Parivish
(پرى وش)
# Novel By Parivish
# Write; Aima Ashfaq
# Family, Funny Innocent herion, Rude hero based novel
#Please Don't Copy paste My Nobel
#Episode 20:
نمی تم سارے سوال یہاں کھڑے کھڑے ہی پوچھ لو گی یا پھر اندر بھی آنے دو گی۔ وہ اسے دروازے میں کھڑا دیکھ کر بولی۔
اُوں سوری۔۔۔۔۔۔۔ہاں ہاں ضرور آؤ۔ وہ فوراً سائیڈ پر ہو کر بولی اور اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔
نمی وہ نہیں آئی۔ صرف میں ہی آئی ہوں۔ ضوفیرہ اندر آکر صوفے پر تھکے ہوئے انداز میں بیٹھی۔ تو اسے وہی دروازے میں کھڑا دیکھ کر پیچھے سے ہانک لگائی۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ رامی کیوں نہیں آئی ؟ کیا وہ پہلے اپنے گھر گئی ہے۔ نریم فوراً اس کے پاس آ کر بیٹھتے ہوئے بولی۔
وہ پاکستان سے ہی نہیں آئی۔
کیوں۔۔۔۔۔۔؟ اور تم اسے وہاں اکیلا چھوڑ آئی۔ کیا تم دونوں کے بیچ کوئی لڑائی ہوئی ہے۔ اس نے متفکر لہجے میں اِستفسار کیا۔
ارے نہیں بابا ! ہمارے بیچ کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ ویسے ہی میرا دل کر رہا تھا آنے کو, تو میں آ گئی۔ رامی بھی 15 دن تک آ جائے گی۔ اور مجھے اس کی بالکل بھی فکر نہیں ہے۔
کیونکہ جہاں وہ رہ رہی ہے وہ لوگ بہت اچھے ہیں۔ اس کا بہت خیال رکھیں گے۔
ضوفیرہ جہاں تک میں تمہیں جانتی ہوں۔ وہ لوگ جتنے بھی اچھے ہو۔ تم ہمیشہ رامی کے ساتھ رہںتی ہو۔ اسے کبھی اکیلا نہیں چھوڑتی۔ لیکن اس بار ایسا کیا ہوا۔ کہ تم اس کے ساتھ نہیں آئی اور پہلے آ گئی۔ وہ تشویش بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
نہیں سچی نمی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔
اگر ایسی کوئی بات نہیں تو میری طرف دیکھ کر بولو۔
نمی اس وقت میں تھکی ہوئی ہوں۔ بعد میں بات کرتی ہوں۔ وہ فوراً بات بدلتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
ضوفی میں تمہاری دوست ہوں۔ اب تم مجھ سے بھی باتیں چھپانے لگی ہو۔ وہ جانے ہی لگی کہ نریم پیچھے سے بولی۔
اس کے قدم وہی رک گئے۔ نہیں نمی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ پیچھے مڑ کر دوبارہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی۔
تو پھر مجھے بتاؤ۔ ایسی کیا بات ہوئی کہ تم اتنی جلدی واپس آگئی۔ وہ جو کافی دیر سے اپنے آنسوؤں پر بند باندھے بیٹھی تھی۔ کہ آخر کار بہہ نکلے, اور وہ اس کے گلے لگ کر رونے لگ پڑی۔
ضوفی کیا ہوا تم اس طرح کیوں رؤ رہی ہو۔ کیا وہاں پر کسی نے کچھ کہا ہے۔ کہیں اس عمیر نے تو نہیں کچھ کہا۔ نریم اسے اس طرح روتے دیکھا۔ تو غصے سے عمیر کا نام لیتے ہوئے فکر مند لہجے میں استفسار کیا۔
ضوفی سچ بتاؤ۔ اس نے کچھ کہا ہے۔ اس نے اسے اپنے سے الگ کر کے پوچھا۔
نہیں نمی اس نے کچھ نہیں کہا۔ لیکن میں اسی کی وجہ سے یہاں آئی ہوں۔ وہ نم لہجے میں بولی۔
اگر اس نے کچھ نہیں کہا پھر کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ تم مجھے تفصیل سے بتاؤ بات کیا ہے۔
نمی اس نے مجھے کچھ نہیں کہا۔ لیکن نمی میں نے اس کی آنکھوں میں اپنے لیے پسندگی دیکھی ہے, اپنے لیے محبت دیکھی ہے۔ لیکن نمی میں یہ نہیں چاہںتی وہ مجھے پسند یا پھر مجھ سے محبت کرے۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تم ایسا کیوں نہیں چاہںتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ آنکھوں میں خیرت لیے بولی۔
نمی میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتی اور ویسے بھی میں اسے پسند نہیں کرتی۔ اگر پسند کرتی بھی ہوتی تو اسے شادی کبھی نہ کرتی۔ وہ حتمیٰ انداز میں بولی۔ اور روتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
******************
کچھ ہی دیر میں وہ خویلی پہنچے۔ ہارن کی آواز پر گارڈ نے فوراً مین گیٹ کھولا۔ گیٹ کھولتے ہی اذان اپنی گاڑی اندر لے آیا۔ پورے راستے رامیہ نے کوئی بات نہیں کی تھی, اور کسی نے اسے فورس بھی نہیں کیا تھا۔ کیونکہ سب کو یہی لگ رہا تھا کہ وہ ضوفیرہ کے چلے جانے کی وجہ سے اپ سیٹ تھی۔ لیکن اذان پورے راستے کوئی نہ کوئی بات کرتا رہا۔ کیونکہ اسے اپنی گڑیا ایسے خاموش خاموش سی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ جبکہ رامیہ اس کے سوالوں کا جواب ہوں۔۔۔۔۔۔۔ہاں میں دیتی رہی۔
رامیہ گاڑی سے نکلی تو اس کے سر میں فوراً درد کی ٹھیس اٹھی۔ اس نے ایک ہاتھ اپنا سر پر رکھا۔
رامیہ تم ٹھیک ہو۔ مشعال اسے سر پر ہاتھ رکھے دیکھ کر فوراً بولی۔
جہ۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔ وہ نظریں نیچی کیے ہی بولی۔ کیونکہ وہ نہیں چاہںتی تھی۔ وہ اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار پڑھ لے, اور وہ فورا بھاگتے ہوئے اندر چلی گئی۔ وہ انہیں پریشان نہیں کرنا چاہںتی تھی۔
اسے ایسے اندر جاتے دیکھ کر اذان بھی پریشان ہوا۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے روکتا۔ کہ افشال کو اکیلے اندر آتے دیکھ کر بولا۔
افشال "خارب اور عمیر کہاں ہے ؟
