# Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel
# Please Don't Copypaste My Novel
# Episode: 8
ارے رامیہ بیٹا تم، تم کالج سے کب آئی، اور وہاں دروازے میں کیوں کھڑی ہو اندر آؤ۔ بلال کے بلانے پر رامیہ فوراً بھاگتے ہوئے ان کے پاس گئی ، اور ان کے پاؤں میں جا کر بیٹھ کر ان کے گٹھنوں پر سر رکھ کر رونے لگ پڑی۔
ایم سوری ڈیڈ ۔۔۔۔۔۔ایم رئیلی سوری۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے صبح آپ سے روڈلی بات کی تھی ایم سوری۔ وہ ان کی طرف دیکھ کر روتے ہوئے بولی۔
رامیہ پہلے زمین پر سے اٹھو، اور اُوپر بیٹھو۔ وہ اسے نیچے زمین پر سے اٹھاتے۔ اپنے پاس ہی رکھی چیر پر بیٹھاتے ہوئے بولے۔
رامیہ تم جانتی ہو "نا"، میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔ تم پاکستان جانا چاہتی ہو۔ تو چلی جاؤ، میں نے کل کی تمہاری اور ضوفیرہ ٹکٹ بُک کروا دی ہے۔ کیونکہ تمہاری خوشی میں ہی میری خوشی ہے۔ وہ اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولے۔
نہیں ڈیڈ اگر آپ نہیں چاہتے۔ میں پاکستان جاؤں، تو میں نہیں جاؤں گی۔ میں آپ کو ہرٹ نہیں کرنا چاہتی تھی، اور ویسے بھی آپ میرے پیچھے بالکل اکیلے ہو جائیں گے۔
نہیں رامیہ تم پاکستان جارہی ہو، اور جہاں تک رہی بات میں اکیلا ہو جاؤں گا۔ تو میں کونسا تمہیں ہمیشہ کے لیے پاکستان بھیج رہا ہوں۔ صرف ایک مہینے کی تو بات ہے۔ وہ اس کے گال پر ہاتھ رکھ کر بمشکل مسکراتے ہوئے بولے۔
ڈیڈ آپ کتنے اچھے ہے۔ یو آر دَا بیسٹ ڈیڈ اِن دَا وَرلڈ۔ وہ خوشی سے ان کے گلے میں بانہیں ڈالتی ہوئی بولی۔
لیکن رامیہ میں تم دونوں کو ایسے اکیلے پاکستان بھیجنے سے بھی ڈر رہا ہوں۔ وہ اسے اپنے سے الگ کر کے فکرمند لہجے میں بولے۔
ڈیڈ ہم اکیلی کہاں ہو گی۔ وہاں نریم کی فیملی بھی ہو گی، اور آپ نریم سے دو تین دفعہ مل بھی چکے ہیں۔
ہاں مل چکا ہوں۔ بہت اچھی بچی ہے۔ لیکن پھر بھی میں نے وہاں آپ دونوں کے لیے ایک ڈرائیور ہائیر کر دیا ہے۔ آپ دونوں نے جہاں کہیں بھی جانا ہوا، اس کے ساتھ جائیے گا۔
اُوکے ڈیڈ جیسا آپ کہے۔ رامیہ ان کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی۔
رامیہ تمہیں مجھ سے ایک وعدہ بھی کرنا ہو گا۔
وہ کیا ڈیڈ۔ وہ خیرانی سے بولی۔
رامیہ تمہیں اپنی پہچان سب سے چھپانی ہو گی۔ میرا مطلب تم وہاں پر کسی کو نہیں بتاؤ گی۔ کہ تم میری بیٹی ہو۔
بٹ وائے ڈیڈ۔۔۔۔۔۔ ؟ اس نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔
کیونکہ رامیہ بیٹا بزنس کے معاملے میں، میرے بہت سارے دشمن بھی ہو سکتے ہیں۔ اور میں نہیں چاہتا تمہیں کوئی بھی نقصان پہنچائے۔ کیونکہ میری سب سے بڑی کمزوری تم ہو۔ وہ اس کے دونوں ہاتھ پکڑتے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولے۔ بلال اندر ہی اندر اپنے اس جھوٹ پر پشیمان بھی تھے۔ لیکن اپنی بیٹی سے محبت کے اَگے مجبور تھے۔
اُوکے ڈیڈ میں وعدہ کرتی ہوں۔ میں اپنی پہچان کسی کو نہیں بتاؤں گی۔ وہ انہیں اطمینان دلاتے ہوئے بولی۔
لیکن ڈیڈ میں آپ کی ایک بات پر ناراض ہوں۔ وہ منہ پھیلا کر بولی۔
وہ کیا۔۔۔ ؟ اسے ناراض دیکھ کر فوراً بولے
آپ نے صبح ناشتہ کیوں نہیں کیا۔۔۔ ؟
میری بیٹی نے نہیں کیا تھا تو میں کیسے کر سکتا تھا۔ وہ اس کی لمبی پتلی ناک دباتے ہوئے بولے۔ ان کے ایسا کرنے سے رامیہ کھلکھلا کر ہنسی۔ ڈیڈ آپ دنیا کے بیسٹ ڈیڈ ہے، آئے لو یو۔
لو یو ٹو میری جان۔ وہ اس کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے بولے۔
♤ ♤ ♤
اسلام علیکم۔۔۔۔۔۔! دادجی
وعلیکم اسلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔خارب تم، آؤ اندر آجاؤ۔ محمد علی الدین جو کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ کہ اسے دروازے میں کھڑا دیکھ کر فوراً اندر بلایا۔
