Parivish
( پری وش )
#Novel by Parivish
#Writer; Aima Ashfaq
#Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel
#Please Don't Copy Paste My Novel
#Episode 24:
جب میں تمہیں نہیں بھول سکتا۔ تو پھر تمہیں فون کرنا کیسے بھول سکتا ہوں۔ وہ شوخی سے بولا۔
اگر آپ کو بُرا نہ لگے تو میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتی ہوں۔ نریم اس کی بات کو نظر انداذ کرتی ہوئی بولی۔
تم ایک سوال کَیا۔۔۔۔۔۔۔۔سو سوال پوچھ سکتی ہو۔ دوسری طرف وہ خیرانی اور شوخی کے ملے جلے تاثرات سے بولا۔
کیا آپ میرے ساتھ ٹائم پاس کر رہے ہیں ؟
کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔؟
میں نے جو سوال پوچھا ہے۔ صرف اسی کا جواب دیں۔ کیا آپ میرے ساتھ ٹائم پاس کر رہے ہیں ؟ وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولی۔
نریم تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ کافی دنوں سے ہم ایک دوسرے سے فون پر باتیں کر رہے ہیں۔ کیا میں تمہیں اتنا گِرا ہوا لگتا ہوں ؟ کیا تم مجھے اتنا ہی جان سکی ہو ؟ تم یہ سوچ بھی کیسے سکتی ہو کہ میں تم سے ٹائم پاس کر سکتا ہوں ؟ بلکہ میں خود تم سے ٹائم پاس کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں تم سے شدید محبت کرتا ہوں۔ بے انتہا" اتنی کہ تم سوچ بھی نہیں سکتی۔ میری محبت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ اس کی بات سن کر دوسری طرف وہ غصے کی شدت سے بھڑک اُٹھا۔ لیکن نریم اس کی بات سن کر من ہی من میں خوش ہوئی۔
مگر میری منگنی ہو چکی ہے۔
میں نہیں مانتا اس منگنی کو۔ میں بس اتنا جانتا ہو۔ کہ تمہاری شادی صرف مجھ سے ہو گی اور کسی سے بھی نہیں۔ یہ بات تم بھی بہت جلد اپنے ذہن میں بیٹھا لو۔ تو تمہارے لیے اچھا ہو گا۔ دوسری طرف وہ غصے سے اسے اچھے سے باور کرتے فون کا سلسلہ منتقطح کر دیا۔
***************
کیسی ہے میری گڑیا لگتا ہے صبح صبح واک پر جا رہی ہو۔ اذان جو آفس کے لیے نکلنے ہی لگا تھا۔ کہ ہال میں رامیہ کو جا گنگ کے کپڑوں میں دیکھ کر بولا۔
آپ کو بڑی جلدی نہیں اپنی گڑیا کی یاد آ گئی۔ وہ اپنے سامنے اذان کو دیکھ کر منہ پھیر کر ناراضگی سے بولی۔
ارے ارے یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے میری گڑیا مجھ سے خفا ہے۔ وہ تھوڑی سے اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے بولا۔
آپ کل کہاں تھے ؟ آفس میں بھی نہیں تھے۔ شام کو میں آپ کا انتظار کرتے کرتے سو گئی۔ لیکن آپ کو کیا پرواہ۔ وہ شکوہ کرتے ہوئے بولی۔
سوری گڑیا کل مجھے آفس کے کام کے لیے اسلام آباد جانا پڑ گیا تھا۔ اس لیے واپسی میں گھر آنے میں تھوڑی دیر ہو گئی تھی۔ لیکن میں تم سے وعدہ کرتا ہوں۔ آج میں تمہیں شاپنگ پر بھی لے کر جاؤں گا اور آئس کریم بھی کھلاؤں گا۔ اس نے فوراً اس کی ناراضگی دور کرنی چاہںیے۔
سوری اذان بھائی جان آپ لیٹ ہو گئے۔ اس نے کندھے اچکائے۔
کیا مطلب۔۔۔۔۔۔؟
مطلب یہ کہ میں آج خارب کے ساتھ شاپنگ پر جا رہی ہوں۔
مگر گڑیا یہ تو غلط ہے۔ تم نے تو بڑی جلدی پارٹی چینج کر لی۔ جب سے تمہاری خارب سے دوستی ہوئی ہے تم تو اپنے بھائی کو ہی بھول گئی۔ اس بار منہ پُھلانے کی باری اذان کی تھی۔
آپ بھی تو اپنی گڑیا کو بھول گئے "نا"۔ اس نے باور کرایا۔
گڑیا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کہ میں اپنی گڑیا کو بھول جاؤں۔ اذان اس کی لمبی پتلی ناک دبا کر مسکرا کر بولا۔
اچھا بابا سوری اب معاف بھی کر دو۔ اسے ویسے ہی ناراض دیکھ کر وہ دوبارہ بولا۔
اُوکے میں آپ کو آخری دفعہ معاف کر رہی ہوں۔
اس کی ناراضگی دور ہوتے دیکھ کر اذان نے سکون بھرا سانس خارج کیا۔
چلو رامیہ, اسی وقت دادجی بھی اس کے پاس آ کر بولے۔
ارے ایک منٹ رکو گڑیا, تمہارا تو سمجھ میں آتا ہے کہ تم واک پر جا رہی ہو۔ لیکن دادجی کہاں پر جا رہے ہے۔ اذان نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔
دادجی بھی میرے ساتھ ہی واک پر جا رہے ہی۔ اس نے خوشی سے بتایا۔
کیا۔۔۔۔۔؟ دادجی واک پر جا رہے ہیں ؟ دادجی اتنی آسانی سے مان کیسے گئے۔ ہماری تو آج تک نہیں مانی۔ وہ خیرانی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے بولا۔