وہ اذان بھائی جان, خارب بھائی جان کو آفس میں کوئی کام تھا۔ اس لیے انہوں نے ہمیں باہر گیٹ پر ہی اتار دیا تھا, اور عمیر بھائی جان کہہ رہے تھے کہ وہ اپنے دوست کی طرف جا رہے ہیں۔تھوڑی دیر تک آ جائے گے۔ اس نے وضاحت دی۔
اذان۔۔۔۔۔۔۔اذان۔۔۔۔۔۔۔ماما۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماما۔۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز جلدی جلدی آئیے۔
اذان ابھی کسی کو کال کرنے ہی لگا تھا۔ کہ مشعال کی چیخوں کی آواز سن کر فوراً بھاگتے ہوئے اندر گیا۔ لیکن سامنے کا جو منظر اسے دیکھنے کو ملا۔ اس نے ایک پَل کے لیے اذان کو ساکت کر دیا تھا۔ اسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔ رامیہ سڑھیوں کے پاس بے ہوش پڑی تھی, اور مشعال اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اذان فوراً اس کی طرف لپکا اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔
گڑیا۔۔۔۔۔۔۔۔گڑیا کیا ہوا پلیز آنکھیں کھولو۔ وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے بولا۔
اُوں نو اسے تو بہت تیز بخار ہے۔ یہ کب سے بے ہوش ہے ؟
جب میں اندر آئی ی تو یہ سڑھیوں کے پاس بے ہوش پڑی تھی۔ اتنی دیر میں صائمہ اور دادجی بھی اندر آ گئے۔
اذان کیا ہوا ہے رامیہ کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ماما اسے بہت تیز بخار ہے۔ اذان رامیہ کے بے ہوش وجود کو اٹھاتے ہوئے بولا, اور اوپر کمرے میں لا کر بیڈ پر لٹا دیا۔ خود ڈاکٹر کو فون کرنے لگا۔
رامیہ۔۔۔۔۔۔۔رامیہ بیٹا پلیز آنکھیں کھولو۔ صائمہ روتے ہوئے بولی۔
بہو۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں ہو گا رامیہ کو حوصلہ رکھو۔
کیسے حوصلہ رکھو بابا جان۔ مجھے کیا پتہ تھا میری بچی کی طبیعت خراب ہے۔ میں نے تو سمجھا تھا۔ کہ شاید ضوفیرہ کے جانے کی وجہ سے دکھی ہے۔
ماما تھوڑی دیر میں ڈاکٹر آ رہے ہے۔ اذان اندر آتے ہوئے بولا۔
خالہ جانی میں ٹھنڈا پانی اور پٹیاں لے آئی ہوں۔ جب تک ڈاکٹر نہیں آتے, آپ رامیہ آپی کے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھے۔ کیا پتہ اس سے تھوڑا بخار کم ہو جائے۔ افشال ٹھنڈے پانی کا باؤل اَگے کرتی ہوئی بولی۔
ادھر دے ماما ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتا ہوں۔ اذان ان سے باؤل لیتے ہوئے بولا۔
مشعال نے فوراً چیر اٹھا کر بیڈ کے پاس رکھی۔ جس پر اذان بیٹھ گیا۔
گڑیا پلیز آنکھیں کھولو۔ ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گا۔ پلیز اپن یور آئز۔ ماما میری گڑیا دور تو نہیں نہ جائے گی۔ اذان اس کے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتے ہوئے صائمہ سے بولا تھا۔ اس کے چہرے پر ڈر صاف واضح تھا۔
نہیں اذان رامیہ کو کچھ نہیں ہو گا۔ وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولی۔ رامیہ کو آج اس میں چھوٹا سا اذان نظر آ رہا تھا۔ جس کی آنکھوں میں اپنی گڑیا کھو جانے کا ڈر تھا۔
کچھ دیر میں ڈاکٹر بھی آ گیا, اور رامیہ کا مکلمل چیک اپ کرنے لگے۔
دیکھے آپ کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان کو شاید سردی لگ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے اتنا تیز بخار ہوا۔ میں کچھ میڈیسن لکھ رہا ہوں۔ یہ ان کو کھلا دیجئیے گا۔ ان شاءاللّه دو دن تک بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔ ابھی انہیں میں نے انجیکشن لگا دیا ہے۔ شام تک انہیں ہوش آ جائے گا۔ چیک کے بعد وہ تسلی بخش لہجے میں بولا۔
تھینک یو ڈاکٹر جمال۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے اس میں تھینکس کی کیا بات ہے یہ تو میرا فرض تھا۔ وہ مسکرا کر بولے۔
آئے میں آپ کو باہر تک چھوڑ آؤں۔ اذان انہیں جاتا دیکھ کر فوراً بولا۔
******************
یہ لو تمہاری کافی, نریم ٹی وی دیکھتی ضوفیرہ سے بولی۔
تھینکس, وہ کافی کا کپ پکڑتے ہوئے بولی۔
ضوفی تم سے ایک بات پوچھوں۔ تو سچ سچ بتاؤ گی۔ وہ اس کے پاس ہی بیٹھتے ہوئے بولی۔
ہاں نمی پوچھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا پوچھنا چاہںتی ہو۔ وہ ٹی وی کا والیوم کم کر کے مکمل اس کی طرف متوجہ ہو گی۔
ضوفی تم عمیر کو پسند کرتی ہو ؟
یہ کیسا بے تکا سوال ہے۔ وہ جو کافی کا سپ لینے ہی لگی تھی۔ کہ اس کے سوال پر وہ کپ ہونٹوں سے لگاتے لگاتے رُکی اور خیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
ضوفی میں نے کوئی ایسا مشکل سوال بھی نہیں پوچھا۔ وہ چائے کا سپ لیتے ہوئے بولی۔
نمی تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا۔ میں ایسے فضول سوال کا جواب دینا پسند نہیں کرتی۔
مگر ضوفیرہ مجھے لگتا ہے تم اسے پسند کرتی ہو۔
نمی آج تمہیں ہو کیا گیا ہے۔ تم ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو۔ میں اسے پسند نہیں کرتی۔ وہ جنجھلا کر بولی۔
ضوفی کس سے جھوٹ بول رہی ہو۔ مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے آپ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا پھر عمیر سے۔
نمی مجھے لگتا ہے تم پاگل ہو گئی ہو۔
نہیں ضوفی میں پاگل نہیں ہوئی۔ تم اپنے آپ کو پاگل بنا رہی ہو۔ اسی انداز میں بولی۔
