سے کھڑی ہو۔ اور میں پاگلوں کی طرح تمہیں کالز پر کالز کیے جارہی ہوں۔ جس کا تم نے مجھے کوئی رپلائے نہیں دیا, اور مجبوراً مجھے تمہارے گھر آنا پڑا۔
انیزہ کمرے میں آئی تو اسے کھڑکی کے پاس کھڑے دیکھ کر نان سٹارپ بولتی چلی گئی۔
لیکن منحہ اس کی سن ہی کہاں رہی تھی۔ وہ تو بس اپنے ہی خیالوں میں گم تھی۔
منحہ۔۔۔۔۔۔۔اسے اَگے سے چپ دیکھ کر, انیزہ نے پریشانی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ایک دفعہ پھر پکارہ۔
ہا۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔۔وہ ایک دم خواب کی کیفیت سے نکلی۔
انی تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم یہاں۔۔۔۔۔۔تم کب آئی ؟ وہ اس کی طرف دیکھ کر خیرت سے بولی۔
منحہ تو ٹھیک ہے۔ وہ متفکر لہجے میں بولی۔
جبکہ دوسری طرف اس کے چہرے پر طنزیہ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
انی تو خود بتا۔ میں ٹھیک ہو سکتی ہوں۔ آنکھوں میں آنسو لیے منحہ نے اس کی طرف دیکھا۔
انیزہ نے اس کی آنکھوں میں آنسو, چہرے پر دکھ, بے بسی, درد کیا کچھ محسوس نہ کیا تھا۔ پچھلے دو سالوں سے وہ یہی سب تو دیکھتی آ رہی تھی۔ جس کے چہرے پر ہر ٹائم خوشی رہتی تھی۔ جو لڑکی ہر ٹائم ہنستی مسکراتی رہتی تھی۔ آج اس کے چہرے پر خوشی کی ایک رمق تک نہ تھی۔ ان دو سالوں میں وہ ایک دم مرجھا سی گئی تھی۔
منحہ پلیز خود کے ساتھ ایسے مت کرو۔ تم ایسے کر کے سب کو تکلیف دے رہی ہو۔
اس نے فوراً اپنی نظریں اٹھائی اور خیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔ جیسے کہہ رہی ہو۔ کیا واقع میں سب کو تکلیف دے رہی ہوں۔
اچھا ٹھیک ہے میں مانتی ہوں۔ جس درد, جس اذیت سے تم گزر رہی ہو۔ اس کا مداوا کوئی نہیں کر سکتا۔ لیکن یار اگر تو اس سے اتنی ہی محبت کرتی ہے۔ تو اسے بتا کیوں نہیں دیتی۔
انی کیا تو نہیں جانتی۔ میں نے کتنی دفعہ اسے بتانے کی کوشش کی۔ جو شخص بچپن سے لے کر آج تک میری ہر چھوٹی سے بڑی چیز کا خیال رکھتا آیا تھا۔ جس نے میری ہر خواہش میرے بولنے سے پہلے پوری کی تھی۔ آج وہ مجھے ایسے نظر انداز کر کے چلا جاتا ہے۔ جیسے مجھے جانتا ہی نہ ہو۔ مجھے نہیں پتہ ان دوسالوں میں مجھ سے ایسی کون سی خطا ہوئی ہے۔ کہ وہ مجھ سے اب بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ جب بھی میں اسے کوئی بات کرنے جاؤں۔ تو کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر وہ وہاں سے چلا جاتا ہے۔ جس جگہ پر میں کھڑی ہوں, وہاں سے اپنا راستہ ہی بدل لیتا ہے۔
انی پلیز اسے بتاؤ, میں اسے بہت محبت کرتی ہوں۔ آج س نہیں بچپن سے پلیز انی اسے بتاؤ, اگر وہ مجھے نہ ملا تو میں اس کے بغیر مر جاؤں گی۔
پلیز انی اسے کہو, میران کی منحہ اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ فوراً انیزہ کے گلے لگ کر پوری شدت سے روتے ہوئے بولی تھی۔
اپنی اتنی عزیز دوست کو اس طرح روتے دیکھ کر انیزہ کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ وہ پیچھے اس کی کمر میں ہاتھ رکھ کر اسے سہلاتے ہوئے چپ کرانے کی کوشش کرنے لگی۔
منحہ پلیز چپ کر جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا ادھر دیکھو میری طرف اور اپنے آنسو صاف کرو۔ انیزہ نے اسے اپنے سے الگ کر کے اپنے ہاتھوں سے اس کے آنسو صاف کیے۔
ہم اس کے بارے میں بعد میں کوئی حل نکالتے ہے۔ ابھی واش روم جاؤ اور جلدی سے فریش ہو کر آو۔ ہم کالج جا رہے ہے۔ وہاں پر جا کر تمہارا موڈ بھی فریش ہو جائے گا۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ بولتی۔ انیزہ نے اس کی بات بیچ ہی میں کاٹ دی۔
لیکن ویکن کچھ نہیں آج کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ ویسے بھی تم بہت چھٹیاں کر چکی ہو کالج سے۔ انیزہ نے اسے آنکھیں دیکھائی۔ *************
! اسلام علیکم
آنٹی کیسی ہے آپ۔
! وعلیکم سلام
نوشاب بیٹا تم۔ رمیسہ جو ڈائنگ ٹیبل پر ناشتہ لگا رہی تھی۔ کہ سامنے نوشاب کو آتے دیکھ کر خوشی سی اس کی طرف بڑھی۔
میں ٹھیک آنٹی آپ کیسی ہے۔ وہ احترام سے ان کے اَگے جھکا۔
میں بھی ٹھیک بیٹا۔ لیکن اتنے دن کہاں تھے کہ یہاں کا چکر بھی نہیں لگایا۔ کیا اپنی آنٹی کو بھول گئے تھے۔ وہ پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی۔ شکوہ کن لہجے میں بولی۔
نہیں آنٹی ایسی تو کوئی بات نہیں۔ گاؤں کی زمینوں کا کچھ مسئلہ تھا۔ بس انہی میں تھوڑا بزی تھا۔ آج شہر کا چکر لگا تو سوچا سب سے پہلے آپ سے ملتا چلوں۔ اس نے وضاحت دی۔
