسان ہے۔ وہ بھر پور غصے اور بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
کیا میں نے کس کو دھوکہ دیا۔ وہ جان بوجھ کر انجان بنا۔
مجھے۔۔۔۔۔۔آپ نے مجھے دھوکہ دیا ہے پیار کا جھوٹا ناٹک کر کے۔ وہ فوراً بولی۔

ہاں نریم میں مانتا ہوں۔ میں نے تمہیں دھوکہ دیا۔ لیکن اس کے لیے میں تم سے معافی مانگتا ہوں۔ وہ دل ہی دل میں اس کی حالت پر لطف اندوز ہوتے ہوئے بولا۔
آپ کے معافی مانگنے سے کیا ہو گا۔
دیکھو نریم تم اتنا سرئیس کیوں ہو رہی ہو۔ ہاں مجھے پتہ ہے میں نے تمہیں دھوکہ دیا ہے۔ لیکن تم تو مجھے پسند نہیں "نا" کرتی تھی۔ تمہیں تو خوش ہونا چاہںیے, میں تمہارا پیچھا چھوڑ رہا ہوں۔ اس نے اپنی ہنسی ضبط کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
ہاں میں بہت خوش ہوں, مجھے آپ سے محبت نہیں ہوئی۔ میں آپ جیسے دھوکے باز انسان سے محبت کر بھی نہیں سکتی۔ وہ غرا کر بولی۔
تو پھر مسئلہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس نے مزید چڑایا۔
مسئلہ یہ ہے کہ میں آپ کو ایک اور لڑکی کے دل کے ساتھ کھیلنے نہیں دوں گی۔
اچھا تو تم ایسا کیا کرو گی, وہ مسکرایا۔
میں۔۔۔۔۔۔میں اسے آپ کی ساری سچائی بتا دوں گی۔ وہ دانتوں سے اپنے ہونٹ کاٹتے ہوئے سخت لہجے میں بولی۔ جبکہ آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔
اور تم ایسا کیوں کروں گی۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ مسلسل اسے بولنے پر اکسا رہا تھا۔
کیونکہ میں بھی ایک لڑکی ہوں, اور میں کسی اور لڑکی کا دل ٹوٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔ لیکن نریم میں اس سے سچی محبت کرتا ہوں۔
سچی محبت تو آپ مجھ سے بھی کرتے تھے۔ اس کی آنکھیں پانی سے لبریز تھی۔
وہ سب جھوٹ تھا وہ اطمینان سے بولا۔
اور میں کیسے مان لوں, کہ آپ اب سچ بول رہے ہیں۔
نریم تم سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی۔ تمہیں تو اب خوش ہونا چاہںیے۔ کہ میں اب کسی اور کو پسند کرتا ہوں۔
ؒلیکن میں خوش نہیں ہوں۔ اس بار وہ چلا کر بولی۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟
کیونکہ میں آپ کو پسند کرتی ہوں۔ آپ سے محبت کرنے لگی ہوں, اور آپ کے بغیر ایک پَل بھی نہیں رہ سکتی۔ اس بار وہ اپنے آپ پر اختیار نہ رکھ سکی غرا کر روتے ہوئے بولی۔
اس کے اظہار پر دوسری طرف اسے اپنے رگ و جاں میں سکون اُترتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے چیر سے ٹیک لگاتے ہوئے سکون سے آنکھیں موند لی۔ آخر کار تم نے وہ بول ہی دیا جو میں سننا چاہںتا تھا۔ لیکن نریم نہیں میں اتنے آسانی سے نہیں مانوں گا۔ آخر تم نے بھی مجھے اتنا تنگ کیا ہے۔ اس کا کچھ خرجانہ تو تمہیں بھگتنا ہی پڑے گا۔ دوسری طرف وہ مسکراتے ہوئے دل ہی دل میں بولا۔
