Advertisement

Adbox

PARIVISH Episode 12 (پری وش)

                 Parivish

                 (پری وش)

# Novel by Parivish

# Writer; Aima Ashfaq

# Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel

# Please Don't Copypaste My Novel

# Episode 12: 

                           ضوفی۔۔۔۔۔۔ضوفی اٹھو یار شام کے چھے بج رہے ہیں۔ ضوفیرہ جو اس کے پاس ہی چیر پر بیٹھی بیٹھی سو گئی تھی، کہ رامیہ کے جگانے پر ایک دم ہڑبڑا کر اٹھی۔

رامی تم ٹھیک ہو۔ اس کے اس طرح اٹھانے سے وہ فوراً فکر مند لہجے میں بولی۔

ہاں ضوفی میں ٹھیک ہوں۔ لیکن ٹائم دیکھو شام کے چھے بج رہے ہیں۔ کیا گھر نہیں جانا ؟

بس اتنی سی بات یار تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔ میں سمجھی پتہ نہیں کیا ہوا ہے۔ ضوفیرہ سکون بھرا سانس خارج کرتے ہوئے بولی۔

یہ تمہیں اتنی سی بات لگ رہی ہے۔ ضوفی شام کے چھے بج رہے ہیں۔

تو کیا ہوا، شام کے چھے بج رہے ہیں۔ وہ بے نیازی سے بولی۔

ضوفی تم اچھی طرح جانتی ہو۔ میں کس بارے میں بات کر رہی ہوں۔ اس بار وہ دانت چباتے ہوئے سخت لہجے میں بولی۔

رامی اگر تم گھر جانے کی بات کر رہی ہو۔ تو تمہیں یہ بھی پتہ ہوگا۔ صبح ڈاکٹر نے کیا کہا تھا۔تمہیں مکمل بیڈ ریسٹ کی ضرورت ہے، اور تم آج کے دن تو بالکل گھر نہیں جا سکتی۔ اس نے باور کرایا۔

ضوفی تمہیں پتہ ہے۔ مجھے ہاسپیٹل میں رات گزارنا بالکل نہیں پسند، اور تم یہ بھی جانتی ہو۔ مجھے زبردستی ہاسپیٹل میں رکھا۔ تو میں کیا کروں گی۔

رامی تم نے اس دفعہ ایسا کچھ نہیں کرو گی۔ جو تم نے پچھلی دفعہ کیا تھا۔ ضوفیرہ اسے وارن کرتے ہوئے بولی۔

اگر آپ لوگوں نے مجھے یہاں سے جانے نہ دیا۔ تو میں ایسا ہی کروں گی۔ وہ سکون سے منہ پھیرتے ہوئے بولی۔

ضوفیرہ آپی پچھلی دفعہ کَیا کِیا تھا رامیہ آپی نے؟ افشال جو دروازے کے پاس کھڑی کافی دیر سے ان کی باتیں سن رہی تھی، کہ اندر آتے ہوئے بولی۔

ارے افشال تم، تم کب آئی اور اکیلی آئی ہو کیا ؟ ضوفیرہ آنکھوں میں خیرت لیے بولی۔

نہیں ضوفیرہ آپی خالہ جانی بھی آئی ہے۔ وہ ڈاکٹر کے کیبن میں ہے۔ ان سے ضروری بات کر رہی ہے۔ اب بتائے "نا" ضوفیرہ آپی کَیا کِیا تھا انہوں نے ؟ اس نے ضوفیرہ کے سوال کا جواب دیتے ہی دوبارہ پوچھا۔ ضوفیرہ اس کی بے صبری پر مسکرائی۔

