Advertisement

Adbox

PARIVISH Episode 19 ( پری وش)

                Parivish

                 (پرى وش)

# Novel by Parivish 

# Write; Aima Ashfaq

# Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel

# Please Don't Copypaste My Novel 

# Episode 19:

               بس ضوفی میں تمہاری کوئی بات نہیں سننا چاہںتی۔ میں تمہارے لیے اتنی غیر اہم ہو گی ہوں۔ کہ تم نے مجھے بتانا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ وہ ناراض ہوئی۔

نہیں رامی ایسی بات نہیں ہے۔ میں نے تمہیں بتانے کی بہت کوشش کی تھی۔ لیکن تم اتنی زیادہ خوش تھی۔ میں تمہارے چہرے سے وہ خوشی چھیننا نہیں چاہںتی تھی۔ ضوفیرہ فوراً اس کے پاس آ کر اس کے دونوں ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی تھی۔
ہاں جیسے اب تو میں بہت خوش ہوں "نا"۔ رامیہ فوراً اس کے ہاتھ جھٹک کر طنزیہ لہجے میں بولی تھی۔
رامی پلیز ایسا تونہ بولو۔
تو پھر کیا بولوں ضوفی ؟ تم ہی بتاؤ میں کیا بولوں ؟ ضوفی تم نے نہ چاہ کر بھی مجھے دکھ پہنچایا ہے۔ تم مجھے بتا تو سکتی تھی۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے بولی۔ 
رامی اگر میں تمہیں پہلے بتا دیتی تو تم نے مجھے کبھی بھی جانے نہیں دینا تھا۔
جانے تو میں تمہیں اب بھی نہیں دوں گی۔ پلیز ضوفی مت جاؤ۔ تمہیں پتہ ہے "نا"۔ ہم نے یہاں آنے سے پہلے ایک دوسرے سے وعدہ کیا تھا۔ کہ ہم اکٹھے ہی واپس جائیں گی۔ پھر اب کیوں ایسے کر رہی ہو۔ ضوفی پلیز میرے ساتھ ہی بعد میں چلی جانا۔ اس بار اس نے ضوفیرہ کے دونوں ہاتھ پکڑتے ہوئے التجا کی تھی، اور اسی وقت اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے آنسو نکل کر ہاتھ پر گرے تھے۔
کون کہاں جا رہا ہے اس سے پہلے ضوفیرہ اسے کوئی جواب دیتی۔ کہ اسی وقت اذان وہاں آ کر بولا۔
ارے گڑیا تم رؤ رہی ہو۔ کیا ہوا تم رؤ کیوں رہی ہو ؟ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اذان نے فوراً فکر مند لہجے میں اِستفسار کیا۔
دیکھے "نا" اذان بھائی جان ضوفیرہ واپس امریکہ جارہی ہے، اور وہ بھی آج رات کی فلائیٹ سے۔ اور اس نے مجھے بتانا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ وہ فوراً اذان کے گلے لگ کر روتے ہوئے بولی تھی۔
گڑیا مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے۔ اس کی بات سنتے ہی اذان اسے ایسے ہی گلے لگائے بولا۔
نہیں اذان بھائی جان آپ نے مجھے جوبھی کہنا ہے بعد میں کہیے گا۔ پہلے ضوفی کو بولے "نا" نہ جائے۔
گڑیا مجھے تم سے اسی بارے میں بات کرنی ہے۔
کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ فوراً اذان سے الگ ہوئی اور آنکھوں میں خیرت لیے بولی تھی۔
وہ اصل میں بات یہ ہے کہ ہمیں پہلے سے پتہ ہے۔ ضوفیرہ امریکہ واپس جا رہی ہے۔ وہ ہونٹوں پر زبان پھیرتے ڈرتے ہوئے بولا تھا۔ کیونکہ وہ رامیہ کی ضوفیرہ کے ساتھ اٹیچ مینٹ اچھے سے جانتا تھا۔