کیا تم یہ کیا کہہ رہی ہو ؟ اس نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے خیران ہونے کی بھرپور ایکٹینگ کی۔
سچ کہہ رہی ہوں میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔
لیکن تم نے تو ابھی تھوڑی دیر پہلے کہا۔ کہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتی, اس نے باور کرایا۔
جھوٹ بولا تھا میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جھوٹ بولا تھا۔ وہ ہچکچیوں سے روتے ہوئے بولی۔
لیکن اب کوئی فائدہ نہیں تم میری محبت کو ٹھکرا چکی ہو۔ اسے تنگ کرتے ہوئے اسے بہت مزہ آ رہا تھا۔
اب اپنا بھی تو رہی ہوں۔
لیکن تم نے دیر کر دی, اب میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں۔ اس نے مزید چڑایا۔
کیا وہ میرے سے زیادہ خوبصورت ہے۔ اس نے اِستفسار کیا۔
ہاں بہت زیادہ سفید رنگ, گلابی ہونٹ, بڑی بڑی آنکھیں۔ وہ ذہن میں نریم کا چہرہ ہی تصور کرتے ہوئے بولا۔
لگتا ہے کافی اچھے سے آپ اسے جانتے ہیں۔ وہ ہتھیلی سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے دانت چباتے غصے سے بولی۔
ہاں آخر میں اسے سچی محبت جو کرتا ہوں۔ وہ خوشی سے چہک کر بولا۔
سچی محبت تو آپ نے مجھ سے بھی کی تھی۔ اس نے باور کرایا۔
وہ محبت نہیں ٹائم پاس تھا۔
نہیں آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ آپ میرے دل میں محبت کا جذبہ جگا کر مجھے بیچ راستے میں نہیں چھوڑ سکتے۔ آنکھوں سے بہت تیزی کے ساتھ آنسو بہہ کر اس کی تمام ہمتوں کو ایک بار پھر بکھیر گئے تھے۔
نریم کو روتے دیکھ کر کچھ دیر کے لیے اس کا دل کیا کہ وہ اسے سب کچھ بتا دے۔ کہ یہ سب میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ میں صرف تم سے محبت کرتا ہوں۔ تمہارے علاوہ میں کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر چُپ ہو گیا۔
اچھا میں فون رکھ رہا ہوں, اسی لڑکی کی کال آ رہی ہے۔ اس نے مزید جلایا۔
                                                *******************
پلیز ڈیڈ مان جائیے "نا"۔
سوری رامیہ میں تمہاری یہ خواہش پوری نہیں کر سکتا۔ تمہیں پتہ ہے "نا"۔ تمہیں ڈرائیونگ نہیں آتی۔ دوسری طرف وہ متفکر لہجے میں بولے۔
مجھے پتہ ہے لیکن ڈیڈ میں مینج کر لوں گی۔ آپ کو پتہ ہے "نا"۔ کہ مجھے ڈرائیونگ کا کتنا شوق ہے۔ پلیز مجھے اپنی کار چاہںیے۔ پلیز ڈیڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے بھی میرے یہاں کچھ دن رہ گئے ہیں۔ اس لیے میں کُھل کر انجوائے کرنا چاہںتی ہوں۔ وہ کمرے میں اِدھر اُدھر چکر لگاتے ہوئے ضدی لہجے میں بولا۔
رامیہ بیٹا۔۔۔۔۔۔۔میں تمہاری زندگی کے ساتھ کوئی رسک نہیں لے سکتا۔ اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو۔
کچھ نہیں ہو گا ڈیڈ مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز ڈیڈ مان جائیے۔ وہ فون پر بات کرتے التجائیہ لہجے میں بولی۔ 