ایک دفعہ رامی اتنا زیادہ بیمار ہو گئی تھی، کہ ڈاکٹر نے اسے ایڈمٹ کر لیا۔ پہلے دن اسے بالکل ہوش نہیں تھا، یہ کہاں پر ہے۔ کیونکہ اسے بہت تیز بخار تھا۔ دوسرے دن اس کی تھوڑی طبیعت ٹھیک ہوئی، تو اس نے گھر جانے کی ضد کیں۔ ڈاکٹر نے بالکل اجازت نہیں دی۔ ان کا کہنا تھا، یہ ابھی بالکل بھی ٹھیک نہیں ہوئی۔ لیکن اس کے باوجود اس نے گھر جانے کی ضد لگائی ہوئی تھی۔پھر آنٹ۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ماما اس سے پہلے اس کے منہ سے آنٹی نکلتا، اس نے فوراً ہی بات کو سنبھال لیا۔ ماما نے ڈیڈ کو کال کر کے ساری بات بتائی۔ انہوں نے رامی کو فون دینے کے لیے کہا۔ ڈیڈ سے بات ہوتے ہی یہ ریلیکس ہو گی۔ اس کے بعد کوئی ضد نہیں کیں۔ شام کو جب میں اور ماما ڈاکٹر کے کیبن سے ہو کر کمرے میں آئیں، تو  یہ محترمہ کمرے سے ہی غائب تھی۔ ہم اتنے پریشان ہو گے یہاں تاکہ ہم نے پولیس کو بھی انفارم کر دیا۔ پھر ماما نے ڈیڈ کو کال کر کے ساری صورتحال بتائی، تو انہوں نے فوراً ہمیں گھر آنے کے لیے کہا۔ جب ہم گھر پہنچے تو یہ میڈم ڈیڈ کے ساتھ بیٹھ کر آرام سے ٹی وی دیکھ رہی تھی، اور ساتھ ساتھ پوپ کارن بھی کھا رہی تھی۔ قسم سے افشال اس دن اس نے ہمیں اتنا ڈرا دیا تھا۔ ہم نے اسے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔ ضوفیرہ نے مسکراتے ہوئے اسے سارا واقعہ سنایا۔ اَگے سے وہ کھلکھلا کر ہنسی۔

اس بار کیا ارادے ہے رامیہ آپی۔ وہ ہنستے ہوئے بولی۔

مگر اب آپ کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر نے آپ کو ڈیسچارج کر دیا ہے۔

کیا۔۔۔۔۔۔۔۔افشال تم سچ کہہ رہی ہو۔ رامیہ خوش ہوتے ہوئے بولی۔

جی میں سچ کہہ رہی ہوں، لیکن ہماری ایک شرط ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔

شرط۔۔۔۔۔۔۔وہ کیا ؟ رامیہ آنکھوں میں خیرت سموئے بولی۔

وہ یہ کہ جب تک آپ پاکستان میں ہے۔ آپ کو ہمارے ساتھ ہماری خویلی میں رہںنا ہوگا۔

 مگر افشال یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہماری فرینڈ کا گھر یہاں پر ہی ہے۔ ہم وہاں پر رکیں گے۔ ایم سو سوری ہم آپ لوگوں کى خویلی میں نہیں رہ سکتے۔ ضوفیرہ کے ذہن میں فوراً عمیر کا چہرہ آیا۔ اس لیے رامیہ کی بجائے وہ فوراً معذرت کرتے ہوئے بولی۔

 ہاں افشال ضوفی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔ رامیہ نے بھی اس کی بات پر اتفاق کیا۔

پلیز رامیہ آپی ہمارے ساتھ خویلی جا کر رہیں "نا" بہت مزہ آئے گا۔ پلیز پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہںنا چاہںتی۔ وہ چھوٹے بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے بولی۔

سمجھنے کی کوشش کرو افشال ہم آپ لوگوں کا اور احسان نہیں لے سکتے۔

 اس کا مطلب آپ نے میری مدد کر کے مجھ پر احسان کیا تھا۔ وہ ناراضگی سے بولی۔ 

یہ کیا کہہ رہی ہو افشال، میں نے تمہاری مدد کر کے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔ پلیز سمجھنے کی کوشش کرو۔ رامیہ نے اسے سمجھانے کی بھرپور کوشش کی۔

تو پھر رامیہ آپی آپ نے ایسا کیوں کہا۔ کہ ہم آپ لوگوں کو خویلی میں رکھ کر کوئی احسان کر رہیں ہیں۔ کیا میں آپ لوگوں کی کچھ نہیں لگتی، یا پھر آپ دونوں نے مجھے ابھی تک اپنی چھوٹی بہن تسلیم ہی نہیں کیا۔ وہ شکوہ کن لہجے میں بولی۔

ہاں رامیہ' افشال بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔ کیا ہم تمہارے کچھ نہیں لگتے ؟ صائمہ نے جو ان کی باتیں سن لی تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔

مجھے افشال نے سب کچھ بتا دیا ہے، آپ لوگوں کے بارے میں۔ رامیہ بیٹا آپ دونوں یہاں پر کسی کو جانتی بھی نہیں ہے، اور تو اور آپ جس فرینڈ کے گھر رہںنے کی بات کر رہیں ہیں۔ اس کی فیملی بھی یہاں پاکستان میں نہیں ہیں۔ آپ دونوں اتنے بڑے شہر میں اکیلی کیسے رہیں گی، اور میں یہ بات جانتے ہوئے بھی۔ آپ دونوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے۔ جب تک آپ دونوں یہاں پاکستان میں ہے۔ آپ دونوں کو ہمارے ساتھ ہماری خویلی میں رکنا ہوگا، اور مجھے اُمید ہے اب آپ دونوں منع نہیں کریں گی۔ صائمہ انہیں پیار سے سمجھاتے ہوئے بولی۔

خالہ جانی اب انہوں نے منع کیا۔ تو آپ نے جو ڈاکٹر سے  ریکویسٹ کر کے ڈیسچارج پیپرز بنوائے تھے۔ وہ کینسل کروا دیجئیے گا۔ افشال نے اپنی طرف سے بلیک میل کیا۔ 

اوکے اوکے ٹھیک ہے۔ رامیہ اس کی بات پر مسکراتے ہوئے بولی۔ 

مگر رامی ہم ڈیڈ کو کیا بولے گے۔ ضوفیرہ فکر مند ہوئی۔ 

ضوفی تم فکر نہ کرو۔ میں ڈیڈ سے بات کر لوں گی۔ 

اب اس رامیہ کو کون بتاتا، کہ وہ ڈیڈ کی وجہ سے نہیں۔ اس عمیر کی وجہ سے پریشان ہو رہی تھی۔

ہیلو ! ایوری ون اسی وقت عمیر کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔ اسے دیکھتے ہی ضوفیرہ کے چہرے کے تصورات فوراً بدلے۔ اس کے ماتھے پر ناگوار شکنیں ابھری۔ جس سے عمیر نے باخوبی محسوس کیا۔ عمیر نے اسے آنکھ ونک کی۔ 

    ضوفیرہ ایک دم بوکھکلائی اور گبھرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ لیکن سب کو اپنی باتوں میں مشغول دیکھ کر اس نے سکون بھرا سانس خارج کیا۔ عمیر کی اس حرکت پر اسے غصہ تو بہت آیا۔ لیکن وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ اس لیے چپ رہںنے میں عافیت سمجھی، اور غصے سے منہ موڑ لیا۔ 

اس کے ری ایکشن پر عمیر نے بامشکل اپنا قہقہہ رکا۔ 

کیسی طبیعت ہے اب آپ کی' اب وہ رامیہ کی طرف دیکھ کر خوش اخلاقی سے بولا۔

ایم بیٹر۔۔۔۔۔۔۔رامیہ مسکرا کر بولی۔

عمیر بھائی جان یہ سب کیا ہے۔ افشال اس کے ہاتھ میں پکڑی ٹرے میں چار جوس کے گلاسز دیکھے، تو آنکھوں میں خیرت لیے بولی۔

اوہو بڑھاپے میں پہنچنے سے پہلے ہی تمہاری نظر کمزور ہو گی ہے۔ چلو کوئی بات نہیں ، ہم ابھی ہاسپیٹل میں ہی ہے۔ تمہاری نظر بھی چیک کروا لیتے ہے۔ عمیر اسے چڑاتے ہوئے بولا۔

عمیر تم اپنی شرارتوں سے باز نہیں نہ آؤ گے۔ کیوں اپنی چھوٹی بہن کو تنگ کر رہے ہو۔صائمہ اسے ڈپٹتے ہوئے بولی۔

خالہ جانی یہ خود ہی الٹے سوال کرتی ہے، اب عمیر بیچارہ الٹے سوال کا سیدھا جواب کیسے دے۔ وہ سر کھجاتے ہوئے معصومیت سے بولا۔

رامیہ اس کی باتوں پر کھلکھکلا کر ہنسی۔

اچھا سوری خالہ جانی اب نہیں کرتا مذاق۔ اس سے پہلے صائمہ اسے غصے میں کچھ کہتی۔ وہ فوراً معذرت کرتے ہوئے بولا۔

