Advertisement

Adbox

PARIVISH Episode 23 ( پری وش )

                 Parivish

                 ( پری وش ) 

# Novel by Parivish

# Writer; Aima Ashfaq

# Family, Funny Innocent herion, Rude hero based novel

# Please Don't Copy Paste My Novel

 # Episode 23:


اذان بھائی جان میں دادجی سے ملنا چاہںتی ہوں۔
اچھا ٹھیک ہے جاؤ جا کر مل لو۔ وہ اپنے کمرے میں ہی ہے۔ لیکن خبردار اب تم روئی۔ اس نے وارن کیا۔
ماما آپ فکر نہ کریں,وہ اب ٹھیک ہے۔ اس کے جاتے ہی اذان صائمہ کو تسلی دیتے ہوئے بولا۔
ماما پلیز آپ رونا بند کریں۔ میں یہاں کیا آپ سب لوگوں کے آنسو صاف کرنے کے لیے بیٹھا ہوں۔ وہ شرارت سے بولا۔ صائمہ اس کی بات پر مسکرائی۔
                                        *************
رامیہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔ تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بہت سارے آنسو اکھٹے ہونے لگے۔
ان کے منہ پر آکسیجن ماکس, ایک ہاتھ سینے پر اور دوسرے ہاتھ پر ڈریپ لگی ہوئی تھی۔ وہ بھاگ کر ان کے پاس گئی اور ان کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھتے۔ ان کے سینے پر سر رکھ کر رونے لگی۔
رامیہ میری پوتی تم واپس آ گئی۔ انہوں نے ہلکی ہلکی اپنی آنکھیں کھولی۔ تو اپنے سامنے اسے دیکھ کر خوشی سے بولے۔
جی دادجی میں واپس آ گئی ہوں۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے فوراً ان سے الگ ہو کر بولی۔
ایم سوری دادجی یہ سب میری وجہ سے ہوا۔ میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں۔ آئندہ کبھی بھی آپ سب کو چھوڑ کر یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
ارے رامیہ میں بالکل ٹھیک ہوں, اور مجھے بہت خوشی ہوئی کہ تم واپس آ گئی۔ وہ اپنے کانپتے ہاتھوں سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولے۔
دادجی آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ؟
نہیں پگلی میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔
سچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
مچ۔۔۔۔۔۔وہ اسکی پتلی ناک دباتے ہوئے بولے۔
اس نے مسکرا کر دوبارہ ان کے سینے پر سر رکھ لیا۔
اس کی اس حرکت پر دادجی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
ہمیشہ خوش رہو۔ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دُعا دی۔
                                      *******************
نمى آ جاؤ اندر میں نے دروازہ کھول دیا ہے۔
بڑی جلدی کھول دیا میڈم نے, اب بھی کھولنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ طنزیہ لہجے میں بولی۔
اچھا ٹھیک ہے میں دوبارہ بند کر دیتی ہوں۔
ارے نہیں نہیں رکو۔ نریم اپنی بکس اٹھا کر فوراً کمرے کی طرف بھاگی۔ کہی وہ دوبارہ دروازہ بند نہ کر دے۔ اس کی تیزی پر ضوفیرہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔
ہاں ہاں ہنس لو ہنس لو اب تو ہنسی ہی آئے گی "نا"۔ آخر صبح سے منہ پُھلا کر کمرہ لاک کیے جو بیٹھی ہوئی ہو۔ اور مجھے بیچاری کو باہر بیٹھا کر اویں ہی سزا دی ہوئی تھی۔ وہ چڑ کر بولی۔
اچھا سوری یار۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا سوری جب سے, میں کالج سے آئی ہوں۔ تب سے تم کمرہ بند کیے بیٹھی ہوئی ہو, اور یہاں تاکہ میرے اتنی دفعہ ناک کرنے پر بھی نہیں کھولا تھا۔ اور اب تم نے کھولا بھی تو شام کے نو بجے جا کر۔ نریم اس کی طرف دیکھ کر غصے سے بولی۔
اچھا "نا" سوری معافی مانگ رہی ہوں "نا"۔
تمہاری معافی سے کیا ہو گا۔ اس نے غصے سے منہ پیچھے کیا۔
نمی یار میں پریشان تھی اس لیے۔
کیوں اب تمہیں کیا ہوا ؟ اس نے اس کی طرف دیکھ کر اِستفسار کیا۔
کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔میں تمہیں کچھ نہیں بتاؤں گی۔ تم نے پھر مجھے تنگ کرنا شروع کر دینا ہے۔ وہ بیڈ پر جا کر دوسری طرف لیٹتے ہوئے بولی۔
اچھا "نا", میں نہیں کروں گی تنگ۔ پلیز بتاؤ "نا"۔ وہ اس کے پاس جا کر اس کے اوپر سے بلینکٹ ہٹاتے ہوئے بولی۔
اچھا بتاتی ہوں, وہ اٹھ کر بیٹھتے منہ بنا کر بولی۔
وہ صبح تمہارے جانے کے بعد عمیر کی کال آئی تھی۔
بس اتنی سی بات, وہ تو روز ہی آتی ہے۔ اس نے بات کو ہوا میں اُڑایا۔
بد قسمتی سے اس کی کال آج میں نے اُٹھا لی تھی۔ وہ تیز لہجے میں بولی۔
کیا تم سچ بول رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟  مجھے پہلے ہی پتہ تھا۔ تم بھی اسے پسند کرتی ہو۔ وہ فوراً خوشی سے بولی۔
ہو گیا تمہارا, اب تھوڑی دیر کے لیے تم اپنی بکواس بند کرو گی۔ وہ دانت چباتے ہوئے سخت لہجے میں بولی۔
اچھا اچھا سوری تم بولو۔ اس کے گھورنے پر اس نے فوراً اپنی مسکراہٹ چھپائی۔
اس نے مجھے پرپوز کیا ہے ۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرتے ایک لمبا سانس لے کر آخرکار بول ہی دیا۔
کیا سچ ؟ اُو مائی گارڈ۔ مجھے یقین نہیں آ رہا۔ اس نے آخر کار تمہیں پرپوز کر ہی دیا, اور ضوفی تم نے کیا جواب دیا۔ نریم نے فوراً تجسس کے مارے پوچھا۔
تم خوش ایسے ہو رہی ہو۔ جیسے اس نے مجھے نہیں۔ تمہیں پرپوز کیا ہے, اور ویسے بھی اتنا خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں نے اس کا پرپوزل رجیکٹ کر دیا ہے۔ آخری بات بتاتے ہوئے اس کے چہرے پر سکون تھا۔
کیا تم نے اس کا پرپوزل رجیکٹ کر دیا۔ وہ منہ لٹکا کر بولی۔
جی ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔اور اب میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہںتی۔ وہ دوبارہ لیٹ گئی اور اپنے اُوپر بلینکٹ لیتے ہوئے بولی۔
مگر ضوفی تم نے بہت غلط کیا۔ اس بیچارے کا دل توڑ کر۔ نریم افسوس بھرے لہجے میں بولی۔