کیا آپ کو پتہ۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں نہیں ایک منٹ۔ آپ نے بولا ہمیں پتہ ہے۔ اس کا مطلب میرے علاوہ سب جانتے تھے۔ ضوفیرہ واپس امریکہ جارہی ہے، اور آپ سب میں سے مجھے کسی نے بھی نہیں بتایا، اور اذان بھائی جان آپ نے بھی نہیں۔ میں آپ سے کبھی بات نہیں کروں گی۔ وہ آنکھوں میں بے یقینی لیے روتے ہوئے بولی تھی۔
گڑیا میری بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اذان ابھی کچھ بولنے ہی لگا تھا۔ کہ رامیہ فوراً بھاگتے ہوئے اندر چلی گئی۔
ارے رامیہ بیٹا کیا ہوا ؟ صائمہ جو دادجی کے ساتھ باتوں میں مگن تھی۔ کہ اسے ایسے روتے بھاگتے ہوئے اندر آتے دیکھ کر فوراً متفکر لہجے میں بولی تھی۔
لیکن رامیہ کسی کی بھی نہ سنتے ہوئے بھاگتے ہوئے کمرے میں چلی گئی اور اندر سے لاک لگا لیا۔ اور منہ کے بل بیڈ پر گرتے ہی پوری شدت سے رونے لگی تھی۔
گڑیا۔۔۔۔۔۔۔گڑیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماما گڑیا کہاں ہے ؟ اسی وقت اذان بھی بھاگتے ہوئے اندر آیا۔ اور وہاں رامیہ کو نہ دیکھ کر فوراً صائمہ سے پوچھا تھا۔
اذان مجھے بتاؤ تو سہی۔ ایسا کیا ہوا ہے کہ رامیہ روتے ہوئے اندر آئی۔
ماما گڑیا کو پتہ چل گیا ہے۔ کہ ضوفیرہ امریکہ واپس جا رہی ہے۔ اور یہ بھی کہ ہمیں اس بارے میں پہلے سے خبر تھی۔
کیا اذان اب کیا ہو گا۔ اس نے تو اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیا ہے۔ صائمہ اور دادجی بھی پریشان ہوئے۔
گڑیا۔۔۔۔۔۔۔۔گڑیا پلیز دروازہ کھولو۔ اذان دروازہ بجاتے ہوئے بولا۔
رامی پلیز دروازہ کھولو۔ پلیز میری ایک بار بات تو سن لو۔ ضوفیرہ روتے ہوئے بولی تھی۔
ضوفیرہ بیٹا خود کو سنبھالو۔ وہ کھول لے گی دروازہ۔ ابھی وہ غصے میں ہے۔ اسے روتے دیکھ کر صائمہ فوراً اس اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولی تھی۔
رامیہ بیٹا پلیز اپنے دادجی کے لیے دروازہ کھول لو۔
کہ اسی وقت رامیہ نے دروازہ کھولا اور دوبارہ بیڈ پر جا کر بیٹھ گئی۔ لیکن وہ ابھی بھی ہچکچیوں سے رو رہی تھی۔
اسے روتے دیکھ صائمہ فوراً اس کی طرف لپکی، اور اس کے پاس ہی بیٹھ کر اسے خود میں بھینچ لیا۔
بس رامیہ بیٹا بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔صائمہ پیار سے پیچھے سے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے اسے چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جبکہ دوسری طرف ضوفیرہ کھڑی رو رہی تھی۔
رامیہ اب اپنے آنسو صاف کرو اور میری بات سنو۔ صائمہ اسے اپنے سے الگ کر کے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی تھی۔
رامیہ وہ صرف اپنی پڑھائی کی وجہ سے جارہی ہے۔ دیکھو اب آپ دونوں کی پڑھائی کا بہت زیادہ حرج ہو رہا ہے۔ ایسے میں وہ پہلے جارہی ہے۔ کہ جب تم واپس جاؤں گی تو تمہاری ہیلپ بھی کر دے گی۔ صائمہ اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولی۔