دادجی کیسی طبیعت ہے اب آپ کی۔ وہ ان کے بیڈ کے پاس ہی چیر رکھتے اس پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم کیوں اتنا پریشان ہوتے ہو۔ کچھ نہیں ہو گا مجھے۔ ابھی میں ہٹا کٹا ہوں۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولے۔
داد جی آپ کیوں ایسا کر رہے ہیں؟ کیوں اپنے آپ کو تکلیف دے رہے ہیں ؟ یہاں تک کہ آپ ایک ہی کمرے میں مقید ہو کر رہ گے ہیں۔ باہر نکلا کریں، ہمارے ساتھ آ کر بیٹھا کریں، ہم سے باتیں کیا کریں۔ اب آپ یہ مت کہیے گا۔ آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ انہیں بولتے دیکھ کر وہ فوراً بولا۔
چچی جان نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے پری وش کے بارے میں، اور آپ جو کتاب کے بہانے گھنٹوں بیٹھے پری وش کی تصویر دیکھتے رہتے ہیں۔ مجھے سب پتہ ہے۔
یہاں پر محمد علی الدین کا ضبط ٹوٹ جاتا ہے۔ اور بہت سے آنسو ان کی آنکھوں سے نکلتے گالوں پر پھسلتے چلے گئے۔
دادجی آپ رُو رہے ہیں۔ خارب جس نے آج تک ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے تھے۔ آج انہیں اس طرح روتے دیکھ کر پریشان ہوا۔
دادجی پلیز، اگر آپ ایسے ہی روتے رہے تو آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی۔ وہ فوراً چیر سے اٹھ کر ان کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔
خارب پتہ نہیں، میری پوتی کیسی ہو گی۔ کہاں ہو گی۔ بلال پتہ نہیں اسے کہاں لے گیا ہو گا۔ وہ خوش بھی ہو گی کے نہیں۔ وہ لوگ اسے خوش بھی رکھ رہے ہوں گے "کہ نہیں"۔ اور مجھے پتہ ہے عالیہ کو بھی یہ قدم اٹھانے کے لیے بلال نے ہی مجبور کیا ہو گا۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر بھیگی آواز میں بولے۔
دادجی پری وش اس خویلی میں آئے گی اور میں اسے ڈھونڈ کر لاؤں گا۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں۔ خارب ان کے دونوں ہاتھ پکڑتے انہیں اطمینان دلاتے ہوئے بولا۔ اور اندر ہی اندر اپنا غصہ بھی ضبط کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا تھا۔
♤ ♤ ♤
ہیلو ! رامی تم نے اتنی رات کو فون کیا۔ سب ٹھیک ہے؟ ضوفیرا کی فکر مند آواز اس کی سماعتوں سے ٹکڑائی۔
ہاں۔۔۔ہاں ضوفی سب ٹھیک ہے۔ میں نے تمہیں اس لیے کال کی تھی۔ میں آج بہت بہت زیادہ خوش ہوں۔ وہ ایک ہاتھ سے موبائل کان سے لگائے خوشی سے جھومتے ہوئے بولی۔
کیوں ایسا کیا ہوا ؟ کہ تم اتنی خوش لگ رہی ہو ؟
پہلے تم یہ بتاؤ تم جاگ رہی ہو۔
یہ کیسا فضول سوال ہے۔ جاگ رہی ہوں، تو تمہاری کال اٹھائی۔ اسے اس کی ذہنی خالت پر شبہ ہوا۔
اوہو میرا مطلب کیا کر رہی تھی۔
تمہاری کال آنے سے پہلے پڑھ رہی تھی۔
کیا نمی تمہارے پاس ہی بیٹھی ہے ؟
ہاں پاس ہی ہے کیوں ؟ اس نے خیرانی سے پوچھا۔
تو پھر جلدی سے فون کاسپیکر آن کرو۔ وہ ویسے ہی خوشی سے بولی۔
کر دیا اب جلدی سے بولو جو بولنا ہے۔
گائز ڈیڈ نے پاکستان جانے کی اجازت دے دی ہے۔ اس نے مسرور لہجے میں انکشاف کیا۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔دونوں خوشی سے ایک ساتھ چیخی۔
ارے چیخ کیوں رہی ہو۔ مجھے بہرہ کرنا ہے کیا۔ رامیہ نے موبائل کان سے دور کیا۔ پھر دوبارہ کان سے لگاتے ہوئے بولی۔
تم نے خبر ہی ایسی سنائی ہے ہمیں۔ اس بار نریم بولی۔
نمی کاش تم بھی ہمارے ساتھ چلتی۔ وہ منہ بنا کر افسوس سے بولی۔
رامی ابھی مجھے یہاں آئے وقت ہی کتنا ہوا ہے۔چھے ماہ ہی تو ہوئے ہے، اور ایسے میں دوبارہ پاکستان چلی گئی۔ تو میرے گھر والے کیا سوچیں گے۔
او نمی سچ مجھے تمہارے گھر والوں سے یاد آیا۔میں نے ڈیڈ سے بولا تھا۔ کہ ہم پاکستان میں تمہارے گھر میں سٹے کریں گے۔ رامیہ یاد آنے پر فوراً بولی۔
یہ کیا کیا تم نے رامی۔ وہ پریشانی سے بولی۔
کیوں کچھ غلط کر دیا۔ کیا ہم پاکستان میں تمہارے گھر میں رُک نہیں کر سکتے۔ وہ شکوہ کن لہجے میں بولی۔
یہ رہی میری آج کی ایپیسوڈ اُمید ہے۔ آپ سب لوگوں کو پسند آئے گی۔ مجھے کمینٹ میں ضرور بتائیے گا۔
1 Commenti
Very nice episode 👌🏻👍🏻👍🏻 keep it
RispondiEliminaCommento