تمہیں بہت فکر ہو رہی ہے, اس کے دل ٹوٹنے کی۔ ضوفیرہ نے فوراً بلینکٹ ہٹا کر اسے گھورا۔ اور ویسے بھی اسے بیچارہ نہ کہو۔ اگر اتنا ہی بیچارہ ہوتا۔ تو میرا پیچھا چھوڑ دیتا۔ نہ کہ دھمکیاں دیتا۔ اس کے چہرے پر غصے کے تصورات چھائے۔
کیا مطلب ؟ کیسی دھمکیاں۔ نریم نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔
میں نے اس کا پرپوزل رجیکٹ کر دیا تو اس جناب نے کہا۔ کہ جب تک میں اسے شادی کے لیے ہاں نہیں کروں گی۔ وہ مجھے ایسے ہی فون کر کے تنگ کرتا رہے گا, اور اگر میں نے اس کا فون نہ اُٹھایا تو وہ یہاں امریکہ آ جائے گا۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ واہ کیا بات ہے کیا بندہ ہے۔ تمہیں وہی ٹھیک کر سکتا ہے۔ وہ خوشی سے چہک کر بولی۔
نمی اگر اب تم چپ کر کے نہ لیٹی۔۔۔۔۔۔۔یا پھر تم نے کوئی بکواس کی۔ تو میں تمہیں اُٹھا کر کمرے سے باہر پھینک دوں گی۔ وہ اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے سخت لہجے میں بولی۔
پہلے اُٹھا کر تو دِکھا۔ وہ شرارت سے بولی۔
اچھا اچھا سوری, اسے پہلے ضوفیرہ اسے تکیہ اُٹھا کر مارتی۔ وہ ہنستے ہوئے بولی۔
اور اپنے یہ دانت بھی اندر کرو۔ ورنہ پورے بتیس کے بتیس دانت توڑ دوں گی۔
ضوفی پہلے تم ڈسائیڈ کر لو۔ تم نے میرے ساتھ کرنا کیا ہے۔ باہر پھینکنا ہے یا پھر دانت توڑنے ہے۔ وہ مسلسل اسے تنگ کرتے ہوئے بولی۔
یہ تو مجھے پتہ نہیں۔ لیکن یہ ضرور جانتی ہوں, اب تم کچھ بھی بولی۔ تو میں تمہارا قتل ضرور کر دوں گی۔
اچھا اب میں چپ ہوں۔ وہ منہ پر انگلی رکھ کر بولی۔
نمی تم کیا چیز ہو۔ اس کی اس خرکت پر ضوفیرہ کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔
میں انسان ہوں اور تمہاری بیسٹ فرینڈ ہوں۔ وہ اس کے پاس ہی لیٹتے ہوئے بولی۔
ضوفی کاش رامی بھی یہاں ہوتی۔ کتنا مزہ آتا۔ میں اسے بہت مِس کر رہی ہوں۔ وہ اداسی سے بولی۔
سچ میں نمی, میں بھی اسے بہت مِس کر رہی ہوں۔
ضوفی کیوں نہ اسے کال کریں۔ وہ خوشی سے بولی۔
نہیں نمی اس وقت کیا پتہ وہ بزی ہو۔ ہمیں اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہںیے۔ ہم صبح کال کریں گے اسے۔
ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ نریم نے بھی اس کی بات پر اتفاق کیا۔
                                              ******************
دادجی جو آنکھیں موندھے لیٹے ہوئے تھے۔ کہ اپنے پاؤں پر کسی کے ہاتھوں کا لمس محسوس کر کے انہوں نے ہلکی ہلکی اپنی آنکھیں کھولی۔ تو سامنے رامیہ بیڈ پر چوکڑی مار کر بیٹھی ان کے پاؤں دبا رہی تھی۔
ارے رامیہ یہ کیا کر رہی ہو۔ ایسا نہ کرو۔ وہ ناراضگی سے بولے۔
کیوں دادجی ؟ کیا میں آپ کے پاؤں نہیں دبا سکتی۔ وہ منہ بنا کر معصومیت سے بولی۔
نہیں رامیہ ایسی بات نہیں ہے
تو دبانے دیں مجھے آپ کے پاؤں۔ وہ دوبارہ دباتے ہوئے بولی۔
مگر رامیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر مگر کچھ نہیں۔ وہ اَٹل اور ضدی لہجے میں بولی۔
دادجی آپ میری ایک بات مانے گے۔ وہ سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھ کر بولی۔
تمہاری ایک بات کیا۔ میں ہزار باتیں مانوں گا۔ وہ مسکرا کر بولے۔
پہلے وعدہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا میں وعدہ کرتا ہوں۔ تم جو کہو گی۔ میں وہی کروں گا۔ انہوں نے یقین دلایا۔
آپ کو صبح جلدی اُٹھنا ہوگا, اور میرے ساتھ واک پر جانا ہوگا۔
اچھا تو اسی لیے میری ٹانگیں دبائے جا رہی تھی۔ ان کی بات پر رامیہ کھلکھلا کر ہنسی۔
جو بھی سمجھ لے۔
مگر رامیہ یہ واک شاک نہیں مجھ سے ہوتی۔
مجھے نہیں پتہ آپ نے وعدہ کیا ہے مجھ سے, اور ویسے بھی واک کرنے سے انسان کی صحت ٹھیک رہںتی ہے۔ میں امریکہ میں روز اپنے ڈیڈ کے ساتھ واک پر جاتی تھی۔ وہ اَٹل اور ضدی لہجے میں بولی۔
اچھا ٹھیک ہے۔ وہ ہار مانتے ہوئے بولے۔
تھینک یودادجی۔ وہ مسکراتے ہوئے ان کے گلے میں بانہیں ڈالتی ہوئی بولی۔
                                                     *****************
صبح صائمہ کمرے میں آئی۔ تو رامیہ دادجی کے گھٹنوں کے پاس لیٹی سو رہی تھی۔
رامیہ۔۔۔۔۔رامیہ بیٹا اٹھو یہاں سے۔ صاعمہ پیار سے اس کے بال سہلاتے ہوئے بولی۔
ماما پلیز سونے دے۔ وہ سوئے ہوئے مدھم لہجے میں بولی۔ لیکن پھر جلد ہی اس نے اپنی آنکھیں کھول لی۔
اُوں ایم سوری آنٹی مجھے نہیں پتہ تھا آپ ہیں۔ وہ شرمندگی سے بولی۔
نہیں رامیہ مجھے بالکل بھی بُرا نہیں لگا۔ کہ تم نے مجھے ماما کہا۔ وہ فوراً اپنے آنسوؤں پر بند باندھتے ہوئے بولی۔
ویسے تم یہاں ؟ انہوں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
وہ آنٹی رات کو دادجی سے باتیں کرتے ہوئے۔ کب میری آنکھ لگی مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔
آنٹی ویسے ٹائم کیا ہوا ہے۔ یاد آنے پر وہ فوراً بولی۔
نو بج رہے ہیں کیوں کیا ہوا ؟
اُوں نو آنٹی۔۔۔۔۔۔۔میں نے دادجی کے ساتھ واک پر جانا تھا۔ وہ منہ لٹکا کر بولی۔
دادجی کی جو شور کی آواز پر آنکھیں کھول گئی تھی۔ کہ واک والی بات پر انہوں نے دوبارہ اپنی آنکھیں بندکر لی۔ ان کی یہ حرکت رامیہ کی نظروں سے چھپی نہیں رہ سکی تھی۔