بلکل اچھا کیا بیٹا جو تم ملنے آ گئے۔ اور بالکل سہی ٹائم پر آئے ہو۔ میں ابھی ناشتہ ہی لگا رہی تھی۔ تم آؤ ناشتہ کرو۔ منحہ بھی ابھی آتی ہی ہو گی۔ وہ اسے ناشتے پر مدعو کرتے ہوئے بولی۔
منحہ کے نام پر اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہو گی۔ جی آنٹی ضرور۔ لیکن آنٹی اگر آپ کو تکلف نہ ہو۔ تو میں آپ کے ہاتھوں سے بنے ہوئے آلو والے پراٹھے کھانا چاہوں گا۔
اس کی فرمائش پر رمیسہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
ہاں کیوں نہیں, میں ابھی بنا کر لائی۔ **************
منحہ جو انیزہ سے باتوں میں مگن ڈائنگ ٹیبل کی طرف ہی آ رہی تھی۔ کہ سامنے نوشاب کو بیٹھے دیکھ کر اس کے قدم وہی رک گئے۔
اُف یہ یہاں کیا کر رہا ہے۔ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
انیزہ نے بھی اس کی نظروں کے تعاقب میں سامنے دیکھا۔ تو اسے سب سمجھ میں آگیا۔
بلیک شلوار قمیض, بلیک ہی کھیڑی پہنے, اور اوپر براؤن شال اڑھے, نفاست سے بنائے سلکی براؤن بال۔ وہ کسی ریاست کا شہزادہ ہی لگ رہا تھا۔
ویسے منحہ یہ وڈیرہ بھی کم ہینڈسم نہیں ہے, اور سب سے بڑی بات یہ تم پر لٹو بھی ہے۔ اس نے منحہ کی طرف دیکھ کر آنکھ ونک کی۔
جسٹ شٹ اپ انی۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے غصے سے انیزہ کی طرف دیکھا۔
اچھا اچھا سوری غصہ کیوں ہو رہی ہو۔ میں ویسے ہی ایک بات کی تھی۔ اسے ناراض ہوتے دیکھ کر وہ فوراً بولی۔ ابھی اور بھی وہ اسے کچھ کہتی کہ اسی وقت اس کا موبائل رنگ کیا۔
منحہ ماما کی کال ہے۔ تم چلو ناشتہ کرو جا کر, میں ابھی کال سن کر آئی۔
منحہ نے منہ بناتے ہوئے اپنے قدم ڈائنگ ٹیبل کی طرف لیے تھے۔
نوشاب جو کافی دیر سے اِدھر اُدھر دیکھتے اسی کو ڈھونڈ رہا تھا۔ کہ ایک دم اپنے سامنے اسے دیکھ کر ساکت رہ گیا۔ میک اپ سے پاک چہرہ, بالوں کی چٹیاں بنائے, بلیک لانگ فراک, نیچے بلیک ہی چڑی دار پاجامے میں, وہ گلے میں بلیک دوپٹہ اڑھے۔ سادگی میں بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
ہائے منحہ جی آپ تو فل ہمیں مارنے کی تیاری کر کے آئی ہے۔ قسم سے ماشاءاللّه سے آپ بہت پیاری لگ رہی ہے۔ وہ آہ بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔
کہی تم مر ہی نہ جاؤ۔ وہ غصے سے غرائی۔
ہائے منحہ جی ہم مر تو اسی دن گئے تھے۔ جب سے آپ کو دیکھا تھا, ویسے آپس کی بات ہے۔ آج آپ نے بھی بلیک ڈریس پہنا ہے اور میں نے بھی۔ اب ہم اسے اتفاق سمجھے یا پھر کچھ اور, لیکن اتنا ضرور بتا سکتا ہوں۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ نوشاب نے اسے آنکھ ونک کی اور شریر لہجے میں بولا۔
پاگل, سائیکو انسان۔ اس کی حرکت پر منحہ کا چہرہ شرم کے مارے سرخ ہو گیا, اور وہ غصے سے اسے سنا کر وہاں سے جانے ہی لگی تھی۔
نوشاب نے فوراً سرایت سے اس کا ہاتھ پکڑا۔
ارے منحہ جی اتنی جلدی بھی کیا ہے جانے کی۔
اس کی اس حرکت پر منحہ کا پارہ ہائی ہوا۔ اس نے غصے سے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔
یہ کیا بدتمیزی ہے۔ تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی۔ چھوڑو میرا ہاتھ۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔
منحہ جی میرے علاوہ کوئی ایسی ہمت کر کے تو بتائے۔ میں اس کے ہاتھ کاٹنے میں ذرہ بھی تاخیر نہیں کروں گا۔ اس کے ہاتھوں پر اس کی گرفت مضبوط ہوئی۔ وہ چہرے پر غضب و غصہ لیے بولا۔
درد کی وجہ سے منحہ کی آنکھوں میں آنسو جمع ہونے لگے۔
جاہل انسان میرا ہاتھ چھوڑو۔
اس سے پہلے نوشاب اسے اس بدتمیزی کا اچھے سے جواب دیتا۔ کہ کچن میں سے آنٹی کو نکلتا دیکھ کر اس نے فوراً اس کا ہاتھ چھوڑا۔
اس کے ہاتھ چھوڑتے ہی منحہ نے اپنے کلائی کو دیکھا۔ جس پر اس کے انگلیوں کے نشان صاف واضع تھے۔ لیکن اپنی ماما کو آتے دیکھ کر اس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے۔
ارے منحہ تم آ گئی۔ چلو آؤ ناشتہ کرو, اور تمہاری فرینڈ کہاں ہے۔
میں یہاں ہوں آنٹی۔ سوری آنٹی ماما کی کال آگئی تھی۔ وہ سننے چلی گئی تھی۔ منحہ کے بولنے سے پہلے ہی وہ بول پڑی۔
ارے کوئی بات نہیں بیٹا آو۔ تم بھی ہمارے ساتھ آ کر ناشتہ کرو۔ نہیں ماما ہمیں کالج کے لیے دیر ہو رہی ہیں۔ ہم بس جا ہی رہی ہیں۔ اس کی بجائے منحہ فوراً بولی, اور اس کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے چلی گئی۔
یہ لڑکی بھی نہ کبھی نہیں سدھرے گی۔ اب دیکھو ناشتہ کیے بغیر ہی چلی گئی۔ رمیسہ فکر مند لہجے میں بولی۔
اچھا آنٹی اب میں بھی چلتا ہوں۔ مجھے ایک ضروری کام سے کہی جانا۔ نوشاب بھی فوراً کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔
اوکے بیٹا خیر خیریت سے جاؤ۔ لیکن اب اپنی آنٹی کو بول مت جانا رمیسہ مسکرا کر بولی۔
نہیں آنٹی جب تک میں یہاں ہوں ادھر آتا رہوں گا۔ ***************
انیزہ کے گاڑی میں بیٹھتے ہی ابھی منحہ بیٹھنے ہی لگی تھی۔ کہ فوراً کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا۔
منحہ نے بروقت اس کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر خود کو اسے ٹکرانے سے بچایا تھا۔ اس نے غصے سے اپنی نظریں اٹھا کر اوپر دیکھا۔ تو اپنے اتنے قریب نوشاب کو کھڑا دیکھ کر اس کا دل تیزی سے دھڑکا تھا۔
لیکن نوشاب نے اسے نظرانداز کرتے ہوئے ڈرائیور کی طرف دیکھا۔ میڈم کی دوست کو سہی سلامت کالج چھوڑ دینا۔ ڈرائیور کو ہدایت دیتے ہی وہ منحہ کو کھینچتے ہوئے اپنی جیپ کے پاس لے آیا۔
جاہل, پاگل انسان چھوڑو میرا ہاتھ۔ چھوڑو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔منحہ اپنا ہاتھ چھڑانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔
لیکن وہ اس کی سن ہی کہاں رہا تھا۔ نوشاب نے زبردستی اسے جیپ میں بیٹھایا, اور جلدی سے دوسری طرف آکر خود بھی بیٹھا اور ڈور لاک کر دیے۔ اور زن سے اپنی جیپ وہاں سے لے گیا۔
جاہل انسان مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو۔ پلیز گاڑی روکو, مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ۔ منحہ دروازہ کھولنے کی کوشش کرتی ہوئی مسلسل اسے باتیں سنا رہی تھی۔
تم مجھ سے کیا چاہتے ہو۔ پلیز مجھے جانے دو۔ وہ بے بسی سے روتے ہوئے بولی۔
کیا آپ واقع نہیں جانتی منحہ جی کہ میں کیا چاہتا ہوں ؟ اس نے آنکھوں میں خیرت لیے اس کی طرف دیکھا۔
منحہ کے آنسو ایک پل کے لیے تھمے تھے۔ اس نے بے ساختہ نظریں چرائی۔
ہا۔۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔۔ہاں نہیں۔۔۔۔۔۔جا۔۔۔۔۔جانتی۔ وہ اٹکتے ہوئے بمشکل بولی۔
اس بات پر نوشاب کا بھرپور قہقہہ گاڑی میں گونجا۔
اسے ہنستے دیکھ کر منحہ نے خیرت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
چلو کوئی نہیں ہم ابھی آپ کو اچھے سے بتا دیتے ہیں۔ کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ وہ ایک سنسان جگہ پر گاڑی روکتے ہوئے بولے۔
منحہ کو اس کی بات سمجھ تو نہیں آئی تھی۔ لیکن اسے نوشاب سے بے تحاشا خوف محسوس ہوا۔
آ۔۔۔۔۔۔۔آپ ن۔۔۔۔۔۔۔ نے گاڑی کیوں یہاں روکی اور یہ آپ ک۔۔۔۔۔۔۔کیا کر رہے ہیں ؟ اسے پاکٹ سے کچھ نکالتے دیکھ کر منحہ ڈرتے ہوئے بولی۔
منحہ جی آپ ڈر کیوں رہی ہے۔ ہم قتل تھوڑی آپ کا کرنے لگے ہیں۔ آپ کے بغیر تو ہم جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس کے چہرے پر ڈر کے تصورات دیکھ کر نوشاب اسے تسلی دیتے ہوئے بولا اور اپنی پاکٹ سے ایک ڈبیہ نکال کر اس میں سے ایک خوبصورت ہیرے کی آنگوٹھی نکالی۔
یہ سب کیا ہے اس کے ہاتھ میں انگوٹھی دیکھ کر اس کی آنکھیں خیرت سے پھیلی۔
منحہ جی آپ کو نظر نہیں آ رہا, یہ انگوٹھی ہے۔ ہماری منگنی کی۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
کیا بکواس کر رہے ہو۔ تم پاگل تو نہیں ہو گے۔
نہیں منحہ جی یہ بکواس نہیں حقیقت ہے۔ یہ کہتے ہی نوشاب نے زبردستی اس کا ہاتھ پکڑا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں پلیز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔تم ایسا نہیں کر سکتے۔ چھوڑو میرا ہاتھ۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے التجائیہ لہجے میں بولی۔
لیکن نوشاب نے اس کی ایک بھی نہ سنتے ہوئے۔ اس کے ہاتھ کی انگلی میں انگوٹھی پہنا دی۔
منحہ کی سانسیں ایک پل کے لیے تھم گئی تھی۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کَیا کِیا تم نے۔۔۔۔۔۔۔تم ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ منحہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور روتے ہوئے اپنے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی کو دیکھا۔
تم نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ میں نہیں مانتی اس زبردستی کی منگنی کو۔ وہ پوری شدت سے روتے ہوئے بولی اور اپنے انگلی میں پہنی اس انگوٹھی کو نکالنے کی کوشش کرنے لگی جو نکلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
کوئی فائدہ نہیں منحہ جی یہ انگوٹھی نہیں نکلے گی۔ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولا۔
تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ بالکل اچھا نہیں کیا جاہل انسان۔ میں کسی کی امانت تھی۔ منحہ اس کی شرٹ کے دونوں کالر پکڑتے ہوئے غصے سے بولی۔
