# Family, Funny innocent herion, Rude hero based novel
# Please Don't Copypaste My Novel
# Episode: 7
رامی پلیز چپ کر جاؤ۔ اچھا ادھر دیکھو میری طرف اور مجھے بتاؤ۔ کیا ہوا ہے۔ اسے مسلسل روتے دیکھ کر ضوفیرہ اسے اپنے سے الگ کر کے، اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
ضوفی آج پہلی دفعہ ڈیڈ نے مجھ سے غصے میں بات کی۔ آج تک ہاتھ اٹھانا تو دور کی بات انہوں نے کبھی مجھے ڈانٹا تک نہیں۔ پھر آج انہوں نے ایسے بات کیوں کی۔ میں نے تو صرف اتنا ہی کہا تھا۔ میں پاکستان جانا چاہتی ہوں۔ پھر انہوں نے مجھے کیوں ڈانٹا۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر رندھی ہوئی آواز میں بولی۔
بس اتنی سی بات یار رامی تم نے تو مجھے ڈرا کر ہی رکھ دیا تھا۔ میں کب سے سوچ رہی ہوں، پتہ نہیں کیا بات ہے۔ جس کی وجہ سے تم اس طرح رُو رہی ہو۔ اس نے فضا میں سکون بھری سانس خارج کی۔
اچھا رامی ادھر دیکھو میری طرف اور میری بات دھیان سے سنو۔ رامی یار وہ تمہارے ڈیڈ ہے۔ کیا ہوا اگر انہوں نے تمہیں ڈانٹ بھی دیا۔ وہ تم سے پیار بھی تو بہت کرتے ہیں۔ اور تم یہ بھی تو سوچو تمہارے علاوہ اس دنیا میں ان کا ہے ہی کون، اور جب تم پاکستان چلی جاؤ گی۔ وہ تو پیچھے سے بالکل اکیلے ہو جائیں گے۔ ضوفیرہ اس کے گال پر ہاتھ رکھ کر پیار سے اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔
اب مجھے ہی دیکھ لو۔ میرا تو اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے، اور قسمت کا کھیل تو دیکھو مجھے اپنے ڈیڈ کی ڈانٹ بھی نصیب نہیں ہوئی۔ یہاں تک کے ان کے آخری وقت میں بھی، میں ان کے ساتھ نہیں تھی۔ پھر بھی میں جی رہی ہوں "نا"، وہ طنزیہ مسکراہٹ سے ہنستے ہوئے بولی۔
یو جسٹ شٹ اپ ضوفی
How did you even thing that ? That you have no one in this world۔
(تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا؟ کہ اس دنیا میں تمہارا کوئی نہیں ہے۔)
کیا ہم تمہارے کچھ نہیں لگتے ؟ کیا میرے ڈیڈ تمہارے کچھ نہیں لگتے ؟ اور میں کون ہوں تمہاری ؟ رامیہ اپنا رونا بھول کر اس کی طرف دیکھ کر غصے اور شکوہ کن لہجے میں بولی۔
ایم سوری رامی یار میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنے کا نہیں تھا۔
نہیں ضوفی میں تم سے بات نہیں کر رہی۔ تم ہر دفعہ ایسے ہی کرتی ہو۔ پہلے تم جمال انکل کی ڈیتھ کے بعد ہمارا گھر چھوڑ کر الگ فلیٹ میں رہنے لگ پڑی۔ اب تم نے ہمیں پرایا بھی کر دیا۔
نہیں رامی ایسی بات نہیں ہے۔ تم مجھے غلط۔۔۔۔۔
ایسی ہی بات ہے۔ آج جمال انکل زندہ ہوتے ، تو کیا تم آج الگ فلیٹ میں رہ رہی ہوتی۔ "نہیں نا"، رامیہ اس کی بات بیچ میں ہی کاٹتے آنکھوں میں شکوہ لیے بولی۔