دادجی مجھے پتہ ہے آپ سو نہیں رہے۔ جائے میں آپ سے بات نہیں کررہی۔ وہ منہ پُھلا کر بولی۔
ارے ارے اس میں میرا کیا قصور ہے۔ انہوں نے فوراً اپنی آنکھیں کھولی۔
آپ کا قصور یہ ہے آپ ٹائم پر نہیں اُٹھے۔
اچھا ٹھیک ہے میں تم سے وعدہ کرتا ہوں۔ میں صبح ٹائم پر اُٹھوں گا۔ اسے ناراض دیکھ کر وہ فوراً بولے۔
وعدہ تو آپ نے شام کو بھی کیا تھا۔
لیکن یہ والا وعدہ نہیں ٹوٹے گا۔ انہوں نے یقین دلایا۔
اچھا ٹھیک ہے۔
اب دادجی اور پوتی کی باتیں ختم ہو گئی ہے۔ تو میں کچھ بولوں۔ صائمہ ان کی طرف دیکھ کر مسکرا کر بولی۔
اُوں سوری آنٹی میں آپ کو تو بھول ہی گئی تھی۔ کہ آپ بھی یہاں ہے۔ اس نے فوراً معذرت کی۔
کوئی بات نہیں رامیہ بیٹا۔ اب جاؤ جلدی سے فریش ہو جاؤ۔ خارب تمہارا ویٹ کر رہا ہے۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔اُوں نو شٹ, میں تو بھول ہی گئی تھی۔ مجھے آج آفس بھی جانا تھا۔ وہ جلدی سے بیڈ سے اُتری۔
آرام سے رامیہ لگ جائے گی۔ اسے تیزی سے بیڈ سے اُترتے دیکھ کر صائمہ فکرمند لہجے میں بولی۔
آنٹی اذان بھائی جان نہیں جائیں گے؟ وہ جاتے ہوئے دوبارہ پلٹ کر بولی۔
اذان چلا گیا ہے وہ صبح جلدی آفس چلا جاتا ہے۔
اوکے آنٹی میں بھی اب چلتی ہوں۔
رامیہ ناشتہ کر کے جانا۔ صائمہ نے پیچھے سے آواز لگائی۔
                                            ****************
کافی دن ہو گئے ہے۔ اس نے مجھے کال کیوں نہیں کی ؟
میں اس کے بارے میں اتنا کیوں سوچ رہی ہوں۔ نہیں کی تو نہیں کی۔ مجھے تو خوش ہونا چاہںیے۔ لیکن مجھے نیند کیوں نہیں آ رہی۔
وہ ٹھیک تو ہو گا۔ اگر اسے کچھ ہو گیا ہوا تو ؟ تو میں کیا کروں گی۔ وہ خود کو ڈپٹتے ہوئے بولی۔
میں اس کے بارے میں اتنا کیوں سوچ رہی ہوں۔ کہی مجھے اسے محبت۔۔۔۔۔۔۔
نہیں نہیں نریم یہ تم کیا سوچ رہی ہو۔ تمہارے لیے یہ سوچنا بھی گناہ ہے۔ تمہاری منگنی ہو چکی ہے۔ نریم جو کب سے خود سے ہی بڑبڑاتے کڑوٹوں پر کروٹے بدل رہی تھی۔ لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ ایسے ہی خود سے باتیں کرتے ٹائم کا اسے پتہ ہی نہیں چلا۔ کہ کب صبح کے چار بج گئے۔
گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہی وہ وضو کرنے کے لیے واش روم چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد وضو کر کے واش روم سے نکلی, اور جائے نماز بچھا کر نماز پڑھنے لگی۔
یااللہ تو ہی رحیم و کریم ہے۔ تو میرے دل کے حال سے با خوبی واقف ہے۔ مجھے نہیں پتہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ میں اس انجان شخص کے بارے میں کیوں سوچ رہی ہوں۔ مجھے پتہ ہے میرے لیے یہ سوچنا بھی گناہ ہے۔ وہ میرے لیے نا محرم ہے یااللہ مجھے سیدھا راستہ دِکھا۔ میری مدد فرما۔نریم نے روتے ہوئے دُعا مانگی اور منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ایک نظر ضوفیرہ کو دیکھا جو ابھی بھی سو رہی تھی۔