ایک اس کا کالر پکڑنا اور دوسرا کسی کی امانت والی بات پر نوشاب کا پارہ ہائی ہوا۔
نوشاب نے وہی دونوں ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا۔ کہ وہ اس کے بالکل نزدیک آ گئی۔ خوف سے اس کی آنکھیں بڑی ہوئی اور دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
پہلی بات آج تک کسی کی جرات نہیں ہوئی۔ کہ وہ نوشاب شاہ کے گریبان تک پہنچے۔ دوسری بات کسی کی امانت والی تو آئندہ سے یہ الفاظ بھی اپنی زبان پر نہ لانا۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی بھی نہیں ہوگا۔ میں یہ زبان کاٹنے میں ذرہ بھی گریز نہیں کروں گا۔ اپنے ذہن میں بیٹھا لو تم صرف نوشاب شاہ کی امانت ہو۔ آنکھوں میں غضب و غصہ لیے بولا۔
منحہ کو اس کی سانسوں کی خوشبو اپنی نتھوں سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس کا چہرہ شرم کے مارے سرخ ہو گیا۔ کیونکہ اس کا چہرہ منحہ کے چہرے کے بہت قریب تھا۔ لیکن اسے اپنے میران کے لیے ہمت کرنی تھی۔ وہ چپ نہیں رہ سکتی۔ کیونکہ وہ میران سے محبت کرتی تھی۔
ل۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔میں میر۔۔۔۔۔۔۔۔
شش منحہ جی سوچ سمجھ کر بولیے گا۔ اگر ان ہونٹوں پر میرے علاوہ کسی اور کا نام نکلا تو کل کا سورج وہ دیکھ نہیں پائے گا۔ اس سے پہلے کے وہ میران کا نام لیتی۔ نوشاب اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے اچھے سے باور کراتے ہوئے بولا۔
اس کی بات سن کر منحہ کو لگا۔ وہ اگلا سانس نہیں لے پائے گی۔ آنکھوں سے آنسو بہتے چلے جا رہے تھے۔
منحہ جی مجھے آپ کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے۔ اس لیے میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔ نوشاب اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے پر سکون لہجے میں بولا۔
ک۔۔۔۔۔۔کیسا۔۔۔۔۔ف۔۔۔۔۔فیصلہ۔۔۔۔۔۔۔؟ تم۔۔۔۔۔تم جو کرنا چاہتے تھے کر تو چکے ہو۔ منحہ پہلے اٹک کر پھر روتے ہوئے چیخی۔
نہیں منحہ جی یہ تو کچھ بھی نہیں۔ اس رشتے میں تو آپ کبھی بھی مجھے چھوڑ کر جا سکتی ہے۔ اس لیے میں آپ کو ایسے بندھن میں باندھنا چاہتا ہوں۔ کہ آپ چاہ کر بھی مجھے چھوڑ کر نہ جا سکے۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کل ہی ہمارا نکاح ہو گا۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر اٹل لہجے میں بولا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔پلیز نہیں تم ایسے نہیں کر سکتے۔ اس نے روتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔
میں ایسے ہی کروں گا اور اگر آپ اپنے گھر والوں کی خیریت چاہتی ہے۔ تو انکار بالکل بھی نہیں کرے گی۔
اور ہاں میری جان ایک اور بات تم میران کے پاس بھی مجھے نظر نہیں آؤ گی۔ نوشاب پیار سے گال سہلاتے ہوئے بولا۔
میران کے نام پر اس کی آنکھوں میں خیرانی اتری۔ جسے نوشاب نے نظرانداز کر کے دوبارہ گاڑی سٹارٹ کر دی۔
کیا اسے پتہ تھا میں میران سے محبت کرتی ہوں۔ پھر بھی یہ میرے ساتھ ایسے کر رہا ہے۔ اور میران کیا وہ آج تک میری آنکھوں اپنے لیے محبت نہ پہچان سکا۔ کیوں۔۔۔۔۔۔۔آخر کیوں۔۔۔۔۔۔۔وہ دونوں پاؤں سیٹھ پر رکھ کر اپنا سر گھٹنوں میں دے کر پوری شدت سے رو پڑی۔ *************
نوشاب نے اس کے گھر کے سامنے جھٹکے سے اپنی جیپ کھڑی کی۔ تو منحہ نے فوراً اپنی نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا۔ تو جلدی سے جیپ سے اتری اور وہاں سے بھاگی۔
اس سے پہلے کہ وہ اپنے قدم گھر کے اندر رکھتی۔ کہ پیچھے سے نوشاب نے اس کی کلائی پکڑی۔
منحہ جی آپ میرے ساتھ اندر جائے گی, اور جیسا میں کہوں گا۔ آپ نے بس سب کے سامنے میرے ہاں میں ہاں ملانی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر آپ کو پتہ ہے نہ میں کیا کروں گا۔ نوشاب اپنے ہاتھوں سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔ جو بہتے چلے جا ریے تھے۔
منحہ اندر آئی تو سامنے اپنی جان سے پیاری خالہ اور اسی دشمن جاں کو دیکھ کر اس کی آنکھیں دوبارہ بھر آئی۔ اس سے پہلے کے وہ اپنی خالہ کی طرف لپکتی۔ اپنے ہاتھ پر نوشاب کے ہاتھوں کا سخت لمس محسوس ہوا تو وہ وہی رک گئی۔
! اسلام علیکم
اس نے سب کو مشترکہ سلام کیا۔
! وعلیکم اسلام
بیٹا تم اور منحہ ساتھ میں, سب ٹھیک ہے "نا" رمیسہ نے سلام کا جواب دیتے فکر مند لہجے میں اِستفسار کیا۔
جی آنٹی سب ٹھیک ہے۔ میں بس آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ وہ ان کی طرف دیکھ کر بولا۔