دیکھو رامی جب ڈیڈ زندہ تھے۔ تب اور بات تھی، اور ویسے بھی میں ساری زندگی آپ لوگوں کے ساتھ تو نہیں نہ رہ سکتی تھی۔ میں نے اپنا کیرئیر خود بنانا ہے۔ میں اپنے پیروں پر خود کھڑے ہونا چاہتی ہوں۔ کچھ بننا چاہتی ہوں۔ میں اپنے اس قدم پر شرمندہ نہیں ہوں۔ لیکن اگر پھر بھی تم میری کسی بات سے ہرٹ ہوئی ہو، تو میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔ ضوفی نے اسے سمجھانے کی بھرپور کوشش کی۔
نہیں ضوفی اس بار نہیں۔ میں تمہاری معافی اس وقت تک اسیپٹ نہیں کروں گی ، جب تک تم ہمارے ساتھ رہنے کے لیے مان نہیں جاتی۔ وہ اٹل لہجے میں بولی۔
نہیں رامی اب ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ انکاری ہوئی۔
کیوں۔۔۔ کیوں ایسا نہیں ہو سکتا ؟
رامی تم سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی۔ اس نے بےبسی سے رامیہ کی طرف دیکھا۔
اچھا ٹھیک ہے مت رہو ہمارے ساتھ۔ لیکن ضوفی جاب تو چھوڑ دو۔ کیونکہ یہ بات تم بھی اچھے طریقے سے جانتی ہو۔ جمال انکل اور ڈیڈ نے آپس میں پاٹنرشپ کی تھی۔ اس حساب سے اس کمپنی کے ففٹی پرسنٹ شیئرز تمہارے بھی ہیں۔ تم ڈیڈ کا آفس جوائن کر سکتی ہو۔ کیونکہ تمہارا بھی اس کمپنی میں اتنا ہی حق ہے، جتنا ہمارا۔ اور اب میں اس میں تمہاری کوئی آرگیومینٹ نہیں سنوں گی۔ وہ ضدی لہجے میں بولی۔
مگر رامی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر مگر کچھ نہیں۔ بس میں نے بول دیا سو بول دیا۔ اب ضوفی تم نے اس بات سے انکار کیا۔ تو میں پھر تم سے بات نہیں کروں گی، اور تم جانتی ہو۔ میں ایک بار ناراض ہو گی۔ پھر اتنی جلدی مانتی نہیں ہوں۔ اس نے دھمکی دی۔
رامی تم بہت ضدی ہو۔
آخر بہن کس کی ہوں۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
اچھا بابا میں ہاری تم جیتی، چھوڑ دونگی جاب اب خوش۔ وہ اس کے اگے دونوں ہاتھ جھوڑتے ہوئے بولی۔ پھر ایک دوسرے کو دیکھتے ہی دونوں کا مشترکہ قہقہہ کار میں گونجا۔
♤ ♤ ♤
ہے افشی دیکھو، میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔ عمیر کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔
افشال جو کالج کے لیے ریڈی ہو رہی تھی۔ کہ عمیر کی آواز پر پلٹی۔ اور اس کے ہاتھ میں گفٹ دیکھ کر فوراً خوشی سے اس کی طرف لپکی۔
عمیر بھائی جان یہ میرے لیے۔ لیکن آج تو میری برتھ ڈے بھی نہیں ہے۔ پھر گفٹ کیوں ؟ اس نے آنکھوں میں خیرت لیے اِستفسار کیا۔
اب مجھے اپنی بہن کو گفٹ دینے کے لیے کسی برتھ ڈے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ کیا میں ویسے اپنی بہن کو کوئی گفٹ نہیں دے سکتا۔ وہ ناراضگی کی بھر پور ایکٹینگ کرتے ہوئے بولا۔
نہیں عمیر بھائی جان میری بات کا وہ مطلب نہیں تھا۔ اچھا ایم سوری اینڈ تھینک یو سو مچ، آپ کتنے اچھے ہے۔ وہ فوراً عمیر کے گلے لگتے ہوئے بولی۔
میں کتنا اچھا ہوں۔ یہ تھوڑی دیر میں تمہیں خود ہی پتہ چل جائے گا۔ عمیر اس کے سر پر ہاتھ رکھتے دل ہی دل میں مسکراتے ہوئے بولا۔