اس نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور کمرے سے باہر چلی گئی۔
                                                   ******************
خارب تم نے مجھے بُلایا۔ رامیہ اس کے کیبن میں آ کر چیر پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
کھڑی ہو۔۔۔۔۔
کیوں۔۔۔۔۔۔؟ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔؟ اس کی آنکھیں خیرت سے پھیلیں۔
میں نے کہا آئے سیڈ سٹینڈ اپ۔ اس بار وہ کھڑے ہو کر غصے سے بولا۔
رامیہ فوراً سہم کر کھڑی ہوئی۔
اب باہر جاؤ اور پوچھ کر آؤ۔
خارب اس نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔
خارب نہیں سر۔۔۔۔۔۔۔میں اس آفس میں تمہارا بوس ہوں اور تم میری اسیسٹینٹ۔ اس لیے سر کہہ کر بُلاؤ۔ اس نے باور کرایا۔
خارب یہ تم۔۔۔۔۔۔؟
سر۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کے اس کی بات مکلمل ہوتی۔ کہ وہ پھر سخت لہجے میں بولا۔
کیا۔۔۔۔۔؟
سس۔۔۔۔۔سر۔۔۔۔۔۔۔۔وہ فوراً اَٹکتے ہوئے بولی۔ لیکن اس کی آنکھوں میں بہت سا پانی جمع ہونے لگا۔
اب جاؤ باہر اور پرمیشن لے کر آؤ۔ وہ بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے بولا۔
وہ فوراً بھاگتے ہوئے باہر گئی۔
مم۔۔۔۔۔۔۔مے آئی کمینگ سر۔ وہ بمشکل اپنے آنسو روکتے ہوئے بولی۔
یس کمینگ۔۔۔۔۔۔۔۔
مس رامیہ آج آفس لیٹ کیوں آئی ؟
خارب۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔میرا مطلب سر۔۔۔۔۔۔وووو۔۔۔۔وہ۔۔۔۔وہ
یہ کیا وہ۔۔۔۔وہ لگا رکھی ہے۔ اچھا ٹھیک ہے آج آپ کا پہلا دن تھا۔ اس لیے پہلی غلطی سمجھ کر معاف کر رہا ہوں۔ آئندہ آپ آفس لیٹ نہ آئیں۔ وہ تنبہیہ کرتے ہوئے بولا۔ لیکن اس کی حالت دیکھ کر وہ دل ہی دل میں مسکرایا۔
آج سے آپ میری پرسنل اسیسٹینٹ ہے۔ اب آپ جا سکتی ہے۔
اس کے اجازت دیتے ہی وہ فوراً وہاں سے بھاگی اور اپنے کیبن میں آتے ہی رونے لگی۔
خود کو سمجھتا کیا ہے۔ میں صبح اسی کے ساتھ تو آئی تھی۔ ایسے انجان بن رہا تھا۔ جیسے یہ اسی کی کمپنی ہو, اور یہ اذان بھائی جان کہاں ہیں۔
اذان بھائی جان کی ہوٹل میں ایک کلائنٹ کے ساتھ میٹنگ تھی۔ وہ اسی سے ملنے گئے ہیں۔ خارب اس کے کیبن میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔
 سر آپ یہاں۔۔۔۔۔۔؟ کوئی کام تھا۔ وہ فوراً کھڑے ہوتے ہوئے بولی, اور جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے۔ 