ہاں بولو بیٹا میں سن رہی ہوں۔
آنٹی بی جان کی طبیعت بہت خراب ہے۔ اس لیے وہ اپنی زندگی میں ہی مجھے اور منحہ کو ساتھ دیکھنا چاہتی ہے۔ اماں بی سے ابھی میری تھوڑی دیر پہلے بات ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے جو نکاح دو ماہ بعد ہونا تھا۔ وہ اگر کل ہی ہو جائے تو۔ نوشاب سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھ کر بولا۔
جبکہ دوسری طرف اس کی بات سن کر منحہ کے سر پر ساتوں آسمان گِرے تھے۔ کیا وہ میران کی محبت میں اتنی مگن تھی۔ کہ اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ اس کا رشتہ طے ہو گیا تھا, اور وہ بھی ایک ایسے شخص کے ساتھ جس سے وہ اتنا جانتی بھی نہیں تھی۔ اس نے آنکھوں میں آنسو لیے شکوہ کن نظروں سے اپنی ماما کو دیکھا۔
اپنی بیٹی کو سوالیہ نظروں سے اپنی طرف دیکھتا پا کر رمیسہ نے بے ساختہ نظریں چرائی۔ ان کی نظروں کا رخ اب اپنی بہن ماروخ کی طرف تھا۔
ماروخ نے اسے اشاروں میں ہی ہاں کرنے کا اشارہ کیا۔
خالہ آپ فکر نہ کریں کل سب انتظام میں دیکھ لوں گا۔ اب کی دفعہ میران بھی رمیسہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ جیسے اس نے انہیں اپنے ہونے کا احساس دلایا۔
ٹھیک ہے نوشاب بیٹا۔
اپنی ماما کا فیصلہ سنتے ہی اس نے نوشاب کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور بھاگتے ہوئے اندر چلی گئی۔
نوشاب بیٹا ہوٹل میں رکنے سے بہتر ہے آپ آج کے لیے یہی پر رک جاؤ۔ میران کے ساتھ کمرا شئیر کر لیجئیے گا۔
اوکے آنٹی وہ مسکرا کر بولا۔
******************
اس نے کمرے میں آتے ہی دروازہ بند کیا اور بیڈ پر اندھے منہ گرتے ہی رونے لگ پڑی۔
پتہ نہیں اور کتنی دیر وہ ایسے ہی روتی رہتی۔ اپنے موبائل پر آتی کال پر اس نے سامنے سکرین کی طرف دیکھا۔ انیزہ کا نمبر جگمگا رہا تھا۔ اس نے فوراً کال پک کی۔
ہیلو انی سب ختم۔۔۔۔۔۔۔۔سب کچھ میری محبت مجھ سے چھین گئی ہے۔ میں کیا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ میرا دل کر رہا ہے میں خود کو ختم کر لوں۔ انی میں میران کے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ کل پک کرتے ہی وہ اَگے سے اس کی کچھ بھی سنے بغیر روتے ہوئے بولتی چلی جا رہی تھی۔
منحہ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم اس طرح کیوں رو رہی ہو ؟ کون جا رہا ہے ؟ کیا سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ مجھے تمہاری کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ دوسری طرف اس نے فکر مند لہجے میں اِستفسار کیا۔
منحہ نے اس کے جانے کے بعد جو کچھ بھی ہوا روتے ہوئے سب اس کے گوش گزار دیا۔
کیا منحہ اتنا کچھ ہو گیا تمہارے ساتھ اور یہ نوشاب بھائی کو میں اتنا اچھا سمجھتی تھی۔ مجھے نہیں پتہ تھا۔ وہ تمہارے ساتھ ایسا کریں گے۔ انیزہ کو بھی اب اس شخص پر غصہ آ رہا تھا۔ جس نے اس کی پیاری دوست کو اتنا رلایا تھا۔
انی اب تم بتاؤ, میں کیا کرو۔ انی میں تو میران سے محبت کرتی ہوں۔ میں اس شخص سے نکاح کیسے کر سکتی ہوں۔ وہ مسلسل روتے ہوئے بولی۔
منحہ تم ایسا کرو۔ تم ابھی جا کر میران بھائی سے بات کرو۔ اور انہیں سب کچھ بتا دو۔ مجھے پورا یقین ہے۔ اس دفعہ وہ تمہاری بات ضرور سنے گے۔ انیزہ کچھ سوچتے ہوئے فوراً بولی۔
ہاں انی تم بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میں اسے آج سب کچھ بتا دوں گی۔ کہ میں اس سے کتنی محبت کرتی ہوں اور یہ نکاح نہیں کرنا چاہتی۔ وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی اور فوراً سے فون بند کر دیا۔ **************
منحہ میران کے کمرے میں آئی تو وہ لیپ ٹاپ پر کوئی ضروری کام کر رہا تھا۔
میران کی نظریں اٹھی تو سامنے منحہ کو کھڑا دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خیرانی اتری۔
ارے منحہ تم یہاں اور یہ کون سا طریقہ ہے اندر آنے کا۔ تمہیں دروازہ ناک کر کے اندر آنا چاہیے تھا۔ وہ دوبارہ لیپ ٹاپ پر جھکتے ہوئے سخت لہجے میں بولا۔
اس کی بات سن کر منحہ کی آنکھوں میں آنسو جمع ہونے لگے, اور کوئی بھولی بھسری یاد اس کے ذہن میں آئی۔
ارے مونی تم نے دروازہ کیوں ناک کیا۔ تم اندر آ سکتی تھی۔ 14 سالہ میران 10 سالہ منحہ سے بولا۔
لیکن میران ماما کہتی ہے کسی کے کمرے میں جانے سے پہلے دروازہ ناک کرنا چاہیے۔ وہ معصومیت سے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔
لیکن میری مونی بلا جھجک میرے کمرے میں آ سکتی ہے۔ جب اس کا من چاہے۔