لیکن آنٹی اس نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ یہ جا رہی ہیں۔
 بیٹا آپ اتنا زیادہ خوش تھی۔ وہ آپ کے چہرے سے وہ خوشی چھیننا نہیں چاہںتی تھی۔ چلو شاباش اب اپنی ناراضگی ختم کرو۔ وہ بھی دیکھو کتنا رو رہی ہے۔ ضوفیرہ بیٹا اِدھر آؤ۔
صائمہ کے بلانے پر وہ فوراً رامیہ کی طرف گئی، اور دوسری طرف اس کے پاس بیٹھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔ پھر دونوں خوب روئی۔
ماما آپ ایسا کرے۔ کہ آپ ایک بڑا سے باؤل لے آئیں۔ کیونکہ جیسے یہ دونوں رؤ رہی ہے۔ مجھے تو لگتا۔ یہ پورا کمرا ان کے آنسوؤں سے بھر جائے گا۔ اور کہی ایسا نہ ہو، ہم ڈوب ہی نہ جائے۔ اذان اسے چڑاتے ہوئے ہنسا تھا۔
دیکھے نہ دادجی اذان بھائی جان تنگ کر رہے ہیں.
اذان میری پوتی کو تنگ نہ کرو۔ دادجی نے آنکھیں دیکھائی۔
اگر اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔ تو اب تو نہیں نہ میری گڑیا مجھ سے ناراض ؟
جی نہیں میں آپ سے اب بھی بات نہیں کر رہی۔ وہ ہونٹوں پر اپنی مسکراہٹ دباتی ہوئی بولی۔
لیکن یہ تو چیٹنگ ہے۔
کیسی چیٹنگ۔۔۔۔۔۔۔؟
ضوفیرہ کے جانے کی بات ماما اور دادجی کو بھی پتہ تھی۔ لیکن تم دادجی سے بھی بات کر رہی ہو اور ماما سے بھی۔ اس نے منہ بناتے ہوئے باور کرایا۔
کچھ بھی ہو۔ میں آپ سے ایک شرط پر بات کروں گی۔
وہ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ آنکھوں میں خیرانی لیے بولا۔
آپ کو مجھے آج آئس کریم کھلانی پڑے گی۔
نہیں بالکل بھی نہیں۔ مری کے اتنے ٹھنڈے موسم میں، میں تمہیں بالکل بھی آئس کریم کھانے کی اجازت نہیں دوں گا۔ وہ انکاری ہوا۔
تو پھر ٹھیک ہے۔ میں آپ سے تب تک بات نہیں کروں گی۔ جب تک آپ مجھے آئس کریم نہیں کھلائے گے۔ اس نے منہ بناتے ہوئے ناراضگی سے منہ پھیرا۔
آخر کار اذان کو اس کی ضد کے اَگے ہار ماننی ہی پڑی۔
صائمہ ان کی نوک جوک دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرا رہی تھی۔
      ♤            ♤           ♤
رامی آج میں نے تمہیں کتنا دکھ پہنچایا۔ لیکن میں تمہیں کیسے بتاتی۔ کہ میں یہاں سے کیوں جانا چاہںتی ہوں۔ ضوفیرہ کھڑکی کے پاس کھڑی سامنے غیر مرئی نقطہ پر نظر مرکوز کیے دل ہی دل میں بولی تھی۔
وہ عمیر کی آنکھوں میں اپنے لیے پسندگی دیکھ چکی تھی۔ ہر جگہ اس کا اسے تنگ کرنا، اونچی اونچی آواز میں شعر پڑھنا، بیچ والے دن اس کا کھل کر شادی کے لیے اظہار کرنا، اور پھر کہنا میں مذاق کر رہا تھا۔ لیکن وہ اس کی آنکھوں میں اپنے لیے بہت سے جذبے اور اُمنگے دیکھ چکی تھی۔ پھر شاپنگ مال میں اس کی باتوں نے ضوفیرہ کو اندر ہی اندر سہما دیا تھا۔ وہ نہیں چاہںتی تھی عمیر اسے پسند کرے۔ وہ اپنے آپ کو اس کے قابل نہیں سمجھتی تھی۔ وہ اس کے قدم یہی روک دینا چاہنتی تھی۔ اسی لیے تو اس نے یہاں سے جانے کا فیصلہ لیا تھا۔
      ♤            ♤            ♤
جب سے عمیر کو ضوفیرہ کے جانے کی خبر  پتہ چلی تب سے وہ اپنے کمرے میں غصے سے اِدھر سے اُدھر چکر کاٹ رہا تھا۔