اس کے سر کہنے پر خارب کے ہونٹوں پر سمائل پھیل گئی۔ جسے جلدی سے اس نے چھپا لیا۔
کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں  ؟
آپ کا آفس ہے جہاں مرضی بیٹھے۔ میرے سے پرمیشن کیوں لے رہے ہیں سر۔ وہ دانت پیس کر طنزیہ لہجے میں بولی۔
مگر ابھی تو تم بول رہی تھی۔ کہ یہ میرا آفس نہیں ہے۔
 وو۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔تو سر۔۔۔۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔میں نے تو  ایسا کچھ نہیں کہا۔ آپ۔۔۔۔۔ک۔۔۔۔۔کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی۔وہ اپنی چوری پکڑے جانے پر گڑبڑائی۔
اچھا میں نے تو ایسا ہی سُنا تھا۔اگر تم کہہ رہی ہو, شاید میں نے غلط سُنا ہو۔ وہ چیر پر بیٹھ کر مسکراتے ہوئے بولا۔
سر۔۔۔۔۔۔۔آپ کو کوئی کام تھا۔ اسے کافی دیر سے ایسے ہی بیٹھا دیکھ کر رامیہ اَکتا کر بولی۔
ہاں یہاں میں اپنی دوست سے ملنے آیا تھا۔ وہ کچھ ناراض ناراض سی ہے مجھ سے۔ اس لیے میں اسے منانے آیا ہوں۔ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ جبکہ ہونٹوں پر مسکراہٹ اب بھی برقرار تھی۔
سوری سر میں یہاں آپ کی اسیسٹینٹ ہوں۔ وہ سخت لہجے میں بولی, اور تھوڑی دیر پہلے اس کی کہی بات اسی کو لوٹائی۔
چلو رامیہ اب ناراضگی چھوڑو اور آؤ آئس کریم کھانے چلتے ہیں۔ خارب فوراً کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔
سوری سر میں آپ کے ساتھ نہیں جا سکتی۔ مجھے آفس میں بہت ضروری کام ہے۔ وہ ٹیبل پر پڑی فائلز کو اِادھر اُدھر کرتی ہوئی بولی۔
بوس میں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔کہ تم ؟ وہ اس کے پاس جا کر بولا۔
سر آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر حکم کس کا چلے گا۔ وہ اسے نظروں کے حصار میں لیے بولا۔
سر آپ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر چلو۔ وہ زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر لے گیا۔
                                              *****************
ضوفیرہ کمرے سے باہرآئی تو نریم صوفے پر بیٹھی ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے کسی سوچ میں گُم تھی۔
نمی کیا ہوا ؟ تم ایسے کیوں بیٹھی ہو۔ ضوفیرہ اس کے پاس جا کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہی نریم فوراً چونکی۔
آں۔۔۔۔۔ہاں تم نے کچھ کہا۔
نمی تمہاری طبیعت ٹھیک ہے۔ وہ فکر مند لہجے میں اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
ہاں ضوفی میں ٹھیک تھی۔ تم بتاؤ, تمہیں مجھ سے کچھ کام تھا ؟ وہ فوراً بات بدلتے ہوئے بولی۔
نہیں میں بس اپنے لیے کافی بنانے آئی تھی۔ تمہیں کسی سوچ میں گُم دیکھا تو تمہارے پاس ہی آ گئی۔ وہ اس کے پاس ہی بیٹھتے ہوئے بولی۔
اچھا تم بیٹھو میں تمہارے لیے کافی بنا کرل کر لاتی ہوں۔
نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرا اب دل نہیں کر رہا۔ اسے اٹھتے دیکھ کر ضوفیرہ اس کا ہاتھ پکڑتے دوبارہ اسے بیٹھاتے ہوئے بولی۔
نمی اب بتاؤ کیا بات ہے ؟ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد ضوفیرہ دوبارہ بولی۔
کیا مطلب ؟ کیا بات ؟
وہی جو تم مجھ سے چھپا رہی ہو۔
نہیں ضوفی ایسی کوئی بات نہیں۔ اس نے نظریں چرائی۔
اچھا تو کوئی بات نہیں۔ تو پھر یہ سب کیا ہے۔ وہ اس کا آنسوؤں سے تر چہرہ اُوپر کرتے ہوئے بولی۔
ضوفی مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ میں اس کے بارے میں اتنا کیوں سوچ رہی ہوں۔ وہ نظریں نیچی کیے روتے ہوئے بولی۔
کیا مطلب ؟ تم کس کی بات کر رہی ہو ؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ وہ ناسمجھی سے بولی۔
ضوفی مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔۔۔۔۔کب اور کیسے۔ میں اس سے محبت کرنے لگی ہوں۔ مجھے اسے محبت ہو گئی ہے۔ نریم اس کے گلے لگ کر روتےہوئے بولی۔
نریم تم اِدھر ہی بیٹھو, میں ابھی آئی۔ ضوفیرہ اسے اپنے سے الگ کر کے بولی۔ پھر بھاگتے ہوئے کچن میں گئی, اور ایک گلاس میں پانی ڈال کر دوبارہ اس کے پاس آئی۔
یہ لو پہلے پانی پیو۔
نریم نے ایک ہی گھونٹ میں سارا پانی پی لیا۔
اب اپنے یہ آنسوں صاف کرو, اور مجھے کھُل کر بتاؤ بات کیا ہے ؟ تمہیں کس سے محبت ہو گئی ہے۔ ضوفیرہ اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
نمی کہی تمہیں اس سٹرینجر سے تو نہیں ؟ جو تمہیں کالز کرتا تھا۔
اس نے روتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔
کیا نمی تمہیں سچ میں اس سے محبت ہو گئی ہے۔ لیکن تم تو اس کے بارے میں کچھ جانتی بھی نہیں ہو۔ کیا وہ تمہیں پسند کرتا ہے ؟ اس نے خیرت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر اِستفسار کیا۔
مجھے نہیں پتہ کہ وہ میرے ساتھ ٹائم پاس کر رہا ہے یا پھر سچ میں مجھ سے محبت کرتا ہے۔ میں کچھ نہیں جانتی۔
پھر نمی اس کا صرف ایک ہی حل ہے۔ تم اسے کال کر کے بات کلئیر کر لو۔ کیا پتہ وہ بھی تم سے اتنی ہی محبت کرتا ہو۔ جتنی تم
نہیں ضوفی میں ایسا نہیں کر سکتی۔ میں اسے کبھی بھی نہیں بتاؤ گی۔ کہ میں اسے پسند کرتی ہوں۔ وہ روتے ہوئے فوراً انکاری ہوئی۔
لیکن کیوں نمی ؟ تم کیوں اسے نہیں بتاؤ گی۔ اس نے اِستفسار کیا۔
ضوفی تم اچھے سے جانتی ہو۔ میری منگنی ہو چکی ہے۔
ہاں میں جانتی ہوں۔ لیکن تم اس سے ایک دفعہ بات تو کر کے دیکھو۔ اگر وہ بھی تم سے محبت کرتا ہوا۔ تو یہ منگنی ٹوٹ بھی سکتی ہے۔ وہ اس کے دونوں ہاتھ پکڑتے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولی۔