نمی میں نے کہا "نا"۔ میں اسے پسند نہیں کرتی۔ پھر کیوں بار بار ایک ہی بات کر رہی ہو۔ میں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں سننا چاہںتی۔ اس بار وہ سخت لہجے میں بولی۔
ہاں تم اس کے بارے میں سننا نہیں چاہںتی۔ تم اسے دل سے نکال دینا چاہںتی ہو۔ لیکن وہ تمہارے دل سے نہیں نکل پا رہا۔ اس لیے تو تم پاکستان سے بھاگ کر یہاں آ گئی۔ کہ اگر اس نے تمہیں پرپوز کر دیا۔ تو کہیں تم اس کے جذبوں میں بہک کر تم ہاں نہ کر دو۔ وہ بھی دو ٹوک لہجے میں بولی۔
نہیں یہ نہیں ہے۔ تم کیوں نہیں سمجھ رہی۔ میں اسے پسند نہیں کرتی۔
تو پھر نظریں کیوں چُرا کر بات کر رہی ہو۔ نظریں چُرا کر وہ بات کرتے ہیں۔ جن کے دل میں کوئی کھوٹ ہوتا ہے۔
نمی میں تمہیں آخری بار کہہ رہی ہوں۔ میں اسے پسند نہیں کرتی۔ وہ اس دفعہ اونچی آواز اور مضبوط لہجے میں بولی, اور غصے سے اٹھ کر وہاں سے چلی گئی, اور اپنا کافی کا کپ بھی وہاں پر چھوڑ گئی۔
ضوفی تم خود بھی ابھی اپنے جذبوں سے بے خبر ہو۔ لیکن جس دن تمہیں خبر ہو گی۔ اس دن بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ نریم پیچھے سے ہانک لگائی۔ لیکن وہ نظرانداز کرتے ہوئے کمرے میں چلی گئی, اور اندر سے دروازہ لاک کر دیا۔
******************
رامیہ نے اپنی آنکھیں کھولی۔ تو اپنے سامنے چیر پر اذان کو بیٹھے دیکھا۔ گڑیا تم ٹھیک ہو۔ ماما دیکھے گڑیا نے اپنی آنکھیں کھول لی۔ اذان خوشی سے صائمہ سے بولا۔ جو رامیہ کا سر دبا رہی تھی۔
اذان بھائی جان آپ یہاں۔
ہاں گڑیا تم بے ہوش ہو گئی تھی۔ تم نے تو ہمیں ڈرا ہی دیا تھا۔ اب کیسی طبیعت ہے تمہاری۔ وہ فکر مند لہجے میں بولا۔
اب میں بیٹر فِیل کر رہی ہوں۔ اس نے تسلی دی۔
مگر گڑیا تم نے ہمیں مری میں کیوں نہیں بتایا۔ کہ تمہاری طبیعت خراب تھی۔
میں آپ لوگوں کو پریشان نہیں کرنا چاہںتی تھی۔ اس لیے نہیں بتایا۔ وہ نظریں نیچے کیے بولی۔
ہاں پریشان نہیں کرنا چاہںتی تھی۔ لیکن ہارٹ اٹیک دے دیا تھا۔ وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔
آں اللّه نہ کریں۔ اس نے فوراً اذان کے منہ پر ہاتھ رکھا۔
صائمہ نے ان دونوں بہن بھائیوں کی محبت دیکھ کر دل ہی دل میں بلائیں لی۔ کاش رامیہ ہی ہماری پری وش ہوتی۔
ایک بات بتاؤ گڑیا, تمہیں ایک دم بخار کیسے ہو گیا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے جب ہم ضوفیرہ کو ائیر پورٹ پر چھوڑ کر واپس آئے تھے۔ تو اس وقت تو تم ٹھیک تھی۔ میں نے تمہارے ضد کرنے پر بھی تمہیں آئس کریم نہیں لے کر دی تھی۔ تو پھر تم ایک دم سے بیمار کیسے ہو گئی۔ اذان نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
وہ اذان بھائی جان میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گی۔ لیکن پہلے آپ مجھ سے وعدہ کریں ڈانٹے گےنہیں۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ایسا کَیا کِیا تم نے ؟ اسے تشویش ہوئی۔
پہلے وعدہ کریں "نا"۔
اچھا ٹھیک ہے نہیں ڈانٹو گا۔
وعدہ۔۔۔۔۔۔؟
ہاں ہاں بابا وعدہ
وہ میں اس دن بادل گرجنے کی آواز پر رات کو میری آنکھ جلدی کھل گئی تھی۔ جب کھڑکی بند کرنے کے لیے اٹھی تو باہر بارش ہو رہی تھی۔ اذان بھائی جان مجھے بارش اتنی زیادہ پسند ہے۔ کہ اکثر میں بارش میں نہاتی ہوں۔
تو اس کا مطلب اس دن تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی اذان بھائی اس دن میں بارش میں نہائی تھی۔ اس نے فوراً اذان کی بات مکلمل کی۔
گڑیا تم پاگل تو نہیں ہو گئی تھی۔ مری کے اتنے ٹھنڈے علاقے میں تم بارش میں نہائی تھی۔ تمہیں پتہ ہے, تمہیں کتنا تیز بخار تھا۔ ہم سب لوگ کتنا پریشان ہو گئے تھے۔ اگر خدانحستہ آج تمہیں کچھ ہو جاتا تو۔ اذان اسے زبردست ڈانٹتے ہوئے بولا۔
اذان بھائی جان آپ نے وعدہ کیا تھا۔ آپ ڈانٹے گے نہیں۔ وہ معصومیت سے بولی۔
بس اذان جو ہونا تھا ہو گیا۔ تم اب میری بیٹی کو مت ڈانٹو۔ کچھ دیر پہلے صائمہ بھی اس کی اس حرکت پر پریشان ہو گئی تھی۔ لیکن اذان کا اسے اس طرح ڈانٹنا انہیں برا لگا تھا۔ اس لیے آنکھیں دکھاتے ہوئے بولی۔
ماما شاید آپ نے ٹھیک سے سنا نہیں اس نےکیا کہا ہے۔ وہ اپنی ماما کو اس کی سائیڈ لیتے دیکھ کر فوراً بولا۔
مجھے پتہ ہے, لیکن جو ہونا تھا ہو گیا۔ اب اسے پلٹا تو نہیں "نا" جا سکتا۔ وہ اپنی غلطی تسلیم کر رہی ہے "نا" یہی بہت ہے۔
اذان بھائی جان آپ مجھ سے ناراض ہے۔ وہ اذان کا پُھلا ہوا منہ دیکھ کر فوراً بولی۔
نہیں گڑیا میں ناراض نہیں ہوں۔ بس میں پریشان ہو گیا تھا۔ وہ پیار سے اس کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
ایم سوری اس نے کان پکڑے۔
ارے نہیں گڑیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اٹس اُوکے۔ لیکن آئندہ تم ایسی کوئی حرکت نہ کرنا۔ جس کی وجہ سے تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔ اذان پیار سے اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔
اوکے وہ مسکرائی۔
ہماری پوتی اب کیسی ہے۔ اسی وقت دادجی بھی کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے۔
