# Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel
# Sneak Peek 2
# Please Don't Copypaste My Novel
یہ لو پکڑو اور جلدی
سے اپنے بال باندھو۔ آئندہ تم مجھے باہر کھولے ہوئے بالوں یا پھر ان کپڑوں میں نظر آئی "نا" تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔ یہ تمہارا امریکہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان ہے۔ جہاں ہزاروں لڑکے آوارہ گردی کرتے پھرتے ہیں۔ خارب شہادت کی انگلی اٹھا کر چہرے پر غضب اور غصہ لیے, اسے وارن کرتے ہوئے تحکم بھرے لہجے میں بولا۔
وہ جو پہلے ہی اسے خوف زدہ تھی۔ کہ اس کے غصے سے ڈر کر وہ مزید دروازے سے چپک گئی۔ آنکھوں سے بہت تیزی کے ساتھ آنسو بہہ کر اس کی تمام ہمتوں کو ایک دم پھر سے بکھیر گئے تھے, اور وہ دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا کر ہچکچیوں کے ساتھ رونے لگی۔ رونے کی وجہ سے اس کا وجود لرز رہا تھا۔
اس کا خارب سے ڈرنا پھر ایک دم رونے لگ پڑنا۔ سخی معنوں میں خارب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
خارب یہ تو کیا کر رہا یار۔ اس میں اس کی کیا غلطی ہے۔ تو اسے کیوں ڈانٹ رہا ہے۔۔۔۔۔جو لڑکی امریکہ جیسے ماحول میں پلی بڑھی ہو۔ وہ پاکستان کے حالات کے بارے میں کیسے جانتی ہو گی۔ وہ پہلے ہی ان لڑکوں کی وجہ سے سہمی ہوئی تھی۔ اوپر سے تمہارا ان لڑکوں کو جارحانہ انداز میں مارنا۔ ظاہر ہے وہ لڑکی تھی۔ تم سے خوف زدہ تو ہو گی "نا"۔ اب بھی تم نے اسے غصے میں ڈانٹ دیا۔ وہ مسلسل خود کو سرزش کرتے ہوئے دل ہی دل میں بولا۔
اس نے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خود کو کمپوز کیا۔ پھر پوری طرح اس کی طرف گھوم کر بیٹھ گیا۔
رامیہ اِدھر دیکھو میری طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایم سوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے جان بوجھ کر نہیں تمہیں ڈنٹا۔ پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا۔ اس بار وہ نرمی سے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھتے مٹھاس بھرے لہجے میں بولا۔ لیکن اب بھی وہ ہچکچیوں سے روئے جا رہی تھی۔
رامیہ پلیز رونا بند کرو۔ میں تمہیں ایسے روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ تم تو میری بہادر رامیہ تھی "نا" جو بہادری سے ہر کسی کا مقابلہ کرتی تھی۔ پھر آج اس کی آنکھوں میں آنسو۔ وہ انگلیوں کی پوروں سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔ لیکن اس کے رونے میں کوئی کمی نہ آئی۔
مم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے ہچکچیوں کے درمیان بولنا چاہا۔ مگر بول نہیں پا رہی تھی۔
ہاں رامیہ میں سن رہا ہوں۔ تم بولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پیار سے ایک ہاتھ سے اس کا گال سہلاتے ہوئے بولا۔
مم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔گ۔۔۔۔۔۔۔گھر جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے۔ مم۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں۔۔۔۔۔۔۔نہ۔۔۔۔۔۔۔نہیں رہںنا۔ مم۔۔۔۔۔۔۔۔ڈیڈ۔۔۔۔۔۔۔کےپاس۔۔۔۔۔۔۔۔جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔چ۔۔۔۔۔۔چاہںتی ہوں پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔وہ روتے ہوئے ہچکچیوں کے درمیان بولی۔ شاید وہ اب بھی خوف کے زیر اثر تھی۔ اس لیے یہ سب بول رہی تھی۔ خارب کو خود سے نفرت ہونے لگی تھی۔ کہی نہ کہی وہ خود کو اس کی اس حالت کا قصوروار سمجھ رہا تھا۔
کیا ہوتا اگر میں رامیہ کو اکیلا چھوڑ کر آئس کریم نہ لینے جاتا۔ نہ وہ لڑکے اسے تنگ کرتے, نہ میں غصے میں آ کر انہیں مارتا,نہ رامیہ خوف زدہ ہوتی اور نہ اس کی یہ حالت ہوتی۔ وہ مسلسل خود کو بلیم کر رہا تھا۔
خارب مم۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شش۔۔۔۔۔۔۔۔اب تم کچھ نہیں بولو گی۔ خارب اس کے نرم گداز لبوں پر انگلی رکھتے ہوئے بولا۔ وہ بھیگی بھیگی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔
ایم سوری۔۔۔۔۔۔۔۔اسے اپنی طرف دیکھتا پاکر خارب نے فوراً اپنے کان کی لو کو چھو کر ندامت بھرے لہجے میں بولا۔
1 Commenti
Well done ❤👌🏻❣very nice sneak ❤❣👌🏻
RispondiEliminaCommento