نہیں ضوفی کبھی نہیں۔ میں ایسا کبھی نہیں کروں گی۔ میں اسے کبھی بھی نہیں بتاؤ گی۔ کہ میں اس سے محبت کرتی ہوں, اور نہ ہی میں یہ منگنی توڑوں گی۔ میں اپنے ماما پاپا کو کوئی دکھ نہیں دے سکتی۔ وہ روتے ہوئے فوراً وہاں سے چلی گئی۔
                                                      ****************
رامیہ یہ لو, یہ رہی تمہاری آئس کریم۔ خارب گاڑی میں بیٹھتے ہی آئس کریم اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔
مجھے نہیں چاہںیے خارب۔ وہ خارب پر زور دیتے ہوئے بولی۔
اُوہو۔۔۔۔۔۔۔۔سیدھا سر سے خارب پر انٹرسٹینگ۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
جی۔۔۔۔۔۔کیونکہ نہ تو یہ تمہارا آفس ہے اور نہ ہی میں یہاں تمہاری اسیسٹینٹ ہوں۔ وہ سخت لہجے میں اسے باور کراتے ہوئے بولی۔
اچھا کل تو تم آفس آؤ گی "نا"۔ پھر گِن گِن کر تم سے بدلے لوں گا۔ وہ مزید اسے تنگ کرتے ہوئے بولا۔
وہ تو میں کل آفس آؤں گی تو پھر "نا"۔ ابھی تم خویلی چلو, پھر میں تمہیں بتاتی ہوں۔ وہ غصے سے دانت چباتے ہوئے بولی۔
اچھا کیا کرو گی تم۔۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ اسے مزید چڑاتے ہوئے بولا۔
وہ تم خویلی چلو, پھر تمہیں پتہ چل جائے گا۔ اسے مسلسل مسکراتے دیکھ کر وہ جل بن کر رہ گئی۔
اُوکے خویلی جا کر جو مرضی کر لینا۔ ابھی پلیز یہ آئس کریم کھا لو۔
مجھے نہیں چاہںیے۔ اس نے ناراضگی سے منہ پھیرا۔
اچھا سوری یار, میں نے صرف مذاق کیا تھا۔ وہ اس کا چہرہ اپنی طرف کر کے کان پکڑتے ہوئے بولا۔
تمہیں پتہ ہے تم نے مجھے کتنا رُلایا ہے۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے بولی۔
اب سوری کر کے آئس کریم بھی تو کھلا رہا ہوں "نا"۔
مجھے نہیں چاہںیے تمہارا سوری اور نہ یہ آئس کریم۔ وہ دوبارہ کھڑکی کی طرف منہ کر کے بولی۔
تم نہیں کھاؤ گی یہ آئس کریم۔
نہیں وہ اَٹل لہجے میں بولی۔
قسم سے بہت ضدی ہو تم۔ وہ آئس کریم سامنے ڈیش بورڈ پر رکھتے ہوئے بولا۔
تمہیں کیا ؟ وہ اس کی طرف دیکھ کر غصے سے بولی۔
لیکن میں بھی تمہیں منا کر رہوں گا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ خویلی پہنچ گئے۔ رامیہ نے پورے راستے اس سے کوئی بات نہ کی تھی۔ خویلی پہنچتے ہی وہ فوراً بھاگتے ہوئے اندر گئی۔
دادجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اندر آتے ہی دادجی کو سامنے حال میں صوفے پر بیٹھا دیکھ کر فوراً ان کی طرف لپکی۔
آ گیا میرا بچہ کیسا گزرا آج کا دن۔ وہ پیار سے اسے گلے لگائے بولے۔
بہت ہی بُرا۔ وہ اداسی سے بولی۔
کیوں کیا ہوا ؟ کسی نے کچھ کہا ؟
جی ہاں وہ بھی آپ کے پوتے خارب نے۔ وہ آنکھوں میں آنسو لائے بولی۔
کیا۔۔۔۔۔۔کیا کہا ہے خارب نے ؟ تم مجھے بتاؤ پھر میں ابھی اس کی خبر لیتا ہوں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ فوراً غصے سے بولے۔
اس نے داد جی کو الف سے یہ تک سب کچھ بڑھا چڑھا کر بتا دیا۔ جو جو خارب نے اس سے آفس میں کہا تھا۔
خارب اِدھر آؤ, میری بات سنو۔ دادجی کی رعب دار آواز حال میں گونجی۔
وہ جو زینے عبور کر کے اُوپر جانے لگا تھا۔ کہ ان کی آواز پر رُکا۔
جی دادجی آپ نے بُلایا۔ اسے پتہ تو تھا ضرور اس رامیہ نے کوئی شکایت لگائی ہو گی۔
تم نے میری پوتی کو کیوں تنگ کیا۔ وہ غصے سے بولے۔
وہ دادجی میں نے تو صرف مذاق کیا تھا۔ وہ سر کھجاتے ہوئے بولا۔
جو بھی ہو آئندہ سے تم نے میری پوتی کو رُلایا تو اچھا نہیں ہو گا۔ وہ اسے سختی سے  اسے وارن کرتے ہوئے بولے۔
رامیہ دل ہی دل میں مسکرائی اور خارب کے دیکھنے پر فوراً سمائل پاس کی۔
اور ہاں ایک بات اور یہ رامیہ کا بھی آفس ہے۔ وہ جب مرضی آفس جائے, اور جب مرضی آئے۔ تم اسے منع نہیں کرو گے۔
اُوکے دادجی۔
ارے تم دونوں آ گئے۔ چلو جا کر فریش ہو جاؤ۔ میں تم دونوں کے لیے کھانا لگواتی ہوں۔ صائمہ ان کے پاس آ کر بولی۔
آنٹی آج کھانے میں کیا ہے۔ سچی مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ کھانے کا نام سن کر رامیہ کی آنکھیں چمکی۔ اسے بھوک کا احساس شدت سے ہوا۔ اس لیے فوراً کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
آج میں نے تمہاری پسند کی ڈیشیز بنائی ہے۔ بریانی اور گاجر کا حلوہ۔
کیا سچ ؟
مچ۔۔۔۔۔۔۔۔صائمہ نے پیار سے اس کے گال پر ہاتھ پھیرا۔
اچھا آنٹی میں جلدی سے فریش ہو کر آئی۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
                                                       *******************
تم یہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تم یہاں کیوں آئے ہو ؟ رامیہ واش روم سے نکلی تو سامنے بیڈ پر خارب کو بیٹھا دیکھ کر فوراً ناراضگی سے بولی۔
کیوں نہیں آ سکتا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرایا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ مرر کے سامنے اپنے بال ٹھیک کرتے بے رخی سے بولی۔
لیکن میں تو آؤں گا۔ کیونکہ یہ میری دوست کا کمرہ ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے سکون سے بولا۔
نہیں میں تمہاری دوست نہیں ہوں۔
رامیہ اب ایسے تو نہ کہو۔ یار اتنی چھوٹی سی بات پر دوستی تو نہ توڑو۔ میں نے کہا "نا"۔ میں نے صرف مذاق کیا تھا, اب معاف بھی کر دو۔ وہ اس کے پاس آ کر مدھم لہجے میں بولا۔
اچھا ٹھیک ہے تم مجھے بتاؤ۔ میں ایسا کیا کروں۔ کہ تم مجھے معاف کر دو۔ اسے ویسے ہی کھڑے دیکھ کر وہ ہار مانتے ہوئے بولا۔