یہ ہو سکتا ہے میں کچھ کہوں اور دادجی میری بات ٹال دے۔ وہ اترا کر بولی۔
ہاں یہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ رامیہ کو خوش دیکھ کر وہ مسکرا کر بولا۔
اچھا اب میں آفس کے لیے نکلتا ہوں۔ تم ٹائم پر خارب کے ساتھ آفس آ جانا۔ وہ گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے بولا, اور اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر وہاں سے چلا گیا۔
****************
ضوفیرہ ابھی لائبریری میں اپنی بکس لے کر بیٹھی ہی تھی۔ کہ اس کے موبائل پر رنگ ہوئی۔ سامنے سکرین پر عمیر کا نمبر جگمگاتے دیکھ کر ایک پَل کے لیے اس کا دل کیا, کال کاٹ دے۔ لیکن اس کی دھمکی یاد آنے پر اسے مجبوراً کال اُٹھانی پڑی۔
کَیا ہے عمیر کیوں بار بار فون کر کے مجھے تنگ کر رہے ہو۔ وہ فون اُٹھاتے ہی سرد لہجے میں بولی۔
مانگوں میں کیا کسی سے کوئی دے گا کیا مجھے
دیتا ہے دستِ عیب سے خدا مجھے
عمیر بیڈ پر لیٹے ایک ہاتھ سے فون کان سے لگائے دوسرا ہاتھ سر کے نیچے رکھتے ہوئے شوخی سے بولا۔
تم کیوں اپنی زندگی میں خوش نہیں رہںتے۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ وہ بمشکل اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے نرم لہجے میں بولی۔
چاند کی چاندنی ہو گی ستاروں کی برات ہو گی
اس دن خوشی نصیب ہو گی جس دن ملاقات ہو گی
اس کی شاعری پر ضوفیرہ کا خون کھول کر رہ گیا۔ آخر تم کیوں نہیں سمجھتے, میں تمہیں پسند نہیں کرتی۔
شیشہ توڑو پتھر توڑو دل نہ کسی کا توڑو
پیار کے اس موڑ پر ساتھ نہ میرا چھوڑو
ضوفیرہ سے اور برداشت نہ ہوا تو اس نے غصے سے کال کاٹ دی۔
آخر ضوفی تم کیوں نہیں سمجھتی۔ میں تمہیں کتنا چاہںتا ہوں۔ تم میرے ساتھ ایسے کیوں کر رہی ہو۔ عمیر کروٹ بدل کر سامنے موبائل کی سکرین پر اس کی تصویر دیکھتےہوئے مسکرا کر بولا۔
*****************
بس رامیہ اب مجھ سے اور چلا نہیں جائے گا۔ دادجی رُک کر پُھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ بولے۔
لیکن دادجی ابھی ہم اتنا چلے ہی کہاں ہے, آپ اتنی جلدی تھک گئے۔ وہ ان کی طرف دیکھ کر بولی۔
نہیں رامیہ اب میرے میں اور ہمت نہیں ہے چلنے کی۔ بوڑھا ہو گیا "نا"۔ ہڈیوں میں اتنی طاقت نہیں ہے۔ وہ پاس ہی پڑے بنچ پر بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے بولے۔
کیا مطلب آپ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ آپ میرے سپر ہیرو ہے, اور سپر ہیرو کبھی بوڑھے وڑھے نہیں ہوتے۔ وہ حفا حفا لہجے میں بولی۔
ہاں میں تمہارا سپر ہیرو ہوں۔ لیکن آج تمہارے سپر ہیرو سے اور نہیں چلا جائے گا۔
لیکن دادجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں رامیہ آج نہیں۔ آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے, لیکن میں تم سے وعدہ کرتا ہوں۔ کل ہم اس سے بھی زیادہ دیر تک واک کریں گے۔ دادجی نے اسے منانے کی کوشش کی۔
ٹھیک ہے لیکن کل میں آپ کا کوئی ایکسکیوز نہیں سنوں گی۔
ہاں۔۔۔۔۔۔۔ہاں ٹھیک ہے وہ مسکرائے۔
دادجی یہ جگہ کتنی پیاری ہے۔ وہ ان کے پاس ہی بنچ پر بیٹھ کر اِردگِرد دیکھتے ہوئے بولی۔ ہر طرف ہریالی, جگہ جگہ پر مختلف قسم کے فروٹس اور رنگ برنگے پھول لگے ہوئے۔ صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے پر آئی زلفوں کو چھیڑ رہی تھی۔
تمہیں پسند آئی یہ جگہ۔۔۔۔۔۔۔۔
جی دادجی بہت۔ وہ خوشی سے چہک کر بولی۔
کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ دادجی آپ ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں۔ انہیں مسلسل اپنی طرف دیکھتا پا کر بولی۔
یہی کہ میری پوتی بھی, کیا تم جیسی ہی ہو گی۔ وہ غمگین لہجے میں بولے۔
دادجی میں بھی تو آپ کی پوتی جیسی ہوں۔ وہ ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
تم میری پوتی جیسی نہیں۔ بلکہ میری پوتی ہی ہو۔ وہ پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔
رامیہ بھی اَگے سے مسکرائی۔
چلے دادجی اب گھر چلتے ہیں۔ بہت دیر ہو گئی ہے۔ وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
*****************
نمی جب سے تم کالج سے آئی ہو, بڑا مسکرا رہی ہو۔ کیا بات ہے ؟ ضوفی اپنی کافی کا کپ ہاتھ میں پکڑے اس کے پاس ہی بیٹھتے ہوئے شوخی سے بولی۔