سچی میران میں جب مرضی میں تمہارے کمرے میں آسکتی ہوں۔ وہ خوشی سے چہکی۔
ہاں مچی میران اس کی ستواں ناک دباتے ہوئے مسکرا کر بولا۔
میران تم مجھے منحہ کی بجائے مونی کیوں بلاتے ہو۔
کیوں کے تم میرے لیے سب سے خاص ہو اور تمہارا نام بھی تو خاص ہی ہونا چاہیے "ْنا"۔
اس نے اگے سے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔
منحہ اپنی یادوں سے باہر نکلی تو نظر اس دشمن جاں پر پڑی جو اسے مسلسل نظر انداز کر رہا تھا۔
کیا یہ وہی میران تھا۔ نہیں میرا میران تو ایسا نہی تھا۔ منحہ نے اس کی طرف دیکھ کر دل ہی دل میں سوچا۔ پھر آنسو صاف کرتے ہمت کرتے اپنے قدم اس کی طرف بڑائے۔
پتہ ہے میران ایک دفعہ تم نے خود ہی مجھ سے کہا تھا۔ میں بنا اجازت کبھی بھی تمہارے کمرے میں آ سکتی ہوں۔ ناچاہتے ہوئے بھی اس کی زبان سے شکوہ نکلا۔
کمپیوٹر پر چلتے میران کے ہاتھ ایک پل کے لیے تھمے تھے۔
وہ ہمارا بچپن تھا اب ہم بڑے ہو چکے ہے۔ وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولا اور دوبارہ اپنے کام میں مگن ہو گیا۔
اور مونی اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ منحہ نے آنکھوں میں آنسو لیے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
بس بہت ہو گیا, تمہیں سمجھ نہیں آ رہا کیا۔ وہ ہمارا صرف بچپن تھا۔ جسے میں بھول چکا ہوں۔ بہتر ہے تم بھی بھول جاؤ, تو تمہارے لیے بہتر ہو گا۔ میران غصے سے اپنا کمپیوٹر بیڈ پر رکھتے۔ اس کی طرف آیا, اور اسے دونوں کندھوں سے پکڑ کر اپنے بے حد نزدیک کرتےاس کی آنکھوں میں دیکھ کر سخت لہجے میں بولا۔ منحہ ایک پل کے لیے ڈر گئی تھی۔ لیکن اس کی باتوں سے اسے تکلیف پہنچی تھی۔
بھول جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا سچ میں, میں وہ سب بھول جاؤں۔ تمہارا میرا خیال رکھنا, اپنے ہاتھوں سے مجھے کھانا کھلانا, میری ہر چھوٹی سی چھوٹی خواہش کو پورا کرنا, میرا زرہ سے رونے پر تمہارا سانس اٹک جانا۔ آج وہی شخص ان آنسوؤں کو دیکھ کر نظرانداز کر رہا ہے۔ کیا آج تمہارا ان آنسوؤں کو دیکھ کر سانس نہیں اٹکا ؟ کیا مجھے اس طرح تکلیف میں دیکھ کر آج تمہیں یہاں درد نہیں ہوا۔ منحہ اس کے دل کے مقام پر انگلی رکھتے ہوئے بولی۔
یقیناً نہیں ہوا ہو گا۔ کیونکہ تم تو سب کچھ بھول چکے ہو "نا"۔ یہاں تکہ تم مجھے مونی کہنا بھی بھول چکے ہو۔
لیکن میران مجھے بتاؤ, میں وہ سب کیسے بھولوں بچپن کا وہ ساتھ, تمہارا خیال رکھنا, تمہارا مجھے مونی کہہ کر بلانا۔ میں کیسے بھول جاؤں, مجھے بھی کوئی خل بتاؤ۔ تمہارے لیے تو یہ بہت آسان ہے۔ لیکن میرے میں اتنا خوصلہ نہیں ہے اپنے میران کو بھولنے کا۔ میں تم سے محبت کرتی ہوں میران بہت محبت کرتی ہوں۔ یہ مونی تمہارے بغیر مر جائے گی۔ پلیز میران ایسے نہ کرو میرے ساتھ۔ منحہ اس کے ہاتھوں سے پھسلتی ہوئی نیچے بیٹھتے چلی گئی اور شدت سے روتے ہوئے اپنی محبت کا اظہار کر بیٹھی۔
جبکہ میران ویسے کا ویسا ساکت و جامد کھڑا تھا۔
میران۔۔۔۔۔۔۔میران ت۔۔۔۔۔۔تمہیں پتہ ہے۔ تم۔۔۔۔۔۔۔۔تم ب۔۔۔۔۔۔۔بچپن میں ماما سے کیا کہتے تھے۔ کہ خالہ یہ میری مونی ہے۔ اسے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ وہ اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے طنزیہ ہنسی سے بولی۔
تو پھر میران تم آج تم اپنی مونی کو کیسے کسی اور کو دے سکتے ہو ؟ بولو کیسے کسی کے خوالے کر سکتے ہو۔ میں تو تمہاری مونی تھی میں تو صرف تمہاری تھی "نا"۔ منحہ تو صرف میران کی ہے "نا", بولو نہ میران۔ وہ اس کے کالر پکڑ کر زور سے اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولی۔
بس بہت ہوا۔ میران نے اسے اپنے کالر چھڑاتے ہوئے اسے پیچھے کی طرف دھکا دیا تھا۔ وہ ایک پل کے لیے لڑکھڑائی تھی۔
میران نے چہرہ اوپر کی طرف کر کے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھے اور اپنے آنسوؤں کو کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ پھر جلد ہی خود کو سنبھالتے ہوئے دوبارہ اس طرف رخ کیا۔
تم پاگل تو نہیں ہو گی۔ تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا۔ تم نوشاب کی امانت ہو۔ کل تمہارا اس سے نکاح ہے اور آج تم میرے سے آ کر ایسی باتیں کر رہی ہو۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر سخت لہجے میں بولا۔
لیکن میران میں نوشاب سے نہیں تم سے م۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر دار منحہ اگر تم نے اس سے اَگے ایک لفظ بھی کہا۔ اس کی بات بیچ میں ہی کاٹتے میران غصے سے غرایا۔