نہیں رامیہ ایک بار میں نے تمہاری بات مان کر تمہیں پاکستان جانے کی اجازت دی "نا"۔ اب تم اپنے ڈیڈ کی اتنی سی بات نہیں مانو گی۔ رامیہ کو نہ مانتے دیکھ کر اس کے ڈیڈ نے آخری خربہ استعمال کیا۔
ڈیڈ اب یہ آپ مجھے ایموشنل بلیک میل کر رہے ہیں۔
جو بھی سمجھ لو۔ اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ تم اپنے ڈیڈ کی بات مانو گی کہ نہیں۔ ڈیڈ یہ ہو سکتا ہے میں آپ کی بات نہ مانوں۔ وہ فوراً بولی۔
یہ ہوئی نہ بات ڈیٹھس مائے گُڈ ڈاٹر۔ اچھا رامیہ میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔ ابھی بہت بزی ہوں۔
اُوکے ڈیڈ بائے, وہ فون رکھتے منہ لٹکا کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
ارے رامیہ تم یہاں پر بیٹھی اور میں تمہیں پوری خویلی میں ڈھونڈ رہی تھی۔ مشعال اس کے کمرے میں آتے ہی بولی۔
کیوں۔۔۔۔۔۔؟ مشعال بھابھی کوئی کام تھا۔
ہاں کام تو ہے, لیکن پہلے تم بتاؤ۔ یہ تمہارے منہ پر بارہ کیوں بجے ہوئے ہے ؟ وہ اس کا لٹکا ہوا چہرہ دیکھ کر اس کے پاس بیٹھ کر بولی۔
نہیں مشعال بھابھی ایسی کوئی بات نہیں۔ بس وہ افشال کے پیپرز ہو رہے ہیں "نا" اس لیے وہ بزی رہںتی ہے۔ لیکن میں بور ہو رہی ہوں۔ اس نے فوراً بہانہ بنایا۔
بس اتنی سی بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔افشال نہیں ہے۔ تو کیا ہوا, تمہاری بھابھی تو ہے تم ایسا کِیا کرو۔ جب بھی بور ہو, میرے پاس آ جایا کرو۔ میں یو تمہاری بوریت دور کر دوں گی۔ مشعال چٹکی بجا کر خوشی سے بولی۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشعال بھابھی آپ بہت اچھی ہے۔ وہ کھلکھلا کر ہنسی۔
ہاں وہ تو میں ہوں۔ وہ اَترا کر بولی۔ اس بار دونوں کا بھرپور قہقہہ کمرے میں گونجا۔
اچھا اب جلدی سے اُٹھو۔ میں نے تمہیں کچھ دیکھانا ہے۔ مشعال اسے بیڈ سے اُٹھاتے ہوئے بولی۔
وہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
وہ میں تمہیں ابھی نہیں بتاؤ گی۔ تم چلو میرے ساتھ۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئےبولی۔
ایک منٹ ایک منٹ رامیہ تم یہاں پر رُکو, میں ابھی آئی۔ مشعال اسے دروازے میں کھڑا کر کے دوبارہ اندر کی طرف بھاگی, اور الماری سے ایک سیاہ رنگ کا کپڑا نکال کر اس کے پاس آ کر اس کی آنکھوں پر باندھ دیا۔
مشعال بھابھی یہ آپ کیا کر رہی ہے۔ وہ ناسمجھی سے بولی۔
تمہاری آنکھوں پر کپڑا باندھ رہی ہوں۔ کیونکہ تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے۔
کیا سرپرائز سچ ؟ وہ خوشی سے چہک کر بولی۔
جی ہاں اب چلو, مشعال اس کا ہاتھ پکڑ کر نیچے لے آئی۔
رامیہ تم یہاں پر بیٹھو۔ جب تک میں نہ کہو آنکھوں سے پٹی مت ہٹانا۔ وہ اسے صوفے پر بیٹھاتے ہوئے بولی۔
اُوکے اس نے فوراً ہاں میں گردن ہلائی۔