نن۔۔۔۔۔۔۔نہیں تو ضوفی ایسی کوئی بات نہیں۔ وہ ایک دم بوکھلائی۔
اچھا تو ایسی کوئی بات نہیں۔ ضوفیرہ اپنے کندھے سے اس کا کندھا ہلا کر شرارت سے بولی۔
پلیز ضوفی تنگ مت کرو, مجھے پڑھنے دو۔ وہ اپنی نظریں ہاتھ میں پکڑی کتاب کی طرف مرکوز کرتے ہوئے بولی۔
اچھا تو تم پڑھ رہی ہو, اور وہ بھی الٹی کتاب۔ وہ اس کے ہاتھ میں پکڑی کتاب سیدھی کرتے ہوئے بولی۔
وو۔۔۔۔۔۔۔و۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔
اب وہ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کر کے بہانے بنانا بند کرو, اور مجھے یہ بتاؤ میرے جانے کے بعد تمہاری اس سے کیا بات ہوئی تھی۔ وہ سیدھا مدعے پر آئی۔
ضوفی ہمارے بیچ ایسی ویسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ اس نے نظریں چرائی۔
اچھا ٹھیک ہے تم نہیں بتانا چاہںتی مت بتاؤ۔ اس نے ناراضگی سے منہ پھیرا۔
ضوفی وہ سچ میں مجھ سے محبت کرتا ہے۔ اسے ناراض دیکھ کر نریم اس کا ہاتھ پکڑکر مسکراتے ہوئے بولی۔
کیا سچ۔۔۔۔۔۔۔؟ تم سچ کہہ رہی ہو ؟ وہ واقع میں تم سے محبت کرتا ہے۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر خوشی سے چیخی۔
ضوفی آہستہ یار, اس کے چیخنے پر وہ کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
نریم تم سچ کہہ رہی ہو۔ کیا تم نے بھی اسے بتایا کہ تم بھی اسے پسند کرتی ہو۔ اس کی بات کو نظر انداز کر کے اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
نہیں ضوفی میں نے اسے یہ نہیں بتایا۔ کہ میں بھی اسے پسند کرتی ہوں۔ وہ اس کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ ہٹا کر رندھی ہوئی آواز میں بولی۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تم نے اسے کچھ بھی نہیں بتایا۔ لیکن نمی۔۔۔۔۔۔۔۔
پلیز ضوفی میں ایسا نہیں کر سکتی۔ وہ فوراً اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
نمی تم اپنے ساتھ غلط کر رہی ہو۔ اگر تم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو۔ تو پھر یہ منگنی کیسی ؟ اگر تم کہو تو میں انکل آنٹی سے بات کرو۔
نہیں ضوفی میں اپنی خوشی کے لیے, اپنے والدین کو دکھ نہیں پہنچا سکتی۔ میں اتنی خود غرض نہیں ہوں۔ بات کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
ضوفیرہ نے فوراً اسے گلے سے لگایا۔
نمی تم فکر نہ کرو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ پیچھے سے اس کی کمر سہلاتے ہوئے بولی۔
***************
صائمہ جو ڈائنگ ٹیبل پر ناشتہ لگا رہی تھی۔ کہ باہر سے دادجی اور رامیہ کو کسی بات پر مسکراتے اندر آتے دیکھا۔ صائمہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
اسلام علیکم آنٹی !
وعلیکم اسلام ! ہو گئی واک۔
جی۔۔۔۔۔۔۔
اچھا اب جاؤ جا کر فریش ہو جاؤ۔ تمہارا ناشتہ بھی ریڈی ہے۔
اُوکے آنٹی میں جلدی سے ریڈی ہو کر آئی۔ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ نیچے آئی تو خارب اسی کا انتظار کر رہا تھا۔
چلیں خارب ؟
رامیہ کہاں جا رہی ہو۔ اسے جاتے دیکھ صائمہ نے فوراً اسے روکا۔
آنٹی آفس۔۔۔۔۔۔۔
لیکن تم نے تو ابھی ناشتہ بھی نہیں کیا۔ انہوں نے باور کرایا۔
آنٹی بالکل بھی بھوک نہیں ہے۔ وہ عجیب سا منہ بناتے ہوئے بولی۔
بھوک ہو یا نہ ہو۔ صبح کا ناشتہ ضرور کرنا چاہںیے, اور میں تمہیں ناشتہ کیے بغیر نہیں جانے دوں گی۔ وہ اسے چیر پر بیٹھا کر منصوعی غصے سے بولی۔ ان کے غصے میں بھی پیار شامل تھا۔
کھاؤ اب۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے ایک پلیٹ میں پراٹھا اور آملیٹ رکھ کر دیا۔ رامیہ نے معصومیت سے ان کی طرف دیکھ کر انکار میں سر ہلایا۔ لیکن صائمہ اس کے پاس ہی بیٹھ کر زبردستی اسے اپنے ہاتھوں سے کھلانے لگی۔ جبکہ باقی سب کے چہروں پر دبی دبی مسکراہٹ تھی۔
بس آنٹی اب اور نہیں کھایا جائے گا۔ وہ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
اچھا ٹھیک ہے جاؤ اب۔ وہ اسے منہ بناتے دیکھ کر مسکرا کر بولی۔
سچ وہ خوشی سے کھڑی ہوئی۔
آنٹی میں اور خارب آج گھر لیٹ آئیں گے۔ وہ خارب کے ساتھ باہر جاتے ہوئے دوبارہ پلٹ کر بولی۔