وہ ایسے کیسے جا سکتی ہے۔ نہیں میں اسے نہیں جانے دوں گا۔ وہ من ہی من میں بولا۔ پھر اپنے کمرے سے نکلا، اور اس کا اب رخ ضوفیرہ کے کمرے کی طرف تھا۔
وہ جو اپنے بیگ میں ضرورت کی کچھ چیزیں رکھ رہی تھی۔ کہ عمیر کو اپنے کمرے میں آتا دیکھ کر وہی رک گئی۔
تم یہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ہاں میں، میں تم سے کچھ بات کرنا چاہںتا ہوں۔ وہ اس کے پاس آ کر بولا۔
لیکن مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی۔ ضوفیرہ بیگ کی زپ بند کر کے وہاں سے جانے ہی لگی تھی۔ کہ اس کی آواز پر رک گئی۔
جب پہلی بار تم نے
اپنی مدھر بھری آنکھوں سے
                 میری طرف دیکھا تھا
                      تو اس لمحے دل کو
          یہ دلکش احساس ہوا تھا

کہ جیسے
کسی سرد ہوا کے جھونکے نے
            دھیرے سے
                  میرے دل کو چھوا ہو
کہ جیسے
کسی جھیل کے
                ٹھہرے ہوئے پانی میں
                    کوئی کنول کھیلا ہو
کہ جیسے
صبح کی مدھم روشنی میں
                                           کوئی راگ چھڑا ہو
کہ جیسے
صحرا میں کسی پیاسے کو

                                 دریا ملا ہو
مگر دوسرے ہی لمحے
ایک انجانے خوف نے
                           آ گھیر مجھ کو
کہ شاید نہ مل سکے
چمکتی آنکھوں کا
                             اجالا مجھ کو
عمیر اس کے پاس آتے ہوئے حمار آلود لہجے میں بولا تھا۔ جبکہ ضوفیرہ اس کے الفاظوں میں کھو سی گئ تھی۔ پھر جلد ہی خود کو سنبھال لیا اور وہاں سے جانے ہی لگی تھی۔ کہ عمیر اس کے راستے میں خائل ہو گیا۔