تھوڑی ہی دیر بعد مشعال کے موبائل پر میسج کی بِپ ہوئی۔
اذان کا میسج : اُوکے مشعال اسے لے آؤ باہر۔
رامیہ اُٹھو, تمہاری انتظار کی گھڑیاں اب ختم ہوئی۔ میسج ریڈ کرتے ہی مشعال اس سے بولی, اور اس کا ہاتھ پکڑتے۔ اسے باہر لے آئی۔
رامیہ اب تم اپنی آنکھوں سے پٹی ہٹا سکتی ہو۔
سرپرائز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رامیہ نے جونہی اپنی آنکھوں سے پٹی ہٹائی۔ مشعال اور اذان ایک ساتھ بولے۔
واؤ۔۔۔۔۔۔۔نیو کار۔ سامنے ریڈ کلر کی فراری کھڑی دیکھ کر وہ ایک دم خوشی سے چیخی۔
اذان بھائی جان یہ کس کی کار ہے۔ وہ گاڑی کے اِردگِرد گھومتے ہوئے بولی۔
"تمہاری اور کس کی۔۔۔۔۔۔۔۔"
کیا سچ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ آپ سچ بول رہے ہیں ؟ یہ واقع میری کار ہے۔ وہ اذان کے پاس جا کر خوشی سے چہک کر بولی۔
ہاں میری گڑیا, میں سچ بول رہا ہوں۔اسے خوش دیکھ کر اذان کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ اس کی لمبی پتلی ناک دباتے ہوئے بولا۔
اُوں مائے گارڈ مجھے یقین نہیں آ رہا۔ رامیہ دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر خوشی سے بولی۔
اس کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔
ویسے اذان بھائی جان آپ کو کیسے پتہ چلا۔ مجھے کار چاہںیے۔ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
وہ تم جب اپنے ڈیڈ سے باتیں کر رہی تھی "نا"۔ تو میں نے تمہاری باتیں سن لی تھی۔
اذان بھائی جان آپ بہت اچھے ہیں۔ آپ میری خوشی کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ یو آر دا بیسٹ بردر ان دا ورلڈ۔ وہ اذان کے گلے لگتے ہوئے بولی۔
میں اپنی گڑیا کی خوشی کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں۔ وہ اس کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے بولا۔
تھینک یو اذان بھائی جان۔
آہمم بھائی کو تھینکس نہیں کہتے۔ اس نے اس کے سر پر چپت لگا کر اسے گھورا۔
سوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے اپنے دونوں کان پکڑے اذان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
اچھا یہ سب چھوڑو۔ تم مجھے بتاؤ تمہیں یہ کار کیسی لگی۔
بہت پیاری وہ کار کی سِمت دیکھتے ہوئے بولی۔
ویسے رامیہ تمہارے ڈیڈ تمہیں کار دلوانے سے منع کیوں کر رہے تھے۔ وہ اس سے مخاطب ہوا۔
وہ اس لیے کہ مجھے ڈرائیونگ نہیں آتی۔ اس کی زبان پھسلی۔ پھر جلد ہی اس نے اپنی زبان دانتوں تلے لے کر اس کی طرف دیکھا۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ یہ تم کیا کہہ رہی ہو, تمہیں ڈرائیونگ نہیں آتی۔
اس نے معصومیت سے انکار میں سر ہلایا۔
اُوں مائے گارڈ, اذان اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔

اذان بھائی جان آپ فکر نہ کریں۔ میں چلا لوں گی۔ وہ فوراً بولی کہیں وہ اس سے یہ کار چھین نہ لے۔
گڑیا یہ کھلونا نہیں, اصلی کار ہے جو تمہیں نہیں چلانی آتی۔ اذان نے اسے سمجھانا چاہا۔
لیکن اذان بھائی جان میں چلا لوں گی۔ پلیز کار کی کیز دے دیں۔
نہیں بالکل بھی نہیں, میں تمہیں کار کی کیز نہیں دوں گا۔ جب تک تمہیں ڈرائیونگ نہیں آتی۔
پلیز ذان بھائی جان۔ وہ التجائیہ لہجے میں بولی۔
نہیں گڑیا میں تمہاری یہ بات نہیں مان سکتا۔ وہ انکاری ہوا۔
آپ نہیں مانے گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں گڑیا آخر تم میری بات سمجھ کیوں نہیں رہی۔
اذان بھائی جان اگر آپ نے مجھے کار کی کیز نہ دی۔ تو میں آپ کی دادجی سے شکایت کروں گی۔ وہ ناراضگی سے بولی۔
اچھا ٹھیک ہے تم نے جس سے میری شکایت لگانی ہے لگا لو۔ مگر یہ تو طہٰ ہے تمہیں کار کی کیز نہیں دوں گا۔ کیونکہ میں تمہاری زندگی کو کسی خطرے میں ڈالنے کا رسک نہیں لے سکتا۔ اسے نہ مانتے دیکھ کر اذان اَٹل لہجے میں بولا۔
دادجی۔۔۔۔۔۔دادجی رامیہ اونچی آواز میں دادجی کا نام پکارتے خویلی کے اندر چلی گئی۔ کہ اسے وہ سامنے ہی کسی اخبار میں مگن نظر آئے۔
دادجی دیکھے "نا"۔ اذان بھائی جان پہلے خود ہی میرے لیے کار لے کر آئے۔ اب کار کی کیز بھی نہیں دے رہے۔ رامیہ فوراً ان کی طرف لپکی اور ان کے پاس بیٹھ کر منہ بسورتے ہوئے بولی۔
خارب جو تھوڑے فاصلے پر بیٹھا آفس کا کوئی کام کر رہا تھا۔ کہ بلا ارادہ اس کا دھیان اس کی طرف گیا۔
وہ اس لیے دادجی, پہلے مجھے نہیں پتہ تھا۔ اسے ڈرائیونگ نہیں آتی۔ اذان اندر آتے ہوئے فوراً بولا۔
لیکن دادجی میں سیکھ لوں گی۔ کیونکہ خارب نے مجھ سے پرامس کیا تھا۔ کہ وہ مجھے ڈرائیونگ سکھائے گا۔ اس نے فوراً بہانہ بنایا۔
اس کی بات پر خارب نے فوراً آنکھیں پھاڑے خیران نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ دادجی خوش ہو کر بولے۔
لیکن دادجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔خارب نے کچھ کہنا چاہا۔
بس طہٰ ہو گیا, خارب رامیہ کو ڈرائیونگ سکھائے گا۔ دادجی اس کی بات کاٹ کر بولے۔
رامیہ نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ جو نظروں ہی نظروں میں اسے گھور رہا تھا۔
دادجی اب تو بولے اذان بھائی جان کو کار کی کیز دے دیں۔ میں ابھی اپنی کار پر باہر جانا چاہںتی ہوں۔ پلیز آپ فکر نہ کریں, خارب میرے ساتھ جا رہا ہے۔
اذان دے دو کار کی کیز میری پوتی کو۔ دادجی اس سے مخاطب ہوئے۔
اذان کو مجبوراً کار کی کیز اسے دینی پڑی۔ لیکن اسے ابھی بھی اس کی فکر تھی۔
خارب چلیں, وہ کار کی کیز لیتے ہی اب خارب کی طرف رُخ کر کے بولی۔
خارب پلیز میری گڑیا کا خیال رکھنا۔ اذان متفکر لہجے میں بولا۔
اذان بھائی جان آپ فکر نہ کریں۔ مجھ پر بھروسہ رکھے۔ وہ تسلی آمیز لہجے میں بولا۔
تم نے جھوٹ کیوں بولا۔ میں نے کب تم سے پرامِس کیا۔ کہ میں تمہیں ڈرائیونگ سکھاؤں گا۔ وہ باہر آتے ہی اس پر بھڑکا۔
ہاں تو اب کر لو, وہ کندھے اچکا کر مسکرا کر بولی۔
تمہیں تو میں دیکھ لوں گا۔ وہ چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سخت لہجے میں بولا۔ جبکہ رامیہ نے اس کی بات کو ہوا میں اُڑایا۔
                                              ****************
نمی کیا ہوا تم اس طرح کیوں رُو رہی ہو ؟
ضوفیرہ مارکیٹ سے آئی تو سامنے صوفے پر بیٹھے نریم کو روتے دیکھ کر بولی۔
ضوفی اس نے مجھے دھوکہ دیا۔ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا۔ نریم اس کے گلے لگ کر ہچکچیوں سے روتے ہوئے بولی۔
کس نے۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اسی نے ضوفی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں نمی تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے۔ اس کی بات سمجھ آتے ہی ضوفیرہ فوراً بولی۔
نہیں ضوفی وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے۔
تم اتنے یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس نے اِستفسار کیا۔ کیونکہ اس کا دل یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا۔ کہ وہ کبھی نریم کو دھوکہ دے سکتا ہے۔
اس کی تھوڑی دیر پہلے کال آئی تھی۔ اس نے کہا, اس نے کہا اب میں تمہیں فون نہیں کروں گا۔ وہ مجھے نہیں کسی اور لڑکی سے پیار کرتا ہے۔ وہ روتے ہوئے بولی۔
لیکن ایسے نہیں ہو سکتا۔ اس نے مجھے خود بتایا تھا۔ کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟ نریم نے خیرت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
مم۔۔۔۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔۔۔میرا مطلب تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم نے خود ہی تو بتایا تھا۔ کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے۔ ضوفیرہ نے فوراً بات سنبھالی۔
ہاں اس نے کہا تھا لیکن اب اسے کوئی اور لڑکی اچھی لگنے لگی ہے۔ میرے ساتھ وہ صرف ٹائم پاس کر رہا تھا۔
نمی چلو میں ایک پَل کے لیے مان بھی لیتی ہوں۔ کہ اسے اب کسی اور سے محبت ہو گئی ہے۔ لیکن تم یہی تو چاہںتی تھی۔ کہ وہ تم سے دور رہے, تمہیں فون نہ کریں۔ اب وہ ایسا کر رہا ہے تو تمہیں بُرا کیوں لگ رہا ہے۔ اس نے جانچتی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
نہیں ضوفی میں ایسا نہیں چاہںتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں چاہںتی میں ایسا۔ نریم روتے ہوئے چیخی۔