کیوں بیٹا۔۔۔۔۔۔؟ انہوں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
وہ آنٹی خارب آج مجھے شاپنگ پر لے کر جا رہا ہے۔ وہ مسکرا کر بولی۔
اچھا ٹھیک ہے لیکن زیادہ دیر مت لگانا
اُوکے آنٹی اللہ حافظ۔
***************
ٹون۔۔۔۔۔۔۔ٹون
یااللہ یہ عمیر اتنی رات کو بھی کال کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ ضوفیرہ کی جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آنکھ لگی تھی۔ کہ موبائل کی رنگ کی آواز پر فوراً کھول گئی۔ وہ غصے سے موبائل اُٹھاتے ہوئے بولی۔
لیکن میرے موبائل میں تو کسی کی کال نہیں آ رہی۔ وہ اپنا موبائل چیک کرتے ہوئے خود سے بڑبڑائی۔
اسی وقت دوبارہ رنگنگ کی آواز کمرے میں گونجی۔
ضوفیرہ نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ تو سامنے ہی ٹیبل پر پڑا نریم کا موبائل بج رہا تھا۔ اسے پتہ تھا اس وقت نریم کو کون کال کر سکتا ہے۔ اس نے ایک نظر نریم پر ڈالی اور سوتا دیکھ کر فوراً بیڈ سے اٹھ کر اس کا موبائل اُٹھا کر دبے پاؤں کمرے سے باہر چلی گئی۔
ہیلو ! میں نریم کی فرینڈ بات کر رہی ہوں۔ وہ کال اُٹھاتے ہی مدھم لہجے میں بولی۔
تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا مطلب آپ۔ دوسری طرف وہ خیرانی سے بولا۔
جی پلیز آپ کچھ بولنے سے پہلے میری بات سن لے۔ وہ فوراً بولی۔
جی بولیے میں سن رہا ہوں۔ وہ ہمہ تن گوش ہوا۔
وو۔۔۔۔۔۔۔۔وہ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہںتی تھی۔ کیا آپ سچ میں میری دوست سے محبت کرتے ہیں۔ وہ ایک نظر پیچھے دیکھتے ہوئے بولی۔
جی یہ کیسا سوال ہے ؟
دیکھے پلیز میں بہت پریشان ہوں۔ اگر آپ مجھے بتا دیں گے۔ تو شاید مجھے آپ کو کچھ بتانے میں آسانی ہو جائے۔ اس نے التجا کی۔
دیکھے مجھے نہیں پتہ آپ یہ سوال کیوں پوچھ رہی ہے۔ اگر آپ یہ سوچ رہی ہے کہ میں آپ کی دوست کے ساتھ ٹائم پاس کر رہا ہوں۔ تو پلیز ایسا مت سوچیے, ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ مجھے نہیں پتہ مجھے کب اور کیسے نریم سے محبت ہو گئی۔ میں بس اتنا جانتا ہوں اب میں اس سے الگ ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اگر نریم مجھے نہ ملی, تو میں اپنی جان دینے سے بھی گریز نہیں کرونگا۔ وہ نہایت سنجیدگی سے بولا۔
ایسا کرنے کی آپ کو ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ اس کی باتیں سن کر ضوفیرہ کو دلی سکون ملا تھا۔ نریم کے لیے اس شخص کے دل میں اس قدر محبت دیکھ کر وہ دل ہی دل میں خوش ہوئی۔
کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔؟ آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ وہ ناسمجھی سے بولا۔
دیکھے میں آپ کو کچھ بتانا چاہںتی ہوں۔ وہ مسلسل پیچھے کمرے کی طرف دیکھتے مدھم لہجے میں بولی۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ آپ مجھے کیا بتانا چاہںتی ہیں۔ وہ خیران ہوا۔
یہی کہ نریم بھی آپ سے محبت کرتی ہے۔ اس نے انکشاف کیا۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا مطلب آپ سچ کہہ رہی ہے وہ خوشی سےچیخا۔
ضوفیرہ اس کے کبھی تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر فوراً آپ کہنے پر تھوڑی خیران ہوئی۔ لیکن پھر نظر انداز کرتے ہوئے بولی۔
میں سچ کہہ رہی ہوں۔ وہ بھی آپ کو پسند کرتی ہے۔ اس نے یقین دلایا۔
لیکن اس نے یہ بات مجھے خود کیوں نہیں بتائی۔ دوسری طرف اس نے اِستفسار کیا۔
وہ آپ کو یہ بات کبھی بھی نہیں بتائے گی۔
پر کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ خیران ہوا۔
وہ اس لیے وہ سوچتی ہے۔ اس نے اپنی منگنی توڑ دی۔ تو اس کے والدین کو بہت دکھ ہو گا۔ اس لیے وہ یہ منگنی کبھی بھی نہیں توڑے گی۔ میں نے آپ کی کال اسی لیے پِک کی۔ تاکہ آپ کو یہ سب بتا سکوں۔ اچھا میں کال رکھ رہی ہوں, مجھے لگتا ہے کوئی آ رہا ہے۔ اپنے پیچھے قدموں کی آواز سن کر اس نے فوراً کال کاٹی۔ پچھے مڑ کر دیکھا۔ تو نریم کو دروازے میں کھڑا پایا۔
ضوفی تم اتنی رات کو یہاں کیا کر رہی ہو۔ وہ سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔
وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔وہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے گبھراہٹ ہو رہی تھی۔ اس لیے باہر آ گئی تھی۔ وہ ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے اَٹک اَٹک کر بولی۔ جبکہ ہاتھ کی مُٹھی میں نریم کا موبائل بھینچا ہوا تھا۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تمہاری طبیعت ٹھیک ہے۔ وہ اس کے پاس آ کر اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے فکر مند لہجے میں بولی۔
ہاں نمی میں ٹھیک ہوں۔ تم بتاؤ, تم یہاں کیوں آئی ؟ وہ خود کو نارمل کرتے ہوئے بولی۔
ہاں وہ تمہیں کمرے میں نہیں دیکھا تو اس لیے ڈھونڈتے ہوئے باہر آ گئ۔
نمی تم فکر نہ کرو۔ میں اب ٹھیک ہوں۔ تم جاؤ, میں ابھی تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔ اس نے تسلی دی۔
پکہ "نا"۔۔۔۔۔۔۔؟
ہاں بابا پکہ اب تم جاؤ۔
اُوف شکر ہے اللہ کا بچ گئے۔ اس کے جاتے ہی ضوفیرہ ہوا میں لمبا سانس حارج کرتے ہوئے بولی۔
**************
خارب اب چلو بھی, تمہارا کام بھی اب ختم ہو گیا ہے۔ رامیہ اس کے کیبن میں آتے ہوئے بولی۔
کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ جو کوئی فائل چیک کر رہا تھا۔ نظریں اُٹھا کر رامیہ کی طرف دیکھ کر بولا۔
خارب تمہیں پتہ ہے۔
سچ میں رامیہ مجھے کچھ بھی یاد نہیں کہاں جانا ہے۔ وہ جان بوجھ کر انجان بنا۔
خارب تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ شاپنگ پر جانے کا۔ وہ جنجھلائی۔
وعدہ۔۔۔۔۔۔۔۔کب۔۔۔۔۔۔۔؟ اور کہاں۔۔۔۔۔۔؟
خارب میں لاسٹ ٹائم پوچھ رہی ہوں۔ تم میرے ساتھ شاپنگ پر جا رہے ہو, کہ نہیں۔ وہ ناک پر غصہ لیے اس کی طرف دیکھ کر سخت لہجے میں بولی۔
اے لڑکی تمہیں شرم آنی چاہںیے۔ اپنے بوس کو کہتے ہوئے شاپنگ پر چلو۔ اسے غصے میں دیکھ کر وہ اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔
بوس ٹھیک ہے اب دیکھنا۔ میں تمہارے ساتھ کیا کرتی ہوں۔ وہ اسے وارن کرتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
ارے سوری یار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ باہر جاتی۔ خارب فوراً اُٹھ کر اس کی طرف لپکا, اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے سامنے کھڑا کرتے ہوئے بولا۔
چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے کہی نہیں جانا تمہارے ساتھ۔ اس نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔ لیکن ہاتھ پر گرفت مضبوط تھی۔
سوری رامیہ میں مذاق کر رہا تھا۔ اچھا ٹھیک ہے۔ اب میں تمہارے ساتھ کوئی مذاق نہیں کروں گا۔وہ ایک ہاتھ سے اپنا کان پکڑتے ہوئے بولا۔
اُوکے چلو, وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر مسکرا کر بولی۔
کچھ ہی دیر میں وہ ایک بڑے سے شاپنگ مال میں موجود تھے۔
رامیہ اب بس بھی کرو اور کتنی شاپنگ کرو گی۔ پہلے ہی تم نے اتنا کچھ لے لیا ہے۔ وہ جو کافی دیر سے اس کے ساتھ شاپنگ مال میں خوار ہو رہا تھا۔ آخر کار تھک ہار کر بولا۔
اچھا چلو چلتے ہیں, کیا یاد کرو گے۔ وہ اس کی خالت دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی۔
مسکرا لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسکرا لو۔ جتنا چاہے مسکرا لو۔ جب میری باری آئی تو تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔ اس نے دھمکی دی۔
دیکھی جائے گی, وہ مسکرائی اور کاونڑ کی طرف چلی گئی۔
میم یہ آپ کا بِل۔۔۔۔۔۔۔۔
خارب بِل کی پیمنٹ کرو۔ وہ اس کے ہاتھ میں لسٹ پکڑاتے ہوئے بولی۔
کیا میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس نے خیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
جی ہاں تم اور کیا میں دوں۔ تمہیں شرم آنی چاہںیے ایک لڑکی کو کہتے ہوئے بِل پے کرو۔ وہ چہرے پر چڑانے والی مسکراہٹ لیے بولی۔
خارب نے ٹوٹل بِل دیکھا, تو اس کا دماغ گھوم کر رہ گیا۔
تمہیں تو میں بعد میں دیکھتا ہوں۔ وہ اس کے کان کے قریب تھوڑا جھک کر غصے سے دانت پیستے ہوئے بولا, اور بِل کی پیمنٹ کر کے وہاں سے چلا گیا۔ رامیہ بھی اپنے شاپنگ بیگ اُٹھا کر فوراً اس کے پیچھے بھاگی۔
خارب۔۔۔۔۔۔۔۔خارب رکو۔ وہ بھاگتے ہوئے آئی۔
اب کیا ہے, وہ پیچھے مُڑ کر بیزاری سے بولا۔
اپنی گاڑی کی چابی دو۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ خیران ہوا۔