یہ دونوں پہلی بار ہمارے ساتھ ہماری خویلی رہںنے جا رہیں ہیں۔ تو میں نے سوچا، کیوں نہ ان کا اچھے سے ویلکم کیا جائے۔ اس لیے اسی خوشی میں میری طرف سے یہ چھوٹی سی ٹریٹ۔ میں غریب سا بندہ ہوں۔ مجھے جوس کے علاوہ کچھ ملا ہی نہیں۔ اس لیے یہی لے آیا۔ وہ سب کو جوس گلاس  پکڑاتے ہوئے بولا۔ 

اب وہ ضوفیرہ کی طرف گیا۔ اس سے پہلے وہ اسے منع کرتی۔ اس نے جان بوجھ کر' اس کے کپڑوں پر گرا دیا۔

او ایم سو سوری' میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔ غلطی سے گر گیا۔ وہ ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ لیے' معذرتی لہجے میں بولا۔

ضوفیرہ نے نظریں اٹھا کر غصے سے اس کی طرف دیکھا۔ 

عمیر تمہارا دھیان کہا تھا۔ صائمہ اسے ڈانٹتے ہوئے بولی۔

سوری ضوفیرہ بیٹا اس کی طرف سے' میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔ تمہارے کپڑے تو سارے  گندے ہو گے۔ صائمہ شرمندگی سے بولی۔ 

نہیں نہیں آنٹی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ معافی کیوں مانگ رہی ہے۔ بس تھوڑا سا ہی تو گِرا ہے۔ میں واش روم میں جا کر صاف کر لیتی ہوں۔ اسے عمیر پر غصہ تو بہت آیا۔ لیکن وہ آنٹی کے سامنے اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔ اس نے حتٰی المقدر اپنے غصے کو کنٹرول کیا' اور آنٹی کی طرف دیکھ کر مسکرا کر جواب دیا۔

پتہ نہیں خود کو سمجھتا کیا ہے۔ اس نے جان بوجھ کر میرے کپڑوں پر جوس گِرایا۔ پھر کہتا ہے سوری غلطی سے گِر گیا۔ ضوفیرہ اس کی نقل اتارتے ہوئی بولی۔ اسی لیے میں ان کی خویلی نہیں جارہی تھی۔ لیکن رامیہ ہے کہ فوراً مان گئی۔ اب پتہ نہیں میں اس کو اتنے دن جھیلوں گی کیسے۔ وہ کپڑے صاف کرتے ہوئے مسلسل خود سے بڑبڑا رہی تھی۔

ضوفیرہ جیسے ہی اپنے کپڑے صاف کر کے واش روم سے نکلی۔ عمیر سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔

پاگل ہو گے ہے' دیکھ کر نہیں چل سکتے۔ وہ جنجھلا کر بولی۔

ہم تو دیکھ کر چلتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اندھوں کی طرح چلتے ہیں۔ وہ آنکھوں میں شرارت لیے بولا ۔

کیا۔۔۔۔۔۔تم نے مجھے اندھی کہا۔ ضوفیرہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوا۔ اس سے پہلے کہ وہ غصے میں عمیر کو کچھ کہتی۔ کہ اس کی نظر خالی کمرے پر گئی۔

ارے یہ رامی کہاں گی' آنٹی اور افشال بھی نہیں ہے۔ وہ خالی کمرے کو دیکھ کر متفکر لہجے میں بولی۔

وہ لوگ تو چلیں گی۔ وہ پرسکون لہجے میں بولا۔

کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں چلیں گی۔ ضوفیرہ اس کے پاس جا کر پریشانی سے بولی۔ 

جہاں انہیں جانا تھا۔ اس کے گبھرائے ہوئے چہرے کو دیکھ کر عمیر کو بہت مزہ آرہا تھا۔

کیا مطلب کہاں جانا تھا انہیں ؟ سیدھے طریقے کیوں نہیں بتا رہے۔ پہیلیاں کیوں بھجوا رہے ہو۔ اس بار وه ترش لہجے میں بولی۔ 

مطلب یہ کہ وہ لوگ خویلی چلیں گئے ہیں۔

مگر مجھے لیے بغیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ آپ کو میرے لیے جو چھوڑ گئے ہیں۔ عمیر نے پیچھے سے اس کے کان کے قریب آ کر سرگوشی کی۔ ضوفیرہ ایک دم ڈر کے مارے پیچھے ہٹی، اور غصے سے اس کی طرف دیکھا۔