دادجی اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔ مگر یہ کیا آپ اوپر کیوں آئے۔ وہ فکرمند لہجے میں بولی۔
اپنی پوتی کی طبیعت پوچھنے۔ وہ اس کے پاس ہی پڑی چیر پر بیٹھتے ہوئے بولے۔ جہاں کچھ دیر پہلے اذان بیٹھا تھا۔
اچھا ماما مجھے کچھ کام ہے۔ میں ابھی آیا۔ یہ بولتے ہی اذان وہاں سے چلا گیا۔
رامیہ میں ابھی تمہارے لیے سوپ بنا کر لائی۔
اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ماما۔ میں رامیہ کے لیے سوپ بنا کر لے آئی ہوں۔ مشعال کمرے میں آتے ہوئے بولی۔
لیکن آنٹی مجھے سوپ بالکل بھی نہیں پینا۔ اس نے منہ بنایا۔
لیکن رامیہ رامیہ بیٹا تھوڑا سا پی لو۔ پھر آپ نے میڈیسن بھی تو لینی ہے۔ وہ پیار سے اسے پچکارتے ہوئے بولی۔
نہیں آنٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے بریانی کھانی ہے اور وہ بھی آپ کے ہاتھ کی بنی ہوئی۔ وہ بضد ہوئی۔
رامیہ بیٹا ابھی تمہاری طبیعت بالکل ٹھیک نہیں ہوئی۔ دو دن تو تمہیں ہلکی پھلکی غذا کھانی ہو گی۔
جب تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی۔ میں اپنے ہاتھوں اپنی بیٹی کے لیے بریانی بناؤں گی۔ وہ پیار سے اس کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
اوکے لیکن یہ سوپ میں ایک ہی شرط پر پیو گی۔
وہ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ صائمہ نے خیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
وہ یہ کہ آپ یہ سوپ مجھے اپنے ہاتھوں سے پلائیں گی۔ وہ مسکرا کر بولی۔
ہاں کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صائمہ مشعال سے سوپ لے کر اپنے ہاتھوں سے اسے پلانے لگی۔ لیکن جلد ہی ان کی آ نکھوں میں آنسو آ گئے۔
آنٹی آپ رو رہی ہے ؟
نہیں بیٹا یہ تو خوشی کے آنسو ہے۔ کہ اَلله نے تمہیں ہماری زندگی میں بھیجا۔ پتہ نہیں میرا دل کہتا ہے تم ہی پری وش ہو۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔
آپ کا دل صیحی کہتا ہے میں آپ کی پری ہی ہوں۔
صائمہ کی آنکھوں میں خیرانی اُتری۔
میرامطلب میں آپ کی پری ہی جیسی ہوں۔ صائمہ کی آنکھوں میں خیرت کے تصورات دیکھ کر رامیہ فوراً بولی۔
اچھا اب آپ رونا بند کرے۔ ورنہ میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔
اس کی بات پر صائمہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
************************
ضوفی تم مجھ سے ناراض ہو۔ نریم کمرے میں آ کر اسے بولی۔ جو بیگ میں سے اپنے کپڑے نکال رہی تھی۔
نہیں نمی میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔ وہ اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر مسکرا کر بولی۔
اس کی ناراضگی دور ہوتے دیکھ کر نریم نے سکون بھرا سانس خارج کیا۔
نمی یہ کیا, تم نے تو میری الماری کو ڈاکخانہ بنا رکھا ہے۔ ضوفیرہ نے جونہی اپنے کپڑے رکھنے کے لیے الماری کھولی۔ تو سامنے مختلف قسم کے کارڈز اور لیٹرز پڑے دیکھ کر خیرانی سے بولی۔
نمی یہ کارڈز اور لیٹرز اسی ان نون نمبر والے تو نہیں بھیجے۔ وہ اپنے کپڑے ویسے ہی الماری میں رکھ کر اس کے پاس آ کر بولی۔
ہاں ضوفی یہ اسی نے بھیجے ہیں۔ وہ ناگواری سے بولی۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟ یہ اس نے تمہیں دئیے اور تم نے سنبھال کر الماری میں رکھ لیے۔ کہیں تم اسے پسند تو نہیں کرنے لگ پڑی۔ وہ اپنا کندھا اس کے کندھے سے مار کر شریر لہجے میں بولی۔
ضوفی تم پاگل تو نہیں ہو گی۔ جبکہ تم یہ بات اچھے سے جانتی ہو, میری منگنی ہو چکی ہے اور میں کسی کی امانت ہوں۔ میرے لیے تو ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ وہ نہایت ہی اونچی آواز اور سخت لہجے میں بولی۔
اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا سوری یار میں مذاق کر رہی تھی۔
نہیں ضوفی ایم سوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب تم نے اس کا ذکر کیا تو مجھے غصہ آ گیا تھا۔ تو میں زیادہ ہی ہائپر ہو گی تھی۔ ضوفی میں تمہیں بتا نہیں سکتی۔ وہ مجھے اتنا تنگ کرتا ہے۔ میرا دل کرتا ہے میں اسے جان سے مار دوں۔ یہ سب میں نے اس لیے سنبھال کر رکھے ہیں کہ اگر کبھی وہ میرے سامنے آیا۔ تو یہ سب میں اس کے منہ پر ماروں گی, اور پوچھوں گی۔ تم ہوتے کون ہو۔ میری زندگی کا فیصلہ کرنے والے۔
ضوفیرہ کو اس کے چہرے پر پریشانی صاف دیکھائی دے رہی تھی۔ وہ لوگ پتہ نہیں اور کتنی دیر ایسے ہی آپس میں باتیں کرتی رہںتی۔ کہ نریم کا اسی وقت موبائل رنگ ہوا۔
جس سے اس نے اٹھا کر سامنے سکرین پر دیکھتے ہی موبائل دوبارہ بیڈ پر پھینک دیا۔
کس کی کال تھی۔ اسے ایسا کرتے دیکھ کر ضوفیرہ فوراً بولی۔
اسی کا تھا" وہ بے زارگی سے بولی۔
نمی تم کال اٹھاؤ۔
ضوفی یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔ اس نے خیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
نمی میں نے تم سے جو کہا ہے وہ کرو۔ کال اٹھاؤ اور فون سپیکر پر ڈال دو۔
نمی میرے پر بھروسہ رکھو۔ ضوفیرہ نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی۔
اس نے کال اٹھاتے ساتھ ہی سپیکر ان کر دیا تھا۔
ضوفیرہ نے اسے باتوں ہی باتوں میں بات کرنے کے لیے کہا تھا۔
ہیلو !