میں نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جلدی سے اپنی گاڑی کی چابی دو۔ تم سوال بہت پوچھتے ہو۔ رامیہ خود ہی اس کے ہاتھ سے گاڑی کی چابی لیتے ہوئے بولی۔
تم یہاں ہی رکو, میں ابھی آئی۔
وہ بھاگتے ہوئے گاڑی کی طرف گئی, اور اسے ان لاک کر کے اس میں شاپنگ بیگ رکھ کر دوبارہ اس کی طرف آئی۔
اب چلو وہ خوشی سے چہک کر بولی۔
کہاں۔۔۔۔۔؟
وہاں اس نے سامنے گول گپوں کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں ایک آدمی گول گپے بنانے میں مصروف تھا۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ تم پاگل ہو گئی ہو۔ میں تمہیں یہ کھانے نہیں دوں گا۔ تم بیمار پڑ گئی تو گھر والے مجھے نہیں چھوڑیں گے۔ کیوں مجھ بیچارے کی جان لینے پر تُلی ہوئی ہو۔ سامنے گول گپے دیکھ کر اس نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔
لیکن میں تو کھاؤں گی۔ تم نےمجھ سے وعدہ کیا تھا۔ وہ ضدی لہجے میں بولی۔
جیسے میں نے کوئی وعدہ نہیں گناہ کر لیا ہو۔ وہ خود سے بڑبڑایا۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا کہا ابھی تم نے۔۔۔۔۔؟ خارب کو خود سے بڑبڑاتے دیکھ کر وہ فوراً بولی۔
کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔میں آپ کو کچھ کہنے کی گستاخی کر سکتا ہوں کَیا۔ وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔
اچھا ٹھیک ہے اب چلو۔ وہ زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر لے گئی۔
ایکسکیوز می انکل پلیز ایک پلیٹ گول گپوں کی بنا دے۔ وہ بھی بہت تیکھی ہو۔
جی میم۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں اس کی پلیٹ تیار تھی۔
خارب تم بھی کھاؤ "نا" قسم سے بہت مزے کے ہے۔ وہ مزے لے لے کر کھاتے ہوئے خوشی سے بولی۔
خارب جو مسلسل اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بلیک جینز, سفید پھولوں سے بنی ہوئی پنک شرٹ, گلے میں بلیک سکارف لپیٹے, سلکی براؤن بال جوڑے میں مقید, میک اپ سے پاک سفید چہرہ, وہ اسے دیکھنے میں اس قدر مگن تھا۔ کہ رامیہ کے بُلانے پر چونکا, اور فوراً نفی میں سر ہلایا۔
خارب پلیز میرے لیے ایک دفعہ کھا کر دیکھو۔ سچ میں تمہیں پسند آئیں گے۔ اس کے لہجے میں التجا تھی۔
نہیں مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ اپنا جملہ مکلمل کرتا۔ کہ رامیہ نے ایک پورے کا پورا گول گپا اس کے منہ میں ڈال دیا۔
جس سے مجبوراً اسے کھانا پڑا۔ لیکن جلد ہی اس کی آنکھوں سے پانی نکل آیا۔
مرچی۔۔۔۔۔۔۔مرچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔منہ میں مرچے لگنے کی وجہ سے وہ عجلت میں پانی کی بجائے گول گپوں کا پانی پی گیا۔ جسے اس نےدوبارہ اُگل دیا۔
یہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ کھانستے ہوئے بولا۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسٹر خارب یہ کھٹیائی تھی۔ جس سے تم نے پانی سمجھ کر پی لیا۔ وہ بے ساختہ ہنستے ہوئے بولی۔
یہ لو پانی پیو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اسے پانی کی بوٹل پکڑاتے ہوئے بولی۔ جبکہ ہونٹوں پر ابھی بھی شرارت بھری مسکراہٹ تھی۔
اس نے فوراً اس کے ہاتھ سے پانی کی بوٹل پکڑ کر ایک ہی گھونٹ میں پی گیا۔
رامیہ کو مسلسل ہنستے دیکھ کر اس نے گھور کر اسے دیکھا۔
سوری خارب میں کیا کروں۔ میری ہنسی ہی کنٹرول نہیں ہو رہی۔
میں تو خیران ہوں, تم تو امریکہ میں رہںتی ہو۔ پھر بھی اتنی تیکھی چیزیں کیسے کھا لیتی ہو۔ اس نے عجیب سا منہ بنایا۔
مجھے بھی خیرت ہو رہی ہے۔ تم پاکستان میں رہںتے ہو, اور پھر بھی گول گپے نہیں کھائے ہوئے۔
کیونکہ مجھے تمہاری طرح گندی چیزیں کھانے کا نہیں شوق۔ اس نے دوبدو جواب دیا۔
کیا تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رامیہ ابھی کچھ کہنے ہی لگی تھی۔ کہ اس کی نظر سامنے کھڑی دو لڑکیوں پر گئی۔ جو بڑے غور اور عجیب نظروں سے خارب کو دیکھ رہی تھی۔ وہ جو کچھ دیر پہلے ہنس رہی تھی۔ اب اس کے مسکراتے ہونٹ سکڑے۔
خارب چلو یہاں سے۔ اس کے چہرے پر غصے کے تاثرات چھائے۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟ اب اور گول گپے نہیں کھانے۔ اس نے طنز کیا۔