ضوفی میں تم سے کچھ کہنا چاہںتا ہوں۔ پلیز ایک بار میری بات سن لو۔ وہ نہایت سنجیدگی اور نرم لہجے میں بولا۔
لیکن میں تمہاری کوئی فضول بکواس نہیں سننا چاہںتی۔ تمہیں سمجھ نہیں آ رہا۔ وہ سرد لہجے میں بولی اور سائیڈ سے ہو کر جانے ہی لگی۔ کہ ایک دم رکی۔ کیونکہ اس کا ہاتھ عمیر کے ہاتھ میں تھا۔
ضوفی پلیز پانچ منٹ کے لیے میری بات سن لو۔ اس نے التجا کی۔
عمیر مجھے پتہ ہے۔ تم کیا کہنا چاہںتے ہو۔ لیکن میں تم سے محبت نہیں کرتی۔ میرے دل میں تمہارے لیے کوئی فیلنگز نہیں ہے۔ مجھے پتہ ہے تم مجھے پسند کرتے ہو۔ لیکن تم اپنے قدم یہی پر روک لو۔ تم میرے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ میں پڑھنا چاہںتی ہوں، کچھ بننا چاہںتی ہوں۔ پلیز تم میرے راستے کی رکاوٹ مت بنو۔ میں تمہیں پسند نہیں کرتی۔ ضوفیرہ نے اس کی طرف دیکھ کر دل ہی دل میں سوچا۔ لیکن زبان سے کچھ نہیں بولی۔
عمیر میرا ہاتھ چھوڑو۔ وہ سخت لہجے میں بولی۔
ضوفی پلیز پانچ منٹ کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمیر میرا ہاتھ چھوڑو۔ اس بار وہ غصے سے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولی، اور وہاں سے چلی گئی۔
عمیر پیچھے سے اس کی پشت کو دیکھتا رہ گیا۔
شام کو عمیر کے علاوہ سب ضوفیرہ کو ائرپورٹ چھوڑنے گئے تھے۔ لیکن سب ہی اس کے لیے اداس تھے۔ واپسی پر اذان نے رامیہ کے ضد کرنے پر بھی اسے آئس کریم نہیں لے کر دی تھی۔ کیونکہ وہ نہیں چاہںتا تھا۔ کہ اتنے ٹھنڈے موسم میں وہ آئس کریم کھا کر بیمار ہو جائے۔ لیکن رامیہ  اسے سخت ناراض ہو گئی تھی۔ مگر اذان دل ہی دل میں اسے بعد میں منانے کا ارادہ بنا چکا تھا۔ گھر پہنچتے ہی سب تھکاوٹ کی وجہ سے اپنے اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلے گئے تھے۔
رامیہ بھی اپنے کمرے میں جاتے ہی سو گئی تھی۔
رات کے 2 بجے اس کی آنکھ بجلی کے کڑکنے سے کھولی تھی، اور اسے سردی بھی بہت لگ رہی تھی۔ وہ کھڑکی بند کرنے کے لیے اٹھی تھی۔ لیکن باہر بارش ہوتے دیکھ کر وہ خوشی سے چہکی تھی۔
ہائے بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے بچپن سے ہی بارش بہت پسند تھی۔ جبکہ ضوفیرہ اسے بالکل برعکس تھی۔ اسے بارش بالکل بھی نہیں پسند تھی۔ بلکہ وہ رامیہ کی اس عادت سے چڑتی تھی۔
رامیہ فوراً بھاگتے ہوئے باہر آئی۔ اور خوشی سے اپنے دونوں بازو پھیلا کر آسمان کی طرف دیکھ کر گول گول گھومتے خود کو بارش میں بھگونے لگی تھی۔ بارش کے قطروں کو اپنے اُوپر گِرتا دیکھ کر اسے اپنے اندر سکون اترتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
پتہ نہیں وہ کب تک اپنے آپ کو ایسے ہی بارش میں بھگوتی۔ کہ گاڑی کے ہارن کی آواز پر اس نے چونکتے ہوئے گیٹ کی طرف دیکھا تھا۔ اتنی دیر میں گارڈ نے گیٹ کھول دیا تھا، اور وائٹ کلر کی کار اندر آ کر رکی تھی۔ اس میں سے علی اور خارب کسی بات پر قہقہہ لگاتے ہوئے باہر نکلے تھے۔ لیکن جب دونوں کی نظریں اس کی طرف گئی۔ تو علی منہ نیچے کیے اندر چلا گیا تھا۔ جبکہ خارب اس کی خالت اور اسے اس طرح سب سے بے نیاز بارش میں بھیگتا دیکھ کر خون خول کر رہ گیا تھا۔ وہ علی کے سامنے شرمندہ بھی ہوا تھا۔ علی کے جاتے ہی وہ غصے سے اس کی طرف بڑھا تھا، اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچتے ہوئے اندر لے گیا۔
یہ کیا بدتمیزی ہے تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی۔ اندر آتے ہی وہ غصے سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولی۔
مجھے کوئی شوق نہیں یے تمہارا ہاتھ پکڑنے کا۔ مجھے بس اتنا بتاؤ۔ تم اتنی رات کو کس سے پوچھ کر بارش میں بھیگ رہی تھی۔ تمہیں پتہ تم اس وقت کس خالت میں موجود ہو۔ وہ اس کے گیلے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا تھا۔ جو وائٹ کھلا ٹروزر، مختلف کارٹون سے بنی بلیک شرٹ، جو جسم کے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔ وہ سکارف سے بے نیاز پوری طرح بھیگی ہوئی تھی، اور ٹھند سے کانپ بھی رہی تھی۔ کیسا آگ برساتا لہجہ تھا۔ اس کا پور پور سلگ اٹھا تھا۔ اس نے سلگی ہوئی نگاہ اپنے مقابل پر ڈالی وہ اپنے وجیہہ چہرے پر غصے کی سرخی لیے اسے گھور رہا تھا۔
تم ہوتے کون ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھ سے یہ سوال کرنے والے ؟ میری مرضی میں بارش میں بھیگوں یا نہ بھیگوں۔ میں تمہارے حکم کی پابند نہیں ہوں۔ وہ اس سے  بھی زیادہ تپے ہوئے لہجے میں بولی تھی۔
وہ یہ کہہ کر وہاں سے جانے ہی لگی تھی۔ کہ خارب نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا۔
رامیہ نے بمشکل اپنے آپ کو اس سے ٹکرانے سے بچایا تھا۔
میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا۔ مجھ سے تمیز سے بات کیا کرو۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے سخت لہجے میں باور کراتے ہوئے بولا تھا۔
ہاتھ چھوڑو میرا۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے کہا ہاتھ چھوڑو میرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی۔ لیکن دوسری طرف اس کی گرفت مضبوط تھی۔
اور ہاں آئندہ سے میں تمہیں بارش میں بھیگتے نہ دیکھوں۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔ اور ویسے بھی کوئی پاگل ہی ہو گا۔ جو اتنی سردی میں بارش میں نہائے گا۔ اس کے لہجے میں وارنگ، خکم، طنز کیا کچھ نہ تھا۔ لیکن اس بار اس نے جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔

رامیہ نے بمشکل خود کو گرنے سے بچایا تھا۔
پاگل میں نہیں تم ہو۔ جو ایسی جاہلوں جیسی خرکتیں کر رہے ہو۔ اس نے بھی دوبدو جواب دیا۔
خارب غصے سے اس کی طرف بڑھا اور اسے دونوں کندھوں سے پکڑ کر اپنے روبرو کھڑا کیا تھا۔ رامیہ بھی ایک پل کے لیے ڈر گئی تھی۔ وہ اس کی سانسوں کی تپش اپنے چہرے پر بخوبی محسوس کر سکتی تھی۔
میں جاہل ہوں "نا" مجھے جاہل ہی رہںنے دو۔ مجھے اپنی جاہلیت دیکھانے پر مجبور نہ کرو۔ ورنہ تمہارے لیے اچھا نہیں ہو گا۔ وہ اپنی سرخ آنکھوں میں غصہ لیے اس کی طرف دیکھتے سخت لہجے میں بولا۔ اور اسے وہی چھوڑتے غصے سے کمرے میں چلا گیا۔
جبکہ رامیہ پیچھے سے پیچ و تاب کھاتی رہ گئی۔ اور پیر پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
      ♤            ♤             ♤
صبح رامیہ کی آنکھ کھولی تو اس کا پورا جسم بخار میں تپ رہا تھا۔ اور سر درد سے پھٹ جا رہا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ بمشکل بیڈ سے اٹھی اور واش روم میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد نہا کر باہر نکلی تو پہلے سے تھوڑی فریش فیل کر رہی تھی۔ لیکن سر کا درد ابھی بھی ٹھیک نہیں ہوا تھا۔
اسلام و علیکم ! رامیہ آپ ٹھیک ہے۔ فاطمہ اس کے کمرے میں آئی۔ تو اسے صوفے پر بیٹھے دونوں ہاتھوں میں اپنا سر پکڑے دیکھ کر فورا اس کے پاس آ کر متفکر لہجے میں بولی تھی۔
وعلیکم اسلام ! ہاں بس تھوڑا سا سر میں درد ہے۔ وہ فاطمہ کو دیکھ کر سستی بھری آواز میں بولی۔
آپ نے میڈیسن لی۔۔۔۔۔۔۔؟
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
آپ ادھر ہی بیٹھے میں آپ کے لیے میڈیسن لے کر آئی۔
تھوڑی دیر بعد فاطمہ کمرے میں آئی تو اس کے ایک ہاتھ میں دودھ کا گلاس دوسرے ہاتھ میں میڈیسن تھی۔
دودھ۔۔۔۔؟ اس کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس دیکھ کر رامیہ نے خیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
آپ نے ابھی ناشتہ بھی نہیں کیا، اور خالی پیٹ میڈیسن نہیں کھانی چاہیںے۔ اس لیے میں دودھ کا گلاس لے آئی۔ فاطمہ اس کی طرف دودھ کا گلاس بڑھاتے ہوئے بولی تھی۔
تھینک یو سو مچ فاطمہ۔ وہ مسکرائی۔
فاطمہ آپ نے آنٹی کو تو نہیں بتایا۔ میرے سر میں درد تھا۔ وہ دودھ کے ساتھ میڈیسن لیتے ہوئے بولی۔
نہیں میں نے انہیں کچھ نہیں بتایا۔
پلیز انہیں بتائیے گا بھی مت ورنہ وہ پریشان ہو جائے گی۔ اس کے لہجے میں فکر صاف جھلک رہی تھی۔
ڈونٹ وری رامیہ میں انہیں کچھ نہیں بتاؤ گی۔ اس نے اطمینان دلایا۔