اچھا اب مجھے چھوڑو، اور جلدی سے میرا گفٹ تو کھول کر دیکھو، دیکھو تو سہی میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔ عمیر اسے اپنے سے الگ کرتے ہوئے بولا۔
جی میں ابھی کھولتی۔ اس نے خوشی خوشی گفٹ پر سے کور اتارہ۔ اس میں ایک چھوٹا سا باکس دیکھ کر اس نے تجسس کے مارے جلدی سے باکس کھولا۔ لیکن اس میں نقلی چھپکلی دیکھ کر اس نے فورا چیخ مارتے ہوئے باکس نیچے پھینکا۔ اس کے ساتھ ہی عمیر کا بھی بھرپور قہقہہ کمرے میں گونجا۔
یہ سب کیا ہو رہا ہے، اور افشی تم ابھی تک کالج کے لیے ریڈی نہیں ہوئی۔ اسے پہلے کہ وہ عمیر کو کچھ کہتی۔ کہ مشعال کی آواز سن کر وہ فورا ان کی طرف لپکی۔
مشعال آپی دیکھے عمیر بھائی جان نے مجھے گفٹ میں کیا دیا۔ اس نے نیچے گری چھپکلی کی طرف اشارہ کرتے عمیر کی شکایت لگائی۔
عمیر یہ کیا بدتمیزی ہے کیوں ہر وقت چھوٹی بہن کو تنگ کرتے رہتے ہو۔ مشعال اسے غصے سے ڈپٹتے ہوئے بولی۔
میں نے کہاں تنگ کیا ایک گفٹ ہی تو لایا تھا۔ اور آپ خود سوچے ایک چھپکلی کو، میں چھپکلی ہی گفٹ کروں گا "نا"۔ آخری بات پر اس نے آنکھوں میں شرارت لیے افشال کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
مشعال آپی دیکھے یہ مجھے چھپکلی بول رہے ہے۔ اس نے چڑتے ہوئے آنکھوں میں آنسو لیے مشعال کی طرف دیکھا۔
عمیر تمہیں شرم آنی چاہیے۔ ایسا مذاق کرتے ہوئے۔ تمہاری یہ جو خرکتیں ہے "نا"۔ لگتا نہیں ہے تم میڈیکل کا کورس کر رہے ہو۔ مشعال اس سے ڈھیٹوں کی طرح مسکراتے دیکھ کر سرد لہجے میں بولی۔
شرم کس بات کی ۔ میں نے کَیا کِیا ہے۔ صرف ایک گفٹ ہی تو دیا تھا۔ اپنی بہن کو۔ کہ ساری زندگی وہ اس گفٹ کو یاد رکھے گی کہ میرے بھائی۔۔۔۔۔۔
بھائی نے مجھے گفٹ میں چھپکلی دی۔ اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی مشعال دانت چباتے بولی۔
مشعال آپی اب ایسی بھی بات نہیں میں نے کون سا اسے اصلی چھپکلی دے دی تھی۔" نقلی ہی تو تھی" اب یہ اس سے ڈر گئی، اس میں میرا کیا قصور۔ وہ سر کھجاتے ہوئے بولا۔
اچھا تو اس میں تمہارا کیا قصور ہے ابھی میں تمہیں بتاتی ہوں۔ اسے پہلے کہ مشعال اسے مارنے کے لیے کوئی چیز ڈھونڈتی۔ وہ فوراً وہاں سے بھاگا۔
اسے ایسے بھاگتے دیکھ کر مشعال اور افشال کا مشترکہ قہقہہ کمرے میں گونجا۔
♤ ♤ ♤
رامیہ گھر میں داخل ہوتے ہی سیدھا بلال کے کمرے میں گئی۔
ڈید ایم سوری۔
بلال جو ناجانے کب سے آنکھیں موندے چیر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کہ رامیہ کی آواز پر انہوں نے فوراً اپنی آنکھیں کھولی، اور اسے سامنے دروازے میں کھڑا دیکھ کر فوراً اسے اندر بلایا۔
یہ رہی ساتویں قسط اُمید ہے آپ سب لوگوں کو پسند آئے گی۔ پلیز مجھے کمینٹ میں ضرور بتائیے گا۔
1 Commenti
Amazing episode ❤❣👌🏻👍🏻
RispondiEliminaCommento