ہیلو ! نریم کیسی ہو۔ تم نے خود تو کال کرنی نہیں ہوتی تو میں نے سوچا میں ہی کر لیتا ہوں۔ دوسری طرف اس کے لہجے میں شکوہ تھا۔
آپ مجھے پریشان کیوں کر رہے ہیں ؟ جبکہ آپ یہ بات اچھی طرح جانتے ہے۔ کہ جو آپ چاہںتے ہیں۔ وہ کبھی نہیں ہو گا۔
اور جو تم چاہںتی ہو۔ وہ میں کر نہیں سکتا۔ دوسری طرف اس کا لہجہ اٹل تھا۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ایسا کیوں نہیں کر سکتے ؟ کیوں آپ ہر روز کبھی رات کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی دن کو کال کر کے میری دوست کو پریشان کرتے ہیں۔ اس بار ضوفیرہ اس,کے ہاتھ سے موبائل چھین کر بولی۔
دیکھے مسٹر آئندہ سے آپ نے میری دوست کو پریشان کیا۔ تو میں آپ کو چھوڑوں گی نہیں۔ وہ غصے سے بھرپور لہجے میں بولی اور موبائل کا سلسلہ منتقطع کر دیا۔
لیکن موبائل دوبارہ رنگ ہوا۔
اب کیا مسئلہ ہے۔ آپ کو میری بات سمجھ میں نہیں آئی۔ تو دوبارہ سمجھا دوں کیا۔ اس بار جھنجھلاہٹ کا شکار تھی۔
دیکھے کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اوں اب میں سمجھی۔ آپ کی اصلیت جلد ہی سامنے نہیں آ گئی۔ آپ بہت جلد نہیں اپنی پٹری سے اُتر گئے۔ پہلے نریم اور اب جب میں نے آپ سے بات کی تو آپ میرا ہی نام پوچھنے لگ پڑے۔ پہلے میری دوست اور اب مجھ پر لائن مار رہے ہیں۔ وہ غصے کی شدت سے بھڑک اُٹھی۔ اس کا نام پوچھنا ضوفیرہ کو ناگوار گزرا تھا۔
مجھے اتنا تو آپ سے بات کر کے پتہ چل گیا۔ کہ آپ نریم کی دوست ہے۔ لیکن آپ کا نام نہیں معلوم اور آپ کی آواز بھی جانی پہچانی لگ رہی ہیں۔ اگر آپ اپنا نام بتا دے گی تو شاید مجھے گیس کرنے میں آسانی ہو جائے۔
ہاں۔۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی آپ میرا نام پوچھ رہے ہے۔ پھر بعد میں اڈریس معلوم کریں گے۔ پھر نمبر۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد مجھے کال پر تنگ کرنا شروع کر دے گے۔ کتنے بڑے فلرٹی ہے آپ, پہلے میری دوست اور اب میں۔۔۔۔۔۔۔پھر تیسرا نمبر کس کا ہو گا۔
آپ جیسوں لفنگوں کو میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ مگر آئندہ آپ نے یہاں کال کی۔ پھر دیکھنا میں کیا کرتی ہوں۔ یہ بولتے ہی ضوفیرہ نے فوراً کال کاٹی۔
حد ہی ہو گئی۔
ضوفی تم ٹھیک ہو۔ نریم اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
ہاں نمی میں ٹھیک ہوں۔ وہ لمبی سانس خارج کر کے ہونٹوں پر زبردستی مسکراہٹ سجا کر بولی۔
**********************
رامیہ آپی میں اندر آ سکتی ہوں۔
ارے افشال تم آؤ "نا " اجازت کیوں لے رہی ہو۔ وہ جو مرر کے سامنے ہئیر ڈرائیر سے اپنے بال ڈرائے کر رہی تھی۔ کہ افشال کی آواز پر اسے دروازے میں کھڑا دیکھ کر بولی۔
اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟
میں بالکل ٹھیک۔ وہ بالوں میں ہئیر بینڈ لگا کر اس کے پاس ہی بیٹھ کر بولی۔
آج تم کالج نہیں گئی۔
نہیں رامیہ آپی۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
وہ آج ہمارے کالج میں کوئی فنکشن تھا۔ اس لیے میرا دل نہیں کیا, اور ویسے بھی آج کا سارا دن میں آپ کے ساتھ گزارنا چاہںتی تھی۔ وہ رامیہ کی طرف دیکھ کر چہکتے ہوئے بولی۔
چلو اچھا کیا تم نہیں گئی۔ ورنہ میں بھی بہت بور ہوتی۔ اس نے منہ بسورا۔
آؤ میں تمہیں اپنی اور ضوفیرہ کی پک دیکھاتی ہوں۔ اس نے فوراً اپنا موبائل ان لاک کیا اور گیلری اپن کر کے پکچرز دیکھانے لگی۔
رامیہ آپی یہ کون ہے ؟
یہ میری اور ضوفیرہ کی بیسٹی نریم ہے۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
آپ کی کوئی بچپن کی پِک نہیں ہے۔ افشال نے اس کی طرف دیکھ کر استفسار کیا۔
نہیں افشال۔۔۔۔۔۔میری بچپن کی کوئی پِک نہیں ہے میرے پاس۔ سچ بتاؤں میں نے خود بھی اپنے بچپن کی کوئی پِک نہیں دیکھی۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ میں بچپن میں دکھتی کیسے تھی۔ میں نے ایک دفعہ ڈیڈ سے پوچھا تھا۔ وہ بولے, ہم تمہاری بچپن میں کوئی پِک لی ہی نہیں۔ وہ منہ بسورتے ہوئے بولی۔
اچھا یہ سب چھوڑو۔ افشال پلیز تم مجھے پلیز پری وش کا روم دیکھاؤ۔ پلیز میں دیکھنا چاہںتی ہوں۔ پلیز پلیز۔ اس نے ریکویسٹ کی۔
ٹھیک ہے بٹ آپ پرامس کرے۔ آپ کسی کو بتائیں گی نہیں۔ کیونکہ رامیہ آپی اس کمرے میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔
پرامس میں کسی کو نہیں بتاؤں گی۔ وہ خوش ہوتے ہوئے بولی۔
آئیے میرے ساتھ۔ افشال نے اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ وہ اسے اپنے ساتھ پری وش کے کمرے میں لے آئی۔
یہ پری وش کا روم ہے ؟ واؤ اِٹس سو بیوٹیفل۔ کمرہ دیکھتے ہی رامیہ کی آنکھیں کھولی کی کھولی رہ گئی تھی۔ وائٹ پینٹ, پنک قیمتی فرنیچر, لائٹ پنک پردوں پر چھوٹے چھوٹے بنے ہوئے پھولوں کے ڈزائن, ایرانی خوبصورت وقالین, مزین پر پرفیوم سے مہکتا بہت خوبصورت سا کمرہ تھا۔ دیواروں پر بہت ہی خوبصورت بچی کی تصویریں لگی ہوئی تھی۔
افشال یہ پری وش کی ہے "نا"۔
جی رامیہ آپی۔
واؤ کتنی پیاری تصویریں ہیں۔
افشال یہ آنٹی کے ساتھ کون ہے۔ اس نے ایک تصویر کی طرف اشارہ کیا۔ جس میں صائمہ اور ذُفیان نے پری وش کو اٹھایا ہوا تھا۔
یہ میرے خالو ہے۔
کیا سچ میں ؟ وہ آنکھوں میں خیرت لیے بولی۔