اچھا اب میں چلتی ہوں۔ میں بس آپ کو ناشتے کے لیے بلانے آئی تھی۔ کیونکہ سب آپ کا ناشتے کی ٹیبل پر ویٹ کر رہے ہے۔
اوکے آپ چلے میں آتی ہوں۔ رامیہ نے مسکرا کر جواب دیا۔
پھر فاطمہ کے جانے کے پانچ منٹ ہی بعد وہ بھی اپنے کمرے سے باہر نکلی۔ ڈائنگ ٹیبل پر آئی۔ تو اس نے دیکھا دادجی اور اذان آپس میں کوئی بات کر رہے تھے۔
اسلام علیکم ! اس نے انہیں مشترکہ سلام کیا۔
وعلیکم اسلام ! بیٹا آؤ نہ ناشتہ کرو پھر ہمیں تھوڑی دیر میں نکلنا بھی ہے۔ دادجی اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولے۔ رامیہ کو دیکھتے اذان کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔
نہیں دادجی بالکل بھی بھوک نہیں۔
کیوں گڑیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ناشتہ کیوں نہیں کرنا۔ اس بار اذان تشویش سے بولا۔
اذان بھائی جان بھوک نہیں۔
لیکن یہ کوئی بہانہ نہیں ہوا۔ چلو شاباش جلدی سے تھوڑا سا کھا لو۔
نہیں اذان بھائی جان پلیز میں ویسے ہی یہاں آپ کے ساتھ بیٹھ جاتی ہوں۔ لیکن مجھ سے کچھ کھایا نہیں جائے گا۔ رامیہ دادجی کے پاس ہی پڑی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
ماما دیکھے نہ گڑیا ناشتہ نہیں کر رہی ۔ اذان کچن سے آتی صائمہ سے بولا۔
کیوں رامیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تم ناشتہ کیوں نہیں کر رہی ؟ تمہاری طبیعت ٹھیک ہے ؟ صائمہ جوس کا جگ ٹیبل پر رکھتے متفکر لہجے میں بولی۔
جی میں ٹھیک ہوں۔ لیکن بھوک نہیں ہے۔ معصوم سا منہ بناتے ہوئے بولی۔
مگر بیٹا ابھی ہم نے اتنا لمبا سفر بھی کرنا ہے۔
آنٹی آپ فکر نہ کرے۔ میں رامیہ کا ناشتہ پیک کر دوں گی۔ اگر اسے راستے میں بھوک لگی تو یہ کھا لے گی۔ فاطمہ نے فوراً اس کا ساتھ دیا۔
جی آنٹی فاطمہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔ اور ویسے بھی میں نے ابھی دودھ کا گلاس پیا ہے۔ آنٹی سے کہتے ہی اس نے فاطمہ کو آنکھوں ہی آنکھوں میں تھینکس بولا تھا۔
اچھا ٹھیک ہے۔ صائمہ کو آخرکار تسلی ہوئی تھی۔ چلو ناشتہ نہ سہی آخرکار اس نے دودھ تو پیا۔ لیکن اس کا لٹکا ہوا چہرا دیکھ کر سب یہی سمجھ رہے تھے۔ کہ شاید یہ ضوفیرہ کی وجہ سے اداس تھی۔
اسلام و علیکم ! ابھی ہم آپ لوگوں کا ہی ناشتے پر انتظار کر رہے تھے۔ چلو جلدی سے بیٹھو ناشتہ کرو۔ صائمہ علی اور خارب کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تھی۔
خارب کی طرف دیکھتے ہی رامیہ کو رات والا سارا منظر یاد آ گیا۔ اس کا ہلک اندر تک کڑوا ہو گیا۔ اس نے غصے سے منہ پھیرا۔ اس کی یہ حرکت اس نے بخوبی محسوس کی تھی۔ لیکن اس نے نظرانداز کر دیا۔