مطلب کیا ہے آپ کا اس بات سے ؟

اوفو ایک تم مطلب بہت پوچھتی ہو۔ میرا مطلب تم کو میں ڈراپ کر دوں گا۔ اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔ عمیر مسکراتے ہوئے' سکون سے بولا۔ 

دیکھے عمیر میں اس وقت مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں۔ 

میں بھی مذاق نہیں کر رہا۔ میں نے ان لوگوں کو بھیج دیا۔

لیکن کیوں۔۔۔۔۔۔؟ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ وہ آنکھوں میں خیرت لیے بولی۔

کیونکہ میں تمہارے ساتھ جانا چاہںتا تھا۔ عمیر ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ لیے بولا۔

آپ میرے ساتھ کیوں جانا چاہںتے تھے ؟ ضوفیرہ نے سوالیہ نظروں سے' اس کی طرف دیکھ کر سخت لہجے میں اِستفسار کیا۔

اس کا جواب میں تمہیں ابھی نہیں دے سکتا۔ وہ چیر پر بیٹھتے ہوئے سکون سے بولا۔

کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟ آپ ابھی کیوں نہیں دے سکتے ؟ ضوفیرہ اس کے پاس جا کر کوفت سے بولی۔

                         میرا موڈ نہیں۔

اوتو آپ موڈ کے حساب سے چلتے ہیں۔ وہ غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے بولی۔

موڈ کے حساب سے تو نہیں۔ مگر دل کی ضرور سنتا ہوں، اور اس وقت میرا دل کر رہا ہے۔ تم کو صیح سلامت خویلی پہنچاؤں۔

 میں مر کر بھی آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔ ضوفیرہ نے غصے سے منہ مڑا۔

تو ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں۔ وہ چیر سے کھڑا ہوتا ہوا' اطمینان سے بولا۔

اسے جاتے دیکھ کر ضوفیرہ ایک پل کے لیے پریشان ہوئی۔ اسے فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا۔

           ارے یہ میں نے کیا کر دیا۔ 

یہ تو واقع جا رہا ہے۔ اب میں کس کے ساتھ جاؤں گی ؟ ڈرائیور کو بلانے کا مطلب وہ بلال انکل کو سب کچھ بتا دے گا۔ اب میں کیا کروں ؟ میں اس کے ساتھ جانا بھی نہیں  چاہتی۔ مگر میرے پاس اس کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔ ضوفیرہ بےبسی سے اسے جاتے دیکھ کر دل ہی دل میں بولی۔

رکو۔۔۔۔۔۔۔! اس سے پہلے عمیر کمرے کا درواذہ کھولتا۔ کہ ضوفیرہ کی آواز پر رکا۔ عمیر کے ہونٹوں پر فوراً مسکراہٹ پھیلی۔ لیکن جلد ہی اس نے اپنے چہرے پر سنجیدگی کا تبادلہ اُوڑھ لیا، اور پیچھے مڑ کر خیرانی سے بولا۔

کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ تم نے مجھے بلایا ؟

نہیں میں پاگل ہوں "نا" جو اپنے آپ سے بڑبڑا رہی ہوں۔ آپ کے علاوہ اس کمرے میں کوئی اور ہے۔ وہ اس پر طنز کے تیر چلاتے ہوئے بولی۔

شکل سے تو نہیں لگتی، لیکن ہے ضرور۔ عمیر اس کے قریب آ کر بغور اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا۔

کیا تم نے مجھے پاگل کہا۔ ضوفیرہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔ 

اچھا یہ سب چھوڑو' تم مجھے بتاؤ۔ مجھے روکا کیوں ؟ 

 ہاں جیسے تو تمہیں کچھ پتہ نہیں۔ 

سچ میں مجھے کچھ نہیں پتہ۔ کہ تم نے مجھے کیوں روکا۔ عمیر نے انجان بننے کی بھرپور ایکٹینگ کی۔

بس بہت ہوگیا۔ میں تمہارے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوں۔ ضوفیرہ اس بخث سے تنگ آ گئی تھی۔ اس لیے ہار مانتے ہوئے بولی۔ 

زندگی بھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟

کیا زندگی بھر ؟ وہ آنکھوں میں ناسمجھی اور خیرت کے تصورات سموئے بولی۔

ابھی تو تم نے بولا۔ کہ تم میرے ساتھ زندگی بھر چلنے کے لیے تیار ہو۔ اس نے باور کرایا۔