دیکھو نمی مجھے تمہاری کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ نہ تم اسے چھوڑ سکتی ہو۔ نہ منگنی توڑ سکتی ہو۔ آخر تم چاہںتی کیا ہو۔ وہ ناسمجھی سے بولی۔
ضوفی مجھے خود نہیں پتہ۔ میں کیا چاہںتی ہوں۔ مجھے بس اتنا پتہ ہے میں اس سے محبت کرتی ہوں, اور اس کے بغیر ایک پَل نہیں رہ سکتی۔ وہ روتے ہوئے بولی اور فوراً اُٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔
کتنا بڑا دھوکے باز ہے یہ شخص مجھے کہہ رہا تھا۔ میں نریم سے سچی محبت کرتا ہوں۔ لیکن مسڑ ایکس وائے زیڈ تم جو کوئی بھی ہو۔ تم نے میری فرینڈ کو رُلا کر اچھا نہیں کیا۔ ایک دفعہ تم میرے سامنے آؤ, میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں۔ ضوفیرہ چہرے پر غصے کے تصورات لے کر خود بڑبڑائی۔
                                          *****************
رامیہ پلیز کار کی سپیڈ کم کرو۔ کیوں اپنی جان کے ساتھ میری جان کی بھی دشمن بنی ہوئی ہو۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔خارب تم کتنے ڈر پوک ہو۔ میں لڑکی ہو کر نہیں ڈر رہی۔ تم تو پھر بھی لڑکے ہو۔ وہ کار کی سپیڈ اور بڑھاتے ہوئے ہنس کر بولی۔
میں ڈر پوک نہیں ہوں۔ مجھے ڈر اس بات ہے کہ تمہیں کچھ نہ ہو جائے, اور اذان بھائی نے تمہاری ذمہ داری مجھے دی ہے, اور ویسے بھی تمہیں ابھی ٹھیک سے ڈرائیونگ بھی نہیں آتی۔ اس کے ڈر پوک کہنے پر خارب غصے سے بولا۔
کس نے کہا مجھے ڈرائیونگ نہیں آتی۔ دیکھو میں ڈرائیو کر تو رہی ہوں۔
جی ہاں دِکھ رہا ہے, جیسے تم کار ڈرائیو کر رہی ہو۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر طنزیہ لہجے میں بولا۔
اچھی کر رہی ہوں"نا" کار ڈرائیو دیکھ لو پھر۔ وہ اسے آنکھ ونک کر کے چڑانے والی مسکراہٹ سے بولی۔
رامیہ یا تو کار کی سپیڈ سلو کرو, یا پھر کار روک دو۔ کیونکہ میں تمہارے ساتھ ایسے سفر نہیں کر سکتا۔
کار کی سپیڈ تو میں سلو نہیں کروں گی, اور جہاں تک رہی بات کار روکنے کی۔ تو مجھے نہیں پتہ یہ رُکے گی کیسے۔ وہ اطمینان سے بولی۔
رامیہ اس وقت میں مذاق کے موڈ میں بالکل بھی نہیں ہوں پلیز یہ اپنا مذاق۔۔۔۔۔۔۔۔
رامیہ سامنے دیکھو, اس سے پہلے خارب کی بات مکمل ہوتی۔ کہ اس کی نظر سامنے سے آتے ٹرک پر پڑی۔
اُوں نو اب میں  کیا کروں۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک دم بوکھلائی۔
رامیہ گاڑی کو رائٹ سائڈ پر لے کر رُوکو۔ تم نے سُنا نہیں, رامیہ گاڑی کو رائٹ سائڈ پر لو۔ اسے ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ کر وہ غصے سے دھاڑا۔
خارب میں مذاق نہیں کر رہی تھی۔ مجھے سچ میں نہیں پتہ بریک کہاں سے لگاؤں۔ وہ سڑک پر اپنی گاڑی کو اِردگِرد گھُماتے ہوئے ڈر کے مارے کانپ رہی تھی۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ پاگل لڑکی جب میں تمہیں اس کے بارے سب کچھ سمجھا رہا تھا۔ تب تمہارا دماغ کدھر تھا۔ اس سے پہلے کے ٹرک ان کی گاڑی سے ٹکراتا۔ خارب نے سٹرنگ اپنے ہاتھ میں لے کر گاڑی کو دوسری طرف گُھمایا۔ جو سامنے درخت سے جا ٹکرائی۔ ایک فلک دار چیخ فضا میں نمودار ہوئی۔

جاری ہے


Posta un commento

1 Commenti

  1. Kamal episode amazing out standing❤👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻

    RispondiElimina

Commento

Parvish novel

PARIVISH Episode 31 (پری وش)