شکر ہے جناب نے اپنی شکل تو دکھائی۔ ورنہ ہم تو سمجھ رہے تھے۔ ہم آپ سے ملے بغیر ہی چلے جائیں گے۔ کہاں تھے کل سارا دن نظر ہی نہیں آئے۔ علی سب سے مل کر جب اذان سے گلے ملا۔ تو اس نے ساتھ ہی شکوہ کیا۔
نہیں اذان بھائی ایسی تو کوئی بات نہیں۔ بس کچھ دنوں سے میرا کوئی کام پینڈنگ تھا۔ بس میں فاطمہ کی وجہ سے کہی اتنا جا نہیں سکا۔ کل آنٹی اور دادجی گھر پر ہی تھے۔ میں نے سوچا اپنا کام نمٹا کر جلدی سے گھر آ جاؤں گا۔ لیکن پھر بھی مجھے دیر ہو گئی۔ جب میں واپسی پر گھر کے لیے نکلا تو راستے میں میری گاڑی خراب ہو گئی تھی۔ پھر میں نے خارب کو فون کر کے بلایا تھا۔ جب ہم گھر آئے تو کافی لیٹ ہو گئے تھے۔ اس وقت آپ سب لوگ سو چکے تھے۔ میری چھوڑے آپ یہ بتائے ابھی تو آپ لوگ کل آئیں ہیں۔ آج جانے کی بھی تیاری کر لی۔ میں آپ لوگوں کو بالکل بھی جانے نہیں دوں گا۔ وہ اپنی پلیٹ میں پراٹھا رکھتے ہوئے بولا تھا۔
ہم نے سوچا اب تم تو گھر میں ٹکنے سے تو رہے۔ ہم چلے ہی جاتے ہیں۔ وہ آنکھوں میں شرارت لیے بولا۔
اذان بھائی اور کتنا شرمندہ کریں گے۔
ارے میں مذاق کر رہا تھا۔ وہ اسے شرمندہ دیکھ کر فورا بولا۔ اور رہی بات یہاں ںسے جانے کی تو اس کے لیے معذرت، علی تمہیں پتہ تو ہے۔ خویلی میں کوئی بھی نہیں ہے سوائے نوکروں کے اور آفس کا کام بھی کچھ ادھورا ہے۔ اس دفعہ تو نہیں رک سکیں گے۔ لیکن میں وعدہ کرتا ہوں۔ اگلی بار آئیں تو زیادہ دن رکیں گے۔ وہ فوراً معذرتی لہجے میں بولا۔
 بہو عمیر کہاں ہے ؟ وہ ناشتہ نہیں کرے گا ؟ وہاں عمیر کو نہ پا کر دادجی نے فوراً پوچھا۔
جی آنٹی میں نے بھی عمیر کو نہیں دیکھا۔ وہ کہاں ہے۔ علی بھی فورا بولا۔
میں اسے ناشتے کے لیے بلانے گئی تھی۔ اس وقت وہ اپنی پیکنگ کر رہا تھا۔ بولا مجھے بھوک نہیں۔
کیوں ماما اس کی طبیعت ٹھیک ہے۔ اذان نے متفکر لہجے میں پوچھا۔
ہاں طبیعت تو اس کی ٹھیک تھی۔ لیکن پتہ نہیں کیوں کل سے مجھے وہ چپ چپ سا لگ رہا ہے۔
ماما آپ زیادہ ٹیشن نہ لے کیا پتہ اسے واقع میں بھوک نہ ہو، اور ویسے بھی وہ بس دوسروں کو پریشان کرنا جانتا ہے۔ خود نہیں ہوتا۔ جیسے اس نے ابھی آپ سب کو کر دیا ہے۔ ضائمہ کو پریشان دیکھ کر وہ فوراً بولا۔
     ♤          ♤          ♤
نریم جو کالج کے لیے ریڈی ہو رہی تھی۔ کہ اسی وقت ڈور بیل ہوئی۔
اتنی صبح کون آ گیا ہے۔ وہ خود سے بڑبڑائی اور دروازے کی طرف بڑھی۔
دروازہ کھولتے ہی اپنے سامنے ضوفیرہ کو کھڑا دیکھ کر اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
آ۔۔۔۔۔ں۔۔۔۔ں ضوفی تم واٹ آ پریزنٹ سرپرائز یار یہ تم ہی ہو نہ یا پھر میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔ اس نے اسے خوشی سے چھوتے ہوئے یقین کرنا چاہا۔
اوں مائی گاڈ ضوفی یار تم تو رئیل میں ہو۔ لیکن یار آنے سے پہلے مجھے بتا تو دیتی اور تم اتنی جلدی کیوں پاکستان سے آ گئی ؟ کیا پاکستان اچھا نہیں لگا ؟ اور رامی کہاں ہے۔ نریم اس پر سوالوں کی بوچھار کرتے آخر میں اس کے پیچھے رامیہ کو ڈھونڈھتے ہوئے بولی۔


پلیز میرے بلاگ کو فالو اور نیچے دئیے👇🏻👇🏻 ہوئے  میرے چینل کو سبسکرئب، لائک اینڈ شئیر ضرور کیجئیے گا😁۔




Posta un commento

1 Commenti

  1. Amazing novel nice episode 👍🏻👌🏻👌🏻👌🏻👌🏻you always good 👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻write🥰😘😘

    RispondiElimina

Commento

Parvish novel

PARIVISH Episode 31 (پری وش)