میں خویلی چلنے کی بات کر رہی ہوں۔ مطلب سمجھ آتے ہی، وہ دانت چباتے غصے سے بولی۔ 

او آئی سی میں سمجھا۔ تم میرے ساتھ زندگی بھر ساتھ چلنے کی بات کر رہی ہو۔ چلو کوئی بات نہیں' ابھی نہ صیح بعد میں صیح۔ عمیر ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ لیے، کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔

بعد سے کیا مطلب ہے آپ کا۔۔۔۔۔۔؟ ضوفیرہ نے جانچتی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔

ایک تم مطلب بہت پوچھتی ہو۔ جب تم جانتی ہو، اس بات کا مطلب۔ پھر مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہو۔

مجھے لگتا ہے آپ بالکل پاگل ہو گے ہے۔ اس لیے آپ سے بخث کرنا ہی بیکار ہے۔ وہ مٹھیاں بھینچ کر بھرپور ضبط کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ جبکہ عمیر اسے مسلسل ستا کر لطف سمیٹ رہا تھا۔

ارے ارے تم نے میرے الفاظ مجھے ہی لٹا دے۔ مان گئے تم قرض رکھنے والوں میں سے نہیں ہو۔ میں نے تمہیں پاگل کہا، تم نے الٹا مجھے ہی کہہ دیا۔ عمیر کہاں پیچھے ہٹنے والا تھا۔ اس لیے اسے مزید تنگ کرتے ہوئے بولا۔

 ٹھیک ہے آپ مجھے خویلی نہیں لے کر جانا چاہںتے" نہ لے کر جائے" میں خود ہی چلی جاؤں گی۔ ضوفیرہ سے مزید برداشت کرنا دشوار ہو گیا تھا۔ اس لیے غصے سے بول کر کمرے سے چلی گئی۔

اسے غصے سے کمرے سے جاتے دیکھ کر عمیر نے مسکراتے ہوئے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا، اور آوازیں دیتے ہوئے۔ اس کے پیچھے گیا۔

ارے سنو تو۔۔۔۔۔۔۔۔میں مذاق کر رہا تھا۔ عمیر کاریڈور میں اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولا۔ 

دیکھو ضوفی تم جاؤ گی کیسے۔ تمہیں تو خویلی کا راستہ بھی نہیں معلوم۔ ضوفیرہ کے چلتے قدم ایک پَل کے لیے رکیں۔ 

کہہ تو یہ ٹھیک رہا ہے۔ مجھے تو پتہ ہی نہیں جانا کہاں ہے۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔

اس کا گبھرایا، پریشان سا چہرہ دیکھ کر عمیر دل ہی دل میں مسکرایا، اور اس بات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ فوراً بولا۔ 

اگر تم چاہو، تو میں تمہیں لے کر جا سکتا ہوں۔ لیکن میری ایک شرط ہے۔   

وہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ ضوفیرہ کو اس پر غصہ آیا۔ جو اسے تنگ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا تھا۔ اس لیے اس کی طرف دیکھ کر کوفت سے بولی۔

اگر تم تھوڑا پیار سے میرے سے ریکویسٹ کرو۔ کہ عمیر پلیز مجھے اپنے ساتھ خویلی لے چلے۔ تو پھر کوئی بات بن سکتی ہے۔ اس کی شرط سن کر وہ مزید تَپ کر رہ گئی۔

آخر یہ شخص چاہںتا کیا ہے ؟ کیوں ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑھ گیا ہے ؟ میں نے تو اسے کچھ بھی نہیں کہا۔ جب سے اس سے ملی ہوں۔ میری زندگی عذاب بن گئی ہے۔ لیکن اس کی بات ماننے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ ضوفیرہ کو اپنی بےبسی پر رونا آیا۔ وہ پوری کی پوری اس کے رحم و کرم پر تھی۔

ہیلو ! کہاں کھو گئی ؟ عمیر اس کے چہرے کے اَگے چٹکی بجا کر بولا۔ وہ فوراً چونکی۔

میرے بارے میں سوچ رہی تھی کیا۔۔۔۔۔۔۔ ؟ 

میرے پاس اتنا فالتو ٹائم نہیں ہے کہ میں تمہارے بارے میں سوچوں۔ ضوفیرہ نے دوٹوک جواب دیا۔