میں ایک شرط پر تمہیں معاف کر سکتی ہوں۔ وہ ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ لیے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔
وہ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟
کل آفس کے بعد تم مجھے ڈھیر ساری شاپنگ کراؤ گے, آئس کریم کھلاؤ گے اور گول گپے بھی۔ وہ خوشی سے اسے بتاتے ہوئے بولی۔
اتنی چھوٹی سی غلطی کے لیے اتنی بڑی سزا۔ رامیہ یہ بات اچھے سے جانتی تھی کہ خارب کو لڑکیوں کی شاپنگ سے کتنی چِڑ تھی۔ اس لیے اس نے جان بوجھ کر یہ شرط رکھی۔
سوچ لو, اس نے کندھے اچکائے۔
اُوکے لیکن اس سے پہلے تو تم آفس آؤ گی "نا"۔ پھر تمہیں بتاؤں گا۔ اپنی ایک آنکھ ونک کرتے اس نے دھمکی دی۔
دادجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اونچی آواز بولی۔
ارے ارے لڑکی مرواؤ گی کیا۔ مذاق کر رہا تھا۔ اسے اونچی آواز سے دادجی کا نام لیتے دیکھ کر خارب نے فوراً اس کے منہ پر ہاتھ رکھا۔
کیوں ڈر گئے کیا۔ اس نے فوراً اس کا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹایا اور مسکراتے ہوئے بولی۔
دیکھ لوں گا میں تمہیں۔ میرا وقت آ لینے دو۔ وہ غصے سے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ پیچھے سے رامیہ کا بھرپور قہقہہ کمرے میں گونجا۔
                                         **************
نمی تم ٹھیک ہو۔ وہ دونوں اپنی کلاس لے کر نکلی تو ضوفیرہ اسے گُم صُم دیکھ کر بولی۔
ہاں ضوفی میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم پریشان نہ ہو۔ وہ ہونٹوں پر زبردستی مسکراہٹ سجا کر بولی۔
آر یو شیور ؟
ہاں بابا میں ٹھیک ہوں۔ اس نے اطمینان دلایا۔
چلو آؤ پھر کنٹین چل کر کچھ کھاتے ہیں۔ ضوفیرہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کنٹین لے آئی۔ اس وقت کنٹین میں صرف کچھ ہی سٹوڈینٹ ماجود تھے۔ وہ دونوں ایک ٹیبل پر جا کر بیٹھ گئی۔
اب بتاؤ نمی کیا کھاؤ گی ؟
کچھ نہیں ضوفی ابھی بالکل بھی دل نہیں کر رہا۔ اس نے انکار میں سر ہلایا۔
کیا ہو گیا ہے نمی تمہیں۔ تم کیوں اپنے ساتھ ایسے کر رہی ہو۔ وہ متفکر لہجے میں بولی۔
پتہ نہیں ضوفی مجھے خود سمجھ نہیں آ رہا میں ایسے کیوں کر رہی ہوں۔
نمی پھر تم نے کیا سوچا ؟
کس بارے میں ؟ اس نے خیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
اسی منگنی کے بارے میں۔ ضوفیرہ نے اسے باور کرایا۔
ضوفی اس کے بارے میں, میں تمہیں پہلے ہی بتا چکی ہوں۔ وہ لہجے کو سر سری سا رکھتے ہوئے بولی۔
کیا مطلب۔۔۔۔۔۔؟ تم اس سے منگنی کر لو گی۔ اس کی آنکھوں میں خیرت اُتری۔
ہاں۔۔۔۔۔۔وہ نظریں جھکائے بولی۔
لیکن نمی تم یہ اپنے ساتھ غلط کر رہی ہو۔ ضوفیرہ نے اسے سمجھانا چاہا۔
لیکن ضوفی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کے اس کی بات مکمل ہوتی کہ نریم کے موبائل پر رنگنگ ہوئی۔
کس کی کال ہے۔ اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
اسی کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے تم اس سے بات کرو۔ ویسے بھی میں لائبریری جا رہی تھی۔ وہ جلدی سے اپنی بکس سمیٹتے ہوئے بولی۔
نہیں ضوفی مجھے اس سے کوئی بات نہیں کرنی۔ میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں۔
کوئی ضرورت نہیں چپ چاپ اس سے بات کرو اور بات کلئیر کرو۔ نریم کو اُٹھتے دیکھ کر اس نے گھور کر اسے دیکھا۔
اسے جاتے دیکھ کر نریم کو بھی مجبوراً کال اُٹھانی پڑی۔
ہیلو ! اسلام علیکم
وعلیکم اسلام ! نریم کیسی ہو۔ قسم سے بہت بزی تھا اس لیے کال نہیں کر سکا۔
میں ٹھیک ہوں۔ اس کی آواز اتنی مدھم تھی کہ وہ بمشکل سن سکا۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟ میں نے ابھی کیا سنا۔ تم نے ابھی کیا کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"میں ٹھیک ہوں"۔ کیا میں نے صیحی سُنا۔ وہ بے یقینی سے بولا۔
پلیز مجھے تنگ مت کریں۔ میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔ مجھے مزید پریشان مت کریں۔ وہ اَکتا کر بولی۔
اُو ایم سوری وہ تم نے آج پہلی بار غصہ کیے بغیر میرے سوال کا جواب دیا "نا"۔ اس لیے مجھے تھوڑی خیرت ہوئی اور اس کے ساتھ خوشی بھی۔ تم بتاؤ ؟ پریشان کیوں ہو  ؟ وہ بھی میرے ہوتے ہوئے۔
جب سے آپ میری زندگی میں آئیں ہے۔ آپ نے میری زندگی عذاب بنا کر رکھ دی ہے۔
نریم اب ایسے تو نہ کہو۔ کافی دن سے تو میں نے تمہیں فون کر کے پریشان بھی نہیں کیا۔ دوسری طرف وہ معصومیت سے بولا۔
یہی تو پریشانی ہے کہ آپ نے کافی دن سےفون نہیں کیا تھا۔ جلدی میں اس کی زبان پھسلی۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا مطلب ؟ دوسری طرف وہ خوشی اور خیرانگی کے ملے جلے تاثرات سے بولا۔
مم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔۔۔میرا مطلب کافی دن بعد بھی۔ آپ آج مجھے کال کر کے پریشان کرنا نہیں بھولے۔ وہ ہڑبڑاتے ہوئے بولی۔
اُوں اچھا میں سمجھا, میرے فون نہ کرنے پر تم مجھ سے ناراض ہو۔ وہ گُم صُم ہوا۔
میں کیوں ناراض ہونے لگی۔ بلکہ مجھے تو خوشی ہو گی۔ وہ فوراً بولی۔
چلو تم خوش تو پھر میں بھی خوش ہوں۔ کیونکہ تمہاری خوشی میں ہی میری خوشی ہے۔
اگر آپ کو میری خوشی کی اتنی ہی پرواہ ہے۔ تو آئندہ مجھے کال نہ کرئیے گا۔ وہ دل پر پتھر رکھ کر بولی۔
سوری میں تمہاری یہ خواہش پوری نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف وہ انکاری ہوا۔
کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس کا جواب سُن کر نریم دل ہی دل میں خوش ہوئی۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ لیکن جلد ہی خود کو سنبھال لیا۔
کیوں کا مطلب تم اچھی طرح جانتی ہو۔