ہائے آنٹی اور انکل کتنے پیارے لگ رہے ہیں۔ وہ خوشی سے چہک کر بولی۔
یہ یقیناً اذان بھائی جان ہو نگے۔ اس نے اگلی تصویر کی طرف اشارہ کیا۔ جس میں اذان پری وش کو آئس کریم کھلا رہا تھا۔
جی یہ اذان بھائی جان ہے۔ وہ مسکرا کر بولی۔ جبکہ رامیہ کو یہ دیکھ کر تھوڑی جلن سی محسوس ہوئی تھی۔ کیونکہ ان کچھ ہی دنوں میں وہ اذان کے بہت قریب ہو گئی تھی۔ لیکن اس نے جلد ہی خود کو سنبھال لیا۔
افشال اگر تم مائنڈ نہ کرو۔ تو کیا میں یہ الماری کھول کر دیکھ سکتی ہوں۔ اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
جی رامیہ آپی ضرور۔
واؤ۔۔۔۔۔۔۔۔سو مچ کلودز اینڈ ویری نائس۔ ( Wow so much clothes and very nice ) الماری کھولتے ہی اتنے سارے کپڑے دیکھ کر بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔
مگر افشال مجھے ایک بات سمجھ نہیں آ رہی۔ جب آنٹی کی بیٹی کڈنیپ ہوئی تھی تو وہ اس وقت بہت چھوٹی تھی "نا"۔ لیکن یہ ڈریسیز, یہ کمرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھ کر لگتا نہیں ہے۔ کہ کسی بچی کا ہے۔ اس نے آنکھوں میں خیرت لیے استفسار کیا۔
میں آپ کی بات سمجھ رہی ہوں رامیہ آپی۔ وہ دراصل خالہ جانی ہر سال پری کی برتھ ڈے پر کمرے کی سیٹنگ چینج کراتی ہے۔ اس دن اس کے لیے دوبارہ سے شاپنگ کی جاتی ہے۔ کہ جب بھی کبھی ان کو ان کی پری مل گئی۔ تو اسے چھوٹے کپڑے آنے سے تو رہے۔ اس نے وضاخت دی۔
اُوں آئے سی۔ مگر میں دُعا کرتی ہوں۔ یا اَلله آنٹی کو ان کی بیٹی جلدی واپس مل جائے۔ ( آمین )۔ وہ اپنے دونوں اٹھا کر دُعا مانگتے ہوئے بولی۔ لیکن اسے کیا پتہ تھا یہ دُعا اس کی زندگی ہلا کر رکھ دینے والی تھی۔
صائمہ جو کب سےباہر کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھی۔ ان کی آنکھیں بھر آئی۔
بنا آواز کیے۔۔۔۔۔۔۔۔بنا کچھ کہے وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔
رامیہ آپی آپ کمرہ دیکھے میں ابھی آئی۔
اس کے جاتے ہی رامیہ دوبارہ تصویروں کی طرف متوجہ ہو گئی۔ ابھی وہ ستائش بھری نظروں سے انہیں دیکھ ہی رہی تھی۔ کہ اسی وقت کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر کھینچا تھا۔
خارب جو وہاں سے گزر رہا تھا۔ کہ پری وش کا کمرہ کھولا ہوا پا کر اندر اس نے جس ہستی کو دیکھا اس سے اس کا خون خول کر رہ گیا۔ اس نے زبردستی رامیہ کو باہر کی طرف کھینچا تھا۔
یہ سب اتنا اچانک ہوا تھا۔ کہ رامیہ کو ایک پل کے لیے سمجھ نہیں آیا تھا۔ اس نے نظریں اٹھا کر سامنے جس ہستی کو دیکھا۔ دنگ رہ گئی۔
تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم سمجھتے کیا ہو مجھے
جب تمہارا دل کرتا ہے۔ میرا ہاتھ پکڑ لیتے ہو۔ وہ اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے غصے سے بولی۔
تم اس کمرے میں کس کی اجازت سے آئی ہو ؟ وہ اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے سخت لہجے میں بولا۔
اُو تو اب تمہیں اس سے بھی پرابلم ہے کہ میں اس کمرے میں کیوں آئی۔ اور کس کی اجازت سے آئی۔
کیوں اب مجھے تم سے ہر کام کے لیے پرمیشن لینے پڑے گی۔ کبھی کہتے ہو بارش میں نہ نہاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کمرے میں نہ آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں کیوں کھڑی ہو, وغیرہ وغیرہ۔ میں تمہارے حکم کی پابند نہیں ہوں۔ وہ منصوعی غصے سے بولی۔
میں تمہاری یہ فضول بکواس نہیں سننا چاہتا۔ تم آئندہ مجھے اس کمرے میں نظر نہ آؤ ورنہ۔۔۔۔۔۔
ورنہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
"ورنہ اچھا نہیں ہو گا"۔
تو ابھی کون سا اچھا ہو رہا ہے۔اس نے مذاق اڑایا۔
میں چچی کی وجہ سے تمہارا لحاظ کر رہا ہوں۔ ورنہ میں تمہیں یہاں ایک منٹ بھی نہ رہنے دوں۔ تم یہاں جتنے دن کے لیے آئی ہو۔ کھاؤ, پیو اور یہاں سے جاؤ۔
ہمارے پرسنل میٹرز میں تمہیں دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔ وہ زہر خند لہجے میں بول کر اس کی سنے بغیر وہاں سے چلا گیا۔
یہ شخص خود کو سمجھتا کیا ہے۔ خکم تو ایسے چلاتا ہے جیسے کسی ریاست کا شہزادہ ہو۔ رامیہ غصے سے بڑبڑاتے ہوئے دادجی کے کمرے میں چلی گئی۔
ارے ہماری پوتی کو کیا ہوا ۔ اتنی غصے میں کیوں لگ رہی ہے۔ کسی نے کچھ کہا ہے۔ دادجی جو کوئی کتاب پڑھ رہے تھے کہ رامیہ کو غصے سے کمرے میں آتے اور خود سے بڑبڑاتے دیکھ کر فوراً مسکراتے ہوئے بولے۔
دادجی کیا میں اتنی بری ہوں۔
کیوں کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟ تم ایسے کیوں کہہ رہی ہو ؟ دادجی کے مسکراتے ہونٹ سکڑے۔
نہیں دادجی آپ بتائے۔ میں بری ہوں کیا ؟
رامیہ ہوا کیا ہے ؟ کیا کسی نے میری پوتی کو کچھ کہا ہے۔ اِدھر آؤ میرے پاس آکر بیٹھو" اور بتاؤ کیا ہوا ہے" اس بار وہ واقع پریشان ہو گئے تھے۔
دادجی یہاں میں کھل کر گھوم بھی نہیں سکتی, اور اگر کسی کے کمرے میں چلی جاؤں تو مجھے منع کر دیا جاتا ہے۔ وہ ان کے پاس ہی بیٹھ کر شکوہ کن لہجے میں بولی۔
ہاں ہاں یہ میرا گھر تھوڑی ہے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو لڑکھ کر گرنے لگے۔
"رامیہ" انہوں نے رعب سے اس,کا نام پکارہ۔ شاید انہیں رامیہ کی یہ بات پسند نہیں آئی تھی۔