نہیں کھانے اب پلیز چلو, یہاں سے۔ وہ غصہ ہوئی۔ پتہ نہیں کیوں ان لڑکیوں کا خارب کو اس طرح دیکھنا بُرا لگا تھا۔
رامیہ تم ٹھیک ہو۔ اسے غصے میں دیکھ کر وہ پریشانی سے بولا۔
ہاں میں ٹھیک ہوں۔ تم بس چلو یہاں سے۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی۔
اچھا ٹھیک ہے چلو۔ خارب گول گپوں کی پیمنٹ کر کے اس سے بولا۔
وہ ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے۔ کہ انہی دو لڑکیوں نے آ کر ان کا راستہ روکا۔
ہے ہینڈسم ایم لیلا اینڈ یو۔ ان میں سے ایک لڑکی ہاتھ بڑھاتے ہوئے ایک ادا سے بولی۔ بلیو جینز, وائٹ شرٹ جس کا گلا بہت ڈیپ تھا, کندھے تک کٹنگ کیے ہوئے بلیک بال۔
ایکسکیوزمی خارب نے گھور کر اسے دیکھا, اور نظرانداز کرتے ہوئے وہاں سے جانے ہی لگا تھا۔ کہ اس لڑکی نے فوراً اَگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا۔
یہ کیا بدتمیزی ہے اس کے ہاتھ پکڑنے پر خارب کا خون کھول کر رہ گیا۔ وہ غصے سے بولا۔
یہ بدتمیزی نہیں ہے میں نے تو صرف تم سے تمہارا نام پوچھا ہے۔ وہ ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ لیے ایک ادا سے بولی۔
راہ چلتے لڑکوں کو روک کر ان کا نام پوچھنا۔ یہ شریف لڑکیوں کو شبع نہیں دیتا۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور لڑکوں کو شبع دیتا ہے کہ وہ لڑکیوں کو لے کر گُھومے۔ وہ ہنستے ہوئے رامیہ کی طرف اشارہ کر کے طنزیہ لہجے میں بولی۔
دیکھو تم اپنی حد میں رہو۔ اپنی حد پار مت کرو۔ میں تم جیسی لڑکیوں کو اچھے سے جانتا ہوں۔ اس نے انگلی اُٹھا کر وارن کیا۔
کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔؟ مجھ جیسی لڑکی ؟ اس لڑکی میں کیا ہیرے جڑے ہیں۔ کہ تم اس لڑکی کے ساتھ گُھوم پھر سکتے ہو, اور مجھ جیسی لڑکی کے ساتھ نہیں۔ اس بار اسے بھی غصہ آیا۔
دیکھو تم لڑکی ہو اس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ چھوڑو خارب کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ خارب اس لڑکی کو کچھ سُناتا۔ کہ رامیہ اس لڑکی کے پاس آ کر سخت لہجے میں بولی۔ وہ جو کافی دیر سے کھڑی یہ سب برداشت کر رہی تھی۔ کہ آخر اس کی برداشت کی ہمت جواب دے گئی تھی۔
کیوں یہ تمہارا ہے کہ صرف تم ہی اس کا ہاتھ پکڑ سکتی ہو۔ ہم نہیں۔ وہ اپنی فرینڈ کے ہاتھ پر پنچ مارتے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے بولی۔
میں نے کہا ہاتھ چھوڑو۔ رامیہ سُرخ آنکھیں لیے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
نہیں چھوڑتی کیا کر لو گی, اور ویسے بھی تم اس کی لگتی کیا ہو۔
اس سے ہاتھ نہ چھوڑتے دیکھ کر رامیہ نے اس کے اسی ہاتھ پر اپنے دانت گاڑھ دئیے۔ درد کی وجہ سے چیختے ہوئے اس لڑکی نے فوراً ہاتھ چھوڑ دیا۔ اس نے بمشکل اپنا ہاتھ چھڑایا, جو کافی زخمی ہو گیا تھا۔
یہ کَیا کِیا پاگل لڑکی وہ اپنا زخمی ہاتھ دیکھتے ہوئے غصے سے بولی۔
ابھی تو تمہارا ہاتھ صرف زخمی ہوا ہے۔ آئندہ کبھی تم نے خارب کا ہاتھ پکڑا تو میں تمہارے ہاتھ ہی توڑ دوں گی۔ وہ آنکھوں میں غضب و غصہ لیے بولی۔
جبکہ رامیہ کی اس حرکت پر خارب ساکت کھڑا دیکھتا رہ گیا۔
توڑو ہاتھ۔۔۔۔۔۔توڑو "نا" ہاتھ۔ آخر میں بھی تو دیکھو۔ وہ لڑکی اس کے پاس آ کر غصے سے بولی۔
ابھی بتاتی ہوں, میں تمہیں۔۔۔۔۔۔۔
رامیہ چھوڑو اسے چلو یہاں سے۔ اس سے پہلے کے وہ اسے مارنے کے لیے بڑھتی۔ خارب اس کا ہاتھ پکڑتے اس سے وہاں سے لے گیا۔
کہاں جا رہی ہو بزدل۔ کیوں ڈر گئی کیا۔ لگتا ہے تمہارا باپ بھی بزدل ہے۔ اس لیے تو تم بزدل باپ کی بزدل بیٹی ہو۔ اسے جاتا دیکھ کر وہی لڑکی دوسری لڑکی کے ساتھ ہنستے ہوئے بولی۔
خارب چھوڑو مجھے, وہ خارب سے اپنا ہاتھ چھڑاتے بھاگتے ہوئے اس لڑکی کے پاس گئی, اور دونوں ہاتھوں سے اس کی گردن دبا دی۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی۔ میرے ڈیڈ کو بزدل کہنے کی۔ جانتی ہی کیا ہو, تم میرے ڈیڈ کے بارے میں۔ میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں۔ جبکہ وہ لڑکی اپنے آپ کو چھڑانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔
رامیہ چھوڑو اسے وہ مر جائے گی۔