جہاں آپ نے اتنے دن فون نہیں کیا۔ وہاں آج بھی نہ کرتے۔ نہ چاہںتے ہوئے بھی وہ گلہ کر بیٹھی۔
وہ اس لیے کہ میں کچھ دنوں سے آفس کے کام میں بزی تھا۔ اس لیے تمہیں کال کرنے کا ٹائم ہی نہیں ملا۔ لیکن تمہاری پیکس میرے پاس تھی۔ جن سے میں ہر وقت اپنا دل بہلاتا رہںتا ہوں۔ لیکن آج میں نے تمہیں خد سے زیادہ مس کیا۔ کافی دنوں سے تمہاری ڈانٹ جو نہیں سنی۔ لیکن تمہیں کیوں میرے کال نہ کرنے پر غصہ آ رہا ہے۔ وہ وضاحت دیتے ہوئے آخر میں شرارت بھرے لہجے میں بولا۔
مم۔۔۔۔۔۔۔مجھے کیوں غصہ آئے گا۔
لیکن تمہارے انداز اور غصے سے تو یہی لگ رہا ہے۔ اس نے باور کرایا۔
نہیں مجھے غصہ اس بات پر آ رہا ہے۔ کہ آج بھی آپ مجھے کال کر کے تنگ کرنا نہیں بولے۔ اس نے فوراً بہانہ بنایا۔

جاری ہے















Posta un commento

1 Commenti

  1. Well Done 👌🏻💯💯💯Nice&Fabeolus episode .Always amazing❤😘😘👌🏻👌🏻👌🏻💯💯💯💯

    RispondiElimina

Commento

Parvish novel

PARIVISH Episode 31 (پری وش)