رامیہ بیٹا یہ پوری کی پوری خویلی تمہاری ہے۔ تمہارا جب دل کرے جہاں مرضی جا سکتی ہو۔ تمہارا بھی اس خویلی پر پورا حق ہے۔ تم مجھے یہ بتاؤ تمہیں کس نے یہ سب کہا۔
دادجی وہ خارب نے۔ وہ روتے ہوئے بولی۔
خارب۔۔۔۔۔۔۔۔خارب
خارب جو دادجی کے کمرے کی طرف ہی آرہا تھا۔ کہ ان کی رعب دار آواز سن کر جلدی سے کمرے میں آیا۔
دادجی آپ نے بلایا۔ آپ ٹھیک ہے۔ اس کے لہجے میں پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔
ہاں تم نے میری پوتی کو کیا کہا۔ کہ وہ اس طرح رو رہی ہے۔
بس دادجی ان کو ان کے بارے میں کچھ یاد دلا رہا تھا۔ جو یہ شاید بھول رہی تھی۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر دانت چباتے ہوئے بولا۔
تم ہوتے کون ہو۔ اسے کچھ یاد دلانے والے۔ اس خویلی پر اس کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا تمہارا۔
لیکن دادجی یہ صرف یہاں پر مہمان ہے۔
خارب تمہیں کس نے حق دیا۔ اسے مہمان کہو۔ وہ غصے سے بولے۔
مگر دادجی
اگر مگر کچھ نہیں۔ یہ بھی اسی گھر کا فرد ہے۔ خبردار تم نے اسے مہمان کہا تو۔ اب جاؤ یہاں سے آج تم نے اپنے دادجی کو بہت دکھ پہنچایا ہے۔ وہ افسوس اور رعب بھرے لہجے میں بولے۔
رامیہ اسے ڈانٹ پڑتے دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرائی اور اس نے اس کی طرف دیکھ کر فوراً سمائل پاس کی۔
خارب غصے سے وہاں سے چلا گیا۔
رامیہ اب چپ ہو جاؤ۔ تمہیں پتہ ہے "نا" ہم تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے۔
اس نے فوراً اپنے آنسو صاف کیے۔
دادجی آپ سے ایک بات پوچھوں۔
ہاں ہاں پوچھو۔
کیا یہ آپ کا ہی پوتا ہے۔وہ اپنی پہلے والی ٹون میں واپس آ کر بولی۔
کیوں کوئی شک ہے کیا۔ دادجی اس کی بات سن کر مسکرائے۔
نہیں شک تو نہیں ہے۔ لیکن ہر وقت اس کے ناک پر غصہ ہی رہںتا ہے۔ آپ سب لوگ کتنے اچھے ہیں, اور ایک وہ ہے کڑوا کریلا۔ وہ منہ بنا کر بولی۔
دادجی اس کی بات پر کھلکھلا کر ہنسے۔
رامیہ بیٹا وہ اوپر سے سخت ضرور ہے لیکن دل کا بہت اچھا ہے۔
پھر ایسے ہی وہ دادجی سے گھنٹوں ان کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔
*************************
بابا جان آپ نے مجھے بلایا۔ صائمہ کمرے میں آتے ہوئے بولی۔
ہاں بہو مجھے تم سے کچھ کام تھا۔
صائمہ ان کے پاس ہی پڑی چیر پر بیٹھ گئی۔
بہو میں تم سے کہنے جا رہا ہوں۔ تحمل سے سننا اور سوچنا۔
کیوں بابا جان ایسی کیا بات ہے۔ اس نے پریشانی سے ان کی طرف دیکھا۔
وہ میں تم سے یہ کہنا چاہںتا ہوں۔ جب سے رامیہ ہمارے گھر آئی ہے۔ ہم سب اس کو پری وش کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں, اور کچھ ہی دنوں میں وہ ہمارے بہت قریب بھی ہو گئی ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا۔ اگر وہ یہاں سےچلی گئی۔ تو ہم سب میں سے کوئی بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ اس لیے میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔ کہ ہم اسے ہمیشہ کے لیے یہی پر رکھ لیتے ہیں۔
مگر باباجان یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ صائمہ نے ان کی طرف دیکھ کر استفسار کی۔
یہ ہو سکتا ہے کیوں نہیں ہو سکتا۔ ہم اس کے باپ سے اپنے عمیر کے لیے رامیہ کا ہاتھ مانگے۔ دادجی فوراً بولے۔
باباجان یہ سب سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ لیکن میں رامیہ کو خارب کے لیے۔
بس بہو اس سے اَگے ایک اور لفظ نہ نکالنا۔ میں تمہاری بات سمجھ رہا ہوں۔ لیکن شاید تم بھول رہی ہو۔ ہم نے خارب اور پری وش کا رشتہ بچپن میں ہی طے کر دیا تھا۔ اور تم یہ بات اچھی طرح جانتی ہوں۔ میرے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ وہ صائمہ کی طرف دیکھ کر نہایت سنجیدگی سے بولے۔
بابا جان آپ ایک دفعہ عمیر اور رامیہ سے بھی پوچھ لیتے۔ صائمہ ڈرتے ہوئے بولی۔
عمیر کو میرا فیصلہ ماننا ہو گا, اور رہی بات رامیہ کی اسے میں سمجھا لوں گا۔
اس بار صائمہ کچھ نہ بولی۔
********************
رامیہ کمرے آئی تو اس کی نظر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑے اپنے موبائل پر گئی۔ جو نا جانے کب سے بج رہا تھے۔ سامنے سکرین پر ضوفیرہ کا نام دیکھ کر اس نے فوراً مسکراتے ہوئے فون اُٹھا لیا۔
ہیلو ! ضوفی کیسی ہو۔ وہ بیڈ پر ہی چوکڑی مار کر بیٹھ گئی, اور کال اٹھاتے ہی مسکراتے ہوئے بولی۔
ہیلو کی بچی کل سے میں تمہیں اتنی کالز کر رہی ہوں۔ "کہاں تھی تم "؟ اس نے شکوہ کیا۔
اچھا تم نے مجھے کالز کی تھی۔ سوری میں نے دیکھی نہیں۔ وہ میری طبیعت خراب تھی "نا" اس لیے۔
کیا تمہاری طبیعت خراب تھی اور تم مجھے اب بتا رہی ہو۔ وہ فوراً پریشان ہوئی۔
اب کیسی طبیعت ہے تمہاری ؟
تم ٹھیک ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
کیا ہوا تھا تمہیں ؟ اس نے فکر مند لہجے میں اِستفسار کیا۔
وہ۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔۔
تم یہ سب چھوڑو نہ یہ بتاؤ۔ وہ لڑکا اب تو نہیں نریم کو تنگ کرتا۔ اسے کوئی بہانہ نہ سوجھ پایا۔ تو وہ فوراً بات بدلتے ہوئے بولی۔ جس میں وہ کامیاب بھی ہو گئی۔
ہاں یاد آیا۔ رامی میں تمہیں کیا بتاؤں۔ وہ اتنا بڑا فلرٹی ہے, اس نے ایک دفعہ نمی کو کال کی تھی۔اس وقت میں بھی وہاں ہی موجود تھی۔ میں نے نمی سےفون لے کر اسے اتنی باتیں سنائی۔ لیکن یار خیرت کی بات پتہ ہے کیا ہوئی۔ وہ میرے پر ہی لائن مارنے لگ پڑا۔