نہیں میران آج میں چپ نہیں رہوں گی۔ آج میں ضرور بولوں گی۔ کہ میں تم سے کتنی محبت کرتی ہوں۔ پلیز میران میرے ساتھ ایسے مت کرو۔ میں بہت محبت کرتی ہوں تم سے۔ وہ ہچکیاں لیتے ہوئے پوری شدت سے روتے ہوئے بولی۔
تمہیں میری بات سنائی نہیں دے رہی۔ یہ تم نے کیا محبت محبت کی رٹ لگا رکھی ہوئی ہے۔ نہیں کرتا میں تم سے محبت, بلکہ ان سب کے بعد تو مجھے تم سے شدید نفرت ہونے لگ پڑی ہے۔ میران سرخ آنکھیں لیے شدید غصے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
الفاظ تھے یا پھر پگلا ہوا سیسہ منحہ کے دل پر گِرا تھا۔ وہ ایک پل کے لیے ساکت رہ گئی۔ اس نے آنکھوں میں آنسو لیے شکوہ کن نظروں سے میران کی طرف دیکھا اور منہ پر ہاتھ رکھتے فوراً وہاں سے بھاگی۔
اس کے وہاں سے جاتے ہی میران بھی گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا, اور رونے لگ پڑا۔
نوشاب کمرے میں آیا تو اسے ایسے روتے دیکھ کر فوراً اس کی طرف لپکا۔ میران تم ٹھیک ہو۔
نہیں یار میں ٹھیک نہیں ہوں, اور تمہیں پتہ ابھی وہ تھوڑی دیر پہلے میرے کمرے میں آئی تھی۔ کچھ دیر پہلے جو اس کی آنکھوں میں میرے لیے محبت تھی۔ میں نے پَل میں اسے نفرت میں بدل دیا تھا۔ میران اس کے گلے لگ کر روتے ہوئے بولا۔
نوشاب اچھے سے سمجھ گیا تھا۔ وہ کس کی بات کر رہا تھا۔
میران تم ایسا کرو۔ کل تم اس سے نکاح کر لو اور گھر والوں کی فکر نہ کرو۔ میں انہیں سمجھا لوں گا۔ نوشاب کچھ سوچتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
تم پاگل تو نہیں ہو گے نوشاب۔ تمہارے دماغ میں ایسی سوچ آئی بھی کیسے۔ جبکہ تم یہ بات اچھے سے جانتے ہو میری زندگی یہ میری خود کی بھی امانت نہیں ہے۔ یہ تو اس زمین اس وطن کی امانت ہے۔ پھر میں اپنے اس وطن سے کیسے بے وفائی کر سکتا ہوں۔ جتنی محبت میں منحہ سے کرتا ہوں۔ اسے کئی زیادہ محبت میں اپنے وطن سے کرتا ہوں۔ میران نے خیرت سے اس کی طرف دیکھا پھر فوراً اپنے آنسو صاف کرتے کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔
لیکن میران۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کیا نوشاب۔۔۔۔۔۔۔لیکن کیا ؟ تم اچھے سے جانتے ہو "نا" میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں آج ہے کل نہیں۔ پھر میں کسے اپنی جان سے پیاری مونی کو اس دلدل میں دھکیل سکتا ہوں۔اور مجھے تم پر پورا یقین ہے کہ میرا دوست میری مونی کا بہت خیال رکھے گا۔ کیونکہ میں تمہاری آنکھوں میں اس کے لیے محبت اسی دن دیکھ چکا تھا۔ جب تم نے اسے پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ بس نوشاب اگر اسے کبھی کوئی غلطی ہو جائے تو پلیز اسے ڈانٹنے کی بجائے معاف کر دینا۔ وہ بہت نازک سی ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہت جلدی ڈر جاتی ہے۔ وہ اُمید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ جبکہ آنکھوں سے آنسو متواتر بہہ رہے تھے۔ آنسو تو نوشاب کی آنکھوں میں بھی تھے۔
میں وعدہ کرتا ہوں میران۔ میں اسے کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔ نوشاب اسے زور سے گلے لگاتے وعدہ کر بیٹھا۔
اچھا اب چلو تم جاؤ اور اپنے نکاح کی تیاری کرو۔ میں بھی بس کچھ ہی دیر میں مشن کے لیے نکل رہا ہوں۔ میران اسے اپنے الگ کر کے زبردستی مسکراتے ہوئے بولا۔
مشن تو کیا تم میرے نکاح میں شامل نہیں ہو گا۔ وہ خیرانی سے بولا۔
نہیں یار اگر میں کل آگیا تو سمجھ لینا میرا مشن کامیاب رہا۔ اگر نہ آیا تو سمجھ لینا اپنے وطن کی محبت کے لیے شہید ہو گیا تھا۔ میران اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔
جبکہ نوشاب وہی ساکت کھڑا رہ گیا تھا۔ ***************
آج وہ ہمیشہ کے لیے کسی اور کے نام لکھ دی گئی تھی۔ اس کے ہاتھوں پر کسی اور کے نام کی مہندی لگی تھی۔ آنکھوں سے آنسو جو تھے تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اسے کچھ یاد نہیں تھا کب اس نے نکاح نامے پر سائن کیا۔ کب وہ نوشاب کے ساتھ رخصت ہو کر اس خویلی میں آئی اور اب وہ اس کی دلہن بنی اس کے بیڈ پر بیٹھی تھی۔
میران تم نے کیوں ایسے کیا۔ وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں بولی۔ آج تو صبح سے اس نے اس دشمن جاں کو بھی نہیں دیکھا تھا۔ پتہ نہیں کب تک وہ ایسے ہی سوچوں میں گم رہتی کہ کھٹاک کی آواز سے دروازہ کھولا اور کوئی کمرے میں داخل ہوا۔
منحہ نظریں اٹھائی تو اپنے سامنے نوشاب کو کھڑا دیکھ کر اس نے غصے سے منہ پھیرا اور سمٹ کر بیٹھ گئی۔
لیکن نوشاب اس کے پاس آیا اور بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر موبائل رکھتے واش روم میں چلا گیا۔