خارب چھوڑو مجھے, میں اسے جان سے مار دوں گی۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی۔ میرے ڈیڈ کو بزدل کہنے کی۔ وہ اس کی گردن اور زور سے دباتے ہوئے بولی۔
رامیہ چھوڑو اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز رامیہ چھوڑو۔ خارب نے بمشکل اس لڑکی کو رامیہ سے چھڑایا۔
چلو یہاں سے وہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا۔
نہیں خارب میں نہیں جاؤں گی۔ میں اسے مار ڈالوں گی۔ چھوڑو میرا ہاتھ۔ اس نے میرے ڈیڈ کے خلاف بولا بھی کیسے۔ اس نے زبردستی اپنا ہاتھ چھڑایا اور دوبارہ اس لڑکی کے پاس جا کر اس کے بال پکڑ لیے۔
اس کا جو ابھی سانس بھی بحال نہیں ہوا تھا۔ کہ رامیہ کے بال پکڑنے پر وہ لڑکی چکرا کر رہ گئی۔ جبکہ اب تو اِردگِرد لوگ بھی جمع ہونے لگے۔ کچھ لوگ یہ سب دیکھ کر انجوائے کر رہے تھے۔
خارب یہ ساری سچویشن دیکھ کر بوکھلا کر رہ گیا۔
آخر یہ لڑکی چیز کیا ہے۔ اگر جلد ہی کچھ نہ کیا۔ تو یہ تو سچ میں اسے مار دے گی۔ وہ رامیہ کو دوبارہ اس کے بال پکڑتے دیکھ کر خود سے بڑبڑایا۔
رامیہ یہ کیا کر رہی ہو۔ چھوڑو اس کے بال۔
تمہاری اتنی ہمت میرے ڈیڈ کو بزدل کہو۔ میرے ڈیڈ بزدل نہیں ہے۔ رامیہ میں آخری دفعہ بول رہا ہوں۔ اگر تم نے اس لڑکی کے بال نہ چھوڑے تو میں تمہیں اُٹھا کر لے جاؤں گا۔ اس نے دھمکی دی۔
مار ڈالو گی میں تمہیں۔ اس پر اس وقت جنون سوار تھا۔ اسے کسی کی کوئی بات سُنائی نہیں دے رہی تھی۔
خارب اسے نہ مانتے دیکھ کر بمشکل اس لڑکی کو چھڑوا کر رامیہ کو زبردستی اپنے کندھے پر اُٹھا کر وہاں سے لے گیا۔
خارب چھوڑو مجھے, اُتارو مجھے نیچے۔ وہ اس کے کندھے پر مُکے مارتے ہوئے غصے سے بولی۔
تاکہ تم اس لڑکی کو جان سے مار دو۔ خارب اسے ایسے ہی اُٹھائے۔ گاڑی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بولا۔
ہاں مار دوں گی میں اسے۔ اس نے میرے ڈیڈ کو بزدل کیسے کہا۔ خارب اُتارو مجھے نیچے, اس نے اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کی۔
یہ لو اُتار دیا, وہ گاڑی کے پاس آ کر اسے نیچے اُتار کر بولا۔
میں اسے جان سے مار دوں گی۔ وہ دوبارہ جانے لگی کہ خارب نے ایک لخت اس کا ہاتھ پکڑ لیا, اور اسے گاڑی کے ساتھ لگاتے اس کے اِردگِرد ہاتھ رکھ کر اس کے جانے کا راستہ مسدود کر دیا۔
خبردار رامیہ اب تم وہاں گئی۔ چُپ چاپ گاڑی میں بیٹھو۔ وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر زبردستی اسے اندر بیٹھاتے ہوئے غصے سے بولا۔ اور خود بھی دوسری طرف آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
**************
ضوفیرہ جو اپنی کچھ ضروری بُکس لینے مارکیٹ آئی تھی۔ کہ اسی وقت اس کے موبائل پر رنگ ہوئی۔ اس نے کوفت سے کال اُٹھائی۔, کیونکہ وہ جانتی تھی سامنے والا کون ہو گا۔
ہیلو ! عمیر جو بات کرنی ہے جلدی کرو۔ میں تمہاری طرح فارغ نہیں ہوں۔ وہ فون اُٹھاتے ہی غصے سے بولی۔
ضوفی میں بھی کہاں فارغ ہوتا ہوں۔
کیوں تم ایسا کیا کام کرتے رہںتے ہو۔ اس نے طنز کیا۔
ہر وقت تمہیں یاد جو کرتا رہںتا ہوں۔ وہ شوخی سے بولا۔
عمیر میں نے تمہاری بکواس سننے کے لیے فون نہیں اُٹھایا۔ جو بھی بات کرنی ہے جلدی کرو۔ میں زیادہ دیر تم سے بات نہیں کر سکتی۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
میں اس وقت مارکیٹ میں کھڑی ہوں۔ وہ اپنے لہجے کو دھیما رکھتے ہوئے بولی۔
لیکن میں تو تم سے بہت ساری باتیں کرنا چاہںتا ہوں۔
میں نہیں کرنا چاہںتی, وہ سخت لہجے میں بولی۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ عمیر کو اسے بار بار تنگ کرتے ہوئے مزہ آ رہا تھا۔
عمیر آخر تم مجھے بھول کیوں نہیں جاتے۔ دنیا میں ایک میں ہی لڑکی تو نہیں رہ گئی۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
اک تیرے سوا ہم کسی اور کے کیسے ہو سکتے ہیں
تو خود ہی سوچ کر بتا تیرا جیسا کوئی اور ہے کیا
وہ اس سے مزید تنگ کرتے ہوئے شوخ لہجے میں بولا۔
تمہارے سے بات کرنا ہی فضول ہے۔ میں فون رکھ رہی ہوں۔ وہ بے زاریت سے بولی۔
اگر تم نے میری کال کاٹی تو تم جانتی ہو۔ میں دوبارہ کروں گا۔ وہ پرسکون لہجے میں بولا۔
جاری ہے
1 Commenti
Owsome episode💕❤❤❤
RispondiEliminaCommento