آپ کی آواز کہی سنی سنی لگتی ہے۔ آپ کا نام کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بدتمیز گھٹیا انسان پتہ نہیں خود کو سمجھتا کیا ہے۔ ضوفیرہ کے چہرے پر غصہ صاف جھلک رہا تھا۔
کیا اس نے تم سے یہ سب کہا۔ تم مجھے ابھی اس کا نمبر دو۔ میں ابھی اس کا دماغ ٹھکانے لگاتی ہوں۔ اس کی باتیں سن کر رامیہ کا بھی دماغ غصے سے ماؤف ہو گیا۔
نہیں رامی اس کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی میں نے بھی اسے کافی اچھی خاصی سنا دی ہے۔ مجھے نہیں لگتا اب وہ دوبارہ کال کرے گا۔ رامیہ کے غصے کو دیکھ کر ضوفیرہ فوراً بولی۔
ضوفی میں کال کاٹ رہی ہوں۔ تم ابھی اسی وقت اس کا نمبر سینڈ کرو گی۔ وہ اٹل لہجے میں بولی۔
اس سے پہلے ضوفیرہ اسے روکتی۔ اس نے فوراً فون کا سلسلہ منقطع کر دیا۔
تھوڑی ہی دیر بعد اس کے موبائل پر ٹون ہوئی۔
**********************
ہیلو ! بے رخی سے بولا گیا۔
ہیلو ! جی کون بات کر رہا ہے ؟
کیا آپ کال اٹھاتے ساتھ سب سے ایک ہی سوال پوچھتے ہیں کہ کون بات کر رہا ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں سے۔ بائے دا وے میں نے آپ کو صرف اتنا کہنے کے لیے کال کی ہے۔ کہ آپ نریم کو کال کر کے تنگ کرنا بند کر ے۔ پہلے نریم پھر جب میری دوست ضوفیرہ نے آپ سے بات کی تو آپ تو اسی پر لائن مارنے لگ پڑے۔
کہی اب آپ مجھ سے میرا نام ہی نہ پوچھ لے۔ وہ کب بے دھیانی میں ضوفیرہ کا نام لے گئی۔ اسے پتہ بھی نہ چلا۔
کہی تم رامیہ تو نہیں۔ دوسری طرف خوشی سے پوچھا گیا۔
اُوں آپ نے تو پہلے سے ہماری ساری انفارمیشن اکٹھی کر رکھی ہے, اور اب آپ کو میرا نام بھی معلوم ہے۔ اس کا مطلب تیسرہ نمبر میرا تھا۔
دیکھو رامیہ, ضوفیرہ نے تو میری بات سنی نہیں۔ تم ہی سن لو۔ دوسری طرف وہ التجائیہ لہجے میں بولا۔
آپ کو تو ضوفیرہ نام بھی معلوم ہے۔ اس کی آنکھوں میں فوراً خیرت اُتری۔
ضوفیرہ کا نام ابھی تھوڑی دیر پہلے تم نے لیا تھا۔ اس نے باور کرایا۔
اُوں یہ میں نے کیا کر دیا۔ اس نے فوراً اپنی دانتوں تلے زبان لی۔ اسے شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔
بہر حال جو بھی ہے۔ آئندہ آپ نے ہم تینوں میں سے کسی کو بھی کال کی۔ تو میں آپ کی ڈیڈ سے شکایت کروں گی۔ کہ آپ ایک وقت میں تین تین لڑکیوں کے ساتھ فلرٹ کر رہے ہیں۔ یہ کہتے ساتھ ہی رامیہ نے جلدی سے کال کاٹ دی۔ دوسری طرف وہ ہیلو ہیلو کرتا رہ گیا۔
ڈھیٹ انسان یہ تو میرے پیچھے ہی پڑ گیا۔ ٹھیک کہہ رہی تھی ضوفیرہ اسے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ فلرٹی کہی کا۔ وہ موبائل دوبارہ رنگ ہوتے دیکھ کر بولی۔ لیکن اس دفعہ اس نے سِم نکال کر اس کے دو ٹکڑے کر کے پھینک دی۔
********************
ضوفی اٹھو ہمیں کالج کے لیے دیر ہو رہی ہیں۔ وہ ضوفیرہ کے اوپر سے بلینکٹ ہٹاتے ہوئے بولی۔
کیا یار نمی پہلے رات کو عمیر مجھے فون کالز سے پریشان کرتا رہا اور اب تم۔ وہ دوبارہ اپنے اوپر بلینکٹ لیتے ہوئے بولی۔
اس سے پہلے نریم دوبارہ اسے اٹھاتی۔ کہ اسی وقت اس کا موبائل رنگ ہوا۔
ہیلو ! کال اٹھاتے ہی وہ بے زاریت سے بولی۔ کیونکہ وہ اچھے سے جانتی تھی دوسری طرف کون ہو گا۔
ہیلو ! کیسی ہو۔ یقیناً تم کالج کے لیے ریڈی ہو رہی ہو گی۔
اگر پتہ ہے تو پھر پوچھ کیوں رہے ہیں اور پلیز صبح صبح میرا موڈ آف مت کریں۔ اور بتائے کال کیوں کی۔ وہ کوفت سے بولی۔
میرا موڈ تو تم سے بات کر کے بہت اچھا ہو گیا ہے اور رہی بات تمہیں کال کرنے کی۔ تو وہ مجھے کسی سے پرمیشن لینے کی ضرورت نہیں۔ پھر بھی تمہیں بتا دیتا ہوں۔ تمہیں مس کر رہا تھا۔ دوسری طرف اس کے لہجے میں اداسی تھی۔
تو میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔۔؟
شادی کے لیے ہاں۔ فوراً سے جواب آیا۔
دیکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھ ہی تو نہیں سکتا۔ لیکن ایک کام کر سکتا ہوں۔
کیا کام۔۔۔۔۔۔؟ اس نے تجسس کے مارے پوچھا۔
مجھے اپنی پِکس سیینڈ کر دو۔ پھر میں تمہیں اتنا مس بھی نہیں کروں گا, اور کیا پتہ زیادہ کال بھی نہ کروں۔ بس تمہاری تصویروں سے ہی باتیں کر لیا کروں گا۔ دوسری طرف شاید اس نے اپنی طرف سے بہت اچھا مشورہ دیا تھا۔
دماغ ٹھیک ہے آپ کا۔ آپ نے سوچ بھی کیسے لیا۔ کہ میں آپ کو اپنی پِکس سینڈ کروں گی۔ وہ زہر خند لہجے میں بولی۔
اُف اتنا غصہ کبھی تو پیار سے بات کر لیا کرو۔ دوسری طرف شوخی سے کہا گیا۔
نریم نے غصے سے کال کاٹ دی۔ کیونکہ اس میں اور ہمت نہیں تھی کہ وہ اس کی بکواس سنتی۔
کیا مصیبت ہے۔
***********************
خود کو سمجھتی کیا ہے مجھے دادجی کے سامنے برا بنا کر خود مہان بن گئی۔ چھوڑوں گا نہیں میں تمہیں مس رامیہ۔ خارب غصے سے اپنے کمرے میں ٹہلتے ہوئے بولا۔ رامیہ کا اسے دیکھ کر سمائل پاس کرنا, دادجی سے ڈانٹ پڑوانا۔ یہ سب سوچتے ہوئے خارب کا خون اندر ہی اندر خول رہا تھا۔
جاری ہے
3 Commenti
Nice episode amazing❤👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻
RispondiEliminaAmazing 👌🏻❤❤
RispondiEliminaMind blowing episode👏🏻👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻
RispondiEliminaCommento