ابھی اسے واش روم میں گئے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی۔ کہ اس کے موبائل پر مسلسل ہوتی رنگنگ پر منحہ نے اَکتا کر موبائل اٹھا کر کان سے لگایا۔ اس سے پہلے وہ سامنے والے کو کچھ سناتی کہ اَگے جو اسے سننے کو ملا اسے لگا وہ اگلا سانس نہیں لے پائے گی۔ موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر بیڈ پر گر گیا۔
نوشاب جو ابھی فریش ہو کر واش روم سے نکلا تھا۔ کہ منحہ کے ہاتھ میں اپنا موبائل چھوٹتے دیکھ کر اسے فوراً کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔ وہ فوراً اس کی طرف لپکا۔ لیکن اتنی دیر تک وہ بے ہوش ہو کر بیڈ پر گِر چکی تھی۔
منحہ۔۔۔۔۔۔۔منحہ آنکھیں کھولو۔ تم ٹھیک ہو۔ وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے بولا۔ *************
میران۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔منحہ فوراً چیخ مارتے ہوئے اٹھی۔ نوشاب جو کب سے صوفے پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔ کہ منحہ کی چیخ پر وہ فوراً اس کی طرف لپکا۔
آج اسے پورے دودن بعد ہوش آیا تھا۔ اور میران کو بھی اپنے وطن کے لیے شہید ہوئے پورے دو دن ہو چکے تھے۔
منحہ جی آپ ٹھیک ہے۔ نوشاب اس کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیار سے بولا۔ جو لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔
نوشاب میں نے ابھی بہت برا خواب دیکھا۔ بہت برا خواب تھا۔ نوشاب میران ٹھیک ہے "نا" مجھے ابھی اسے ملنے جانا ہے پلیز۔ وہ روتے ہوئے بولی, اور اس سے پہلے وہ بیڈ سے اٹھتی۔ نوشاب نے اس کے اوپر سے ہاتھ گزار کر دوسری طرف رکھا اور اس کے جانے کا راستہ مسدود کر دیا۔
نہیں منحہ جی آپ ابھی کہی نہیں جا سکتی۔ آپ کی طبیعت بالکل بھی ٹھیک نہیں۔
لیکن مجھے جانا ہے۔ تمہیں سمجھ نہیں آ رہی۔ میں نے ابھی میران کے بارے میں بہت برا خواب دیکھا ہے۔ جیسے اسے کچھ ہو گیا ہے۔ وہ روتے ہوئے بولی۔ نوشاب اس کے چہرے پر ڈر اور خوف کی کیفیت بخوبی محسوس کر سکتا تھا۔ لیکن وہ اسے کسی خوش فہمی میں نہیں مبتلا کر سکتا تھا۔ اس لیے اس نے اسے حقیقت بتانے کا فیصلہ کیا۔
جسے خواب سمجھ رہی ہے آپ۔ وہ خواب نہیں حقیقت ہے۔ میران اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ وہ اپنے وطن کی محبت میں شہید ہو گیا ہے۔
شہید۔۔۔۔۔۔۔۔منحہ نے خیرت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
ہاں شہید۔۔۔۔۔۔۔میران آرمی میں تھا, اور منحہ جی آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ میران نے وطنِ شہادت پائی۔ نوشاب اپنے دونوں ہاتھ اس کے گالوں پر رکھتے ہوئے ہوئے بولا۔
جبکہ منحہ کو تو کچھ سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ روئے یا پھر خوش ہو۔
اسے کشمکش میں دیکھ کر نوشاب نے اس کی مشکل آسان کی۔ اپنے پاکٹ میں سے خط نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھا۔
مشن پر جانے سے پہلے یہ میران نے آپ کو دینے کے لیے کہا تھا۔ اسے خیرانی سے اپنی طرف دیکھتا پا کر نوشاب نے فوراً اسے بتایا۔
اچھا آپ یہ خط پڑھے تب تک میں آپ کے لیے کچھ کھانے کو لاتا ہوں۔ یہ کہتے ہی وہ فوراً کمرے سے چلا گیا۔
منحہ نے جلدی سے خط کھولا اور پڑنے لگی۔
! اسلام علیکم
مجھے پتہ ہے مونی جب تک تمہیں یہ خط ملے گا۔ میں وطن شہادت پا گیا ہوں گا۔ اور پلیز میرے جانے کے بعد تمہاری آنکھوں میں ایک آنسو بھی نہیں بہے گا۔ کیونکہ تمہارے میران نے اپنے وطن کی محبت میں شہادت پائی ہو گی۔ اور تم ہمیشہ اسے فخر سے یاد کرو گی۔ مجھے پتہ ہے اب میری مونی کی آنکھوں میں ایک آنسو نہیں ہو گا۔
اس نے جلدی سے اپنے گالوں پر بہتے آنسو صاف کیے۔ اور اگے پڑنے لگی۔
اور ہاں ایک بات اور میں اُمید کرتا ہوں۔ تم نوشاب کے ساتھ ایک نئی زندگی کی شروعات کروں گی۔ کیونکہ وہ بہت اچھا لڑکا ہونے کے ساتھ میرا اچھا دوست بھی ہے اور وہ تم سے بے خد محبت بھی کرتا ہے۔ مجھے اپنی مونی سے پوری اُمید ہے وہ اس رشتے کو پورے دل سے نبھائے گی۔
تمہارا میران شکریہ میران تم جیسا چاہتے ہو۔ ویسا ہی ہو گا۔ میں پورے دل و امان سے اس رشتے کو نبھاؤں گی, اور رو گی تو بالکل بھی نہیں۔ وہ اس خط کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے بولی اور جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے۔
1 Commenti
Outstanding Amazing novel 🥰❤👌🏻👏🏻👏🏻👏🏻👏🏻👏🏻I like it ❣this story amazing🥰😘😘😘😘
RispondiEliminaCommento