                تو ٹائم نکال لیجئیے ؟ 

     میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔   

تو ارادہ بنا لے "نا" عمیر اسی طرح مسکراتے ہوئے بولا۔ تو ضوفیرہ چڑ کر رہ گئی۔

 آپ چاہںتے ہے "نا" میں آپ سے ریکویسٹ کروں۔ تو ٹھیک ہے۔ وہ اب ان سب سے تنگ آ گئی تھی۔ اس لیے فوراً ہار مانتے، اَکتا کر بولی۔

پلیز عمیر مجھے اپنے ساتھ خویلی لے چلے۔ وہ دانت چباتے ہوئے سخت لہجے میں بولی۔

بس گزارے لائیک تھا۔ لیکن چلو معاف کیا۔ کیا یاد کرو گی۔ عمیر عجیب سا منہ بناتے ہوئے بولا۔ لیکن سمائل ابھی بھی ہونٹوں پر برقرار تھی۔

عمیر ہاسپیٹل سے نکل کر گاڑی میں جا کر بیٹھا۔ 

اب تم بیٹھو گی۔ عمیر نے گاڑی سٹارٹ کی۔ تو اسے ایسے ہی باہر کھڑا دیکھ کر فوراً بولا۔

آپ دروازہ کھولے گے تو میں بیٹھوں گی "نا"۔

دروزہ کھولا تو ہوا ہے۔ عمیر کو شاید پہلے ہی خبر تھی۔ کہ وہ پیچھے بیٹھے گی۔ اس لیے اس نے پہلے ہی پیچھلے دروازوں کو لاک لگا دیا تھا۔

اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھوں گی۔ تو یہ آپ کی بہت بڑی بھول ہے۔ ضوفیرہ اٹل لہجے میں بولی، اور غصے سے منہ مڑا۔

بیٹھنا تو تمہیں اَگے ہی پڑے گا۔ کیونکہ میں بھی تمہارا ڈرائیور نہیں ہوں۔ عمیر نے بھی دوبدو جواب دیا۔

 عمیر جلدی کچھ سوچ۔۔۔۔۔۔۔یہ ایسے نہیں مانے گی۔ اسے کسی اور طریقے سے بیٹھانا پڑے گا۔ اس نے تھوڑی دیر انتظار کیا، لیکن اسے ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ کر عمیر نے دل ہی دل میں سوچا۔ کہ اچانک اس کے دماغ میں آئیڈیا آیا ، اور اس کی آنکھیں خوشی کے مارے چمکیں۔

او اب میں سمجھا تم میرے ساتھ فرنٹ سیٹھ پر کیوں نہیں بیٹھ رہی۔ تمہیں مجھ سے ڈر لگ رہا ہے " نا"۔

دماغ خراب ہو گیا ہے آپ کا۔ میں آپ سے کیوں ڈروں گی۔ ضوفیرہ کو اس کی بات پر تاؤ آیا۔

یہ تو مجھے نہیں پتہ۔ مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں۔ تمہیں مجھ سے ڈر لگ رہا ہے۔ عمیر اس کی طرف دیکھ کر شوخ لہجے میں بولا۔

میں آپ سے نہیں ڈرتی۔ اس نے غصے سے دانت چباتے ہوئے، اسے باور کرایا۔

اگر تم مجھ سے ڈرتی نہیں ہو۔ تو ٹھیک ہے پھر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر اس بات کا ثبوت دو۔ عمیر نے اسے جان بوجھ کر چیلنج کیا۔

تو ٹھیک ہے میں بیٹھوں گی۔ ضوفیرہ نے ایک پل سوچا، پھر فوراً فرنٹ سیٹھ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔ کیونکہ اب یہ اس کی انا کا مسئلہ تھا۔

اس کی تیزی پر عمیر نے بامشکل اپنا قہقہہ روکا، اور دل ہی دل میں اپنے آپ کو سراہا بھی۔ کیونکہ جو وہ چاہںتا تھا۔ وہ تو ہو گیا تھا۔

              ♤          ♤         ♤

نریم جیسے ہی اپنے فلیٹ کا لاک کھول کر اندر جانے لگی۔ کہ اس کی نظر فلیٹ کے باہر نیچے پڑے پھولوں کے بُکے پر گئی۔

جاری ہے





      


Posta un commento

1 Commenti

  1. Always best episode 👌🏻👌🏻🥰Bohat achi epiaide hai ❣keep it

    RispondiElimina

Commento

Parvish novel

PARIVISH Episode 31 (پری وش)